مکتوب

مکتوب کینیا: کینیا ( مشرقی افریقہ ) کا تعارف اور جماعت احمدیہ کا نفوذ

کینیاپانچ لاکھ اسّی ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا،خوبصورت جھیلوں،گھنے جنگلات،اونچے پہاڑوں،سرسبز لہلہاتے کھیتوں،اور دل موہ لینے والے ساحلوں پر مشتمل مشرقی افریقہ کا اہم ملک ہے۔اس کا سرکاری نام ’’ریپبلک آف کینیا‘‘(جمہوریہ کینیا )ہے۔ ۱۲؍دسمبر۱۹۶۳ء کو کینیا برطانوی تسلط سے آزاد ہوا۔ مزے جومو کنیاٹا اس آزاد ملک کے بانی صدر تھے جو ’’ماؤ ماؤ ‘‘ تحریک آزادی کے لیڈر اور بہادر سپاہی تھے۔ان کے بیٹے آنریبل آہورو کنیاٹا بھی ۲۰۱۲ء سے لے کر ۲۰۲۲ء تک دس سال (دو پارلیمانی ٹرمز)ملک کے منتخب صدر رہے ہیں۔ ملک کا طرز حکومت جمہوری اور صدارتی ہے۔ملک کا صدر مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتاہے۔ ملک کا دارالحکومت نیروبی ہے۔ملک میں ۴۷ کاؤنٹیز ہیں جو اپنی اپنی مقامی گورنمنٹس کے ذریعے کام کر رہی ہیں کاؤنٹی گورنمنٹ کا سربراہ گورنر ہوتا ہے۔ ملک میں قانون سازی کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ موجود ہے جن کے اراکین ۵ سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ کینیا ۱۶؍دسمبر ۱۹۶۳ء کو یو این او میں شامل ہوا، ۱۹۷۲ء میں کینیا کو اپنے دارالحکومت نیروبی میں یونائیٹد نیشنز انوائرمنٹ پروگرام کی مہمان نوازی کا اعزاز حاصل ہوا۔ نیویارک اور جنیوا کے بعد نیروبی دنیا کا تیسرا شہر ہے جہاں اقوام متحدہ کا مرکزی دفتر ہے یہاں تقریباً پانچ ہزار غیر ملکی اور پچیس ہزار کینیا کے شہری کام کرتے ہیں۔ کینیا کامن ویلتھ کا بھی ممبر ہے۔علاوہ ازیں کینیا افریقن ممالک کی یونین کا بھی ممبرہے۔ مشرقی افریقہ کے ممالک میں یہ ایک اہم اور مضبوط ملک ہے۔

رقبے کے لحاظ سے کینیا دنیا کا اڑتالیسواں بڑا ملک ہے۔جو بحر ہند کے شمالی کنارے پر واقع ہے۔ممباسہ اس کی بڑی اور اہم بندر گاہ ہے۔کینیا کے مغرب میں یوگنڈا،مشرق میں صومالیہ شمال میں ایتھوپیا،شمال مغرب میں ساؤتھ سوڈان اورجنوب میں تنزانیہ اور بحر ہندواقع ہے جنوب مغرب میں ۱۵۰۰ میٹر بلند سطح مرتفع ہے کینیا کا بلندترین پہاڑ کوہ کینیا ہے جہاں سارا سال برف جمی رہتی ہے چونکہ خط استوا ملک کے وسط سے گزرتا ہے اس لیے سارا سال موسم خوشگوار رہتا ہے اس وقت کینیا کی آبادی تقریبا ًسوا پانچ کروڑنفوس پر مشتمل ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کینیا کا دنیا میں انتیسواں نمبر ہے یہاں۴۴ مختلف قبائل آباد ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں لیکن قومی زبان سواحیلی ہے جبکہ سرکاری اور دفتری زبان انگریزی ہے۔۲۰۱۹ء کی مردم شماری میں ایشینز کو بھی ایک قبیلے کا درجہ دیا گیا۔ہر قبیلے کا اپنا علاقہ،زبان اور رسم ورواج ہیں قبائلی حمیت و عصبیت موجود ہے۔کینیا میں قبائلی چیفڈم کا وہ خاکہ یا تصور نہیں ملتا جو دیگر افریقی ممالک میں پایا جاتا ہے۔تمام لوگوں کو یکساں شہری حقوق حاصل ہیں اور سب مکمل طور پر ملکی قانون کے پابند ہیں،ملک میں تقریر و تحریر کی مکمل آزادی ہے تاہم کسی کو ملکی سلامتی کے خلاف لکھنے اور بولنے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح مذہبی،لسانی یا نسلی تعصبات پھیلانے پر بھی سخت پابندی ہے۔ملک میں سیاسی آزادی ہے متعدد سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کےمطابق کام کر رہی ہیں اور انتخابات میں آزادانہ حصہ لیتی ہیں۔کینیا ایک زرعی ملک ہے اس کی اہم فصلیں چائے،کافی،گنا،مکئی،گندم،آلو، بینز،کپاس اور پٹ سن ہیں انناس، آم، کیلا، پپیتا، آواکاڈو، اور دیگر متعدد پھلوں کے علاوہ سبزیاں بھی اگائی جاتی ہیں۔ملک میں گائے، بکریاں،بھیڑیںاور مرغیاں کثرت سے پالی جاتی ہیں۔جنگلی حیات متعدد علاقوں میں پائی جاتی ہے اور سخت ملکی قوانین کے ذریعے ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔مسائی مارا،ایمسولی نیشنل پارک،سمبورو نیشنل پارک،نیروبی نیشنل پارک،ٹساوو نیشنل پارک اور لیک نکورو نیشنل پارک جنگلی حیات کے حوالے سے ملک کے مشہور تفریحی مقامات ہیں جہاں شیر،چیتا،ہاتھی،متعدد اقسام کے بندر،جنگلی بھینسیں،ہرن، لگڑ بھگڑ،پاڑا(Wildebeest)،زرافہ،گینڈا اور دیگر متعدد جنگلی جانور بکثرت پائے جاتے ہیں۔دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں سیاح ان سائیٹس میں جنگلی حیات کا مشاہدہ کرنے اور کینیا کے قدرتی حسن اور اس کے خوبصورت سمندری ساحلوں سے محظوظ ہونے آتے ہیں۔

کینیا کی کرنسی شلنگ ہے۔کینیا ایک ترقی پزیر ملک ہے۔ یہ افریقہ کی ساتویں بڑی معیشت ہے۔ ملک میں متعدد صنعتیں قائم ہیں۔ اس کی برآمدات کا ۲۱ فیصد یورپین یونین کو جاتا ہے۔ جن میںچائے،کافی،پھول، پھل اور مختلف شامل سبزیاں ہیں۔

کینیا میں شرح خواندگی ۸۱فیصد ہے۔ ملک میں ۶۸ یونیورسٹیز ہیں جن میں سے ۳۵ پبلک اور ۳۳ پرائیویٹ سیکٹر میں ہیں۔سب سے اہم یونیورسٹی ’’یونیورسٹی آف نیروبی ہے‘‘۔ ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔کھیلوں کے میدان میں کینیا عالمی شہرت کا حامل ملک ہے۔میرتھن ریس،فٹ بال اور کرکٹ یہاں کے پسندیدہ کھیل ہیں۔

مذہبی اعتبار سے کینیا عیسائی اکثریتی ملک ہے یہاں عیسائی فرقوں اور ان کے چرچوں کی اتنی اکثریت ہے کہ اسے ’’لینڈ آف چرچز ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کینیا میں پچاس لاکھ کے قریب مسلمان ہیں جو کل آبادی کا تقریبا ًدس فیصد بنتے ہیں۔ زیادہ تر مسلمان ملک کے کوسٹ کے علاقے میں آباد ہیں اس کی وجہ پہلے عمان اور پھر یمن سے یہاں تجارتی غرض سے آ کر آباد ہونے والے مسلمان تھے۔مسلم اکثریتی علاقوں میں سر فہرست ممباسہ کلیفی مالنڈی گریسا وغیرہ اور ان کے گردونواح کے علاقے ہیں اس کے علاوہ کینیا کے ویسٹرن ریجن میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ملک میں مذہبی آزادی ہے،مسلمانوں اور عیسائیوں کے علاوہ یہاں ہندو،سکھ،یہودی، دہریہ اورفری میسنز بھی موجود ہیں۔کچھ لا مذہب یا اپنے قدیمی قبائلی عقائدو رسم و رواج کے پیرو لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔کینیا میں افریقی لوگوں کے علاوہ ایشین،یورپین اورعرب نسل کے لوگ آباد ہیں۔حالیہ سالوں میں چائناسے ایک قابل ذکر تعداد میں لوگ ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے اور تجارت کے لیے یہاں آئے ہیں۔

