خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍ ستمبر 2023ء

اس وقت میں ایک ایسے وجود کا ذکر کرنے لگا ہوں جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنے کی کوشش کی۔

یہ ذکر ہے مکرمہ امۃالقدوس صاحبہ کاجو حضرت ڈاکٹرمیر محمداسماعیل صاحبؓ کی بیٹی اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی صرف نیک یادیں ہوتی ہیں، جو نافع الناس ہوتے ہیں، جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عملی نمونہ ہوتے ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو خلافتِ احمدیہ سے حقیقی وفا رکھنے والے ہوتے ہیں، جو حقوق العباد کی ادائیگی کی حتی المقدور کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جن کے لیے ہر زبان سے صرف تعریفی کلمات ہی نکلتے ہیں اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان پر جنت واجب ہو جاتی ہے

حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو جب قادیان بھجوایا تو یہ بھی نصیحت فرمائی تھی کہ لجنہ کی جماعتوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ آپ وہاں جاتے ہی پہلے جنرل سیکرٹری قادیان بنیںپھر 1955ء میں صدر لجنہ مقامی اور پھر صدر لجنہ بھارت منتخب ہوئیں۔ 59ء میں لجنہ مقامی کی صدارت کے لیے کسی اَور کا انتخاب ہوا اور آپ صدر لجنہ بھارت کے طور پر کام کرتی رہیں۔ اللہ کے فضل سے 1999ء تک اس خدمت پر فائز رہیں۔ اس کے بعد اعزازی ممبر رہیں۔ اپنے عرصۂ خدمت کے دوران ہندوستان کی مجالس کے دورے بھی کیے، ان کی خدمات کا عرصہ چھیالیس سال بنتا ہے

عاجزی اور کامل وفا سے جس طرح انہوں نے خلیفة المسیح الثانیؓ سے وفا کا اظہار کیا تھا وہ تعلق جاری رہا اور مجھ سے بھی وہی تعلق قائم رہا۔ یہ ایک مثال ہے

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

قادیان کے لوگوں کو جس محبت سے انہوں نے رکھا ہےاللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ آپس میں بھی اسی محبت سے رہیں

صاحبزادی سیدہ امۃالقدوس صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ ، اہلیہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا ذکرِ خیراور نمازِ جنازہ غائب

مکرم محمد ارشد احمدی صاحب (یوکے) اور مکرم احمد جمال صاحب (امریکہ) کی وفات پر ان کا ذکر خیراور نمازِ جنازہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 15؍ستمبر 2023ء بمطابق 15؍تبوک 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو انسان بھی اس دنیامیں آیا اس نے ایک وقت گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے لیکن

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی صرف نیک یادیں ہوتی ہیں، جو نافع الناس ہوتے ہیں، جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عملی نمونہ ہوتے ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو خلافتِ احمدیہ سے حقیقی وفا رکھنے والے ہوتے ہیں، جو حقوق العباد کی ادائیگی کی حتی المقدور کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی ہمہ وقت کوشش کرنے والے ہوتے ہیں، جن کے لیے ہر زبان سے صرف تعریفی کلمات ہی نکلتے ہیں اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب ثناء الناس علی المیت حدیث 1367)

اس وقت میں ایک ایسے وجود کا ذکر کرنے لگا ہوں جس نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزارنے کی کوشش کی۔ یہ ذکر ہے

مکرمہ امۃالقدوس صاحبہ کا جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی بیٹی اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہو تھیں۔ یہ رہتی تو قادیان میں تھیں لیکن کچھ عرصہ سے ربوہ میںاپنی بیٹیوں کے پاس آئی ہوئی تھیں۔ ربوہ میں گذشتہ دنوں، چھیانوے سال کی عمر میں بقضائے الٰہی ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے9/1کی موصیہ تھیں۔ ان کی زندگی کے کچھ حالات کا ذکر کروں گا۔

1951ء کے جلسہ سالانہ کے افتتاح پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے حضرت مرزا وسیم احمد صاحب کا نکاح ان کے ساتھ پڑھا اور فرمایا کہ میں بعض حالات کی وجہ سے افتتاحِ جلسہ سے پہلے دو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک ان کا تھا، ایک حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی بیٹی کا تھا اور کہتے ہیں صرف میں دو نکاح کروں گا کیونکہ اگر میں پہلے اعلان کرتا تو پھر بہت سے نکاحوں کی درخواست آ جاتی ہے لیکن پھر جلسےکا جو یہ ماحول ہے اس میں اگر زیادہ تعداد ہو تو پھر ساری تقریر کا وقت بھی نکل جاتا ہے بہرحال اس جلسے پر آپؓ نے یہ دو نکاح پڑھے اور ان کی طرف سے وکیل ان کے چچا زاد بھائی سید داؤد احمد صاحب مقرر ہوئے اور حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس نکاح میں یہ بھی فرمایا تھا کہ عموماً میں اپنی لڑکیوں کے نکاح واقفینِ زندگی سے ہی پڑھتا ہوں۔ پیر معین الدین صاحب کے ساتھ امۃالنصیر صاحبہ کا نکاح ہوا تھا۔

(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد سوم صفحہ 650-651)

جب ان کی شادی ہوئی تو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیگم صاحبہ کی درخواست پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ رخصتانہ کے وقت لڑکی والوں کی طر ف سے شریک ہوئے تھے۔(ماخوذ از روزنامہ الفضل لاہور 26؍اکتوبر 1952ء صفحہ 3)اپنے بیٹے کی طرف سے شامل نہیں ہوئے، بارات لے کر نہیں آئے بلکہ لڑکی والوں کی طر ف سے شامل ہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کو تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ ایک بیٹی ان کی امۃالعلیم صاحبہ آجکل صدرلجنہ پاکستان ہیں، منصور احمد خان صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید کی بیگم ہیں۔ باقی دو بیٹیاں جو ہیں، ایک کیپٹن ماجد خان صاحب کی اہلیہ ہیں امۃالکریم صاحبہ، دوسری امۃالرؤوف صاحبہ ڈاکٹر ابراہیم منیب کی بیوی ہیں۔ مرزا کلیم احمد ان کے بیٹے امریکہ میں رہتے ہیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقعےپر مرزا وسیم احمد صاحب کوفرمایا تھا جبکہ آپ شادی کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے اور شادی کو ابھی چند دن ہوئے تھے اور اپنی اہلیہ کو ساتھ لے جانے کے لیے کاغذات تیار کروا رہے تھے تو جیساکہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، ان دنوں میں ایسی کھچاوٹ پیدا ہو گئی کہ

حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں کہا کہ بیوی کے کاغذات تو بنتے رہیں گے تم اس کو چھوڑو اور واپس فوری طور پر قادیان چلے جاؤ کیونکہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا کوئی فرد ہونا چاہیے۔

