عفو و درگزر کا پیکرﷺ
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ!گڑیا اور محمود آ ج سکول سے واپس آئے تو بہت خوش لگ رہے تھے۔ چھٹیوں کے بعد آج سکول میں پہلا دن تھا۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ! دادی جان اورمحمود نے جواب دیا۔
احمد: دادی جان آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے سکول میں سیرت النبیؐ پر پروگرام ہونا ہے۔
گڑیا: دادی جان مجھے تقریر کرنی ہے اور احمد بھائی نے پچھلی دفعہ کی طرح نعت ہی پڑھنی ہے۔
دادی جان : یہ تو خوب ہوا۔ احمد بیٹاکون سی نظم پڑھیں گے اس بار۔
احمد: دادی جان پہلی بار میں نے بدر گاہِ ذی شان… والا قصیدہ پڑھا تھا۔ اس بار سوچ رہا ہوں کہ ’’وہ پیشواہمارا‘‘تیار کر لوں۔
بہتر۔ دادی جان بولیں۔ اور گڑیا کو کونسا موضوع ملا ہے؟
گڑیا: دادی جان اس بار تو بہت مشکل موضوع ملاہے۔ مجھے تو اس کا مطلب ہی نہیں معلوم۔رسول اللہ ﷺ عفوودرگزر کا پیکر۔
محمود: دادی جان یہ جلسہ کب ہے۔ اور ہم اس کی کیا تیاری کریں گے؟
دادی جان: بیٹا رسول اللہؐ 9؍ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے۔ محمود کی سالگرہ پر آپ کو بتایا تھا کہ ہم رسول اللہؐ کی سالگرہ نہیں مناتے۔ عام مسلمان اس روز کو عید میلاد النبیﷺ یا مولود النبیﷺ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہم احمدی اس دن جلسہ سیرت النبیﷺ کا انعقاد کرتے ہیں۔ اور صرف اس دن نہیں سال کے کئی روز جلسہ کرتے ہیں۔ شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لیے رسول اللہﷺ کو بھیجا۔
دادی جان نے گڑیا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: گڑیا!لگتا ہے آپ کے لیے نیا عنوان ہے۔ چلیں کپڑے بدل لیں اور نمازاور کھانے سے فارغ ہو کر قیلولہ کرلیں۔ رات کو اس بارے میں بات کرتے ہیں۔
رات کو کھانے کے بعد گڑیا قلم ا ور کاغذ لیے دادی جان کے پاس چلی آئی اور بولی : دادی جان مجھے عفو و درگزر کے بارے میں بتائیں۔
دادی جان: عفو و درگزر کا مطلب ہوتا ہے معاف کرنا۔ جیسے آپ بہن بھائیوں کی آپس میں یا فوزان سے یا کسی اور سے نوک جھونک ہوتی ہے تو امی جان یا ابو جان آپ کو سوری کرنے یا معافی مانگنے کا کہتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہؐ جن میں تمام اخلاق اور خوبیاں جمع تھیں یہ ایک نمایاں وصف تھا کہ آپ اپنوں کو اور دشمن کی غلطیوں کو معاف کر دیا کرتے تھے۔ کسی سے بدلہ نہ لیتے تھے۔آپﷺ محبت و پیار کا سلوک فرماتے اور تحمل، بردباری، اور برداشت کے اخلاق دکھاتے۔
احمد: جی حضور انور نے خطبہ میں بتایا تھا کہ فتح مکہ کے وقت رسول اللہؐ نے مکہ کے تمام کفار کو معاف کر دیا تھا۔
دادی جان: شاباش! رسول اللہﷺ پر کفار نے بہت ظلم کیا۔ طائف میں جب آپ تبلیغ کے لیے گئے تو ان لوگوں نے پتھر مارے۔ اور لہو لہان کر دیا۔ حتیٰ کہ آپ کے جوتے خون سے بھر گئے۔ حضرت جبریلؑ نے آپ سے اجازت چاہی کہ اس قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں! تو آپؐ نے ان کو معاف کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے ہی ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ایمان لے آئیں گے۔
جنگ بدر میں حضرت حمزہؓ نے عتبہ بن ربیعہ کو قتل کیا۔ تواس کی اولاد نے ایک حبشی غلام وحشی کے ذریعہ حضرت حمزہؓ کو جنگ احد میں قتل کروا دیا۔ اور اس کی بیٹی ہندہ نے حضرت حمزہؓ کا سینہ چاک کر کے آپؓ کا کلیجہ چبا ڈالا۔ لیکن فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے سب کو معاف کر دیاحتیٰ کہ ہندہ اور وحشی کو بھی معاف کر دیا۔
گڑیا: قرآن کریم اس بارہ میں کیا کہتا ہے بھلا؟
دادی جان: اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ان سے دَرگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر۔ ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ عفو کریں اوربھلائی کا حکم دیں۔ پھر آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین ٹھہرایا ہے۔ اسی لیے آپ پیارو محبت اور امن و آشتی پھیلانے والے تھے۔
محمود:دادی جان کوئی اور بھی واقعہ سنائیں۔
دادی جان: بعض لوگ نادان اور ناسمجھ لوگوں پر سختی کرتے ہیں۔ لیکن رسول اللہؐ ان کی غلطیوں پر صرفِ نظر کرتے تھے۔ ایک سفر میں ایک بدو نے آپ کی گردن مبارک میں کپڑا ڈال کر اتنی زور سے بھینچا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اور بدتمیزی سے کچھ مال طلب کیا۔ نبی اکرمؐ نے نہ صرف معاف فرما دیا بلکہ اس کا بے جا مطالبہ بھی پورا فرمادیا۔ اسی طرح ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ صحابہ اسے ہٹانے کے لیے گئے تو آپؐ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس جگہ خود پانی بہا دیا۔
محمود : دادی جان! کیا یہ معاف کرنا اچھاہوتا ہے۔ میں تو احمد بھائی سے بہت ناراض ہو جاتاہوں۔کیونکہ وہ مجھے بعض اوقات اپنے ساتھ نہیں کھیلنے دیتے۔
دادی جان : جی بالکل معاف کرنا ایک اچھی عادت ہے۔ اور احمد بھائی تو آپ کو جلدی منا لیتے ہیں۔ اگر غلطی ہوتو معذرت بھی کر لیتے ہیں۔ ہم نے پہلے بات کی تھی کہ ایک مومن کو اپنے مومن بھائی سے زیادہ دیر ناراض نہیں ہونا چاہیے۔
گڑیا: تین دن تک!
دادی جان: جی ! تین دن سے پہلے ہی ناراضگی ختم کردینی چاہیے۔
محمود: احمد بھائی مجھے معاف کر دیں۔ میں نے کل آپ کا ہوم ورک خراب کر دیا تھا۔ اور آپ نے امی کو شکایت بھی نہیں لگائی تھی۔
احمد: محمود کوئی بات نہیں۔ میں نے دوبارہ کر لیا تھا اور مجھے میرے استاد کی طرف سے اس پر سٹار بھی ملا ہے۔
دادی جان: بہت خوب بچو!اب سونے کا وقت ہوگیا ہے۔ دعا پڑھیں اور سو جائیں۔