اللّہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل پیرا ہونا ہی اس دور میں اصل قربانی ہے (لجنہ یوکے کے اجتماع سے حضورِ انور کا خطاب)
٭… لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ولولہ انگیز اختتامی خطاب
٭…جوبلی تب ہی مفید ہو گی جب کہ آپ کی سوفیصد تعداد اسلام پر مکمل عمل پیرا ہو گی
٭… ۶ ہزار ۷۶۸ لجنات و ناصرات کی اجتماع میں شمولیت
امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حدیقۃ المہدی سے قریباً دو میل دور Old Park Farm، واقع Sickles Lane, Kingsley میں منعقد ہونے والے لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع (منعقدہ ۲۲ تا۲۴؍ستمبر۲۰۲۳ء) کے اختتامی اجلاس میں بنفسِ نفیس رونق افروز ہوئے اورانگریزی زبان میں بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمایا۔ یہ خطاب ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے توسّط سے پوری دنیا میں براہِ راست سنا اور دیکھا گیا۔ یاد رہے کہ امسال دنیا بھر میں لجنہ اماءاللہ کے قیام پر سو سال مکمل ہونے پر لجنہ اماء اللہ کی مجالس اپنی صد سالہ جوبلی کی تقریبات کا انعقاد کر رہی ہیں۔
حضور پُرنور چار بج کر چودہ منٹ پر اجتماع گاہ میں تشریف لائے۔ کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعد کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ محترمہ ثمینہ عارف صاحبہ نے سورۃ المؤمنون کی پہلی بارہ آیات کی تلاوت اور ان کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں تمام حاضرات نے اپنے امام امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں لجنہ اماءاللہ کا عہد دہرایا۔
عہد کے بعد محترمہ فریحہ سوسن صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے منظوم کلام بعنوان ’’محمود کی آمین‘‘ میں سے بعض اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔
بعد ازاں ڈاکٹر فریحہ خان صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ برطانیہ نے اجتماع کی رپورٹ پیش کی۔
رپورٹ اجتماع از صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ یوکے
محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ یوکے نے کہا کہ خاکسار لجنہ اماء اللہ یوکے کی طرف سے حضور انور کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہے کہ حضور انور نے ہم پر نہایت شفقت فرماتے ہوئے ہمارے اجتماع کو رونق بخشی۔
یہ سال خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہم امسال لجنہ اماء اللہ کی صد سالہ جوبلی منا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں لجنہ اماء اللہ یوکے نے سال بھر مختلف پروگرامز منعقد کیے۔ اس سال کے دوران ملک بھر میں لجنہ ممبرات نے ۹۰ ہزار سے زائد درخت لگائے جن میں سے ۳۰ ہزار سے زائد درخت Midlands ریجن نے لگائے۔۱۴۲ مقامی تبلیغی پروگرامز اور ایک نیشنل پیس سمپوزیم کا بھی انعقاد ہوا۔ صد سالہ جوبلی کے تشکر کے سلسلہ میں لجنہ اماء اللہ یوکے ملک سیرالیون میں ایک Maternity ہسپتال بنانے کی توفیق پارہی ہے، جس کا نام حضور انور نے عائشہ Maternity ہسپتال رکھا ہے۔ شعبہ اشاعت کو امسال مختلف کتب جیسے لجنہ اماء اللہ کے مقاصد، لجنہ اماء اللہ کی پہلی ۱۴ ممبرات، لجنہ اماء اللہ کی تاریخ اور حضورِانور کے لجنہ اماء اللہ سے خطابات کا مجموعہ شائع کرنے کی توفیق ملی۔
