الہام حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ’’یَنقَطِعُ اٰبَآءُکَ وَ یُبْدَءُ مِنْکَ‘‘ پر ایک نظر
یہ دستور چلا آیا ہے کہ سچے ملہم من اللہ کے بکثرت الہامات میں شان وشوکت اوراللہ تعالیٰ کے فضلوں واحسانوں کا ذکر ہوتا ہے، ان نعمتوں کا بیان ہوتا ہے جن کا حصول اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے غیبی امور پر مبنی الہامات پوری شان کے ساتھ پورا ہوکر سچے ملہم من اللہ کی سچائی ظاہر وباہر کر دیتے ہیں ا ورساری دنیا ان نشانوں کو دیکھ کر اپنے ایمان میں تازگی محسوس کرتی ہے جبکہ دشمن ا ن نشانوں کے پورا ہونے پر حیرت زدہ رہ جاتا ہےجیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہونے والے بے شمار الہامات اس بات کا ثبوت ہیں۔ مثال کے طور پر انہی الہامات میں سے کچھ آپ علیہ السلام کی اولاد کے متعلق تھے جنہیں آپ علیہ السلام نے اسی زمانے میں بکثرت شائع کیا۔ انسان اپنی طرف سے اپنی نسل کے حوالے سے جو مرضی بات بیان کر سکتا ہے لیکن جب وہ یہ کہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعہ اطلاع دی ہے تو یہ ایک نشان بن جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۶ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ یہ الہام شائع کیا :’’پھر خدائے کریم جلشانہ نے مجھے بشارت دیکر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرےگا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائےگا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہوجائے گی۔ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۶۴۷۔۶۴۸)
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو ایک اور الہام بھی ہوا تھا کہ ’’ یَنقَطِعُ اٰبَآءُکَ وَ یُبْدَءُ مِنْکَ‘‘(تذکرہ صفحہ ۳۹۷ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)دراصل اس الہام کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ یہ ہے کہ تیرے آباؤ اجداد کی تمام شاخ کاٹی جائے گی اور الہام کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ صرف تجھ سے اس نسل کی ابتدا ہوگی۔
اب اس الہام کے الفاظ پر غور کریں کیسے ان سے اللہ تعالیٰ کی شان وشوکت اور قدرت کا اظہار ہو رہا ہے۔ انسان کو اپنی اگلی سانس کا علم نہیں لیکن یہاں نسل کے بکثرت ملکوں میں پھیلنے کی بات ہو رہی ہے اوراسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیاجا رہا ہے۔
اب ایک صورت تو یہ تھی کہ یہ (نعوذباللہ)ایک من گھڑت بات ہے۔ افترا ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اصول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل بکثرت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ نسل انسانی کی بقا کا انحصار تو ہے ہی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل واحسان پر پھر کیسے ممکن ہے اللہ تعالیٰ مفتری کو کامیابی دے۔
لہٰذا الہام کے پہلے حصے ’’ یَنقَطِعُ اٰبَآءُکَ ‘‘کی تفصیل یوں ہےکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد بزرگوار مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے چار اور بھائی بھی تھے جن کے نام مرزا غلام مصطفیٰ صاحب، مرزا غلام محمد صاحب، مرزا غلام محی الدین صاحب اور مرزا غلام حیدر صاحب تھے۔ مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ایک حاذق طبیب، شاہانہ مزاج کے مالک، عالی ہمت اور جلالی شان رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت با مروّت اور اعلیٰ اخلاق کے انسان تھے۔ شعروشاعری میں بھی دسترس رکھتے تھے۔خدا تعالیٰ کی ذات اور فرمودات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خاص صالحانہ لگاؤ بھی رکھتے تھے۔ ان کی اپنی ایک وسیع خاندانی لائبریری تھی جس میں قیمتی کتب کا ایک نایاب ذخیرہ تھا۔ یہ سب امور اس خاندان کے اسلام اور علم کے ساتھ تعلق کے آئینہ دار تھے۔ حضرت مسیح موعودؑکے ایک بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب تھے جو۱۸۸۳ء میں پچپن سال کی عمر میں فوت ہو گئے۔ اگرچہ وہ پوری طرح دنیاوی رنگ میں رنگے ہوئے تھے لیکن ساتھ ہی وہ بہادری اور غربا پروری کی اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔ اس کے برعکس مرزاغلام محی الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود ؑکے چچا تھے ان کے تین بیٹے مرزا امام الدین صاحب، مرزا نظام الدین صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب جو رشتہ کے لحاظ سے آپ کے چچا زاد بھائی تھے وہ اپنے تایا مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور ان کے بیٹوں مرزا غلام قادر صاحب اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے شدید خاندانی دشمن تھے۔ مرزا امام الدین صاحب اور مرزا نظام الدین صاحب دنیاوی لا لچ اور طمع میں اس حد تک ڈوبے ہوئے تھے کہ خدا، رسول اور انسانیت سب کو فراموش کر چکے تھے۔
چچازاد بھائیوں کی اسلام دشمنی
مرزا امام الدین صاحب اپنے ملحد انہ اور بے دینی کے خیالات اور اعمال میں اس قدر پیش پیش تھے کہ وہ نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور الہامات کا مذاق اڑاتے تھے بلکہ اسلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے خلاف بے ادبی کے کلمات ان کا عام معمول تھا۔ اسلام کی مقدس تعلیمات کے خلاف گفتگو میں وہ خاص لذت محسوس کرتے تھے۔ مرزا امام الدین صاحب کی اپنی اخلاقی حالت یہ تھی کہ قادیان میں ان کی مجلس میں بھنگ اور چرس پینے والے جمع ہوتے اور نشےمیں مست شریعت اسلام پر لغو اعتراضات کرتے۔ خدا کا کوئی پاک رسول مرزا امام الدین صاحب کی تضحیک سے محفوظ نہ تھا۔ ( بحوالہ تاریخ احمدیت۔ جلد دوم صفحہ ۷۳)
ایک جگہ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ’’ایک پیغمبر دوسرے پیغمبر کو جھٹلاتا اور منسوخ کرتا ہے۔ اگر عیسیٰ صاحب کو سچامانیں تو محمد صاحب کی غلطی معلوم ہوتی ہے اور اگر محمد صاحب کو راستی پر سمجھیں تو عیسیٰ صاحب کا اعتبار جاتا ہے۔‘‘ (بحوالہ گل شگفت۔ مطبوعہ چشمہ نور صفحہ ۱۷)
چچازاد بھائیوں کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عداوت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دونوں چچازاد بھائی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین صاحب آپ کے پرانے دشمن تھے اس لیے اگر کوئی موقع اپنی دشمنی نکالنے کا میسر آتا تھا تو اسے خالی نہیں جانے دیتے تھے۔ مارچ ۱۸۸۵ء میں جب حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے مجدد ہونے کا دعوی کیا تو مرزا امام الدین صاحب نے آپ کے خلاف چشمہ نور امرتسر سے نہایت گندے اشتہارات شائع کیے اور جب حضرت اقدس علیہ السلام اور پنڈت لیکھرام پشاوری کے درمیان بحث مباحثہ ابتدائی مراحل میں تھا تو مرزا امام الدین صاحب اسےجا کر خود قادیان لائے۔ اس کی ہر طرح سے مد د کی تاکہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو نیچا دکھایا جا سکے یہاں تک کہ مرزا امام الدین صاحب اپنے ہم مشرب ساتھیوں کے ساتھ خود بھی قادیان کے آریہ سماج میں شامل ہو گئے۔ مرزا امام الدین صاحب کی حمایت کی وجہ سے پنڈت لیکھرام نومبر ۱۸۸۵ء سے لے کر قریباً ۲ ماہ تک قادیان میں رہا اور اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اہانت آمیز حملے کرتا رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خیال تھا کہ پنڈت لیکھرام ابتدا میں اس قدر زبان دراز نہ تھا مگر قادیان کے بعض شریرالطبع لوگوں نے اسے اس قدر خراب کر دیا کہ وہ بالآخر مورد غضب الٰہی ہوا۔
