آنحضورﷺ کے نور سے دنیا نے فیض پایا ہے
لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔(التوبۃ:128)
جیسا کہ ہم جانتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی ہستی کو اپنی صفات سے ہم پر ظاہر فرماتا ہے اور مومن بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا رنگ پکڑو، میرے رنگ میں رنگین ہو۔ میری صفات اختیار کرو، تبھی تم میرے حقیقی بندے کہلا سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی اعلیٰ ترین مثال کوئی شک نہیں کہ آنحضرتؐ کے علاوہ کسی اور فرد میں نہیں پائی جاسکتی۔ کیونکہ آپؐ ہی اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جس کے نور سے ایک دنیا نے فیض پایا، فیض پا رہی ہے اور انشاء اللہ فیض پاتی چلی جائے گی تاکہ اپنے پیدا کرنے والے کی پہچان کر سکیں… آپؐ کے اندر خداتعالیٰ کی مخلوق کے لئے جو رحیمیت، رحمانیت کے جذبات تھے، اس جذبے کے تحت جو محبت موجزن تھی، اس کی شدّت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اُسے ان الفاظ میں محفوظ فرما لیا جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ یقیناً تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے، اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو اور وہ تم پر بھلائی چاہتے ہوئے حریص رہتا ہے، مومنوں کے لئے بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پس یہ ہے ہمارے پیارے نبیؐ کا اُسوہ اور آپؐ کے بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے جذبات۔ وہ پیارا رسولؐ انتہائی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے جب تم تکلیف اٹھاتے ہو یا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی نہ کرکے اٹھاؤ گے۔ اس آیت میں کافروں اور مومنوں دونوں کے لئے جذبات کا اظہار ہے۔ آپؐ کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ کیا کیا تکلیفیں تھیں جو دشمن نے آپؐ کو نہ دیں، آپؐ کے ماننے والوں کو نہ دیں۔ عورتوں کو اونٹوں سے باندھ کر، ان کی ٹانگیں باندھ کر ان کو چیرا گیا۔ خود آپؐ کوانتہائی تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ اڑھائی سال تک آپ کے ماننے والوں کے ساتھ ایک گھاٹی میں محصور رکھا گیا لیکن آپؐ پھر بھی ان لوگوں کی بھلائی کی خواہش کرتے تھے۔ دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے، انہیں سیدھے راستے پر چلائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍فروری ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍مارچ ۲۰۰۷ء)