حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دسترخوان پر ایک معزز سرکاری افسر کی آمد (قسط۲۷)
یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ اکاؤنٹنٹ جنرل آفس لاہورمیں ملازم تھے اور قادیان کی کشش میں بار بار زیارت کے لیے مرکز آیا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں قادیان میں مقیم تھااوریہ جولائی۱۸۹۹ء کی بات ہے کہ ’’ایک معزز افسر جو کسی تقریب پر اگلے دن قادیان تشریف لائے تو حضرت اقدس امامنا مرزا غلام احمد صاحبؑ رئیس قادیان نے بھی ان کی دعوت کی۔ جبکہ سب مہمان کھانے کے لئے جمع ہوئے تو دستر خوان کے بچھائے جانے سے پہلے حضرت اقدسؑ نے اس مہمان کو اور دوسرے احباب کو مخاطب کر کے بعض کلمات طیبہ فرمائے تھے۔‘‘
جناب مفتی محمد صادق صاحبؓ وہاں ہونے والی گفتگو کے متعلق مزید لکھتے ہیں: ’’یہ گفتگو ایسی مفیداور کارآمد باتوں پرمشتمل تھی کہ میں نے اکثر فقروں کو اپنی عادت کے موافق اسی وقت اپنی نوٹ بک میں جمع کیا اور بعد میں مجھے خیال آیا کہ بذریعہ اخبار الحکم مَیں دوسرےاحباب کو بھی اس پُر لطف تقریر کے مضمون سے حظ اٹھانے کا موقع دوں تاکہ اللہ کے اُس احسان کے شکریہ میں جو مجھے چند دن مسیح کے قدموں میں رہ کر ایمان میں ترقی کرنے کا موقع ملا، خلقت کی خدمت ہوجائے۔ لہٰذا ان فقرات کی مدد سے اوراپنی یاد داشت کے ذریعہ میں نے مفصلہ ذیل عبارت ترتیب دی ہے۔‘‘
ملتا ہے کہ اس موقع پر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اس معزز مہمان کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’جب کبھی آپ اس جگہ قادیان میں تشریف لاویں،بے تکلف ہمارے گھر میں تشریف لایا کریں۔ ہمارے ہاں مطلقاً تکلف نہیں ہے۔ہمارا سب کاروباردینی ہے۔اور دنیا اور اس کے تعلقات اور تکلفات سے بالکل ہم جدا ہیں۔گویا ہم دنیا داری کے لحاظ سے مثل مُردہ کے ہیں۔ہم محض دین کے ہیں اور ہمارا سب کارخانہ دینی ہے۔جیسا کہ اسلام میں ہمیشہ بزرگوں اور اماموں کاہوتا آیا ہے۔اور ہمارا کوئی نیا طریق نہیں بلکہ لوگوں کے اس اعتقادی طریق کو جو کہ ہر طرح سے ان کے لئے خطرناک ہے دور کرنا اور ان کے دلوں سے نکالنا ہمارا اصل منشاء اور مقصود ہے مثلاً بعض نادان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ غیرقوموں کے لوگوں کی چیزیں چرا لینا جائز ہے اور کافروں کا مال ہمارے لئے حلال ہے اور پھراپنی نفسانی خواہشوں کی خاطر اس کے مطابق حدیثیں گھڑ رکھی ہیں۔پھر وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ جو دوبارہ دنیا میں آنے والے ہیں،تو ان کا کام لاٹھی مارنا اور خونریزیاں کرناہے؛حالانکہ جبر سے کوئی دین دین نہیں ہو سکتا۔غرض اس قسم کے خوفناک عقیدے اور غلط خیالات ان لوگوں کے دلوں میں پڑے ہوئے ہیں جن کو دور کرنے کے واسطے اور پُر امن عقائد ان کی جگہ قائم کرنے کے واسطے ہمارا سلسلہ ہے۔جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے کہ مصلحوں کی اور اولیاء اللہ کی اور نیک باتیں سکھانے والوں کی دنیا دار مخالفت کرتے ہیں ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے اور مخالفوں نے غلط خبریں محض افترا اور جھوٹ کے ساتھ ہمارے بر خلاف مشہور کیں یہاں تک کہ ہم کو ضرر پہنچانے کے واسطے گورنمنٹ تک غلط رپورٹیں کیں کہ یہ مفسدآدمی ہیں اور بغاوت کے ارادے رکھتے ہیں اور ضرور تھا کہ یہ لوگ ایسا کرتے،کیونکہ نادانوں نے اپنے خیر خواہوں یعنی انبیاء اور ان کے وارثین کے ساتھ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ایسا ہی سلوک کیا ہے،مگر خدا تعالیٰ نے انسان میں ایک زیر کی رکھی ہے اور گورنمنٹ کے کارکن ان لوگوں کوخوب جانتے ہیں۔
چنانچہ کپتان ڈگلس صاحب کی دانائی کی طرف خیال کرنا چاہیے کہ جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے میری نسبت کہا کہ یہ بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اشتہار اس کے سامنے پڑھا گیاتو اس نے بڑی زیرکی سے پہچانا کہ یہ سب ان لوگوں کا افتراء ہے اور ہمارے مخالف کی کسی بات پر توجہ نہ کی،کیونکہ اس میں شک نہیں کہ ازالہ اوھام وغیرہ دوسری کتب میں ہمارا لقب سلطان لکھا ہو ا ہے،مگر یہ آسمانی سلطنت کی طرف اشارہ ہے اور دنیوی بادشاہوں سے ہمارا کچھ سرو کار نہیں ایسا ہی ہمارا نام حکم عام بھی ہے۔جس کا ترجمہ انگریزی میں کیا جائے تو گورنر جنرل ہوتا ہے اور شروع سے یہ سب باتیں ہمارے رسول کریم ﷺکی پیش گوئیوں میں مشہور ہیں کہ آنے والے مسیح کے یہ نام ہیں۔یہ سب ہمارے خطاب کتابوں میں موجود ہیں اور ساتھ ہی ان کی تشریح بھی موجود ہے کہ یہ آسمانی سلطنتوں کی اصطلاحیں ہیں اور زمینی بادشاہوں سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم شر کو چاہنے والے ہوتے تو ہم جہاد وغیرہ سے لوگوں کو کیوں روکتے اور درندگی سے ہم مخلوقات کو کیوں منع کرتے۔غرض کپتان ڈگلس صاحب عقل سے ان سب باتوں کو پا گیا اور پورے پورے انصاف سے سب کام لیا اور دونوں فریق میں سے ذرا بھی دوسری طرف نہیں جھکا اور ایسا نمونہ انصاف پروری اور داد رسی کا دکھلایا کہ ہم بدل خواہش مند ہیں کہ ہماری گورنمنٹ کے تمام معزز حکام ہمیشہ اسی اعلیٰ درجہ کے نمونہ انصاف کو دکھلاتے رہیں گے جو نو شیروانی انصاف کو بھی اپنے کامل انصاف کی وجہ سے ادنیٰ درجہ کا ٹھہراتا ہے اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی اس گورنمنٹ کے پُرامن زمانہ کو برا خیال کرے اور اس کے بر خلاف منصوبہ بازی کی طرف اپنا ذہن لے جاوے۔
یہ ہمارے دیکھنے کی باتیں ہیں کہ سکھّوں کے زمانہ میں مُسلمانوں کو کس قدر تکلیف ہوتی تھی۔ صرف ایک گائے کے اتفاقاًذبح کیے جانے پرسکھوں نے چھ سات ہزار آدمیوں کو تہ تیغ کر دیا تھا اور نیکی کی راہ اس طرح پر مسدُود تھی کہ ایک شخص مسمیکمّےشاہ اس آرزُو میں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دُعائیں مانگتا تھا کہ ایک دفعہ صحیح بخاری کی زیارت ہو جائے اور دُعا کرتا کرتا رو پڑتا تھا اور زمانہ کے حالات کی وجہ سے نا امید ہو جاتا تھا۔ آج گورنمنٹ کے قدم کی برکت سے وہی صحیح بخاری چار پانچ روپے میں مل جاتی ہے۔اور اُس زمانہ میں لوگ اس قدر دُور جا پڑے تھے کہ ایک مسلمان نے جسکا نام خدا بخش تھا، اپنا نام خدا سنگھ رکھ لیا تھا۔ بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکّہ میں گزارہ ہو سکتاہے اور نہ قسطنطنیہ میں، تو پھر کس طرح سے ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے بر خلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔ اگر ہماری قوم کو خیال ہے کہ ہم گورنمنٹ کے برخلاف ہیں یا ہمارا مذہب غلط ہے تو ان کو چاہیے کہ وُہ ایک مجلس قائم کریں۔اس میں ہماری باتوں کو ٹھنڈے دل سے سُنیں تاکہ ان کی تسلی ہواور اُن کی غلط فہمیاں دُور ہوں۔ جھوٹے کے مُنہ سے بدبو آتی ہے اورفراست والا اُس کو پہچان جاتا ہے۔ صادق کے کام سادگی اور یکرنگی سے ہوتے ہیں اور زمانہ کے حالات اس کے موید ہوتے ہیں۔
آجکل دیکھنا چاہیے کہ لوگ کس طرح عقائدحقّہ سے پھر گئے ہیں۔۲۰ کروڑ کتاب اسلام کے خلاف شائع ہوئی اور کئی لاکھ آدمی عیسائی ہوگئے ہیں۔
ہر ایک بات کے لیے ایک حد ہوتی ہے اور خشک سالی کے بعد جنگل کے حیوان بھی بارش کی امید میں آسمان کی طرف مُنہ اُٹھاتے ہیں۔۱۳۰۰ برس کی دھوپ اور امساک باراں کے بعد آسمان سے بارش اُتری ہے۔ اب اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ برسات کا جب وقت آگیا ہے، تو کون ہے جو اُس کوبند کرے۔یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں کے دل حق سے بہت ہی دُور جا پڑے ہیں۔ ایسا کہ خود خدا پر بھی شک ہو گیا ہے۔
حالانکہ تمام اعمال کی طرف حرکت صرف ایمان سے ہوتی ہے۔ مثلاً سمّ الفار کو اگر کوئی شخص طباشیرسمجھ لے تو بلاخوف وخطرکئی ماشوں تک کھا جاوے گا۔ اگر یقین رکھتا ہو کہ یہ زہر قاتل ہے تو ہر گز اس کو مُنہ کے قریب بھی نہ لائے گا۔ حقیقی نیکی کے واسطے یہ ضروری ہے کہ خُدا کے وجود پر ایمان ہو،کیونکہ مجازی حکام کو یہ معلوم نہیں کہ کوئی گھر کے اندر کیا کرتا ہے اور پس پردہ کسی کا کیا فعل ہے۔ اور اگرچہ کوئی زبان سے نیکی کا اقرار کرے، مگر اپنے دل کے اندر وُہ جو کچھ رکھتا ہے اس کے لیے اُس کو ہمارے مؤاخذہ کا خوف نہیں اور دُنیا کی حکومتوں میں سے کوئی ایسی نہیں جس کا خوف انسان کو رات میں اور دن میں، اندھیرے میں اوراُجالے میں،خلوت میں اورجلوت میں،ویرانے میں اور آبادی میں، گھر میں اور بازار میں ہر حالت میں یکساں ہو۔ پس دُرستی اخلاق کے واسطے ایسی ہستی پر ایمان کا ہونا ضروری ہے جو ہر حال اور ہر وقت میں اس کی نگران اور اس کے اعمال اور افعال اور اس کے سینہ کے بھیدوں کی شاہد ہے۔کیونکہ دراصل نیک وہی ہے جس کا ظاہر اور باطن ایک ہواور جس کا دل اور باہر ایک ہے۔وہ زمین پر فرشتہ کی طرح چلتا ہے۔دہریّہ ایسی گورنمنٹ کے نیچے نہیں کہ وُہ حُسن اخلاق کو پا سکے۔ تمام نتائج ایمان سے پیدا ہوتے ہیں؛چنانچہ سانپ کے سوراخ کو پہچان کر کوئی انگلی اس میں نہیں ڈالتا۔جب ہم جانتے ہیں کہ ایک مقدار اسٹرکنیا کی قاتل ہے تو ہمارا اس کے قاتل ہونے پرایمان ہے اور اس ایمان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس کو مُنہ نہیں لگائیں گے اور مرنے سے بچ جائیں گے۔