اپنے چچازاد بھائیوں کے اہل و عیال کی نسبت پیشگوئی (۵؍اگست ۱۸۸۵ء)
اپنے چچا زاد بھائیوں مرزا امام الدین و نظام الدین کے مطالبہ اور اصرار پر کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جاوے حضرت اقدسؑ نے ۵؍اگست ۱۸۸۵ءکو یہ پیشگوئی کی کہ’’مرزا امام الدین ونظام الدین کی نسبت مجھے الہام ہوا ہے کہ اکتیس ماہ تک ان پر ایک سخت مصیبت پڑے گی ان کی اہل و عیال واولاد میں سے کسی مرد یا کسی عورت کا انتقال ہو جائے گا جس سے ان کو سخت تکلیف اور تفرقہ پہنچے گا۔ آج ہی کی تاریخ کے حساب سے جو تئیس ساون ۱۹۴۲ مطابق ۵؍ اگست ۱۸۸۵ءہے۔ یہ واقعہ ظہور میں آئے گا۔‘‘
اس پیشگوئی پر حسب ذیل ہندوؤں کے بطور گواہ دستخط ہیں۔ پنڈت بھارا مل ساکن قادیان بقلم خود۔ پنڈت بیجناتھ بقلم خود۔ بشندؔ اس برہمن بقلم خود۔ بشندؔاس کھتری بقلم خود۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۶۲)
چنانچہ ایسا ہی واقعہ بھی ہوگیا یعنی عین اکتیسویں مہینہ کے درمیان مرزا نظام الدین کی دختر یعنی مرزا امام الدین کی بھتیجی بعمر پندرہ سال ایک بہت چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے ۲۰؍فروری ۱۸۸۹ء کو ہوشیار پور (بھارت) سے اپنا طویل الہام شائع کیا جو پسر موعود سے متعلق تھا۔ اس الہام میں کچھ حصہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے تعلق سےبھی تھا۔ متعلقہ الفاظ یہ تھے کہ ’’اور ہر اک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا اُن پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدارحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۶۴۸)
مرزا امام الدین اور مرزانظام الدین کا مسجد مبارک کے سامنے دیوار کھینچ دینا۔۷؍جنوری ۱۹۰۰ء
حضرت اقدس اپنے چچا زاد بھائیوں مرزا امام الدین اورمرزا نظام الدین کے ساتھ قادیان کی جائیدادمیں برابر کے شریک تھے اس لیے آپ کو حق پہنچتا تھا کہ شاملات دیہہ سے بھی برابر کافائدہ اُٹھاتے۔ مگر آپ کے نرم رویّہ کی وجہ سے ان ظالموں نے آپ کو اور آپ کی جماعت کو سخت تنگ کر رکھا تھا۔ نہ ڈھاب سے مٹی لینے دیتے تھے نہ کنویں سے پانی حاصل کرنے دیتے۔ ایک دفعہ جو ان کی غیر حاضری میں بعض دوستوں نے ڈھاب سے مٹی لی تو واپس آکر یہ بہت بگڑے۔ گالیاں دیں اورایک بھنگی کو بلا کرمسجد مبارک کے سامنے دیوار کھچوادی۔ حضرت اقدسؑ کو بہت تکلیف ہوئی۔ کیونکہ نمازیوں کے مسجد میں داخل ہونے کا وہی راستہ تھا اور حضور بھی اکثر سیر کو اسی راستہ سے باہر جایاکرتے تھے۔ نووارد احمدیوں کے یکے بھی وہاں ہی آکر ٹھہرتے تھے۔ اب نمازیوں کو بہت بڑا چکّر کاٹ کر ہندو بازار سے ہو کرآنا پڑتا تھا۔ حضرت اقدسؑ نے پہلے تو چند آدمی مرزا امام الدین کے پاس بھیجے اور انہیں تلقین فرمائی کہ مرزا صاحب موصوف کےساتھ نرمی سے کلام کریں مگر اس ماحول کا تو باوا آدم ہی نرالا تھا۔ وفد کی معروضات سُن کر مرزا امام الدین صاحب آگ بگولا ہوگئے اور کہا کہ وہ (یعنی حضرت اقدسؑ) خود کیوں نہیں آئے؟ پھر حضور نے ایک وفد ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں بھیجا۔ڈپٹی کمشنر اورکپتان پولیس ساتھ کے ایک گاؤں میں کسی واردات کی تفتیش کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کے سامنے جب وفد پیش ہوا تو وہ بھی سخت تر شروئی سے پیش آئے اور کہا کہ تم بہت سے آدمی جمع ہو کر مجھ پر رُعب ڈالنا چاہتے ہو۔ میں تم لوگوں کو خوب جانتا ہوں اور میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ جماعت کیوں بن رہی ہے اور میں تمہاری باتوں سے ناواقف نہیں اور میں بہت جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائے گا کہ ایسی جماعت کس طرح بنایا کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔(سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر۱۳۵صفحہ ۱۲۵تا۱۲۶)