اور فوری طور پر سیٹ بک کرواؤ جہاز کی، اگر جہاز میں سیٹ نہیں بھی ملتی تو تمہارا فوری جانا ضروری ہے چاہے چارٹرڈ جہاز کرا کے جانا پڑے۔ آپؓ نے فرمایا کیونکہ

اگر تم وہاں نہیں ہو گے اور اپنا نمونہ پیش نہ کیا اور قربانی نہ دی تو لوگ پھر کس طرح قربانی دیں گے۔ جہاں یہ قربانی مرزا وسیم احمد صاحب کی تھی وہاں صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ کی بھی قربانی تھی۔

یہ پتہ نہیں تھا کہ کب کاغذات مکمل ہوں گے۔ حالات کشیدہ ہیں اور کہیں حالات مزید خراب نہ ہوتے جائیں لیکن خلیفۂ وقت کا حکم تھا اس لیے بڑی خوشی سے اپنے خاوند کو رخصت کیا اور دین کو دنیا پر مقدّم رکھا۔ جب حضرت مصلح موعودؓ میاں وسیم احمد صاحب کو روانہ کرنے کے لیے لاہور ایئرپورٹ پر آئے تھے تو ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے بتایا کہ جب تک جہاز نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ ایئر پورٹ پر کھڑے مسلسل جہاز کو دیکھتے رہے اور دعائیں کرتے رہے پھر جب شادی کے ایک سال کے بعد ان کے کاغذات مکمل ہو گئے تو کہتی ہیں

مَیں قادیان جانے لگی تو حضرت مصلح موعودؓ نے خاص طور پر مجھے ہدایت کی تھی کہ اُمّ ناصر کے مکان میں رہنا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کثرت سے قدم پڑے ہیں اور ان کے صحن میں حضورؑ نے درس بھی دیا ہوا ہے۔

(ماخوذ از خطبات مسرور جلد5صفحہ180-181، 184-185)

صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ نے قادیان جا کر جماعت کی خواتین کو،عورتوں کو اکٹھا کرنے میں، آرگنائز (organise)کرنے میں، درویشوں کے بیوی بچوں سے ہمدردیاں کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اور ان کی وجہ سے وہاں کی عورتوں کو بڑی تسلی ہوتی تھی۔ بےشمار خطوط مجھے اس بارے میں وہاں کے درویشوں کی بیویوں کے یا بیٹیوں کے آئے ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے لندن پہنچنے کے بعد پہلا خطبہ جمعہ 4؍مئی 84ء میں دیا اور دنیا کے احمدیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللّٰهِ کہہ کر پکارا اور اشاعت اسلام کے لیے ایک وسیع پروگرام کا اعلان کیا۔(ماخوذ از خطباتِ طاہر جلد 3صفحہ 232-233 خطبہ 4؍مئی 1984ء)اور یہ بھی فرمایا کہ ان اغراض کو پورا کرنے کے لیے ایک بڑے کمپلیکس کی ضرورت ہے۔ دو نئے مراکز یورپ کے لیے بنانے کا پروگرام ہے، ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ روپیہ اپنے فضل سے مہیا کرے گا۔(ماخوذ از خطباتِ طاہر جلد 3صفحہ 264تا 266 خطبہ 18؍مئی 1984ء)اور لوگوں کو تحریک کی کہ اس میں شامل ہوں۔

چنانچہ قادیان کی لجنہ نے ایک مرتبہ پھر والہانہ لبیک کہا اور صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ جو صدر لجنہ بھارت تھیں انہوں نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماء اللہ بھارت نے حضورؓ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور زیور اور نقدی، جس کے پاس جو کچھ تھا پیش کر دیا ہے۔ خود انہوں نے بھی اپنا سارے کا سارا زیور پیش کر دیا۔ لجنہ بھارت کی طرف سے پہلے قادیان کی لجنہ کے وعدہ جات حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکی خدمت میں بھجوائے گئے۔ اس پر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے 10؍اگست 84ء کے خطبہ جمعہ میں قادیان کی لجنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’قادیان کی لجنات کے متعلق مجھے ایک رپورٹ ملی ہے اور اس کا مجھے انتظار تھا کیونکہ جب تحریکِ جدید کی قربانیوں کا آغاز ہوا تھا تو قادیان کی مستورات کو غیر معمولی قربانی کے مظاہرہ کی توفیق ملی تھی۔ اب تو بہت تھوڑی خواتین وہاں رہ گئی ہیں لیکن جتنی بھی ہیں مجھے انتظار تھا کہ ان کے متعلق بھی اطلاع ملے کیونکہ ان کا حق ہے کہ وہ قربانی کے میدان میں آگے رہیں اور قادیان کا نام جس طرح اس زمانے میں خواتین نے اونچا کیا تھا آج پھر اسے اونچا کریں تو الحمدللہ کہ وہاں کی رپورٹ بھی موصول ہوئی ہے۔ صدر لجنہ اماء اللہ بھارت اطلاع دیتی ہیں کہ میں نے قادیان کی لجنہ اور ناصرات کے وعدے نئے مراکز کے لئے حضور کی خدمت میں ۱۶؍جولائی کو لکھے تھے۔‘‘ انہوں نے لکھا کہ ’’حضور کے خطبات نے ایک تڑپ یہاں کی عورتوں میں پیدا کر دی اور محض اللہ کے فضل سے جو کچھ ان کے پاس تھا انہوں نے پیش کر دیا ہے لیکن پیاس ہے کہ ابھی نہیں بجھی۔ اتنی شدید تڑپ ابھی ہے کہ اَور ہو تو خدا کے کاموں کے لئے اَور بھی پیش کر دیں۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد 3صفحہ 434 خطبہ جمعہ 10؍اگست 1984ء)

یہ خط صاحبزادی امۃالقدوس کا خلیفة المسیح الرابع ؒکو تھا۔ 1991ء میں جب حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ ہندوستان تشریف لے گئے، قادیان تشریف لے گئے تو آپؒ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہندوستان کی لجنات میں سب کے متعلق تو مَیں نہیں کہہ سکتا لیکن قادیان کی لجنہ کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ مالی قربانی میں یہ بےمثل نمونے دکھانے والی ہے۔ قادیان کی جماعت ایک بہت غریب جماعت ہے لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کوئی تحریک کی جائے یہاں کی خواتین اور بچیاں ایسے ولولے اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیتی ہیں کہ بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کو روک دوں کہ بس کرو، تم میں اتنی استطاعت نہیں ہے اور واقعةً مجھے خوشی کے ساتھ ان کا فکر بھی لاحق ہو جاتا ہے لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں کیں وہ جانتا ہے کہ کس طرح ان کو بڑھ چڑھ کر عطا کرنا ہے۔ وہی اللہ اپنے فضل کے ساتھ ان کے مستقبل کو دین اور دنیا کی دولتوں سے بھر دے گا۔