تقدیر یعنی دُنیا کے اندر تمام اشیاء کاایک اندازہ اور قانون کے ساتھ چلنا اور ٹھہرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا کوئی مقدّر یعنی اندازہ باندھنے والا ضرور ہے۔ گھڑی کو اگر کسی نے بالارادہ نہیں بنایا، تو وُہ کیوں اس قدر ایک باقاعدہ نظام کے ساتھ اپنی حرکت کو قائم رکھ کر ہمارے واسطے فائدہ مند ہوتی ہے۔ ایسا ہی آسمان کی گھڑی کہ اُس کی ترتیب اور باقاعدہ اور باضابطہ انتظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ وُہ بالارادہ خاص مقصد اورمطلب اور فائدہ کے واسطے بنائی گئی ہے۔اس طرح انسان مصنوع سے صانع کو اور تقدیر سے مقدر کو پہچان سکتا ہے۔
لیکن اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے ثبوت کا ایک اور ذریعہ قائم کیا ہوا ہے۔اور وُہ یہ ہے کہ وہ قبل ازوقت اپنے برگزیدوں کو کسی تقدیر سے اطّلاع دے دیتا ہے اور اُن کو بتلا دیتا ہے کہ فلاں وقت اور فلاں دن میں میں نے فلاں امر کو مقدرکر دیاہے؛ چنانچہ وہ شخص جس کو خدا نے اس کام کے واسطے چُنا ہوا ہوتا ہے۔ پہلے سے لوگوں کو اطلاع دے دیتاہے کہ ایسا ہو گا اور پھر ایسا ہی ہوجاتاہے جیسا کہ اُس نے کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے واسطے یہ ایسی دلیل ہے کہ ہر ایک دہریّہ اس موقع پر شرمندہ اور لاجواب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہزاروں ایسے نشانات عطا کیے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذایمان پیدا ہوتا ہے۔ہماری جماعت کے اس قدر لوگ اس جگہ موجود ہیں۔ کون ہے جس نے کم ازکم دو چار نشان نہیں دیکھے اور اگر آپ چاہیں تو کئی سو آدمی کو باہر سے بلوائیں اور اُن سے پُوچھیں۔اس قدر احبار اور اخیار اور متقی اور صالح لوگ جو کہ ہر طرح سے عقل اور فراست رکھتے ہیں اور دُنیوی طور پر اپنے معقول روز گاروں پر قائم ہیں۔ کیا ان کو تسلی نہیں ہوئی۔ کیا اُنھوں نے ایسی باتیں نہیں دیکھیں جن پر انسان کبھی قادر نہیں ہے۔ اگر ان سے سوال کیا جائے تو ہر ایک اپنے آپ کو اوّل درجہ کا گواہ قرار دے گا۔ کیا ممکن ہے کہ ایسے ہر طبقہ کے انسان،جن میں عاقل اور فاضل اور طبیب اور ڈاکٹر اورسوداگر اور مشائخ سجادہ نشین اور وکیل اور معزز عہدہ دار ہیں۔بغیر پُوری تسلی پانے کے یہ اقرار کر سکتے ہیں کہ ہم نے اس قدر آسمانی نشان بچشم خود دیکھے؟اور جبکہ وہ لوگ واقعی طور پر ایسا اقرار کرتے ہیں جس کی تصدیق کے لیے ہر وقت شخصِ مکذب کو اختیار ہے، تو پھر سوچنا چاہیے کہ ان مجموعہ اقرارات کا طالب حق کے لیے اگر وہ فی الحقیقت طالب حق ہے کیا نتیجہ ہونا چاہیے۔ کم سے کم ایک نا واقف اتنا تو ضرور سوچ سکتا ہے کہ اگر اس گروہ میں جو لوگ ہر طرح سے تعلیم یافتہ اور دانا اور آسودہ روز گار اور بفضل الٰہی مالی حالتوں میں دوسروں کے محتاج نہیں ہیں۔اگر انہوں نے پورے طور پر میرے دعوے پر یقین حاصل نہیں کیا اور پُوری تسلی نہیں پائی تو کیوں وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اور عزیزوں سے علیحدہ ہو کر غربت اور مسافری میں اس جگہ میرے پاس بسر کرتے ہیں اور اپنی اپنی مقدرت کے موافق مالی امدادمیں میرے سلسلہ کے لیے فدااور دلدادہ ہیں۔
ہر ایک بات کا وقت ہے۔بہار کا بھی وقت ہے اور برسات کا بھی وقت ہے اور کوئی نہیں جو خدا کے ارادے ٹال دے۔‘‘ (اخبار الحکم۔۲۴؍جولائی ۱۸۹۹ء، شمارہ نمبر ۲۶ جلد نمبر ۳۔ صفحہ ۵ تا ۷)