سائل کو کسی حال میں بھی نہ جھڑکو
بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ سائل کو دیکھ کے چڑ جاتے ہیں اور کچھ مولویت کی رگ ہو تو اس کو بجائے کچھ دینے کے سوال کے مسائل سمجھانا شروع کر دیتے ہیں اور اس پر اپنی مولویت کا رعب بٹھا کر بعض اوقات سخت سست بھی کہہ بیٹھتے ہیں۔ افسوس ان لوگوں کو عقل نہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے جو ایک نیک دل اور سلیم الفطرت انسان کو ملتا ہے۔ اتنا نہیں سوچتے کہ سائل اگر باوجود صحت کے سوال کرتا ہے تو وہ خود گناہ کرتا ہے۔ اس کو کچھ دینے میں تو گناہ لازم نہیں آتا۔ بلکہ حدیث شریف میں لَوْ اَتَاکَ رَاکِبًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی خواہ سائل سوار ہو کر بھی آوے تو بھی کچھ دے دینا چاہیئے اور قرآن شریف میں وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنۡہَرۡکا ارشاد آیا ہے کہ سائل کو مت جھڑک۔ اس میں یہ کوئی صراحت نہیں کی گئی کہ فلاں قسم کے سائل کو مت جھڑک اور فلاں قسم کے سائل کو جھڑک۔ پس یاد رکھو کہ سائل کو نہ جھڑکو کیونکہ اس سے ایک قسم کی بداخلاقی کا بیج بویا جاتا ہے۔ اخلاق یہی چاہتا ہے کہ سائل پر جلد ہی ناراض نہ ہو۔ یہ شیطان کی خواہش ہے کہ وہ اس طریق سے تم کو نیکی سے محروم رکھے اور بدی کا وارث بنادے۔
غور کرو کہ ایک نیکی کرنے سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح پر ایک بدی دوسری بدی کا موجب ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک چیز دوسری کو جذب کرتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے یہ تجاذب کا مسئلہ ہر فعل میں رکھا ہوا ہے۔پس جب سائل سے نرمی کے ساتھ پیش آئے گااور اس طرح پر اخلاقی صدقہ دے دے گا تو قبض دور ہو کر دوسری نیکی بھی کر لے گا اور اس کو کچھ دے بھی دے گا۔
(ملفوظات جلد۲صفحہ۷۵-۷۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ چہل قدمی سے واپس آ کر اپنے مکان میں داخل ہو رہے تھے کسی سائل نے دُور سے سوال کیا مگر اس وقت ملنے والوں کی آوازوں میں اس سائل کی آواز گم ہو کر رہ گئی اور حضرت مسیح موعودؑ اندر چلے گئے مگر تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوں کی آوازوں سے دُور ہو جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کے کانوں میں اس سائل کی دکھ بھری آواز گونج اٹھی تو آپؑ نے باہر آ کر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اسی وقت یہاں سے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد آپؑ اندرونِ خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ پر اسی سائل کی پھر آواز آئی اور آپؑ لپک کر باہر آئے اور اس کے ہاتھ پر کچھ رقم رکھ دی اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اورمَیں نے دعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے۔‘‘
(سیرتِ طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ ۶۵)