پھر آپؒ نے فرمایا کہ ایک موقع پر جب میں نے مراکز کے لیے تحریک کی تو احمدی بچیوں نے جو چھوٹی چھوٹی کجیاں بنا رکھی تھیں وہ ٹوٹنے لگیں اور چند پیسے، چند ٹکے انہوں نے جو بچائے ہوئے تھے وہ دین کی خاطر پیش کر دیے۔ پھر فرمایا کہ ہمارا رب بھی کتنا محسن ہے، کتنا عظیم الشان ہے۔ بعض دفعہ بغیر محبت اور ولولے کے کروڑوں بھی اس کے قدموں میں ڈالے جائیں تو وہ رد کر دیتا ہے، ٹھوکر بھی نہیں مارتا، ان کی کوئی حیثیت نہیں مگر ایک مخلص اور غریب پیار محبت کے ساتھ اپنی جمع پونجی پیش کرے تو اسے بڑھ کر پیار اور محبت سے قبول کرتا ہے جیسے آپ اپنے محبت کرنے والے اور محبوبوں کے تحفوں کو لیتی اور چومتی ہیں، خدا کے بھی چومنے کے کچھ رنگ ہوا کرتے ہیں اور میں جانتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان معنوں میں خدا نے ان چند کوڑیوں کو ضرور چوما ہو گا۔ (ماخوذ از حوّا کی بیٹیاں صفحہ 87-88، جلسہ سالانہ قادیان مستورات سے خطاب فرمودہ 27؍دسمبر1991ء) یہ آپؒ نے وہاں جلسےپہ لجنہ میں جو خطاب فرمایا تھا اس کا ایک اقتباس ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو جب قادیان بھجوایا تو یہ بھی نصیحت فرمائی تھی کہ لجنہ کی جماعتوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ آپ وہاں جاتے ہی پہلے جنرل سیکرٹری قادیان بنیں۔پھر 1955ء میں صدر لجنہ مقامی اور پھر صدر لجنہ بھارت منتخب ہوئیں۔ 59ء میں لجنہ مقامی کی صدارت کے لیے کسی اَور کا انتخاب ہوا اور آپ صدر لجنہ بھارت کے طور پر کام کرتی رہیں۔ اللہ کے فضل سے 1999ء تک اس خدمت پر فائز رہیں۔ اس کے بعد اعزازی ممبر رہیں۔ اپنے عرصۂ خدمت کے دوران ہندوستان کی مجالس کے دورے بھی کیے، ان کی خدمات کا عرصہ چھیالیس سال بنتا ہے۔ لجنہ کے کام کو آرگنائز کرنے کے لیے آغاز میں بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں۔ خط لکھتیں تاہم اس کا جواب نہ آتا۔ پھر صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے نام سے ایک ایڈریس دیا گیا اس طرح آہستہ آہستہ آپ نے جماعتوں کو متحد کرنا شروع کیا۔ ہندوستان میں بہت ساری لوکل زبانیں ہیں، ایک دِقّت یہ بھی آئی کہ لوکل زبانوں میں خطوط موصول ہوتے تھے۔ چنانچہ معلمین سے ان کے تراجم کرائے جاتے پھر آہستہ آہستہ حضرت مرزا وسیم احمد صاحب کے ساتھ مل کر بیرونی جماعتوں کے دورے بھی شروع کیے اور اس طرح انہوں نے ان جماعتوں کو جن کو پارٹیشن کے بعد کافی زیادہ مدد کی ضرورت تھی، آرگنائز کرنے کی ضرورت تھی آرگنائز کیا۔

پھر اسی طرح ان کی بیٹی امۃالعلیم لکھتی ہیں کہ خلافتِ رابعہ میں بھارت سے موصول ہونے والے دعائیہ خطوط کے خلاصہ جات کی ایک ٹیم بھی انہوں نے بنائی اور حضورؒ کو خلاصے لکھے جاتے تھے۔ اس پر حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ نے بڑی خوشنودی کا اظہار کیا۔ قرآن کی بہت زیادہ خدمت کی ہے۔ قادیان کی 250 سے زائد بچیوں کو قرآن پڑھایا، سکھایا۔ سکول کی لڑکیاں قرآن پڑھنے پہلے صبح صبح آتیں پھر دوپہر کو آتیں اور گروپس میں آتیں۔ بھارت میں جن بچیوں نے ایف اے یا ایف ایس سی کیا ہوتا تھا تو پڑھائی سے وقفہ کے دوران وہ تین تین ماہ قادیان میں رہائش اختیار کرتیں۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ہماری امی انہیں صبح دوپہر اور شام ترجمہ قرآن پڑھاتیں۔

لجنات کو بہت منظم کیا۔ بہت محنت سے انہوں نے کام سکھایا۔ خلافت سے تعلق کی واقعاتی رنگ میں تلقین کرتی تھیں اورجب واقعات بیان کرتی تھیں تو اس سے پھر بچیوں کا، عورتوں کا خلافت سے تعلق بڑھتا تھا۔ غیرمعمولی وصف مہمان نوازی تھا۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ہمارے ابا کا ہمیشہ ساتھ دیا۔ بہت غریبانہ حالات تھے۔ دوپہر کو صرف مونگ کی دال ہوتی تھی اور ابا نے دودھ دہی کے لیے ایک بھینس رکھی ہوئی تھی۔ کوئی مہمان آتا تو جو کچھ کھانے کے لیے میسر ہوتا، جو پکا ہوتا وہ بلا تکلف پیش کر دیتیں۔ جو مہمان آتا اس کو موسم کے اعتبار سے شربت اور چائے بھی پیش کیا کرتیں۔ بعد میں جب کشائش ہوئی تو اسی لحاظ سے کھانا پیش کرتیں۔ اور لوگ اپنا گھر سمجھ کر آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ ایک اچھی بیوی تھیں، ہر وقت ساتھ دینے والی، مشکل وقت میں ساتھ کھڑی ہونے والی۔ کبھی کسی چیز کی ڈیمانڈ نہیں کی۔ جو بھی ان کے خاوند کی طرف سے، میاں وسیم احمد صاحب کی طرف سے گزارہ ملتا خوشی سے اسی میں گزارہ کرتیں اور اللہ تعالیٰ غیر معمولی برکت بھی اس میں ڈالتا۔ صفائی پسند،سلیقہ شعار تھیں۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ مرزا وسیم احمد صاحب کی جب وفات ہوئی ہے تو انہوں نے خواب دیکھا کہ گویا وہ آخری سفر پر جا رہی ہیں، وہ بھی تیاری کر رہی ہیں تو حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ خواب میں ان کی آئے اور فرمایا ابھی تمہارا ویزہ نہیں لگا۔ چنانچہ اللہ کے فضل سے اس خواب کے بعد انہوں نے لمبی زندگی پائی اور گزاری۔

