منظوم کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نہیں ہے کچھ دیں سے کام ان کا یونہی مسلماں ہے نام ان کا
ہے سخت گندہ کلام ان کا ہر ایک کام ان کا فتنہ زا ہے
زمیں سے جھگڑا فلک سے قضیہ یہاں ہے شور اور وہاں شرابا
نہیں ہے اک دم بھی چین آتا خبر نہیں ان کو کیا ہوا ہے
یہ چلتے ہیں یوں اکڑ اکڑ کر کہ گویا ان کے ہیں بحر اور بر
پڑے ہیں ایسے سمجھ پہ پتھر۔ کہ شرم ہے کچھ نہ کچھ حیا ہے
لڑیں گے آپس میں بھائی باہم نہ ہوگا کوئی کسی کا ہمدم
مرا پیارا رسولِ اکرمؐ ۔یہ بات پہلے سے کہہ گیا ہے
نہ دل میں خوفِ خدا رہے گا نہ دین کا کوئی نام لے گا
فلک پہ ایمان جاچڑھے گا یہی ازل سے لکھا ہوا ہے
مگر خدائے رحیم و رحماں جو اپنے بندوں کا ہے نگہباں
جو ہے شہنشاہِ جنّ و انساں جو ذرّہ ذرّہ کو دیکھتا ہے
کرے گا قدرت سے اپنی پیدا وہ شخص جس کا کیا ہے وعدہ
مسیح ؑدوراں مثیلِ عیسیٰؑ جو میری امّت کا رہنما ہے
سو ساری باتیں ہوئی ہیں پوری نہیں کوئی بھی رہی ادھوری
دلوں میں اب بھی رہے جو دُوری تو اس میں اپنا قصور کیا ہے
(کلامِ محمود صفحہ۱۸)