اک خواب ہے اور مستقل ہے
(حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پہلی مرتبہ دیکھنے پر بے ساختہ جذبات کی لڑی)
پاکستان میں پرورش پانے والی اس نسل سے ہونے کے ناطے جنہوں نے اپنی ساری زندگی محض اپنے والدین اور بزرگوں کی چمکتی آنکھوں اور یادوں سے بھرے الفاظ سے جلسہ سالانہ کی رونقوں اور واقعات کے بارے میں سنا تھا، جلسہ سالانہ میں شمولیت کا موقع ملنا اور ایسے موقع پر کہ جب مسیح وقت کے نمائندہ بھی اس میں شامل ہو رہے ہوں کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں۔ مورخہ یکم تا ۳؍ ستمبر کو جرمنی میں منعقدہونے والا جلسہ سالانہ میرے لیے اسی نعمت کے حصول کا موقع تھا۔
جیسے جیسے جلسہ کے ایام قریب آتے گئے دل میں یہ احساس بار بار بیدار ہوتا کہ کہیں یہ ایک خواب تو نہیں۔جہاں جلسہ کی تیاری کے لیے اسباب سفر تیار کیا وہیں اک ترستے دل کو بھی اپنے آقا کے دیدار کی امید میں مضبوط کیا اور بالآخر جلسہ سے ایک روز قبل جلسہ گاہ پہنچ گئے۔
گوگذشتہ دو سال سے جرمنی کے جلسہ میں شمولیت کا موقع مل رہا تھا مگر اس سال جماعت احمدیہ جرمنی کی صد سالہ جوبلی کے تاریخی جلسہ کی اہمیت اور بڑی تعداد میں حاضرین کی شمولیت کی توقع کے پیش نظرگذشتہ سالوں کی نسبت جلسہ گاہ کشادہ ہالز پر مشتمل تھی۔تجنید و سیکیورٹی کی چست اور چوکنا کارکنات سے تعاون کرتے ہوئے ابتدائی مراحل سے گزرنے کے بعد جلسہ گاہ میں چلتے ہوئے، ایک رہائش گاہ کے وسیع ہال سے نکل کر ضیافت کے ہال اور پھر دفاتر،بازار، بچوں کی جلسہ گاہ اور مرکزی جلسہ گاہ تک پہنچنے تک پہلے جلسہ کے ایام اور کارروائی میں بروقت شامل ہونے کے لیے اوقاتِ نماز و اجلاسات کے مطابق باقاعدہ منصوبہ بندی کا احساس دل میں پیدا ہوا تو ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی شدت سے دل میں گھر کر گیا کہ آج جہاں مخالفین سلسلہ کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں وہیں خدا تعالیٰ کی کامل تائید ہی کے نتیجے میں جماعت احمدیہ اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ جلسہ گاہ کی وسعت صرف ایک نظر میں سمیٹنا ناممکن ہے۔
کہیں کارکنات اپنے دفاتر کی ترتیب میں مصروف تھیں تو کہیں سیکیورٹی، نظم و ضبط وغیرہ کی معاونات جلسہ کے ایام میں اپنی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کرنے کے لیے تیاری کر رہی تھیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جلسہ گاہ میں آمد کا وقت ہوا تو لجنہ ممبرات نے جلسہ گاہ کا رخ کیا اور اپنے آقا کی آمد کا بے چینی سے انتظار کرنے لگیں۔مردانہ جلسہ گاہ سے معائنہ کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کے جلسہ گاہ کی طرف تشریف لائے تو ایک ہجوم آپ کی ایک جھلک دیکھنے کو امڈ آیا۔چونکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال کے ایک طرف سے داخل ہوئے، حضور تک میری نگاہ پہنچنے تک آپ ہال کے دوسرے دروازہ کی طرف تشریف لے گئے اور میرا دل اس خیال سے بھر آیا کہ اپنے خلیفہ کو اپنے درمیان تو پایا مگر آپ کو دیکھ نہ سکی، ابھی یہ خیال دل میں آیا ہی تھا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسی راستے سے واپس تشریف لائے اور آپ کے چند لمحات کے دیدار سے شکایت کے آنسو شکر میں بدل گئے جو بعد میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں پڑھی گئی نماز جمعہ و دیگر نمازوں میں سراپا دعا بن کر ٹپکے۔
گو یہ ایک لمحہ ہی شکستہ دلوں کے ایک ملک سے آنے والے کو اپنے آقا کی صحبت کے خواب دیکھنے والے کی ساری عمر کی میراث بن سکتا ہے لیکن خلافت سے محبت اور تعلق میں آپ کے نور سے ماحول کو روشن دیکھنے کی پیاس ایک ایسی پیاس ہے جس کا مٹنا ناممکن ہے پس اسی لمحہ کے بعد سے دل پہلے سے زیادہ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب ہو گیا اور ہفتہ کا دن اس بیتاب خواب کی ایک مبارک پُر نور تعبیر بن گیا۔
صبح ساڑھے آٹھ بجے ہی تھے اورمعاونات ہال کی صفائی اور تیاری میں مشغول تھیں۔ میں اپنا خالی دامن اور بےکراں جذبات لیے جلسہ گاہ میں بیٹھ گئی۔ہر چہار اطراف تمام کارکنات و معاونات نظم و ضبط و نظافت کے انتظامات کو ایک بادشاہ کی آمد کے شایانِ شان بنانے میں مصروف تھیں۔ ترتیب سے ہالز میں بیٹھنا، حضور کی محفل کے آداب، روحانی اورجسمانی پیاس بجھانے کے انتظامات سے لے کر آواز، تصویر اور تکنیکی تیاریوں تک ہر ایک کی چُستی اور جذبہ دیدنی تھا۔