2007ء میں جب مرزا وسیم احمد صاحب بیمار ہوئے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دے دی تو شفا کے بعد انہوں نے حیدرآباد کی جماعتوں کے دورے کا پروگرام بنایا اور اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لے گئے۔ وہیں امۃالقدوس صاحبہ نے ایک خواب دیکھی۔ منذر خواب تھی، ڈر گئیں کہ جس طرح مرزا وسیم احمد صاحب کا وہ آخری وقت ہے تو اس وقت اچھے بھلے تندرست تھے لیکن بہرحال اس کے بعد انہوں نے اصرار کیا کہ واپس قادیان چلیں۔ قادیان آتے ہی وہ دوبارہ بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں ان کی وفات بھی ہو گئی۔

آخری عمر میں نظر چلی گئی تھی اور آلے کے ساتھ شنوائی بھی ہوتی تھی۔ شنوائی بھی ختم ہو گئی تھی لیکن بہت خوشی سے زندگی بسر کی، کبھی ناشکری نہیں کی، جب بھی حال پوچھا گیا تو ہمیشہ ہر دفعہ الحمدللہ کہتی تھیں۔ مراکز کی تحریک پر بھی جو اُن کے پاس زیور تھا وہ انہوں نے فوراً دے دیا جیساکہ میں نے بتایا ہے۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے کوئی بھی تحریک ہوتی تو پہلا چندہ قادیان میں مرزا وسیم احمد صاحب کی طرف سے اور ان کی اہلیہ کی طرف سے ہوتا تھا۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ہم قرآن کریم پڑھنے میں کوئی غلطی کرتے اور ہماری امی کسی دوسرے کمرے میں ہوتیں تو وہیں سے ہمیں تصحیح کروا دیا کرتی تھیں۔ ایسے لگتا تھا جیسے ان کو قرآن یاد ہو جبکہ وہ حافظہ نہیں تھیں لیکن بکثرت تلاوتِ قرآن کی وجہ سے ان کو یاد ہو گیا تھا۔ جب مرزا وسیم احمد صاحب اعتکاف بیٹھتے۔ ان کو کھانا بھجواتیں تو ساتھ ہی غریب معتکفین کو بھی کھانا بھجواتیں۔ اسی طرح بورڈنگ میں موجود لڑکوں کو اور معلمین کے لیے بھی کھانا بھجواتیں۔ اسی طرح لوگوں کا اتنا خیال تھا کہ چاہے بیمار ہوں، بخار ہو، کچھ بھی ہو کہیں کسی خوشی غمی میں جانا ہوتا تو ضرور جاتیں۔ قادیان میں مختلف طبقات کے لوگ تھے، ان کی بچیوں کو سلائی سکھاتیں، دلہن بنا دیا کرتیں۔ ایک کلچر سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پیدا کر دیا تھا۔ ربوہ میں 2005ء میں لجنہ نے سرائے مسرور بنایا ہے، اچھی بڑی بلڈنگ ہے تو وہاں بھی بجائے اپنی طرف سے چندہ دینے کے اپنے خاوند کی طرف سے ایک لاکھ روپے کی رقم دی۔

پھر کہتی ہیں کہ پارٹیشن کے بعد رتن باغ لاہور میں اور ربوہ کے کچے گھروں میں حضرت اماں جانؓ کو قرآن کریم سنایا کرتی تھیں اور اسی طرح کہتی ہیں کہ اماں جانؓ کسی نہ کسی سے ملفوظات بھی سنا کرتی تھیں، اس کے سنانے کا بھی موقع ملتا تھا۔

ان کی چھوٹی بیٹی امۃالرؤوف کہتی ہیں کہ بیت الریاضت میں شاہ جی اور سرخ چھینٹوں والے کمرے میں عطر دین صاحب اور حضرت اماں جانؓ کے بڑے والے کمرے میں حافظ صاحب مقیم تھے، یہ تین شخص تھے۔ بعد میں بھائی عبدالرحیم صاحب بھی یہاں رہتے تھے تو کہتی ہیں جو بھی گھر میں پکتا وہ کھانا ان سب کو بھیجا جاتا تھا اور بیت الدعا کے وقت وہاں آنے کا جو عورتوں کا وقت ہوتا تھا اس کے بعد عورتیں پھر گھر میں آ جاتی تھیں۔ گھر ہر وقت کھلا ہوتا تھا، کوئی پابندی نہیں تھی، کوئی گھنٹی نہیں تھی۔ آرام سے عورتیں اندر داخل ہو جایا کرتی تھیں۔ پھر یہ کہتی ہیں جب مرزا وسیم احمد صاحب کی وفات ہو گئی اور انعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ بنے تو امی نےان کی کامل اطاعت کا اظہار کیا اور ہر کام کے لیے معیّن طریق سے درخواست دیا کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنی وصیت کا چندہ اور حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ادا کر دیا اور اسی طرح تحریکِ جدید کے دفتر اوّل میں شامل تھیں۔ پھر اپنی بچیوں کو، بچوں کو نصیحت کی کہ نماز اول وقت میں ادا کیا کرو کیونکہ سب سے پہلا حساب نماز کے بارے میں لیا جائے گا۔ اگر وہ حساب صاف تو سب صاف۔

پھر کہتی ہیں مسلسل کئی بچیاں انہوں نے پالیں۔ نہ صرف ان کی بہت اچھے رنگ میں پرورش کی، ان کی تربیت کی، پہلے انہیں ناظرہ قرآن پڑھایا، پھر ترجمہ پڑھایا، پھر ان کی شادیاں بھی کروائیں۔ بہار رانچی سے ایک شخص اپنی بیٹی کے ساتھ احمدی ہوئے۔ بہت بوڑھے تھے۔ اپنی بیٹی کو ہماری امی کے پاس لائے اور کہا کہ نامعلوم کتنا عرصہ میں زندہ رہوں۔ میرے بعد اس لڑکی کے بھائی اسے مار دیں گے اس لیے آپ پاس رکھیں۔ اس وقت لڑکی کی عمر تقریباً پچیس سال تھی۔ کہتی ہیں میری امی نے اس عمر میں اسے قرآن ناظرہ پڑھایا پھر ترجمہ سے پڑھایا حالانکہ اسے زبان بھی نہیں آتی تھی اور اَن پڑھ تھی۔ بعد میں پھر اس کی شادی بھی کروائی۔

