جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء کے پہلے اجلاس کی کارروائی
افتتاحی اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز مکرم مولوی محمد بن صالح صاحب امیر و مشنری انچارج گھانا کی زیر صدارت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ حافظ احتشام صاحب کو سورۃ الفتح کی آیات ۲۹تا۳۰کی تلاوت کرنے کی سعادت ملی۔ سجیل احمد صاحب نے ان آیات کا جرمن ترجمہ اور پھر سید حسن طاہر بخاری صاحب نے اردو ترجمہ از تفسیر صغیر پیش کیا۔ بعد ازاں مصور احمد صاحب نےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا:
یہ کیا اِحساں ترا ہے بندہ پرور
کروں کس منہ سے شکر اے میرے داور
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم صداقت احمد صاحب (مبلغ انچارج و نائب امیر جماعت احمدیہ جرمنی)نےکی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’صد سالہ جوبلی جماعت احمدیہ جرمنی۔ الٰہی افضال سے بھر پور ماضی اور روشن مستقبل‘‘تھا۔ یہ تقریر اردو زبان میں تھی۔اس تقریر کا مکمل متن الفضل کے کسی آئندہ شمارے میں شائع کیا جائے گا۔
مکرم شیراز احمد رانا صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام
صدق سے میری طرف آئو اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم باسل اسلم صاحب نے جرمن زبان میں کی جس کا موضوع ’’حضرت مسیح موعودؑ کےذریعہ: روحانی خزائن کی تقسیم‘‘ تھا۔
مقرر نے سورة الجمعہ کی آیات ۳-۴ کی تلاوت و ترجمہ پیش کیا اور کہا کہ اگر ہم خزانوں کے بارے بات کرتے ہیں تو مال، دولت، املاک یا پھر علم اور تعلیم جیسے الفاظ ذہن میں آتے ہیں۔ نیز بعض ایسے بھی ہوں گے جن کے نزدیک معاشرتی اثر و رسوخ اور اقتدار ایک خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے بھی افراد ہیں جو اپنے خاندان اور انسانوں کے باہمی تعلقات کو اپنا خزانہ تصور کرتے ہیں۔ غرض ہر دنیاوی و مادی خیر یا وجود جو ہے، جس کی ہم اپنی زندگی میں بہت قدر کرتے ہیں، اسے خزانہ کا نام دیا جا سکتا ہے اور دیا جاتا بھی ہے۔
مقرر نے لفظ خزانہ کے معنی بتاتے ہوئے کہا کہ خزانہ کہتے ہیں جمع کی ہوئی اشیاء، قیمتی اشیاء کا ذخیرہ یا ایسی شے، جس کی اس کے مالک کے نزدیک بڑی قدر و قیمت ہے، جسے وہ اپنی ملکیت میں رکھنا بڑی اہمیت دیتا ہے ۔
مقرر نے کہا کہ لہذا جب ہم خزانوں کی بات کرتے ہیں تو لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی میں ہمارے لیے وہ کیا ہے جو ہمارے نزدیک قیمتی ہے؟ قیمت کا معیّن کرنا خالصۃً ایک ذاتی و انفرادی شعور کے نتیجہ میں ہونے والا عمل ہے جو کہ مختلف عوامل اور بیرونی اثرات کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ نیز دیگر امور بھی اس process میں اثر انداز ہوتے ہیں جیسے اس شے کے معنے، نفع، اس سے جذباتی ربط، کلچرل اور سماجی اقدار و غیرہ۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہر چیز کی قیمت میں تبدیلی بھی آ سکتی ہے۔ جو آج قیمتی لگتا ہے، وہی کل بے معنی لگنے لگتا ہے۔ اس کے بر عکس جو آج کم اہمیت کا حامل ہو مستقبل میں اس کی قدر بڑھ بھی سکتی ہے۔ ہر انسان کی اپنی ترجیحات اور قیمت مقرر کرنے کے معیار ہیں۔
اگر ہم حضرت مسیح موعودؑ کی کتب اور ان سے منسلک ان روحانی خزانوں کے بارے میں بات کریں تو اس وقت تک ان کی قدر اور احترام سمجھ نہیں سکتے جب تک ہم آپؑ کے وجود کی اہمیت اور مسیح موعودؑ کےمقام و مرتبہ کا ادراک نہ حاصل کر لیں۔
اس کے بعد مقرر نے آپ علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں مسیح موعود کے مقام و مرتبہ کے بارے بتایا۔
مقرر نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مقام و مرتبہ کے بارے یاد رہے کہ نہ انسان نہ کوئی ادارہ نہ کوئی حکومت تھی جس نے آپ کو اس مشن کے لیے چنا بلکہ اس عالم کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی تھا جس نے آپ کو مامور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خود یہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور اس زمانے کو اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا زمانہ قرار دے دیا۔
مقرر نے سورۃ الکوثر کے حوالہ سے بتایا کہ کوثر کے مختلف معانی میں سے ایک معنی یہ ہےالرجل الکثیر العطاء والخیر یعنی ایک ایسا شخص جو بہت سخی یعنی عطا کرنے والا ہو اور نیکیوں کو کثرت سے پھیلانے والا ہو۔
حضرت مصلح موعودؓ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ سورہ کوثر میں کوثر کے لفظ سے جس بہت سخاوت کرنے والے روحانی فرزندکی خبر دی گئی ہے، اس سے مسیحِ محمدی ہی مراد لیا جائے گا۔اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے، کہ رسول کریمؐ کو ایک ایسے روحانی فرزند کی خبر دی گئی تھی جو آپ کو عطا ہونا تھا جس نے لوگوں کو بہت سا مال عطا کرنا تھا۔اسی لئے آنحضرتؐ نے آنے والے مسیح کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ وَیُفِیْضُ المَالَ حتّیٰ لا یَقْبَلَہُ اَحَد یعنی آنے والا مسیح خزانے تقسیم کرے گا، اتنی تعداد میں کہ انہیں کوئی قبول کرنے والا نہ ہو پائے گا۔
