ابتلا اور دعائیں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ فرمودہ ۸؍ فروری ۲۰۰۸ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۴۷، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
یہ وہ بنیادی چیز ہے جس کی گہرائی کو ایک حقیقی مومن کو سمجھنا چاہئے اور سمجھتا ہے۔ دعاؤں کے بغیر اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے بغیر تو ایمان لانے کا دعوٰی ہی بے معنی ہے۔ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’ہمارا خدا تو دعاؤں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔‘‘ یہی آج ہر احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے۔ نہ صرف ابتلاؤں میں بلکہ سہولت اور آسائش اور امن کے دنوں میں بھی اپنے رب کے آگے جھکنے والے اور اس کو سب طاقتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہوئے اس کا حقیقی خوف دل میں رکھنے والے ہی حقیقی مومن ہیں اور جب ابتلاؤں کے دور آتے ہیں تو پہلے سے بڑھ کر مومن اُس پر ایمان مضبوط کرتے ہیں اور نہ صرف ایمان مضبوط کرتے ہیں بلکہ چھلانگیں مارتے ہوئے ایمان میں ترقی کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں وہ پہلے سے بڑھ کر تیز ہو جاتے ہیں۔ عارضی ابتلا اور روکیں ان کے قدم ڈگمگانے والی نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان ابتلاؤں اور روکوں کی وجہ سے وہ اور زیادہ عبادت میں بڑھتے ہیں۔ پس یہ انقلاب ہے جو ایک احمدی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا کیا ہے اور جب تک ہم مستقل مزاجی کے ساتھ اس حالت پر قائم رہیں گے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنتے چلے جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں : ’’دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں۔ مگر مستقل مزاج، سعیدالفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے۔ ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِرّیہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔ پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کبھی بھی خیال کرنا نہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہو گی یا نہیں ہوتی، ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ۷۰۷-۷۰۸، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
جیسا کہ میں نے کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس سے ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا ایک احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے جس میں عارضی روکیں اور ابتلاء مزید نکھار پیدا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آجکل دنیا کے بعض ممالک میں لگتاہے احمدیوں کو تنگ کرنے کی ایک مہم شروع ہے۔ جس میں براہ راست یا بالواسطہ تنگ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ حسد کی آگ ہے جس نے ان لوگوں، گروپوں یا حکومتوں کو ایسے قدم اٹھانے پر لگایاہوا ہے اور یہ حسد کی آگ بھی مسیح موعود کے زمانے میں اپنوں کی طرف سے بھی غیروں کی طرف سے بھی، مسلمانوں کی طرف سے بھی اور غیر مسلموں کی طرف سے بھی زیادہ بھڑکنی تھی۔ ۔ غیر مسلموں کی طرف سے اس لئے کہ مسیح موعود کے زمانے میں اسلام کی ترقی دیکھ کر وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کا غلبہ دنیاپر ہو اور بعض مسلمان لیڈروں اور مُلّاؤں کی طرف سے اس لئے کہ ان کی بادشاہتیں اور ان کے منبر کہیں ان سے چھن نہ جائیں اور اس کو بچانے کے لئے انہیں غیر مسلموں کے سامنے بھی جھکنا پڑا تو انہوں نے اسے عار نہیں سمجھا۔ پھر جو مسلمان ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور رحم کرے کہ یہ لوگ خود ایسی حرکتیں کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والے بن رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ احمدیت کی مخالفت کرنی ہے، یہ اگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے لڑنے کی کوشش کریں گے توخود فنا ہو جائیں گے۔ پس ہمدردی کے جذبے کے تحت کہ یہ کلمہ گو ہیں، چاہے ظاہری طور پر ہی سہی، ہمیں ان کے لئے دعا کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡکے ساتھ جو یہ اعلان کیا۔ وہاں یہ اعلان بھی فرمایا کہ وَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ(الجمعۃ:۴) یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ اسے بھیجنے والا مَیں ہوں جو عزیز اور حکیم ہے۔ اللہ غالب ہے، عزیز ہے، کوئی نہیں جو اس عزیز خدا کے کام کو روک سکے۔ اور وہ حکیم ہے اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی تعلیم کی حکمت کے موتی اس مسیح و مہدی سے منسلک ہو کر ہی اب حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پس جہاں ہم نے یہ پیغام دنیا کو دینا ہے، حاسدوں کے حسد اور ابتلاؤں سے سرخرو ہو کر نکلنے کے لئے دعاؤں کی بھی بہت ضرورت ہے۔
ایک تو جن ملکوں میں احمدیوں پر سختیاں ہو رہی ہیں وہ اپنے ثبات قدم کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ کے در کو اس طرح پکڑیں اور اس کے آگے اس طرح جھکیں کہ جلد سے جلد تر وہ فتوحات اور قبولیت دعاکے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ اور پھر دنیا میں وہ احمدی جن پر براہ راست سختیاں نہیں اور بظاہر امن میں ہیں وہ اپنے بھائیوں کے لئے دعائیں کریں۔ کیونکہ مومن کی یہی شان بتائی گئی ہے کہ یہ ایک جسم کی طرح ہے۔ جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ پس ہمارے کسی بھی احمدی بھائی کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، بلکہ احمدی کا دل تو اتنا حسّاس ہے اور ہونا چاہئے کہ کسی بھی انسان کی تکلیف پر وہ تکلیف محسوس کرے۔ پس جب ہم ایک درد کے ساتھ ان ابتلاؤں سے سرخرو ہو کر نکلنے اور ان کے جلد ختم ہونے کے لئے دعا کریں گے تو یقیناً وہ مجیب الدعوات خدا ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے ہمارے بھائیوں کی تنگیوں اور پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ مخالفین سمجھتے ہیں کہ یہ روکیں، یہ تکلیفیں جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اگر کسی انسان کا یہ کام ہوتا تو گزشتہ 100سال سے زائد عرصہ سے جو مخالفتوں کی آندھیاں چل رہی ہیں، وہ کب کی جماعت کو ختم کر چکی ہوتیں۔ کون احمدی نہیں جانتا کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت نے ہی ہمیں بڑھنے، پھلنے اور پھولنے کے مواقع پہلے سے زیادہ رفتار کے ساتھ مہیا فرمائے ہیں۔ پس ہمیں اس بات کی نہ کبھی پروا رہی ہے اور نہ ہے کہ یہ مخالفتیں جماعت کی ترقی میں کبھی سَدِّراہ بن سکتی ہیں۔ آج کل پھر پاکستان میں لگتا ہے احمدیوں کے خلاف اس باسی کڑھی میں اُبال آیا ہوا ہے۔ ویسے تو ہلکی ہلکی مخالفتیں ادھر سے ادھر چلتی رہی ہیں لیکن اب کچھ تھوڑی تیزی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جہاں بھی موقع ملتا ہے احمدیوں پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک ۱۳؍سال کے بچے پر پولیس نے مقدمہ درج کر دیا کہ مولوی کہتے ہیں کہ اس لڑکے نے فلاں مولوی کو مارا ہے۔ جبکہ مار کھانے والے کے رشتہ دار اس سے انکاری ہیں۔ صرف مقدمہ بنانا ہے اور شرارت ہے۔ اور مارا بھی اس طرح ہے کہ مار مار کر اس کا برا حال کر دیا کہ اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ یعنی ایک ہٹا کٹا جوان آدمی، اس کو 13سال کا ایک بچہ اس طرح ما ر رہا ہے کہ وہ مار کھاتا چلا گیا اور آگے سے کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ ان کامقصد صرف یہ ہے کہ نئی نسل میں اس قدر خوف پیدا کر دو کہ یہ بچے اگر احمدی رہیں بھی تو فعال احمدی نہ رہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے جلسے بندکرکے، ہمارے تربیتی پروگرام بند کرکے جو ربوہ میں ہوا کرتے تھے، انہوں نے ہمیں معذور کر دیا ہے اور نئی نسل شاید اس طرح احمدیت سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ اگر مزید تھوڑا سا تنگ کیا جائے اور ان پر سختیاں کی جائیں تو یہ مزید دور ہٹ جائیں گے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں کہ خداتعالیٰ کے جلائے ہوئے چراغ ان کی پھونکوں سے نہیں بجھ سکتے۔