زمانہ درویشی کے دوران معاشی حالات خراب تھے۔ کسی درویش کی بیٹی کی شادی ہوتی تو اسے اپنا زیور دے آتیں اور کہتیںکہ جب تک تمہارا دل کرے اسے پہنو پھر واپس کر دینا۔ پھر اگلے کسی درویش کی شادی ہوتی تو پھر وہ اس کو دے دیا جاتا۔ اس طرح بہت سی بچیوں نے آپ کے زیور سے استفادہ کیاکیونکہ شروع درویشی کے زمانے میں درویشوں کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے لیکن جب بعد میں بچے باہر نکلے، پھر پیسے آنے لگے۔ بچے بڑے ہو گئے،کمانے بھی لگےتو کچھ بچت وچت جو بھی ہوتی تھی اس وقت ان کے پاس وہ اپنے گھروں کو غیر محفوظ سمجھنے کی وجہ سے ان کے پاس امانت کے طور پر رکھوا دیا کرتے تھے اور یہ کہتی ہیں کہ ہماری امی نے الماری میں ساری امانتیں رکھی ہوتی تھیں۔ کسی کے زیور ہیں، کسی کے پیسے ہیں، کچھ ہے اور بےشمار امانتیں کہتی ہیں مَیں نے دیکھی ہیں ان کے پاس اور جو بھی امانت لینے واپس آتا تو مجھے کہتیںکہ الماری میں سے فلاں جگہ سے نکال لاؤ۔ تو جس کو امانت واپس کرتیں پہلے اسے کہتیں کہ میرے سامنے کھول کے دیکھ لو، تمہاری ساری چیزیں پوری ہیں اور جب وہ کہتی کہ ہاں پوری ہیں تو پھر مطمئن ہوتیں۔ تو بہرحال اس زمانے میں غربت تھی۔ لیکن سب درویش اچھے فیملیوں کے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کی بچیاں جب ابتدائی تعلیم حاصل کر کے اگر آگے تعلیم حاصل کر رہی ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ ان کو دفتر بلا لیا کرتیں، لجنہ کے کام کروایا کرتیں کہ فارغ نہیں بیٹھنا۔ جب تک شادی نہیں ہوتی لجنہ کے کام کرو۔ پھر دفتر تو باقاعدہ تھا کوئی نہیں تو گھر میں چھوٹا سا دفتر بنایا ہوا تھا اور اسی میں سکول کا بھی کام ہوتا تھا۔ کافی رش ہوتا تھا لیکن خوشی سے سارے کام سرانجام دے رہی ہوتی تھیں پھر جو بھی بچیاں کام کے لیے آتیں ان کی ضیافت وغیرہ کرتیں۔ کھانے کا وقت ہوتا تو اگر کھانا نہیں تو چائے وغیرہ پلاتیں۔ اسی طرح ان بچیوں کو سکھاتی بھی تھیں کہ کھانے کی میزیں کس طرح لگانی ہیں اور اس طرح بعض کو کہتی تھیںکہ سیکھ لو آج کیونکہ جب تمہارے اچھے گھروں میں رشتے ہو جائیں گے تو یہ نہ ہو کہ تمہیں کوئی جاہل کہے۔ اتنی فکر ہوتی تھی لڑکیوں کی اور کئی لڑکیاں جب اچھے گھروں میں بیاہی گئیں تو ان کی اس تربیت کی وجہ سے ان کو کوئی دِقّت نہیں ہوئی۔ کئی خواتین نے، لڑکیوں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہم نے اس طرح ان سے تربیت حاصل کی ہے اور اس وجہ سے پھر سسرال کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ میں بھی کبھی مشکل پیش نہیں آئی۔ اسی طرح بہت ساری بچیوں کا جہیز اپنے ہاتھ سے سیا۔

عید والے دن درویشوں کی بیوگان کے گھروں میں عیدی دینے کے لیے خود جاتیں۔ مرزا وسیم احمد صاحب بھی ساتھ ہوتے اگر وہ کبھی نہ جاتے تو یہ خود اکیلی چلی جایا کرتی تھیں۔ کسی نے ان کے سامنے ذکر کیا کہ فلاں شخص نے ربوہ میں بڑا عالیشان گھر بنایا ہے تو کہتی ہیں کہ میری امی نے اس پہ کہا مَیں نے اللہ سے ایک بات کی ہے کہ مجھے قادیان میں یہ برکتوں والا گھر ملا ہے یعنی یہاں رہنے کی توفیق ملی اور یہاں حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی بہو بن کے آئی ہوں میرے لیے یہی بہت ہے۔ ہاں جنت میں مجھے ضرور ایک عالیشان گھر عطا کرنا۔

یہ ہے مومنانہ شان اور دنیا کی چیزوں سے بے نیازی۔

حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ کیونکہ میں بچپن سے ہی ذرا نفاست پسند تھی اس لیے میر صاحب اپنے کمرے کی صفائی کی کسی کو اجازت نہیں دیتے تھے صرف میں جاتی تھی کیونکہ میں ان کی چیزیں جہاں پڑی ہوتی تھیں نوٹس، کتابیں، کاغذ جو بھی کچھ جہاں پڑا ہوتا تھا وہیں دوبارہ صاف کر کے رکھ دیا کرتی تھی اور اس لیے انہوں نے کہا تھا کہ سوائے امۃالقدوس کے میرے کمرے میں کوئی نہیں آئے گا۔

بعض بچیاں عبدالرحمٰن جٹ صاحب سے بھی قرآن کریم پڑھتی تھیں ۔پھر جو بچی دسویں کا امتحان دیتی تھی اس سے پوچھتی تھیں کہ انہوں نے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا ہے؟ جو بچیاں دسویں کلاس پاس کر کے نکلتیں کہتی ہیں کہ وہ ہماری امی کے پاس آ جاتیں اور ترجمہ پڑھتیں۔ ایک وقت میں تین کلاسیں چل رہی ہوتی تھیں اور تین سال کے اندر اندر ان کو پورا قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتیں اور ساتھ ساتھ گرائمر بھی بتاتی جاتی تھیں۔ کئی لوگوں نے، بچیوں نے، عورتوں نے، مجھے لکھا کہ ہمیں فقہ وغیرہ بھی پڑھایا کرتی تھیں۔

یہ ضرور کہا جاتا تھا کہ قرآن مجید مکمل کرنا، تو ایک لگن ہوتی تھی کہ کوئی بھی بچی مجھ سے قرآن کریم ختم کیے بغیر نہ جائے۔ تہجد کی نماز کا بہت اہتمام کرتی تھیں۔ آخری بیماری میں جب زیادہ بیمار ہو گئیں تب بھی یہی خیال تھا کہ تہجد کے لیے مجھے جگانا ہے۔ جب تک روزے کی طاقت تھی روزہ رکھتی رہیں۔ تراویح کے لیے باقاعدہ مسجد میں جایا کرتی تھیں۔ قادیان میں باقی دنوں میں تو گھر میں نمازیں پڑھتی تھیں لیکن رمضان میں خاص طور پر نمازوں کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں۔