امسال اجتماع کا مرکزی موضوع ’صد سالہ جوبلی لجنہ اماء اللہ‘ تھا۔ اس موضوع سے متعلقہ مختلف تقاریر اور پریزنٹیشنز پیش کی گئیں۔ ایک خصوصی پریزنٹیشن ’لجنہ اماء اللہ کی افریقہ، عرب دنیا اور بنگلہ دیش میں کاوشیں اور کا رنامے‘ کے موضوع پر بھی پیش کی گئی۔ اجتماع پر صد سالہ جوبلی سے متعلق ایک نمائش بھی لگائی گئی۔ تعلیمی میدان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والی لجنہ طالبات میں انعامات تقسیم کیے گئے ۔ اسی طرح بہترین کارکردگی پیش کرنے والی مجالس میں بھی انعامات تقسیم کیے گئے جن کے نام درج ذیل ہیں: ومبلڈن ساؤتھ (Wimbledon South)، ساؤتھ میڈ (Southmead)، وانڈزورتھ (Wandsworth) اور رچمنڈ پارک (Richmond Park)
صدر صاحبہ نے ناظمہ اعلیٰ اجتماع مکرمہ نادیہ سہیل صاحبہ اور تمام ڈیوٹی دینے والی لجنہ ممبرات کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ نیز جماعت یوکے، مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے خصوصی تعاون اور ان کی مدد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
آخر پر آپ نے اس بات کا ذکر کیا کہ ہم حضور انور کے بے حد مشکور ہیں کہ حضورِانور ہماری ہر وقت راہنمائی فرماتے ہیں۔ آپ نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی کہ لجنہ اماءاللہ حضور انور کی منشا کے مطابق خدمت کرنے کی توفیق پاتی رہے۔ آمین
رپورٹ کے اختتام پر اجتماع کی جھلکیوں پر مشتمل ایک مختصر ویڈیو دکھائی گئی۔
چار بج کر چھتیس منٹ پر حضور انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور خطاب کا آغاز فرمایا۔
خلاصہ خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ
تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امسال لجنہ اماء اللہ اپنے قیام کے سو سال پورے کررہی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۲۲ء،۱۹۲۳ء میں اس کی بنیاد قادیان میں رکھی تھی۔ ابتدا میں صرف قادیان میں مقیم چند خواتین اس کی ممبر تھیں اور آج دنیا بھر میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیمیں قائم ہوچکی ہیں۔ جہاں یہ خوشی اور مسرت کے اظہار کا موقع ہے وہیں یہ ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلانے کا موقع بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خوشنودی کے جذبات خدا تعالیٰ کے حضور شکرانے کے رنگ میں پیش کریں۔ حقیقی خوشی کا اظہار تو یہ ہے کہ اس تنظیم کی ممبرات ان مقاصد کو پورا کرنے والی ہوں جن مقاصد کے حصول کے لیے اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بہت سے مواقع پر لجنہ اماءاللہ سے متعلق اپنی امیدوں کا اظہار فرمایا ہے کہ حضور رضی اللہ عنہ لجنہ کی تنظیم کی ممبرات کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے۔ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق دین کی خدمت اور نیکیاں بجالانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں۔ تعلق باللہ کے ذیل میں جہاں خدا تعالیٰ نے مرد کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں وہیں یہ حکم عورت کو بھی دیا گیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اپنے گھر کی دیکھ بھال اور خاندان کی فلاح و بہبود کے لیے عورت کا ایک عظیم الشان کردار ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ احمدی خواتین نے معاشرے کی اصلاح میں بڑا اہم کردار ادا کرنا ہے۔ یوں معاشرے کی اصلاح کی کوشش کرنا تبلیغ کا ایک اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔ پس احمدی خواتین کو یاد رکھنا چاہیے کہ تبلیغ اسلام صرف مردوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اصولی ارشادات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اسلام کی تعلیمات کا پرچار کرنا عورتوں کا بھی فرض ہے۔ دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی خوبصورت تعلیم کا اظہار کرنا آج احمدی خواتین کا فرض ہے۔
