مینار کے ڈیزائن پر مسلمانوں کی اجارہ داری نہیں، احمدیہ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا خلاف قانون ہے؛ (لاہور ہائی کورٹ)
نیا دور ٹی وی کی شائع کردہ ایک خبر کے مطابق
احمدیہ عبادت گاہوں کی طرز تعمیر کے باعث ان کی مساجد کے ساتھ مشابہت پر اعتراض کے ایک مقدمے کے فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے قرار دیا ہے کہ مینار ایک تعمیراتی خصوصیت ہے جسے محض مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جا سکتا، مسلمانوں نے بذات خود مینار کا تصور یونان اور بابل کی تہذیب سے مستعار لیا۔ اسی طرح احمدیہ کمیونٹی کی جو عبادت گاہیں توہین مذہب آرڈیننس کے نفاذ سے قبل تعمیر کی گئی تھیں ان کے طرز تعمیر پر توہین مذہب آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا لہٰذا انہیں مسمار کرنا یا ان کے مینار توڑنا خلاف قانون ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ صوبہ پنجاب کے شہر وزیرآباد کے ایک شہری عرفان الیاس کی جانب سے دائر مقدمے میں سنایا گیا ہے۔ شہری عرفان الیاس نے ۱۱؍نومبر ۲۰۲۲ءکو تھانہ سٹی وزیر آباد میں ایف آئی آر درج کروائی تھی جس میں شکایت کی گئی تھی کہ وزیر آباد شہر کے موتی بازار میں حکیم بیکرز کے نواح میں موجود جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ پر ایسے مینار بنائے گئے ہیں جیسے مسلمانوں کی مساجد پر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ اس مشابہت سے مذکورہ عبادت گاہ پر مسلمانوں کی مسجد ہونے کاگمان ہوتا ہے اور اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اس شکایت پر تھانہ سٹی میں عبادت گاہ کے منتظمین کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۸ بی اور ۲۹۸ سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ملزمان نے مذکورہ مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر رکھی تھی۔
اسی مقدمے کے تفصیلی فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق سلیم شیخ نے تحریر کیا ہے کہ یہ سچ ہے کہ مینار مسلمانوں کے لیے مذہبی علامت بن چکے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مینار ایک تعمیراتی خصوصیت ہیں۔ اسلام کے اولین دور میں تعمیر ہونے والی مساجد میناروں کے بغیر بنائی گئی تھیں۔ نبی کریمﷺ کے دور میں مسجد کے قریب موجود سب سے اونچی چھت پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی تھی۔
انہوں نے لکھا کہ میناروں کی تاریخ سے متعلق متعدد نظریات ملتے ہیں۔ بعض محققین کے مطابق مسلمانوں نے مینار تعمیر کرنے کا خیال یونانی طرز تعمیر سے مستعار لیا۔ ان محققین کا ماننا ہے کہ موجودہ طرز کے مینار بنانے سے قبل مسلمان نگرانی کی غرض سے بنائے گئے یونانی میناروں پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے۔ جبکہ بعض دیگر تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ مینار بنانے کا آئیڈیا مسلمانوں نے بابل کی تہذیب کے دوران بنائے گئے اونچے ٹاورز سے لیا تھا۔
تحریری فیصلے کے پیراگراف ۱۶ میں جسٹس طارق سلیم شیخ لکھتے ہیں کہ زیر نظر مقدمے میں ہم یہ تو نہیں طے کر سکتے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ۲۹۸ ب اور ۲۹۸ ج قادیانیوں کو مساجد سے مشابہت رکھنے والی عبادت گاہیں تعمیر کرنے سے منع کرتی ہیں یا ایسا کرنے پر انہیں قصوروار ٹھہراتی ہیں یا نہیں تاہم میری رائے میں ۱۹۸۴ء میں نافذ ہونے والے توہین مذہب سے متعلق صدارتی آرڈیننسسے قبل تعمیر ہونے والی احمدیہ عبادت گاہوں پر اس آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس بنیاد پر احمدیہ برادری کی ۱۹۸۴ء سے قبل تعمیر کی گئی عبادت گاہیں مسمار کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے مینار توڑے جا سکتے ہیں۔
پیراگراف ۱۷ میں لکھا ہے کہ مذکورہ مقدمے میں بھی جس عبادت گاہ کے میناروں پر اعتراض اٹھایا گیا ہے وہ ۱۹۲۲ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کے صدر دروازے پر واضح انداز میں مسجد کی بجائے بیت الذکر لکھا ہوا ہے۔ زیر نظر مقدمے میں نامزد ملزمان کے ذمے محض اس عبادت گاہ کی دیکھ بھال کرنے کا فریضہ ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ آج سے ۱۰۰ سال قبل بنائی جانے والی اس عبادت گاہ کے طرز تعمیر کا قصوروار انہیں ٹھہرا کر سزا دی جا سکتی ہے۔ جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ ملزمان اس عبادت گاہ کو مسجد قرار نہیں دیتے یا ایسی کوئی بھی مشابہت اختیار نہیں کرتے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہو۔
انہوں نے یہ بھی لکھا کہ درخواست گزار عدالت کو یہ بتانے میں بھی ناکام رہے کہ ۱۹۸۴ء میں توہین مذہب آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ۳۸ سال تک وہ مذکورہ احمدیہ عبادت گاہ کی مسلمانوں کی مسجد سے مشابہت کے حوالے سے کیوں خاموش رہے اور وہ کیا محرکات تھے جنہوں نے اب انہیں مقدمہ درج کروانے کی ترغیب دی ہے۔ جبکہ نامزد ملزمان کا ماننا ہے کہ درخواست گزار نے محض سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اب یہ مقدمہ دائر کیا ہے۔
پیراگراف ۱۸ کے مطابق درخواست گزار کی شکایت اس صورت میں جائز قرار دی جا سکتی تھی اگر مذکورہ عبادت گاہ ان کی آنکھوں کے سامنے بنائی جاتی اور اس پر مینار تعمیر کیے جاتے۔ احمدیہ برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے جب یہ عبادت گاہ تعمیر کی تھی تب اس کے طرز تعمیر سے رائج کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے اس عبادت گاہ کے مینار گرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
گذشتہ چند سالوں کے دوران ایسے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں پولیس بذات خود احمدیوں کی عبادت گاہوں کے مینار توڑنے میں مصروف عمل نظر آتی رہی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں پولیس کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ احمدی برادری کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ایسی کسی کارروائی کا حصہ نہ بنے۔
یاد رہے پچھلے چند سالوں سے احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محض رواں سال کے دوران اب تک بائیس ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جہاں ان عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا ہے یا ان کے مینار توڑے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ واقعات پاکستان کے تمام علاقوں میں رونما ہو رہے ہیں تاہم صوبہ پنجاب میں واضح طور پر ان واقعات کی تعداد باقی صوبوں سے زیادہ ہے۔
متعدد دانشور اور سماجی ماہرین پنجاب میں مسلم اور غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف بڑھتی نفرت کے ڈانڈے ایک مخصوص مذہبی سیاسی جماعت کے ساتھ ملاتے ہیں جس نے گذشتہ چھ سے سات سالوں کے دوران پنجاب میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ بعض تحقیقاتی رپورٹس میں یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ اگست کے پہلے ہفتے میں جڑانوالہ میں مسیحی عبادت گاہوں کی توڑپھوڑ اور مسیحی بستی کو نذر آتش کرنے میں بھی اسی مذہبی سیاسی جماعت کے کارکنان ملوث تھے۔