خلافت سے بے انتہا محبت تھی۔ خلیفہ وقت کو خط لکھتی تھیں ان کی بیٹی کہتی ہیں جواب میں اگر کبھی کوئی خوشنودی کا اظہار ہوتا تو بڑے شوق سے ہم لوگوں کو بتایا کرتی تھیں کہ دیکھو یہ خوشنودی کا اظہار ہوا ہے۔

1991ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا جب دورہ ہوا ہے تو اپنے ہاتھ سے سارے کمرے کو درست کیا گھر کو ٹھیک کیا۔ اسی طرح 2005ء میں جب میں نے دورہ کیا ہے تو اس وقت بھی خود ہمارے کمرے کو ٹھیک کیا، کروایا، پلنگ وغیرہ سیٹ کیے، بستر وغیرہ بچھائے اور ایک اخلاص کے ساتھ، وفا کے ساتھ سب کام کرنے والی تھیں۔ اسی طرح اصرار کر کے باوجود میرے یہ کہنے پر کہ کھانا علیحدہ ہمارا پکتا رہے گا انہوں نے کہا کہ ایک کھانا تو ہماری طرف سے روزانہ آیا کرے۔ اور واقعی ایک ڈش بھیجتی رہیں۔ اور بڑے اہتمام سے پکایا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں کہ میرے ابا کی وفات کے بعد امی نماز پڑھ رہی تھیں اور رو رہی تھیں اور وہی الفاظ کہہ رہی تھیں جو حضرت اماں جانؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت کہے تھے کہ اے خدا! یہ تو ہمیں چھوڑے جا رہے ہیں، تُو نہ ہمیں چھوڑنا اور کہتی ہیں کہ میرا مشاہدہ ہے اور میرا یقین ہے کہ دعا قبول ہوئی کیونکہ اس کے بعد ہمیں ویزے ملے۔ بچیاں ساری کیونکہ بیاہ کے پاکستان میں آ گئی تھیں تو ملٹی پل (multiple)ویزے بھی مل گئے اور آنا جانا بھی رہا اور ان کے اکیلے پن کا ان کو احساس نہیں ہوا۔ بیٹیاں ان کے پاس آتی جاتی تھیں۔

ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ زیادہ تر مہمان دارالمسیح میں ٹھہرتے تھے اور ہماری امی گیارہ بارہ سال کے بچوں کی خود ٹریننگ کرتیںکہ کس طرح کمروں میں گرم پانی پہنچانا ہے۔ مہمان کی ضرورت کا خیال رکھا کرتی تھیں۔ اسی طرح جب سرکاری عہدیداروں کے ساتھ میاں وسیم احمد صاحب کے تعلق تھے تو یہ ان کی بیگمات کو بھی جماعت کا تعارف کرواتیں اور پھر یہ تعلق بعد میں بھی ان کے ساتھ قائم رکھا۔

ستنام سنگھ باجوہ وہاں کے ایک بڑے سیاست دان تھے۔ جب پارٹیشن ہوئی تو وہ پاکستان سے ہندوستان منتقل ہوئے۔ جو آجکل پرتاپ سنگھ باجوہ ہیں ان کے والد تھے۔ یہ ممبر پارلیمنٹ ہیں تو ان کی اہلیہ کا بھی کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے گھر بڑا آنا جانا تھااور وہ اپنی امانتیں بھی ہمارے پاس ہماری امی کے پاس رکھوا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے امانت رکھوائی تو وہاں انہوں نے ان سے صاحبزادی امۃالقدوس سے پوچھا کہ آپ نے اس کو کھول کے دیکھ لیا ہے؟ تو انہوں نے کہا آپ کی امانت تھی میں کس طرح اسے کھول سکتی تھی۔ آپ دیکھ لیں اس کو یہ ٹھیک ہے کہ نہیں۔

غرباء کا بڑا خیال رکھتی تھیں۔

ایک دفعہ کہتے ہیں کہ اڑیسہ کے کسی گاؤں میں دورے پہ گئیں۔ وہاں کچھ لوگوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا تو کہتے ہیں کہ ہم سارے بچے ساتھ گئے ہوئے تھے تو بچوں کے جو زائد کپڑے تھے ان لوگوں کو دے دیے تاکہ اپنا تن ڈھانک سکیں کیونکہ وہ لوگ بہت مفلس حال اور خستہ حال میں تھے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ہماری امی نے جس قرآن سے بچیوں کو ناظرہ اور ترجمہ پڑھایا تھا وہ قرآن حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے ترجمہ پر مشتمل تھا اور قرآن کا وہ نسخہ ان کو حضرت اماں جانؓ نے تحفہ کے طور پر دیا تھا۔

ابراہیم منیب ان کے داماد ہیں، کہتے ہیں کہ میاں وسیم احمد صاحب کی وفات کے بعد دس سال تک قادیان میں رہیں۔ شدید بیمار ہوئیں تو پھر ان کی بیٹیاں ان کو ربوہ لے آئیں، ویزا بھی اللہ کے فضل سے ایکسٹنڈ(extend)ہوتا رہا لیکن ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ میں نے قادیان سے باہر لمبا عرصہ نہیں رہنا اور جب تک خلیفۂ وقت کی اجازت نہیں ہوتی اس وقت تک میں یہاں چند مہینے سے زیادہ نہیں رہوں گی۔ بہرحال انہوں نے مجھے خط لکھا، مَیں نے ان کو لکھا کہ جتنا عرصہ چاہیں آپ رہیں۔ پاسپورٹ، ویزا extend ہوتا ہے تو کرواتی رہیں۔ اس کے بعد پھر انہوں نے وہاں کچھ عرصہ گزارا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے ان کو قادیان جاتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ قادیان کے ہندو بازاروں میں نہیں جانا کیونکہ وہاں کے لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی ہوئی ہیں۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓکی بات کا اس قدر لحاظ رکھا، خیال رکھا کہ بعد میں حالات بدل بھی گئے۔ لوگوں نے بڑی شرافت سے پیش آنا شروع کر دیا اور جلسہ پر بہت سارے لوگ وہاں جاتے تھے، احمدی بھی جاتے تھے، خاندان کے لوگ بھی وہاں جاتے تھے لیکن آپ ستر سال تک قادیان کے بازار میں نہیں گئیں، امرتسر جا کے شاپنگ کیا کرتی تھیں۔