غرض وفد بے نیلِ مرام واپس آگیا۔ جب حضرت اقدس نے سارا واقعہ سُنا تو سخت تکلیف محسوس کی۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور بعض دوسرے معاندین آپ کے خلاف حکومت کو سخت بدظن کر چکے تھے۔ حکومت کی اس روش کو دیکھ کر مرزا امام الدین اور نظام الدین نے بھی اپنی مخالفانہ کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔ پولیس تو مخالف تھی ہی۔ آپ نے احباب کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ ہجرت سنتِ انبیاء میں سے ہے کیوں نہ ہم بھی یہاں سے ہجرت کرکے کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں ہم اپنا کام زیادہ سہولت کے ساتھ کر سکیں۔ حضرت حکیم مولانا حافظ نورالدین صاحبؓ نے بھیرہ تشریف لے جانے کا مشورہ دیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے سیالکوٹ جانے کی دعوت دی۔ محترم شیخ رحمت اللہ صاحب نے لاہور تشریف لے جانے کے لیے عرض کی۔ محترم چودھری حاکم علی صاحب کی ر وایت ہے کہ مَیں نے اپنے گاؤں پنیار جانے کے لیے عرض کی۔ حضور نے سب کی باتیں سُن کر فرمایا کہ
اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ جہاں اللہ لے جائے گا۔ وہیں جائیں گے۔
جب حضور نے دیکھا کہ نہ مرزا امام الدین مانتا ہے۔ نہ ڈپٹی کمشنر سنتا ہے۔ اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ دیوانی عدالت میں دعویٰ کر دیا جائے۔ چنانچہ دوستوں کے مشورہ سے آپ نے مرزا امام الدین کے خلاف شیخ خدابخش صاحب ڈسٹرکٹ جج گورداسپور کی عدالت میں دیوانی مقدمہ دائر کر دیا۔ اس مقدمہ کے دوران میں ایک مرتبہ آپ کو گورداسپور بھی تشریف لے جانا پڑا۔ وہاں آپ کو کثرتِ کار کی وجہ سے کسی قدر بخار ہوگیا اور پیچش بھی ہوگئی۔ رات کو آپ نے احباب کو سو جانے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں احباب سوگئے۔ حضرت اقدس کوچونکہ تکلیف تھی اس لیے حضور کے ایک جان نثار صحابی حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی اور دو تین اَور دوست رات بھر جاگتے رہے اور جونہی حضرت رفع حاجت کے لیے اُٹھتے حضرت منشی صاحب فوراً لوٹا لے کر حاضر ہو جاتے۔ متواتر دو راتیں حضرت منشی صاحب نے جاگ کر گذاریں۔ حضرت اقدس ان کے اس اخلاص کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ درحقیقت آدابِ مرشد اور خدمت گذاری ایسی شے ہے۔ جو مرید و مُرشد میں ایک گہرا رابطہ قائم کر کے وصول الی اللہ اور حصولِ مرام کانتیجہ پیدا کرتی ہے۔
۱۶؍ جولائی ۱۹۰۱ءکوعدالت میں آپ کی پیشی تھی۔ آپ کی شہرت کی وجہ سے گورداسپور کے تین اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر بھی اپنی عدالتیں چھوڑ کر آپ کا بیان سننے کے لیے متعلقہ عدالت میں آگئے۔ حضرت اقدس نے نہایت صفائی کے ساتھ اپنا بیان دیا اور پھر ہشاش بشاش باہر تشریف لے آئے۔
اس کے بعد ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء کو پیشی تھی۔ اس روز مدعا علیہم کے گواہ پیش ہو کر وکلا کی بحث بھی ختم ہوگئی اوربارہ اگست ۱۹۰۱ء کو فیصلہ سنا دیا گیا۔ فیصلہ کیا تھا۔ ایک بجلی تھی جو مرزا امام الدین پر گری۔ ڈسٹرکٹ جج نے حکم دیاکہ
’’ مدعا علیہ دیوار فوراً گراوے اور آئندہ کبھی بھی سفید میدان میں کوئی تعمیرنہ کی جائے اور اخراجات مقدمہ کے علاوہ ایک سوروپیہ بطور جرمانہ مدعی (حضرت اقدس) کو ادا کیا جائے۔ ‘‘
حضرت اقدس اس روز گورداسپور تشریف نہیں لے گئے تھے۔ شام کوجب حضور کی خدمت میں یہ خبر پہنچی تو حضور نے فرمایا
’’گویا ایک سال آٹھ ماہ کا رمضان تھا۔ جس کی آج عید ہوئی۔‘‘ ( الحکم ۱۷؍اگست ۱۹۰۱ء)
۲۰؍اگست کی شام چار بجے اُسی بھنگی کو وہ دیوار گرانی پڑی جس کے ذریعہ سے مرزا امام الدین نے وہ تیار کروائی تھی۔
اب رہا معاملہ ہرجانہ اور خرچہ مقدمہ کی ادائیگی کا۔ سو مرزا امام الدین صاحب جانتے تھے کہ حضر ت اقدس تو رحیم و کریم انسان ہیں۔ ہرجانہ وغیرہ کی ادائیگی کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے حضورؑکی خدمت میں معافی ہرجانہ کی درخواست کی جو بڑی فراخدلی کے ساتھ قبول کرلی گئی۔
اس مقدمہ میں ایک اعجازی نشان کا ظہور
اس مقدمہ میں جو اعجازی نشان ظاہر ہوا اُس کا ذکر حضرت اقدسؑ نے اپنی عدیم النظیر تصنیف حقیقۃ الوحی میں کیا ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں:’’یہ دن بڑی تشویش کے تھے یہاں تک کہ ہم ضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ (التوبہ:۱۱۸)کا مصداق ہوگئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی۔ اس لئے جناب الٰہی میں دُعا کی گئی اور اس سے مدد مانگی گئی۔ تب بعد دُعا مندرجہ ذیل الہام ہوا۔…
اَلرَّحٰی تَدُوْرُ وَیَنزِلُ الْقَضَآئُ۔ اِنَّ فَضْلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ وَّلَیْسَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّرُدَّمَااَتی۔قُلْ اِیْ وَرَبِّی اِنَّہٗ لَحَقٌّ۔ لَّاَیَتَبَدَّلُ وَلَا یَخْفٰی۔ وَیَنْزِلُ مَاتَعْجَبُ مِنْہُ وَحْیٌ مِّنْ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ الْعُلٰی۔ اِنَّ رَبِّیْ لَایَضِلُّ وَلَا یَنْسٰی۔ ظَفَرٌ مُّبِیْنٌ وَّاِنَّمَا یُؤَخِّرُھُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمَّی۔‘‘ الخ
ترجمہ:’’چکی پھرے گی اورقضا وقدر نازل ہوگی۔ یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی۔ جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتا ہے۔ مطلب یہ کہ مقدمہ کی موجودہ حالت میں جوصورتِ مقدمہ حاکم کی نظر کےسامنے ہے جو ہمارے لئے مضر اورنقصان رسان ہے یہ صورت قائم نہیں رہے گی اور ایک دوسری صورت پیدا ہو جائے گی جو ہمارے لئے مفید ہے…اسی طرح جو مخفی اور درپردہ باتیں ہیں وہ منہ کے سامنے آجائیں گی اور ظاہر ہو جائیں گی اور جو ظاہر ہیں وہ ناقابلِ التفات اورمخفی ہو جائیں گی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے۔ یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اس کوردّ کرسکے…اور پھر فرمایا کہ کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے۔ اس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اورنہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی۔ یہ اس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے۔ میرا رب اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جواپنے برگزیدہ بندوں سے عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں۔ سو تمہیں اس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی مگر اس فیصلہ میں اُس وقت تک تاخیر ہے جوخدا نے مقرر کررکھا ہے۔‘‘
سارا الہام د رج کرنے کے بعد حضورؑ فرماتے ہیں:’’یہ پیشگوئی ہے جو اس وقت کی گئی تھی جبکہ مخالف دعویٰ سے کہتے تھے کہ بالیقین مقدمہ خارج ہو جائے گا۔ اور میری نسبت کہتے تھے کہ ہم ان کے گھر کے تمام دروازوں کے سامنے دیوار کھینچ کروہ دکھ دیں گے کہ گویا وہ قید میں پڑ جائیں گے اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں۔ خدا نے اس پیشگوئی میں خبر دی کہ میں ایک ایسا امرظاہر کروں گا جس سے جو مغلوب ہے وہ غالب اور جو غالب ہے وہ مغلوب ہو جائے گا…پھرفیصلہ کا دن آیا۔ اس دن ہمارے مخالف بہت خوش تھے کہ آج اخراجِ مقدمہ کا حکم سنایا جائے گا اور کہتے تھے کہ آج سے ہمارے لئے ہر ایک قسم کی ایذا کا موقع ہاتھ آجائے گا وہی دن تھا جس میں پیشگوئی کے اس بیان کے معنی کھلنے تھے کہ وہ ایک امر مخفی ہے جس سے مقدمہ پلٹا کھائے گا اورآخر میں وہ ظاہر کیا جائے گا۔ سو ایسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین کوخیال آیا کہ پُرانی مثل کا انڈکس دیکھنا چاہئے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہےجب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ مرزا غلام مرتضیٰ یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں۔ تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہوگیا۔ حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا۔ اس نے فی الفور وہ انڈیکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اس پر حقیقت کھل گئی اس لئے اس نے بلا توقف امام الدین پر ڈگری زمین کی بمعہ خرچہ کر دی۔‘‘(روحانی خزائن جلد ۲۲ ۲۸۴،۲۷۹)
جدی بھائیوں کی شاخ کاٹی گئی
حضرت مسیح موعود ؑکی ان پیشگوئیوں کے بعد کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ کوخدا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین کی سزاملنی جلد شروع ہوگئی۔ ان کے خاندانوں کی تباہی کے آثار نظر آنے لگے۔ مختلف غموں اور قرضوں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ موت اور ہلاکت کے دروازے اُن پرکھل گئے اور وہ کئی قسم کے مصائب میں گھر گئے اور وہ اس قابل بھی نہ رہے کہ اپنی جائیداد کو قرقی سے رکوانے کے لیے ڈیڑھ سو روپے کے لگ بھگ رقم ادا کر سکیں۔ دوسری طرف ۲۰؍فروری ۱۸۸۹ء کو جب حضرت مسیح موعود ؑنے ان کو الہامی پیغام سنایا کہ ان کی یعنی جدی بھائیوں کی ہر شاخ کاٹی جائے گی۔ اس وقت مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ کے خاندان میں کل ستر کے قریب چھوٹے بڑے مرد تھے لیکن اخبار الحکم قادیان نے ۱۹۳۳ء میں یہ خبر چھا پی کہ سوائے ان کے جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑکی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں۔ ان چچا زاد بھائیوں میں سے کسی کی بھی کوئی نسل موجود نہیں اور عین پیشگوئی کے مطابق جدی بھائیوں کی شاخ کاٹی گئی اور خدا تعالیٰ نے سوائے ان کے جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑکی بیعت کر لی باقی سب کو آسمان کے نیچے سے نابود کر دیا۔ فاعتبرو یا اولی الابصار
دوسری جانب الہام ’’ یَنقَطِعُ اٰبَآءُکَ وَ یَبدَءُ مِنکَ‘‘ کے دوسرے حصے کی تکمیل کا نظارہ آج ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل بکثرت ہوئی اور ملکوں میں پھیل گئی۔ موجودہ زمانے میں اس الہام کا پورا ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ الہام کے پہلے حصہ میں عجیب شان کا اظہار ہےفرمایا:’’اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہوجائے گی‘‘ پھر واقعی جدی بھائیوں کی ہر شاخ کٹ گئی اور ان کی نسل ختم ہوگئی۔ اللہ اللہ کیسا عظیم الشان نشان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملہم من اللہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔ کس قدر اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بیان کردہ اصول کے مطابق مفتری کو کبھی کامیاب نہیں کرتا لیکن۱۳۷؍سال بعد اس الہام کے لفظ لفظ کو پورا ہوتا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو ہمارا ایمان اور ہماری عقل ودانش ہمیں مجبور کرتی ہے کہ تسلیم کریں اور ایمان لائیں کہ وہ الہام یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ ملہم من اللہ میں سچے ہیں۔ اور حضرت اقدسؑ کےدعائیہ کلام کا ایک ایک لفظ پوری شان سے پورا ہورہا ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں کہ
یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر
یہ ہادی جہاں ہوں یہ ہوویں نور یکسر
یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہوویں مہر انور
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
اہل وقار ہوویں فخر دیار ہوویں
حق پر نثار ہوویں مولیٰ کے یار ہوویں
بابرگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
عبد السمیع خان صاحب اس بارے میں اپنی کتاب ’ایم ایم احمد شخصیت اور خدمات‘ میں لکھتے ہیں: براہین احمدیہ جلد چہارم (جو ۱۸۸۴ء کی تصنیف ہے) میں حضرت مسیح موعود کے یہ الہامات درج ہیں۔ سبحان اللّٰہ تبارک و تعالیٰ زاد مجدک۔ ینقطع آباء ک و یبدء منک نصرت بالرعب و احییت بالصدق ایھا الصدیق۔ نصرت و قالوا لات حین مناص۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد۱صفحہ ۵۸۳)
اس کا ترجمہ حضرت مسیح موعودؑ یوں فرماتے ہیں۔ تمام پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو بڑی برکتوں والا اور عالی ذات ہے۔ اس نے تیری خاندانی بزرگی کو تیرے وجود کے ساتھ زیادہ کیا۔ اب ایسا ہوگا کہ آئندہ تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع کیا جائے گا اور ابتدا خاندان کا تجھ سے ہوگا۔ تجھے رعب کے ساتھ نصرت دی گئی ہے اور صدق کے ساتھ تو اے صدیق زندہ کیا گیا۔ نصرت تیرے شامل حال ہوئی اور دشمنوں نے کہا اب گریز کی جگہ نہیں۔(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۷۵)
ان الہامات کے مطابق حضور علیہ السلام کی دوسری شادی نومبر ۱۸۸۴ء میں سادات خاندان میں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ بنت حضرت میر ناصر نواب صاحب سے ہوئی۔ حضور اس خاندان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’اس (خدا) نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخمریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۷۵)
الہامات الٰہیہ میں اس مبارک خاتون کے نام کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا۔ چنانچہ براہین احمدیہ کے مذکورہ الہامات میں نصرت کا لفظ دو دفعہ ہے۔ حضور اس لفظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس جگہ عربی الہام میں جیسا کہ نصرت کا لفظ واقع ہے اسی طرح میری خاتون کا نام نصرت جہاں بیگم ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ جہاں کو فائدہ پہنچانے کے لئے آسمان سے نصرت شامل حال ہوگی۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۷۶)
میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے یہ تفاول کے طور پر الہامات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۷۵)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الفاظ ’تمام جہان کی مدد‘قابل غور ہیں کیونکہ یہ وسیع معانی اور وسیع دائروں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اصل اور حقیقی مقصود تو دین کی خدمت اور روحانیت کا غلبہ ہے اور اس مقصد کے لیے اس خاندان کو بےتحاشہ قربانیاں دینے اور شاندار فتوحات حاصل کرنے کی توفیق دی ہے مگر وہ صلاحیتیں زندگی کے ہر میدان میں جلوہ گر ہوئیں اور تمام جہان کی ہر رنگ میں امداد بلکہ راہنمائی کرنے کا اس خانوادے کو موقع ملا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑکی دعاؤں اور قوت قدسیہ کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ متنوع، عدیم المثال اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ جس میدان میں کسی نے محنت اور دعا کے ساتھ قدم اٹھایا اسے خدا نے ہر قسم کے پھول پھل لگائے اور دنیا کے سامنے ایک ممتاز حیثیت میں ابھرا۔