مشرقی افریقہ میں اسلام کا پیغام ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کے ذریعے پہنچا اور دو سو سال کے اندر اندر اس علاقے کی قابل ذکر آبادی حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ مشہور مؤرخ المسعودی ۹۴۷ء اور الادریسی ۱۱۵۴ء کی تحریرات کے مطابق مشرقی افریقہ کے ساحل اور زنجبار میں اس زمانہ میں اسلام پھیل چکا تھا۔ ابن ادریس ( الادریسی ) کے سو سال بعد ابن سعید نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام ان علاقوں میں نہ صرف مستحکم ہو چکا تھا بلکہ یہاں خالص اسلامی ریاستیں قائم تھیں،بیسویں صدی کے وسط تک عرب و فارس کے مسلمان یہاں قابض رہے بعد ازاں یہاں یورپی طاقتوں کا تسلط قائم ہو گیا۔مشرقی افریقہ میں کینیا،یوگنڈا،تنزانیہ ملاوی (نیاما لینڈ) اور موزمبیق شامل ہیں اسی طرح صومالیہ بھی بر اعظم افریقہ کے مشرقی ساحل پر واقع ہے روانڈا اوبرونڈی بھی کسی وقت ٹانگا نیکا کے ساتھ مل کر جرمن ایسٹ افریقہ کہلاتے تھے جبکہ ملاوی، کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ برٹش ایسٹ افریقہ کہلاتے تھے ٹانگا نیکا اور زنجبار کا اپریل ۱۹۶۴ء میں الحاق ہو گیا اور دونوں مل کر جمہوریہ تنزانیہ کے نام سے موسوم ہوئے۔

کینیا کے علاقے میں احمدیت کے نفوذ اور اس کی ترقی کا سفر تقر یباً ۱۲۸ سال کے عرصے پر محیط ہے۔کینیا اور اس کے پڑوسی ممالک میں احمدیت کا پیغام اس وقت پہنچا جب یہ برٹش ایسٹ افریقہ کہلاتے تھے۔بلا شبہ براعظم افریقہ دنیا کے ان خوش قسمت علاقوں میں سے ہے جہاں سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام آپؑ کے حین حیات آپؑ کے صحابہ کرامؓ کے ذریعے پہنچا اور ایک فعال جماعت بھی بن گئی۔ ایسٹ افریقہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ صحابہ کرام ؓکو دعوت حق کی توفیق ملی اور ان کے علاوہ ۴۸ وہ خوش قسمت احباب تھے جنہیں یہاں سے بذریعہ خط مسیح پاک علیہ السلام کی بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔

جب ۱۸۹۵ء میں برطانوی دور حکومت میں یوگنڈا ریلوے کا عظیم منصوبہ شروع ہوا تو اس کی تعمیر و تکمیل کے لیے مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو بر صغیر سے بھرتی کر کے یہاں لایا گیا۔ ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ بھی شامل تھے چنانچہ ۱۸۹۶ء کے اوائل میں حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ، حضرت میاں محمد عبداللہ صاحبؓ اور حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ ریلوے میں بھرتی ہو کر کینیا کی بندر گاہ ممباسہ پہنچے۔ان کے کچھ ہی عرصہ بعد حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب ؓگوڑیالوی ملٹری میں بھرتی ہو کر اور حضرت شیخ محمد بخش صاحبؓ ساکن کڑیانوالا، حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ جالندھری، حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ، حضرت حافظ محمد اسحاق صاحبؓ بھیروی اور ان کے بھائی حضرت میاں قطب الدین صاحبؓ بھی یوگنڈا ریلوے کے ملازم کی حیثیت سے ممباسہ وارد ہوئے اور اس طرح کینیا ( مشرقی افریقہ ) میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعےجماعت کی داغ بیل پڑی۔الحمدللہ علی ذالک

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button