ان کی نواسی لکھتی ہیں کہ قادیان کے چھوٹے بچے آپ کو نانی امی کہا کرتے تھے اور ہر ایک سے آپ نے نانی جیسا محبت اور شفقت کا سلوک کیا۔ پھر ان کی نواسی لکھتی ہیں کہ ایک دفعہ کمزوری طبیعت کی وجہ سے آرام کر رہی تھیں۔ شام کے وقت کچھ خواتین کسی دُور کی جماعت سے ملنے آ گئیں۔ کوئی بڑا گھر میں نہیں تھا، مَیں نے کہہ دیا کہ نانی آرام کر رہی ہیں اور وہ ایک دعا کی چٹھی دے کے چلی گئیں۔ جب میری نانی اٹھیں۔ ان کو میں نے کہا کہ دو عورتیں آئی تھیں تو فوراً چٹھی منگوا کر پڑھی دعا کی۔ پھر ٹیلیفون کروا کر کسی کو ہدایت دی کہ جو بھی انہوں نے لکھا تھاچٹھی میں اس کی تعمیل کروا دیں۔ پھر مجھے سمجھایا کہ لوگ بڑی دُور دُور سے محبت کے ساتھ تمہارے نانا کے پاس آتے تھے وہ ان کو ایسے واپس نہیں جانے دیتے تھے تو اس لیے تم بھی مہمانوں کو عزت سے بٹھایا کرو۔ مجھے اطلاع کر دیتی۔ نانی کا سمجھانے کا انداز بہت پیارا تھا جو اب تک میرے ذہن میں نقش ہے۔

ان کے نواسے سید حاشر کہتے ہیں مَیں نے ان کو پوچھا کہ میں مربی بن رہا ہوں کوئی نصیحت کر دیں۔ جامعہ کینیڈا میں پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے کہا نصیحت تو خلیفہ وقت کی طرف سے سن رہے ہو۔ نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کی باتوں کو غور سے سنو اور ان پہ عمل کرو۔ اور پھر مجھے یہ بھی کہا کہ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی دعا پڑھتے رہا کرو۔ پھر فون پر صرف یہی نصیحت ہوتی تھی کہ اپنے وقف کو پورے طور پر نبھانا اور خلافت کا سلطانِ نصیر بن کے رہنا۔

بہت سے غیر مسلم جنازے میں شامل ہوئے۔ بڑی عقیدت سے ان کا ذکر کیا۔ جن میں سابقہ ممبر اسمبلی فتح جنگ سنگھ بھی ہیں۔ انہوں نے بھی ان کا ذکر کیا کہ ہمارا تو بچپن ان کے ہاتھوں میں گھروں میں گزرا ہے۔ وہ میت کو واہگہ بارڈر پر بھی لینے گئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں مَیں نے اپنی ماں کو ہی دوسری مرتبہ دفنایا ہے۔ کہتے ہیں ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو گھر میں جایا کرتے تھے اور یہ ہمیں کھلایا پلایا کرتی تھیں۔

ان کی ایک نواسی مالا کہتی ہیں خلافت سے پیار اور اطاعت میں ہمارے لیے ایک مثال تھیں۔ کہتی ہیں جب سے فوت ہوئی ہیں سینکڑوں فون ان کی تعزیت کرنے کے مجھے آئے ہیں اور ہر ایک ان کی بڑی تعریف کر رہا تھا۔ پھر کچھ عرصے کے لیے یہ وہاں گئی تھیں، وہاں قادیان میں رہیں تو کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ قادیان کے لوگ کتنا ان سے پیار کرتے تھے اور وہ ان قادیان کے لوگوں سے کتنا پیار کرتی تھیں۔ اسی طرح کہتی ہیں 2008ء میں انہوں نے مجھے لکھا جب کہ آپ نے قادیان جانا تھا، جب حالات کی وجہ سےنہ جا سکے۔ دہلی سے واپس آ گئے اور دورہ ملتوی ہو گیا تو بڑی اداس تھیں کہ پتہ نہیں اب ملاقات ہوسکتی ہے کہ نہیں۔

عابد خان یہاں رہتے ہیں، ان کی نواسی کے خاوند ہیں، کہتے ہیں اپنے مثالی نمونوں سے ہمیں سکھایا کہ انسان کو اپنا وقف کیسے پورا کرنا چاہیے۔ بڑا نرم مزاج تھا لیکن کہتے ہیں کہ صرف ایک دفعہ مَیں نے ان کو سختی سے بولتے دیکھا کہ قادیان کی ایک مقامی لڑکی کی شادی تھی تو وہ بیمار ہو گئیں۔ اس دن صاحبزادی امۃالقدوس کو شدید سردرد تھا تو ان کی بیماری کو دیکھ کے ان کی نواسی نے ان کو کہا کہ معذرت کردیں۔ شادی میں شرکت نہ کریں۔ آج آرام کر لیں توانہوں نے کہا کہ مالا میں شادی میں ضرور شرکت کروں گی۔ تم نہیں جانتی کہ میرا قادیان والوں کے ساتھ کیسا تعلق ہے۔

اسی طرح عقیلہ عفت صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بشیر احمد ناصر درویش قادیان کہتی ہیں ہمیشہ ناصرات اور لجنہ کے زیر اہتمام درویشوں کی ازواج اور بیٹیوں کی راہنمائی کیا کرتی تھیں۔ بہت عمدگی سے انتظامی معاملات سرانجام دینے میں مہارت رکھتی تھیں۔ ان کے ساتھ کام کرتے وقت انسان آپ کی محبت، پیار، حمایت اور عزت اور احترام کو محسوس کر سکتا تھا۔ آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ تمام کام اور ذمہ داریاں اگلی نسل تک پہنچائیں۔ ایک خود اعتماد اور منظّم شخصیت تھیں۔ جو کچھ بھی کرتیںاس کام میں صفائی ہوتی۔ ہمیں قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھایا بلکہ فقہ بھی سکھایا۔ آپ کی تربیت یافتہ جماعت احمدیہ کی نوجوان لڑکیاں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور جماعتوں کی خدمت سرانجام دے رہی ہیں۔

اسی طرح حیدرآباد دکن کی بشریٰ مبارکہ صاحبہ ہیں۔ کہتی ہیں ہمارا ان سے گہرا خاندانی تعلق تھا۔ جلسے کے موقع پر مہمان نوازی کرنے کے لیے آدھی رات تک خود کھڑے ہو کر مہمانوں کے کھانے پینے اور آرام کا خیال کرتیں اور کہتی تھیں کہ یہ ہمارے نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں، ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہر چھوٹی چھوٹی چیز کا جائزہ لیتیں۔

اسی طرح ساجدہ تنویر صاحبہ خالد الہ دین صاحب کی اہلیہ ہیں، کہتی ہیں ہندوستان کی ممبراتِ لجنہ کے لیے ایک ماں کی حیثیت رکھتی تھیں۔ جس طرح ایک ماں اپنے شِیرخوار بچے کو تمام آدابِ زندگی انگلی پکڑ کر سکھاتی ہے عین اسی طرح حضرت آپا جان نے ہر پہلو سے، ہر لمحہ ہماری تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جس کے لیے ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ آپ کی ممنون رہیں گی۔