اس شجرہ طیبہ کا بلند ترین پھل مصلح موعود تھا۔ جسے علوم ظاہری وباطنی سے پر کیا گیا تھا۔ وہ سلطان البیان تھا اس کی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں، قوموں نے اس سے برکت پائی اور دنیا میں اس نے ایک عظیم انقلاب کی بنیادڈال دی۔ اُسی کے ذریعے احمدیت کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔ اُسی کے وجود سے قوموں نے برکت پائی۔ اُسی کے وجود سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوا۔ اُسی کے مسیحی نفس اور روح القدس کی برکت سے بہتوں نے بیماریوں سے نجات پائی۔ اُسی کی سخت ذہانت و فہم سے ایک عالم نے فائدہ اٹھایا اور بہت سے اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوا۔ وہ لڑکا معاندین اور متعصبین کی مخالفت، بددعاؤں، بدزبانیوں، تعصبات اور فتنوں کے باوجود جلد جلد بڑھا اور زمین کے کناروں تک شہرت پاگیا۔
وہ نافلہ موعود بھی اسی خاندان کا ہے جس نے یورپ اور امریکہ اور افریقہ میں جاکر خدائے واحد کا پیغام سنایا۔ کُل عالم کو محبت کا پیغام دیا اور امن کا سفیر کہلایا۔
اور مہدی کا منادی بھی اسی خاندان کی شاخ طوبیٰ ہے جو مسیح الزماں اور اس کے مقدس آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی نشرواشاعت میں عالمی مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ ہمہ وقت مشغول ہے۔ جس نے خدا کی خاطر وطن چھوڑ کر یورپ میں ڈیرہ لگایا مگر دین کو مضبوط گھر مہیا کر دیا ہے۔
اور ماموروں کا چاند بھی اسی خاندان کے افق سے طلوع ہوا جس کے اندر جمال کی ٹھنڈی اور پاکیزہ روشنی تھی جس کی بصارت اور بصیرت بے مثال تھی جس کا ہر لفظ موتی اور ہر حرف نگینہ تھا۔
اسی خاندان کا ایک فرد وہ بادشاہ اور قاضی ہے جو شاہانہ سخاوت اور دریا دلی کا ایک شاندار نمونہ ہے اور غریبوں کی دلداری اور مشکل کشائی پر کمر بستہ ہےاورساری دنیا کو جنگ کی آگ سے بچانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔
اس شجرہ کی کسی شاخ نے ڈاکٹری، سرجری اور ہومیوپیتھی میں کمال حاصل کیا تو کسی نے انجینئرنگ میں اہل زمانہ سے خراج تحسین وصول کیا۔ کسی نے ملکی سیاست اور انتظام میں ابنائے عالم کی راہنمائی کی تو کسی نے تعلیم و سائنس کے تاریک گوشے روشن کیے۔ کسی نے فوجی اور دفاعی شعبہ میں نئے سنگ میل نصب کیے تو کسی نے علم و ادب اور شاعری میں نئے چراغ جلائے۔ کسی نے معیشت اور اقتصادیات میں اپنا لوہا منوایا تو کسی نے صنعت و حرفت میں قوم کو نئی راہیں دکھائیں۔ کسی نے زراعت، جانوروں اور شہد کی دنیا میں نئے راز معلوم کیے تو کسی نے بنجر زمین کو گل و گلزار بنانے کے محیر العقول کارنامے کر دکھائے۔
مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی غیر معمولی صلاحیتوں اور برکات سے سرفراز فرمایا گیا۔ ان کی سرخیل وہ نواب اور دخت کرام ہیں جو مسیح موعود کی بیٹیاں ہیں اور پھر وہ عورتیں جن کی اولاد کو خدا نے خلافت کے منصب پر فائز کیا اور وہ بھی جنہیں خلفاء اور دیگر مبارک وجودوں کے قدم بقدم خدمت سلسلہ اور خدمت نوع انسانی کی توفیق ملی۔‘‘(کتاب ایم ایم احمد شخصیت اور خدمات مصنفہ عبدالسمیع خان)
الغرض اس خاندان نے الٰہیات، علوم قرآن و حدیث، تاریخ اور اس کا فلسفہ، سیرت، تقریر و تحریر، تنظیم کاری، آبادکاری، سیاست کاری، شہروں کی آبادی، ادب اور شاعری، سیاست، خارجہ، ملّی اور بین الاقوامی امور، شکار، سلیقہ، سادگی، علم انساب، کھیل وغیرہ علم و عمل کی ہر شاخ کو نئے پھولوں سے آراستہ کیا۔ اس نے جتنے مختصر عرصہ میں وسائل کی کمی اور حالات کے جبر کے باوجود زندگی کے متعدد شعبوں میں جن ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے شاید اس کی مثالیں بہت کم ہوں گی۔ وذلک فضل اللہ۔