آج کے دور میں جہاں عورتوں کے حقوق کا بڑا چرچا ہے، یہ احمدی خواتین کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں عورت کے حقیقی مقام کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے عملی نمونوں سے اس کا اظہار کریں۔
روحانی ترقی کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لجنہ اماء اللہ کے لیے جو اہداف مقرر فرمائے تھے اب انہیں سو سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ آج مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایک خطاب کی روشنی میں وہی باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دینی فرائض کی انجام دہی میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے عورت اور مرد کو بطور زوج کے پیدا کیا ہے، یعنی یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور یوں ان دونوں کے فرائض و ذمہ داریاں ایک جیسی ہیں۔ ہاں! یہ درست ہے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ یعنی مرد تو گھر کی مالی ضروریات پوری کرنے کا مکلف ہے اور عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھر کی دیکھ بھال کرے اور بچوں کی عمدہ تربیت کرے۔
اسلام کے نزدیک جذبات اور احساسات میں مرد اور عورت برابر ہیں اور اسلام دونوں کے جذبات اور احساسات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ اسلام نے دونوں کو مساوی حقوق دیے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ساتھی عورتوں نے بہادری اور شجاعت کی جو مثالیں قائم کیں، ویسا نمونہ مرد بھی نہ دکھا سکے۔ آج مسیحی عورتیں ان مثالوں پر بجاطور پر فخر کرتی ہیں۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِمبارک میں مسلمان عورتوں کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مسلمان عورتوں نے قربانیوں کی وہ مثالیں قائم کیں جن کی نظیر پیش کرنے سے دنیا آج بھی قاصر ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر بےانتہا مظالم ڈھائے گئے۔ ان مظالم کو برداشت کرنے میں مسلمان غلام مردوں اور عورتوں نے استقامت کے وہ اعلیٰ نمونے دکھائے کہ جن کے تصور سے بھی انسان کانپ اٹھتا ہے۔ تپتی ریت پر انہیں ننگے بدن لٹایا جاتا، انتہائی بےدردی کے ساتھ انہیں اس ریت پر گھسیٹا جاتا، جسم کے ہر ہر حصے پرتشدد کیا جاتا، ان کی آنکھیں سوج جاتیں، جسم کے ہر حصے پر تشدد کے نشان نظر آتے۔ ایک مرتبہ ایسا ہی تشدّد کیا جا رہا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے۔ بےرحم مالک نے اس نہتے مظلوم غلام پر تشدد کرتے ہوئے تقاضا کیا کہ مجبور غلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا انکار کرے۔ مگر اس غلام نے اپنے ظالم مالک کی یہ بات ماننے سے صاف انکار کردیا۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بڑے درد کے ساتھ فرمایا کہ صبر کرو! صبر کے نتیجے میں تمہیں جنت میں اعلیٰ گھر دیا جائے گا۔ انہی مظالم کو برداشت کرتے کرتے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا شہید ہوگئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا اسلام کی پہلی شہید خاتون تھیں۔ ان مظالم کے پیشِ نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دی۔ ایک عورت جب ہجرت کرکے جارہی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے انہوں نے اس سے ہجرت کی وجہ پوچھی۔ اس صحابیہ نے انتہائی درد سے اپنے تکلیف دہ حالات بیان کیے اور کہا کہ اب ہم اہلِ مکہ کے مزید مظالم برداشت نہیں کرسکتے اس لیے اپنا گھر بار اور شہر چھوڑ کر یہاں سے جارہے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل غمگین ہوگیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے نمناک آنکھوں کے ساتھ اس بہادر خاتون کو رخصت کیا۔ پس قرون اولیٰ کے مسلمان ایسے تھے کہ جنہوں نے اسلام کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دیں اور کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ آج آپ میں سے بھی بہت سی ایسی خواتین ہیں جنہیں خود یا ان کے بڑوں کو دین کی خاطر اپنے وطن سے بےوطن ہونا پڑا۔ آج احمدیوں پر بھی ہر طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں لیکن ایسے میں آپ کو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ ان ممالک میں آکر جہاں مذہبی آزادی میسر ہے کیا آپ دین کو دنیا پر مقدم کر رہی ہیں یا نہیں؟ کیا آپ ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے بعض یہ سوچیں کہ اس دور میں قربانی سے کیا مراد ہے؟ تو یاد رکھیں! اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل پیرا ہونا ہی اس دور میں اصل قربانی ہے۔ پانچ وقت کی نمازیں پڑھنا، قرآن کریم کی تعلیم پرعمل کرنا اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہی قربانی ہے۔ آج کے ماحول میں نام نہاد آزادی کے علمبردار لوگ گمراہی کی راہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آنے والی نسلوں کے لیے ان کے یہ عمل انتہائی خطرناک ہیں۔ پس اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنا اوراُنہیں اچھے برے کی تمیز سکھانا ہی بہت بڑا چیلنج ہے جو احمدی خواتین کو درپیش ہے اورآپ کو اس چیلنج سے نبرد آزما ہونا ہے۔
قرونِ اولیٰ کا ایک اَور واقعہ بیان کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت عمرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قتل کرنے نکلے توکسی نے انہیں اپنی بہن کے اسلام قبول کرنے کا بتایا تو وہ سیدھے اپنی بہن کے گھرگئے جہاں انہیں پتا لگا کہ ان کے بہنوئی قرآن کی تلاوت کررہے تھے تب حضرت عمرؓ انتہائی غصے میں اپنے بہنوئی پر حملہ کرنے کے لیے بڑھے تو آپؓ کی بہن نے اپنے شوہر کو دلیری سے بچایا اور حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اگر تم نے قتل کرنا ہے تو کردو۔ حضرت عمرؓ ان کی اس بات سے انتہائی حیرت زدہ اور شرمندہ ہوگئے۔ پھر پوچھا کہ مجھے بھی بتاؤ کہ تم کیا پڑھ رہے تھے۔ آپؓ کی بہن نے کہا کہ پہلےغسل کریں۔ پھر آپؓ نے غسل کرنے کے بعد جب قرآن کریم پڑھا تو اس کے خوبصورت الفاظ آپؓ کے دل میں جاگزیں ہوگئےاورآپؓ کا دل یکسر تبدیل ہوگیا جس کے نتیجے میں آپؓ جیسے جید صحابی نے اسلام قبول کیا۔
ایک مرتبہ مدینہ سے ایک وفد آیا جس میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر آمادہ کرنے آئی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےاس خاتون کی درخواست کو قبول کرکے مدینہ ہجرت کا فیصلہ فرمایا۔ اسلام کا شدید دشمن ابوجہل جب حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی حضرت عائشہؓ کے پاس آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ اور غصے میں آکر اُس نے آپ کو ایسی ضرب لگائی کہ آپ کی کان کی بالی گر گئی لیکن اس خطرناک صورت حال میں بھی آپ نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکرؓ کے بارے میں کچھ بتایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو آپؐ کو خوش آمدید کہنے کے لیے بچیاں خوشی کے گیت گارہی تھیں۔
پھر احد کے میدان میں بھی جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا توعورتوں نے زخمیوں کی مرہم پٹی کی۔ اُن عورتوں کو اپنے پیاروں کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر تھی۔ یہ اُن عورتوں کی مثال تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ثبوت تھیں، جو ہر قسم کی قربانی کو اعلیٰ معیار تک لے گئی تھیں۔ سنہرے الفاظ میں ان کا نام لکھا جائے گا کہ کس طرح انہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دیں۔
