حفظ قرآن کی اہمیت
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ(القمر :۱۸)اور یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کی خاطر آسان بنا دیا ہے پس کیا ہے کوئی جو نصیحت پکڑے۔
دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
لفظ قرآن کے معنی ہیں: بار بار اور کثرت سے پڑھی جانے والی کتاب۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ جو کتاب بار بار پڑھی جائے اس کے پڑھنے والے بھی کثرت سے ہوں گے۔ اس لفظ قرآن میں آئندہ زمانہ میں کثرت تلاوت کی پیش گوئی کے ساتھ ساتھ اس کے ماننے والوں کے لیے ہدایت اور پیغام بھی ہے کہ وہ اس کو کثرت سےاور بار بار پڑھیں اوراپنی عملی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔اس آیت میں لفظ لِلذِّكْر میں قرآن کریم کو حفظ کی خاطر آسان بنادیے جانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پس کیاکوئی ہے جو اسے یاد کرنے والاہو۔چونکہ اس وقت دنیا کے ہر خطہ میں مسلمان پائے جاتے ہیں اور ہر جگہ حفاظ موجود ہیں جوکثرت سے اس کی تلاوت کرتے رہتے ہیں۔اس لیے ہم بلا مبالغہ دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم پر سورج غروب نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے اس کی لفظی اور معنوی حفاظت کا وعدہ بھی فرمایاہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ(الحجر:۱۰) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس آیت کی تشریح بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی خدمت اور اس کی حفاظت کا ظاہری کام حفاظ اور قراء کے سپرد ہے۔ وہ قرآن کریم کے خادم ہیں اور اس کی حفاظت کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔(تفسير كبير، جلد هشتم صفحه ۳۲۰)آپ مزید فیصلہ کن الفاظ میں قرآن کریم کی حفاظت کے الٰہی وعدے کے ثبوت میں بڑے جلالی انداز میں فرماتے ہیں: ’’آج اگر بائبل کے سارے نسخے جلا دیے جائیں تو بائبل کے پیرو اس کا بیسواں حصہ بھی دوبارہ جمع نہیں کر سکتے لیکن قرآن مجید کو یہ فخر حاصل ہے کہ اگر (بفرض محال)سارے نسخے قرآن مجید کے دنیا سے مفقود کر دیے جائیں تب بھی دو تین دن کے اندر مکمل قرآن مجید موجود ہو سکتا ہے اور بڑے شہر تو الگ رہے ہم قادیان جیسی چھوٹی بستی میں اسے فور اًحرف بہ حرف لکھوا سکتے ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد چهارم صفحه ۱۸، زیر تفسير سورة الحجرآيت ۱۰)
عشق قرآن میں ڈوبے ہوئے حافظِ قرآن کا خیال اللہ تعالیٰ خود رکھتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات کا خودمتکفل ہو جا تا ہے اور اس کو بن مانگے دیتا چلا جا تا ہے کیونکہ وہ تو اللہ کی خاطر اس کے کلام کو پڑھنے پڑھانے، پھیلانے اور لوگوں کو سمجھانے میں مصروف ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس کی جملہ ضروریات کا خود خیال رکھتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ایک حدیث قدسی بیان کرتے ہیں: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صاحب عزت وجلال اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ جس شخص کو قرآن کریم اور اس کے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے روک دیا میں اس کو مانگنے والوں سے بہت زیادہ عطا کرتا ہوں۔(سنن الترمذي ،كتاب فضائل القرآن ، باب ۲۵)
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی تربیت کی ذمہ داری اس کے والدین پر ہوتی ہے۔ پس وہ والدین جو اپنے بچوں کو ان نیکیوں کو بجا لانے کی ترغیب دیتے ہیں ،ان کو کلام الٰہی حفظ کرواتے ہیں، ان والد ین کو بھی اجر دیا جا تا ہے۔ بچے جب جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں والدین اور استاد کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے کیونکہ انہوں نے اس بچے کو سکھانے کا اہتمام کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے قرآن کریم پڑھا اور اس پر عمل کیا قیامت والے دن اس کے والدین کوایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اس سورج سے بھی زیادہ ہو گی جو دنیاوی گھروں کو روشن کرتا ہے۔(سنن أبی داؤد،)
قرآن کریم تمام صحائف آسمانی میں سے سب سے افضل ہے۔ یہ جس پر نازل ہوا وہ تمام انبیاء سے افضل نبی ہے۔ پس لازم ہے کہ جو بھی اس کی تلاوت کرتا ہو، اس پر عمل کر تا ہو اور اس کو یاد رکھتا ہو وہ بھی عام انسانوں سے افضل ہو۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حافظ قرآن کی دوسرے لوگوں پر فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:حامل قرآن کی فضیلت اس شخص پر جو حامل قرآن نہیں ایسی ہے جیسے خالق کی فضیلت مخلوق پر ہے۔(فردوس الاخبار الديلمي جلد ۳ ) یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حافظ قرآن کے بجائے حامل قرآن کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔اس سے نہ صرف حافظ قر آن مراد ہے بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے معانی پر تدبر کرتا ہو اور اس کی تعلیمات کو جانتا ہو اور ان پر کماحقہ عمل بھی کرتا ہو۔ قرآن کریم کے اوامر اور نواہی پر بھی عمل کرتا ہواور اس کی زندگی میں قرآن کریم ایک نصاب کی طرح شامل ہو۔ اس طرح نہ ہو کہ صرف اس کو طوطے کی طرح رٹتا اور پڑھتا رہے بلکہ ایک عالم باعمل ہو جائے۔ ایسا شخص حقیقت میں حامل قرآن ہوتا ہے۔( حفظ قرآن کی فضیلت اور اہمیت اور برکات صفحہ ۴۶ ، ۴۷)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو کہ خود ایک سچے عاشق قرآن تھے آپ کی دلی تمنا تھی کہ آپ علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت قرآن کریم سے وابستہ ہو جائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کی جماعت میں خدمت قرآن کا کام آپ کے خلفائے کرام کے ذریعہ سے جاری ہے۔