اس پیشگوئی میں مذکور الفاظ کہ “کوئی نہیں ہو گا جو انہیں قبول کر پائے گا” ہمیں واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ مسیح موعودؑ کے تقسیم کردہ خزانے دنیاوی دولتیں نہیں ہوں گی بلکہ یہ کہ آپ کا ورثہ خالصۃً روحانی و لدنّی نوعیت کا ہوگا۔ کیونکہ اگر دنیاوی دولتیں ہوتیں تو لوگ اسے کبھی رد نہ کرتے۔ مادی دولت، مالی کشائش، تعیّش کے سامان اور ایک آسودہ زندگی کی حرص آج کے دور میں کھلم کھلا نظر آتی ہے۔
پس جو خزائن حضرت مسیح موعودؑ لے کر آئے انہیں دنیاوی مال و دولت پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ قدیم سے روحانی کتب اور انبیاء کا یہ طریق چلا آیا ہے کہ روحانی معارف اور علوم کو خزانوں اور دولت کا نام دیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انبیاء اپنے پیچھے دینار اور درہم نہیں چھوڑ کر جاتے ہیں، بلکہ علم و حکمت ان کی اصل میراث ہے
مقرر نے کہا کہ جو خزائن ہمارے زمانے کے نبی حضرت مسیح موعودؑ لائے ہیں وہ ایمان کے خزانے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا حقیقی تصور، قربِ الٰہی کے راستے، ملائکہ کی حقیقت، حضرت خاتم النبیّینؐ کا حقیقی مقام و مرتبہ، عصمتِ انبیاء، حضرت عیسیٰ کی پیدائش، حالاتِ زندگی اور واقعہ صلیب، مسیح کی آمدِ ثانی، ظہورِ امام مہدی، دجالی طاقتوں کی علامتیں، یاجوج ماجوج کی حقیقت، روح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی حالتیں، حیات بعد الموت، غرض حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی ملفوظات اشتہارات اور ۸۵ سے زائد کتب میں ایک روحانی اور علمی خزانہ ہمارے لیے پیچھے چھوڑا جو انسان کی ہستی کی غرض و غایت اور بنی نوع انسان کی تاریخِ ارتقاء پر روشنی ڈالتا ہے۔ پھر حضرت آدمؑ کا واقعہ، نوحؑ اور آپ کی کشتی کا واقعہ، موسیٰؑ کی کہانی، عیسی ابن مریم کا صلیب سے زندہ بچ جانا اور ان کی کشمیر کی طرف ہجرت کو علم طب اور تاریخ کے عقلی دلائل اور قرآنی دلائل سے ثابت کیا۔
پھر حضر ت مسیح موعودؑ نے فلسفی مباحثات کے زمانے کے عین دوران خدا کا وہ تصور پیش کیا جو مغربی فلسفیوں کے خیالات کے بالکل بر عکس ہے۔ آپ نے ہر ایک فردِ واحد کو اس طرف بلایا اور تلقین فرمائی کہ اس خدا سے ایک گہرا تعلق پیدا کرے ۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ نے گناہوں کی بخشش کا مضمون بھی ہمیں سمجھا دیا۔
یہ تھیں صرف چند مثالیں ان خزانوں کی جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی تحریرات میں کھول کر رکھ دیے۔ ہر ایک تصنیف فی ذاتہٖ ایک علم کا خزانہ ہے۔ جن روحانی خزانوں کی پیشگوئی آنحضرتؐ نے پہلے سے کر دی تھی وہ درحقیقت حضرت مسیح موعودؑ کا مجموعہ تصنیفات ہے جو آپ نے ورثہ میں چھوڑا اور جو “روحانی خزائن” کے نام سے مشہور ہے۔
مقرر نے کہا کہ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم پہلوں سے ملنے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل ہونے کے لیے اپنی روحانی اور اخلاقی حالت کو بہتر بنائیں۔ آج، ان تکنیکی ترقیوں کی وجہ سے، ہم میں سے ہر ایک کے پاس ان روحانی خزانوں کو حاصل کرنے کاموقع ہے، چاہے وہ پریس کے ذریعے ہو یا ڈیجیٹل شکل میں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت جرمنی دنیا کی پہلی قوم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کا اپنی قومی زبان میں مکمل ترجمہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ صرف وہی لوگ اس جام سے حقیقی طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس کے لائق ہیں۔ اگر کوئی روحانی طور پر محروم ہے اور روحانی دنیا کا شعور نہ رکھتا ہو تو ایسا شخص اس روحانی علم کے سمندر سے جو آپؑ کی تصنیفات میں موجود ہے، بے بہرہ رہے گا۔
آپؑ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے۔
پس یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اس سلطان القلم مسیح و مہدیؑ کو ماننے کی توفیق ملی اور اس نے ہمیں ان روحانی خزائن کا وارث ٹھہرایا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان بابرکت تحریروں کا مطالعہ کریں۔ تاکہ ہمارے دل، ہمارے سینے اور ہمارے ذہن اس روشنی سے منور ہوجائیں۔ اللہ کرے ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیاں ان بابرکت تحریرات کے ذریعہ سنوار سکیں اور اپنے دلوں اور اپنے گھروں اور اپنے معاشرہ میں امن و سلامتی کے دیے جلانے والے بن سکیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین