نبی اکرمﷺ مجسم شفقت
تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےعَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ (التوبۃ:۱۲۸) یعنی اے کافرو! یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پاجاؤ۔
(نورالقرآن نمبر ۲، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۴۳۳)
اور قرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ آپؐ کو کس قدر سوزش اور گدازش لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ فرمایا: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ(الشعراء:۴) یعنی کیا تو اپنی جان کو ہلاک کردے گا اس فکر میں کہ یہ مومن کیوں نہیں بنتے۔ یہ پکی بات ہے کہ ہر نبی صرف لفظ لے کر نہیں آتا بلکہ اپنے اندر وہ ایک درد اور سوز وگداز بھی رکھتا ہے جو اپنی قوم کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے۔ اور یہ درد اور اضطراب کبھی بناوٹ سے نہیں ہوتا، بلکہ فطرتاً اضطراری طور پر اس سے صادر ہوتا ہے، جیسے ایک ماں اپنے بچے کی پرورش میں مصروف ہوتی ہے۔… یہ بات کہ جذب اورعقدِ ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خداتعالیٰ کی چادر کے نیچے آجاتاہے اور ظِلُّ اللہ بنتا ہے۔پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کُل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے آپؐ مخلوق کی تکالیف دیکھ نہیں سکتےتھے۔چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ یعنی یہ رسولﷺتمہاری تکلیف کو نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اس پر سخت گراں ہے اور اُسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں۔
(ملفوظات جلد۲صفحہ ۵۴-۵۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)