میں آپ کے سامنے خلفائے کرام کے چند اقتباسات پیش کرنا چاہوں گی جس سے حفظ قرآن مجید کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہےحضرت خلیفۃ المسیح الثاني رضی اللہ تعالیٰ نے ۷؍دسمبر ۱۹۱۷ءکو حفظ قرآن کریم کی تحر یک کرتے ہوئے فرمایا:’’جولوگ اپنے بچوں کو وقف کر نا چا ہیں وہ پہلے قرآن کریم حفظ کرائیں کیونکہ مبلغ کے لیے حافظ قرآن ہونا نہایت مفید ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں اگر بچوں کو قرآن حفظ کرانا چا ہیں تو تعلیم میں حرج ہوتا ہے لیکن جب بچوں کو دین کے لئے وقف کرنا ہے تو کیوں نہ دین کے لیے جو مفیدترین چیز ہے وہ سکھالی جائے۔‘‘(الفضل ۷؍دسمبر ۱۹۱۷ء۔ خطبات محمود جلد ۵صفحہ۶۱۳،۶۱۲)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں:’’دوسری چیز جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ قرآن کریم حفظ کرنا ہے۔ یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے مگر افسوس ہے اس طرف بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔حفاظ دن بہ دن کم ہوتے جار ہے ہیں۔‘‘(تقریر فرموده ۲۱؍جون ۱۹۴۶ء مشعل راه جلد اول صفحه ۴۶۹)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲؍دسمبر ۱۹۶۹ءکوکراچی میں خطبہ جمعہ میںفرمایا: ’’میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی ابتدائی سترہ آیتیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔ ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہوان کی تفسیر بھی آنی چاہئے۔‘‘(خطبات ناصر جلد۲،صفحه ۸۵۱)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک تحریک فرمائی کہ قرآن مجید کی چھوٹی سورتیں اور بعض آیات حفظ کی جائیں۔حضورانور رحمہ اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید کے مختلف مضامین پر مبنی آیات کے حفظ کا بہت خیال تھا اور خود بھی خلافت سے قبل اور بعد میں بھی بے انتہا مصروفیات کے باوجود اس کا تعہد فرماتے رہے اور نمازوں میں بدل بدل کر مختلف حصوں کی تلاوت فرماتے۔ان منتخب حصوں کو حفظ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :’’بچوں کو خصوصیت سے اور بڑوں کو بھی وہ آیات یاد کر لینی چاہئیں۔ جن کی میں نمازوں میں تلاوت کرتا ہوں اور اکثر مَیں فجر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں بدل بدل کر تلاوت کرتا ہوں۔ یہ آیتیں جو میں نے چنی ہیں کسی مقصد کے لئے چنی ہیں۔‘‘(الفضل انٹر نیشنل، ۷؍جون ۱۹۹۶ء)حضورانور رحمہ اللہ تعالی کی منتخب کردہ آیات کتابی شکل میں’آیات الکتاب ‘کے نام سے شائع ہو چکی ہیں جس سے ہمیں ضرور استفادہ کر نا چاہیے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قرآن کریم پڑھنے کی برکت کے بارےمیں ایک حدیث بیان فرماتے ہیں: روایت میں آتا ہے کہ جس نے ایک رات میں پچاس آیات قرآن تلاوت کیں وہ حفاظ قرآن میں شمار ہوگا۔ (سنن دارمی، کتاب فضائل القرآن )،(ماخوذازخطبہ جمعہ فرمودہ۲۱؍اکتوبر۲۰۰۵ء)
پس قرآن کریم کو حفظ کرنا نہ صرف باعث اعزاز ہے بلکہ موجب شرف وافتخار بھی ہے۔ دراصل ہر مسلمان کی فلاح اور آخرت کے انعامات حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ جو آج ہمارے درمیان موجود ہے یہی خدا کا کلام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے تمام خلفا ءتعلیم قرآن کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔ چاہیے کہ ہم خود بھی اور ہماری نسلیں بھی قرآن کریم کا فیض پائیں۔اس کے احکام پر عمل پیرا ہو کر آخرت کے بے شمار انعامات پائیں اور اخروی عذاب سے نجات کے سامان کریں۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس عظیم کلام کو نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ اس کوزبانی یادکر کے اپنے سینوں میں خدا کا نورا تارتے ہیں۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ اور خصوصاً جماعت احمد یہ کو بکثرت ایسے افراد دے جن کے دل قرآنی انوار کا مجموعہ ہوں اور وہ علوم قرآن کے حامل، اس کی تعلیمات پر عامل اور بنی نوع انسان کو قرآن کریم سے محبت کرنا سکھا دیں۔ آمین
قرآں کتابِ رحماں سِکھلائے راہِ عرفاں
جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں
ہے چشمۂ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت
یہ ہیں خدا کی باتیں اِن سے ملے ولایت
یہ نور دِل کو بخشے دِل میں کرے سرایت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