آج کے دور میں بھی ہر احمدی عورت کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیےکہ کیا ان میں بھی وہی جذبہ ہے؟ وہی تقویٰ ہے؟ ان کی روحانیت کے بھی وہی معیار ہیں؟ عبادات کے بھی وہی معیار ہیں؟ کیا وہ اپنے فرائض اُسی طرح ادا کررہی ہیں جس طرح قرونِ اولیٰ کی عورتوں نے قربانیاں دیں اور اپنے فرائض ادا کیے۔ جرمنی کے جلسے میں بھی مَیں نے یہ مثالیں دی تھیں۔ یہ وہ عورتیں تھیں جن کی زندگیاں جہالت سے نکل کر نور سے بھر گئیں اوراس کی وجہ محض خدا تعالیٰ کے احکامات اور اسلامی تعلیمات پرعمل کرنا تھا۔
قرآن کریم جہاں مومن مردوں کی بات کرتا ہے وہیں مومن عورتوں کی بھی بات کرتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دور میں بھی اگراحمدی عورتیں آگے آئیں تو احمدیت بہت تیزی سے ترقی کرے گی۔ پس اپنے دین کو دوسروں تک پہنچائیں۔ آنے والی نسلوں کی بہترین تربیت کریں۔ دوسری عورتوں کو تبلیغ کرنے کے بہت دور رس نتائج ہوں گے۔ اپنے دینی علم کو بڑھائیں۔ آج علم اور دعا ہی دو ہتھیار ہیں جو اسلام کو پھیلانے میں مددگار ہوں گےاس لیےقرون اولیٰ کی عورتوں نے تقویٰ اور طہارت کے جو اعلیٰ نمونے قائم کردیے ہیں ان نمونوں کو دیکھیں اوران پرعمل کریں۔
آج کے دور میں ہمارے مخالفین ختم نبوت کا سوال اُٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے۔ پس اپنے عمل سے، اپنے علم سے اور اپنے نمونوں سے ان مخالفین کو جواب دینا ہے۔ دور اول کی خواتین مبارکہ میں حضرت عائشہؓ کا ذکر ہے کہ جب ختم نبوت کا مسئلہ اٹھا تو آپ نے اس کا ایسے دفاع کیا کہ بغیر کسی خوف کے یہ اعلان کیا کہ تم یہ تو کہو کہ حضورﷺ خاتم النبیین ہیں مگر یہ مت کہو کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
ایسے ہی حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مثال دی ہے کہ حضرت سید احمد شہید بریلوی جب ایک مرتبہ سفر حج پر جا رہے تھے تو اس وقت ایک سو خواتین بھی آپ نے دیکھیں جو کہ حج پر جارہی تھیں اورانہوں نے اسلامی تعلیم کے عین مطابق اپنے چہرہ کو پردہ کی غرض سے ڈھانکا ہوا تھا لیکن جب یہ خواتین مکہ پہنچ کر طواف کرنے لگیں تو چہرہ پر بدستورپردہ تھا اس پر آپ نےان کو توجہ دلائی کہ جو اسلام اول چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیتا ہے وہی اسلام دورانِ حج چہرہ پر پردہ کرنے کی ممانعت کرتا ہے اس پر ان عورتوں نے سن کر فوراً چہرہ سے پردہ ہٹا لیا۔ یہ ایک مثال ہے کہ آپ نے ایسے اطاعت کے ساتھ اسلام پر عمل کرنا ہے۔
آپ سو سالہ تقریبات پر چالیس یا پچاس فیصد لجنہ کا اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہو جانے پر مطمئن نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ جوبلی تب ہی مفید ہو گی جب کہ آپ کی سوفیصد تعداد اسلام پر مکمل عمل پیرا ہو گی۔ تب ہی آپ اصل جشن منا رہی ہوں گی اورتب ہی آپ کامیابی سے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو محفوظ کر رہی ہوں گی۔
اپنے دین پر عمل کرنے میں کبھی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔ چاہے آپ کا شوہر ہی آپ کو اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہونے سے روک رہاہو تو آپ نے بغیر سمجھوتے کے دین پرعمل کرنا ہے۔ تب ہی آپ اپنے خاوندوں کی بھی اوراپنی اگلی نسلوں کی بھی ٹھیک تربیت کرنے والی ہوں گی اور تبھی آپ اسلام اور احمدیت کی حقیقی ترویج کر رہی ہوں گی۔
اب اجتماع کے اختتام پر جب آپ واپس جا رہی ہیں توآپ نے تمام باتوں پرعمل کرنا ہے اور اب یہ جو نئی صدی کا باب کھل رہا ہے تو اللہ کرے کہ لجنہ کی آئندہ صدی میں آپ کو دور اول کی خواتین کی طرح نمونہ کے طور پر پیش کیا جائے کہ یہ احمدی خواتین ہیں جنہوں نے خدا اور اس کے رسول اور دین کی خاطر قربانی کرکے اسلام اور احمدیت کو دنیا میں ترقی دینے میں عظیم الشان کردار ادا کیا ہے۔