تو بےشمار خط ہیں جو مجھے قادیان کی خواتین کے بھی آئے ہیں اور ان سب خواتین کی طرف سے بھی آئے ہیں جن سے ان کا کسی بھی طرح واسطہ پڑا۔ اسی طرح قادیان کے پرانے رہنے والوں کی مرد اولادوں نے بھی لکھا ہے کہ انہوں نے ہمیں ایک ماں کی طرح پالا ہے۔

خلافت سے تعلق

کا ان کے بچوں نے بھی ذکر کیا جیساکہ میں نے بیان کیا ہے اور دوسری خواتین نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔

عاجزی اور کامل وفا کا جس طرح انہوں نے خلیفة المسیح الثانیؓ سے اظہار کیا تھا وہ تعلق جاری رہا اور مجھ سے بھی وہی تعلق قائم رہا۔ یہ ایک مثال ہے۔ یہاں بھی مجھے ملیں تو انتہائی ادب اور احترام سے۔ 2005ء میں قادیان گیا ہوں تو فکر کے ساتھ مہمان نوازی کی کوشش کی۔ پھر ہر ملاقات پر خوش ہوتیںجو چہرے پر عیاں ہوتی تھی۔ 2005ء میں باوجود طبیعت کی خرابی کے قادیان سے واپسی کے سفر پر دہلی تک آئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ قادیان کے لوگوں کو جس محبت سے انہوں نے رکھا ہے اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ وہ آپس میں بھی اسی محبت سے رہیں۔

اب خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا براہِ راست خونی تعلق کا رشتے والا تو وہاں کوئی بھی موجود نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کرے کہ وہاں ایسے حالات ہو جائیں کہ وہاں کوئی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔

ایک

جنازہ حاضر

ہے۔ (آگیا ہے ناں جنازہ؟) جو

محمد ارشد احمدی صاحب یوکے

کا ہے۔ یہ گذشتہ دنوں اکہتر سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

یوسف احمدی صاحب کے بیٹے تھے۔ نیروبی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انہوں نے بیعت کی تھی۔ان کے بیٹے تھے یا پوتے تھے؟ بہرحال یوسف احمدی صاحب نے [1935 میں] حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی، ان کی نسل سے ہیں۔ارشد احمدی پندرہ سال کی عمر میں نیروبی سے یوکے آئے۔ ان کی شادی امۃالبصیر صاحبہ سے ہوئی جوحضرت خلیفہ صلاح الدین صاحب کی بیٹی اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرحوم موصی تھے۔ اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ جماعت سے بڑا پختہ تعلق تھا۔ جہاں بھی رہے مختلف حیثیت سے جماعت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ خدام الاحمدیہ میں بھی مہتمم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ بیس سال سے زائد عرصہ تک جماعت برطانیہ کے نیشنل سیکرٹری اشاعت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ علم دوست انسان تھے۔ جب سلمان رشدی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کتاب لکھی تو حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر اور ہدایات کی روشنی میں اس کی تردید کے لیے ایک کتاب لکھنے کی توفیق پائی۔ نماز باجماعت کی پابندی کرنے والے، جب سے ہم یہاں شفٹ ہوئے ہیں تو اپنی رہائش بھی اسلام آباد کے قریب اس غرض سے لے لی تھی کہ یہاں آ کے نمازیں پڑھتے رہیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق کا تعلق تھا۔ قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کرنے والے۔ مرحوم کو تبلیغ کا بھی شوق تھا۔ اسی طرح چندہ جات میں باقاعدہ تھے۔ لوگوں سے پیار اور محبت سے ملنے والے خوش گفتار اور خلافت کے ساتھ عقیدت کا گہرا تعلق رکھنے والے مخلص انسان تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ ان کے بارہ میں فرمایا: ارشد احمدی صاحب کو ہمیشہ میں نے اتنا فرمانبردار پایا کہ اس کی بہت ہی کم مثال ملتی ہو گی۔ جو بھی میں نے ان کو کہا فوراً مان گئے اور اس پہلو سے ان کی اور ان کی وجہ سے سارے خاندان کی میرے دل میں بہت قدر ہے۔ اور حقیقت میں خلافت کے ساتھ یہ فرمانبرداری اور اطاعت آگے بھی قائم رہی۔ میں نے بھی انہیں عاجز اور خلافت کا وفادار دیکھا ہے۔ جماعتی وقار اور عزت کو انہوں نے ہمیشہ ترجیح دی۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد میں بھی ان کی نیکیاں جاری رکھے۔ ان کے ایک بیٹے واقف زندگی بھی ہیں۔

ایک

جنازہ غائب

ہے جو

احمد جمال صاحب افریقن امریکن

کا ہے۔ امریکہ میں رہتے تھے۔ گذشتہ دنوں بانوے سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

یہ 1930ء میں پیدا ہوئے۔ 1951ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 1950ءاور 1960ءکی دہائیوں میں مرحوم کو مسجد صادق شکاگو کے لیے مالی قربانی کی توفیق ملی۔ بہت عاجز اور منکسر المزاج شخصیت کے حامل تھے۔ جماعت اور خلافت کے ساتھ بہت عشق اور وفا کا تعلق تھا۔ ایم ٹی اے دیکھنے کے لیے پہلے اپنے گھر پر ڈش انٹینا اور بعد ازاں آن لائن انتظام کیا ہوا تھا۔ میرے خطبات بڑے اہتمام کے ساتھ باقاعدہ سنتے تھے۔ اپنے ملنے والوں سے خطبہ کے حوالے سے پھر گفتگو بھی کیا کرتے تھے۔ صرف سن نہیں لیا بلکہ نوٹس لے کے گفتگو بھی کرتے تھے۔ مرحوم مسجد سے نوّے۹۰ میل کی مسافت پر رہتے تھے پھر بھی اپنی عمر اور کمزور صحت کے باوجود باقاعدگی سے نمازِ جمعہ پر آتے رہے۔ چندہ جات کی ادائیگی باقاعدگی سے کرتے۔ کبھی انہیں یاددہانی نہیں کروانی پڑی۔ دیگر مالی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ایک بیٹی ہے ان کی لیکن وہ جماعت سے منسلک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی دعائیں اپنی بیٹی کے لیے بھی قبول ہو جائیں اور اس کو بھی توفیق مل جائے کہ احمدیت قبول کر لے۔ تو ابھی ایک تو جنازہ حاضر ہے اور یہ دو غائب جنازے ہیں۔ جمعےکے بعد میں یہ جنازہ پڑھاؤں گا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button