لجنہ کے پہلے اجلاس سے حظ اٹھانے کے بعد جونہی حضور کی آمد کے اعلانات شروع ہوئے تمام ممبرات نے درود شریف اور دیگر ادعیہ کا بآواز ورد کر کے لجنہ کی جلسہ گاہ کی فضا کو معطر کر دیا۔اس درود و سلام کا ایک ایک لفظ دل سے خدا تعالیٰ کی شکرگزاری کےجذبات لیے نکلتا تھا۔
جیسے ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہال میں تشریف آوری ہوئی ہر ایک آنکھ طویل انتظار و تڑپ کے بعد اپنے آقا کے دیدار پر اشکبار ہو گئی۔اگر اپنی آنکھ سے اس خیال سے آنسو پونچھتی کہ ان کے ہوتے اپنے آقا کا عکس نظر نہ آ سکے گا تو فوراً ہی ساتھ بیٹھی کسی بیقرار بہن کی جذباتی سسکی آنسوؤں کی اس لڑی کو زیادہ شدت سے جاری کر دیتی۔غرض جہاں تک میرے حواس محسوس کر سکتے تھے اور میری آنکھیں دیکھ سکتی تھیں ہر ایک آنکھ جلسہ گاہ میں اشک بار ہو کر جلسہ کے مرکزی موضوع لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيْدَنَّكُمْ سے حصہ پانے کی امید میں شکر کے اظہار میں مصروف تھی۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہال میں آمد سے لے کر سٹیج پر رونق افروز ہونے تک کا منظر اَب بھی ایک خواب کے آغاز کی سی کیفیت دل میں جگاتا ہے۔جہاں ادب اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ اس ہستی کے سامنے نظر نہ اٹھے وہیں دل کی پیاس اس دیدار کا بار بار تقاضا کرتی تھی۔پس میری ہر ایک نظر جو حضور پر پڑی وہ نہ صرف میری تھی بلکہ ان تمام لوگوں کا بھی اس میں حصہ تھا جن کے ساتھ کئی سال پہلے میں نے یہ خوبصورت خواب دیکھا تھا ۔کئی سال پاکستان میں ہونے والے کسی بھی مرکزی پروگرام میں اس بات پر اشکبار ہو جانے والوں کی آنکھیں کہ ’’اگر آج حضور بھی اس پروگرام میں شامل ہوتے تو کیسا محسوس ہوتا‘‘۔حضور کے خطاب کا آغاز ہوا اور آپ کا ہر ایک لفظ اور بیان کیا گیا واقعہ ایک شفیق باپ کے الفاظ کی طرح جلسہ گاہ میں گونجتا رہا۔ایک ایسے باپ کے الفاظ جو اپنے بیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کو ان کی صلاحیتیں سمجھ کر ان کے مفید استعمال کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ایک ایسا باپ جو ان کو اس ماضی کی یاد دلاتا ہے جس کو اپنے مستقبل کا لائحہ عمل بنا کر وہ اپنے آپ کو محفوظ بھی کر سکتی ہیں اور اپنی عزت بھی قائم کر سکتی ہیں۔
آپ کا ایک ایک لفظ ایک نیا جذبہ بیدار کرنے والا تھا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور تمام لجنہ ممبرات بھی آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ میں مصروف ہو گئیں۔
دعا کے بعد ترانوں کا آغاز ہوا جو ان تمام بیتاب دلوں کے لیے فرحت و محبت کے نغمات سے کم نہ تھے، علیک الصلوٰۃ علیک السلام سے لے کر آخر پر پڑھے گئے لاالٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کے اقرار تک جلسہ گاہ اپنے یار کے پاس ایک عجب ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھی رہی۔ سٹیج پر لگا بینر بھی مجھ میں خلافت کی بابرکت چھاؤں کا احساس دوبالا کرتا رہااور پھر وقتِ رخصت آیا تو تمام ہال نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہاتھ ہلا کر سب ممبرات کو السلام علیکم کی دعا دی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے جانے کے بعد بھی آپ کی شخصیت کا نور ایک سرور بن کر جلسہ گاہ میں موجود رہا اور ہر ممبر ایک دوسرے کو اس مبارک موقع کے میسر آنے پر مبارکباد دیتی ملی۔
بعد ازاں نماز کے دوران ہال میں گونجنے والی تضرع سے بھری آوازیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ اہل جرمنی نے اپنے امام کی قربت کو شدت سے محسوس کیا تھا۔
جلسہ سالانہ کے اختتام پر جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ کے نظم و ضبط کی تعریف کرتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا تو خدا تعالیٰ کے اس فضل و احسان پر جلسہ گاہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔بعدازاں ہر ایک معاونہ، ناظمہ اور شامل جلسہ اس تعریف پر خدا کی حمد کرتی اورجلسہ کی مبارکباد دیتی نظر آئی۔ گو اب جلسہ ختم ہوئے چند دن گزر گئے ہیں لیکن حضور کے دیدار کے وہ لمحات اب تک میرے ذہن میں ایک خواب کی طرح موجود ہیں۔ایک ایسا خواب جو خدا کرے ہر ایک احمدی کو نصیب ہو خاص طور پر ایسوں کو جو دن رات اس دیدار کی تڑپ میں اپنے ایمان کے لیے قربانیاں کر رہے ہیں۔