حضور انور کا خطاب تقریباً سوا پانچ بجے تک جاری رہا۔ خطاب کے اختتام پر حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور نے اجتماع کی حاضری کا اعلان فرمایا جو امسال ۶ہزار ۷۶۸؍ تھی۔ بعد ازاں مختلف گروپس کی صورت میں عربی، اردو اور افریقی زبان میں ترانے پیش کیے گئے۔ اس کے بعد حضور انور اجتماع گاہ سے تشریف لے گئے۔
سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ۲۰۲۳ء کی مختصر رپورٹ
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس سال لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ یوکے کا سالانہ نیشنل اجتماع ایک بار پھر اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ منعقد ہوا۔ یہ سہ روزہ اجتماع مورخہ ۲۲ تا ۲۴؍ ستمبر ۲۰۲۳ء کو اولڈ پارک فارم، کنگزلے کے خوبصورت مقام پر منعقد کیاگیا۔
اجتماع کا آغاز مورخہ ۲۲؍ ستمبر ۲۰۲۳ء بروز جمعۃ المبارک کی سہ پہر حضورِ انور ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ سننے کے بعد ہوا۔ سہ پہر پونے چار بجے اجتماع کے پہلے اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا اور پھر صدر صاحبہ کے ساتھ لجنہ کا عہد دہرایا گیا۔ اس کے بعد مقابلہ تلاوت قرآن کریم کا انعقاد ہوا۔ سب ریجنز سے آئی ہوئی لجنات نے نہایت خوش الحانی سے مقررہ آیات کی تلاوت کی۔
امسال اجتماع کا موضوع ’لجنہ اماءاللہ کے سو سال‘ تھا،جس کے تحت لجنہ اماء اللہ نے اپنی تنظیم پر خدا تعالیٰ کے ان گنت احسانات کی یاد تازہ کی۔ اجتماع کے دوران مقررات نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے تحقیق پر مبنی پریزنٹیشنز تیار کیں جن کے عناوین درج ذیل ہیں: لجنہ اماءاللہ کی تاریخ، لجنہ مالی قربانیوں میں سب سے آگے، لجنہ اماء اللہ کے اغراض و مقاصد اور خلافت نے لجنہ کو کس طرح بااختیار بنایا ہے۔ اسی طرح مختلف پریزنٹیشنز کے ذریعے بین الاقوامی لجنہ کی کاوشوں اور ہمارے مبارک اور منفرد DIVERSITY کےسفر کو بھی اجاگر کیا گیا۔
اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تقریر، شاعری اور نظم کے مقابلوں کا بھی انعقاد کیا گیا اور ساتھ ساتھ تقریباتِ تقسیم انعامات منعقد کی جاتی رہیں۔ سال کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی مجالس کو بھی صدر لجنہ اماء اللہ برطانیہ کی جانب سے ایوارڈز سے نوازا گیا۔
جماعت احمدیہ کی روایت کے مطابق احمدی طالبات کو ان کے متعلقہ شعبوں میں غیر معمولی کامیابیوں کے اعتراف میں تعلیمی کارکردگی کے اعزازات سے نوازا گیا۔ ان طالبات کے ناموں کا اعلان امسال کے جلسہ سالانہ میں کیا گیا تھا۔
اجتماع کے انتظامات جلسہ سالانہ کی طرز پر کئے گئے تھے۔ استقبالیہ سے نکلتے ہی اجتماع گاہ کی وسیع و عریض مارکی تھی۔ اسی طرح کھانے اور رہائش گاہ، نمائش، لیکچرز اور مقابلہ جات کی مارکیاں بھی تھیں۔ نیز ناصرات کے لیے fun fair اور لجنہ کے لیے بازار کا انتظام بھی تھا۔
اس مرتبہ ایک بار پھر مختلف اقسام کی مارکیاں اس مقصد کے تحت لگائی گئی تھیں تاکہ لجنہ مختلف مقابلوں کے ساتھ ساتھ اپنے ذوق کے مطابق تعلیمی اور تربیتی پروگراموں میں بھی حصہ لے سکیں۔
شعبہ تبلیغ کی توجہ لجنہ کی حاصل کردہ کامیابیوں پر تھی۔ انہوں نے اس طرف بھی توجہ مبذول کروائی کہ کس طرح لجنہ نے دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
AMRA ایک ایسی تنظیم ہے جو خواہش مند محققین کی مدد اور حوصلہ افزائی کرکے اور قرآنی علوم سے بہرہ مند ہونے کی کوششوں میں شامل کرکے ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ ان کی عمدہ پریزنٹیشنز قرآن کریم کو تمام علوم کی بنیاد اور مبدء تسلیم کرنے کے دلائل پر مبنی تھیں۔ مزید برآں یہاں لجنہ روحانی، جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ سماجی اور فلاحی علوم سے متعلق مختلف موضوعات پر مضامین کے ماہرین کی طرف سے منعقد کی جانے والی انٹرایکٹو گفتگو سے بھی مستفید ہوئیں۔
شعبہ امورِ طالبات کے تحت ’احمدیہ مسلم ویمن اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ کے زیر اہتمام سارا وقت مختلف ڈسکشنز منعقد ہوئیں جن میں موازنۂ مذاہب، طب، سیاست، بین الاقوامی تعلقات، بزنس مینیجمنٹ، ٹی وی اینڈ ڈیجیٹل پروڈکشنز، فرانزک سائنسز، اینتھروپولوجی اور آرکیالوجی شامل ہیں۔
اسی طرح طالبات کے لیے Meet & Greet سیشن بھی منعقد کیے گئے۔ ’پرسنل اسٹیٹمنٹ‘ کے موضوع پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں بہت سی اے لیول کی طالبات نے اپنی اسٹیٹمنٹس بہتر بنانے کے طریقوں کے بارے میں مشورہ حاصل کیا۔
13 سے 15 سال کی عمر کی ناصرات کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا جن کے بارہ میں بہت مثبت آرا موصول ہوئیں کیونکہ موضوعات خاص طور پر ان کے مخصوص خدشات مثلاً ’یونی لائف کے پہلوؤں سے روشناسی‘ اور ’امتحانات کے تناؤ سے نمٹنا‘ جیسے موضوعات پر مشتمل تھے۔
اجتما ع کا بازار صرف دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران اور سیشن کے اختتام پر کھلا رہتا تھا جہاں مختلف قسم کی اشیائے خورونوش موجود تھیں۔نمائش مارکی لجنہ اماءاللہ کی علم دوستی اور فنی مہارت کا ایک حسین امتزاج پیش کر رہی تھی۔ یوکے کے تمام ریجنز نے خصوصی طور پر لجنہ کی صد سالہ پُر وقار تاریخ کے چنیدہ حصوں کو لحافوں کے غلافوں کی صورت میں یوں آویزاں کیا کہ دیکھنے والے مسحور ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
اللہ کے فضل و کرم سے ناصرات نے تعلیمی مقابلوں اور Indoor Learning کے ساتھ ساتھ سائٹ پر تفریحی میلے کے پروگرام کا بھی لطف اٹھایا جس میں ایک دیو قامت Twister، سومو سوٹ اور بنجی رننگ سب کی توجہ کا مرکز تھیں۔ناصرات کے fun fair میں سات سال سےکم سن بچوں کے لیے خصوصی انتظام بھی تھا۔
SEND مارکی میں موجود سہولیات اور وسائل ہمہ وقت اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ متفرق استعداد کی حامل لجنہ اور ناصرات بھی اجتماع میں بھرپور شرکت کا لطف لیں۔
امسال اشاعت کے زیر اہتمام بک سٹال پر کئی مفید کتب کا اضافہ دیکھنے کو ملا جس میں سب سے قابلِ ذکر پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے لجنہ سے خطابات کا مجموعہ ’الازہار لذوات الخمار‘ کی نئی جلد ہے۔
ہفتے کی سہ پہرمحترمہ ڈاکٹر فریحہ خان صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ برطانیہ نے لجنہ سے خطاب کیا جس میں انہوں نے متعدد پہلوؤں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ ہماری بچیوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اسلام نے ہی دنیا میں عورت کا صحیح اور باعزت مقام قائم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نوجوان نسل کو سلسلہ کی تعلیمات سے مکمل آگاہی حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے عمل و کردار میں خلافت کی حقیقی سلطانِ نصیر بن سکیں۔ صدرصاحبہ نے بارہا اس نکتہ پر زور دیا کہ لجنہ کی بنیادی ذمہ داری اپنے اور اپنی اولادوں کے لیے تقویٰ کا حصول ہے۔
ادارہ الفضل انٹرنیشنل محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ یوکے، انتظامیہ اجتماع اور ممبرات لجنہ اماء اللہ کو صدسالہ جوبلی لجنہ اماء اللہ اور اس کامیاب اجتماع پر مبارکباد پیش کرتا ہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کے نیک اثرات مترتب فرمائے۔ آمین