قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات (تقریر جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء)
(امۃ الجمیل غزالہ۔ جرمنی)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔(المائدہ: ۴)ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر میں نے اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور میں نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کر لیا ہے۔
قرآن مجید نے دعویٰ کیا ہے،کہ وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور انسانوں کی سب ضروریات کا کفیل ہے۔ تمام انسانی امراض اور احتیاجوں کا مداوا پیش کرتا ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ میں نے انسانوں کو اپنے مقصد تخلیق کے پانے کے سارے گر بتا ئے ہیں اور اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو لفظ ’’ حیات‘‘ یعنی حقیقی زندگی کی حقیقت بھی یہی پاک کتاب بیان کرتی ہے چنانچہ فرمایا:وَمَا ہٰذِہِ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَہْوٌ وَّلَعِبٌ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۔ (العنکبوت: ۶۵)ترجمہ : اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشہ کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر ہی دراصل حقیقی زندگی ہے۔ کاش کہ وہ جانتے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے کیا خوب فرمایا:؎
یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا
انسان در حقیقت دو محبتوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایک طرف اسے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے عشق کا بحر بے کنار عطا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف اس کے دل میں بنی نوع انسان کی نہایت گہری محبت ودیعت کی گئی ہے۔ ہر محبت کے نتیجہ میں انسان کچھ حقوق و فرائض کا مکلف ہو جاتا ہے۔ جن کی ادائیگی پر وہ محبت کے شیریں اثمار حاصل کرتا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر انسان، انسان کہلانے کا ہی مستحق نہیں۔ اس لیے وہی کتاب ایک مکمل ضابطہ حیات کہلانے کی حقدار ہے جو ان دونوں قسم کے حقوق کے ہر پہلو کو تفصیل سے بیان کرے۔ خدا تعالیٰ کا اپنا دعویٰ ہے :مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ۔ (الانعام:۳۹)یعنی ہم نے کتاب میں کوئی چیز بھی نظر انداز نہیں کی۔سیدنا حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں:’’ کامل شریعت پر قائم ہونے والا حق اللہ اور حق العباد کو کمال کے نقطہ تک پہنچا دیتا ہے۔ خدا میں وہ محو ہو جاتا ہے اور مخلوق کا سچا خادم بن جاتا ہے۔یہ تو عملی شریعت کا اس زندگی میں اس پر اثر ہے مگر زندگی کے بعد جو اثر ہے وہ یہ ہے کہ خدا کا روحانی اتصال اس روز کھلے کھلے دیدار کے طور پر اس کو نظر آئے گا اور خلق اللہ کی خدمت جو اس نے خد ا کی محبت میں ہو کر کی، جس کا محرک ایمان اور اعمال صالحہ کی خواہش تھی۔ وہ بہشت کے درختوں اور نہروں کی طرح متمثل ہو کر دکھائی دے گی۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰، صفحہ:۴۲۳)
قرآنی تعلیم کی اکملیت اور جامعیت کا یہ نہایت نمایاں پہلو ہے کہ قرآن مجید نے انسانوں کی حیات عارضی اور حیات ابدی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نہایت جامع اور عین مطابق فطرت ہدایات دی ہیں۔ جن پر عمل پیرا ہو کر انسان دونوں جہاں کی جنتوں کا وارث بن سکتا ہے۔ اور جن سے منہ موڑ کر انسان جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔
آئیں اب دیکھیں کہ قرآن کریم کیسے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ انسان مجموعہ ہے روح اور جسم کا۔ وہی کتاب مکمل ضابطہ حیات ہو سکتی ہے جو انسان کی جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی ربوبیت کا کامل نظام پیش کرے۔ سب سے اول ہم انسان کی جسمانی ربوبیت کا قرآنی نظام دیکھتے ہیں۔
انسان کی جسمانی ربوبیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
۱۔ وہ ضروریات جو انسانوں کی معاشرتی زندگی کے نتیجہ میں پیش آتی ہیں۔
۲۔ وہ ضروریات جو انسانوں کو انفرادی زندگی میں پیش آتی ہیں۔
پہلا حصہ:پہلی ضرورت
انسانوں کی ضروریات میں سے سب سے اوّل اس کے زندہ رہنے کا حق ہے۔ اور ز ندگی کا حق قرآن کریم نے ہر مولود کو دیا ہے۔ چنانچہ فرماتاہے:وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۔(الانعام: ۱۵۲)ترجمہ :اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرمت بخشی ہو قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔ یہی ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو۔
آج کل پوری دنیا میں جو بد امنی پھیلی ہوئی ہے اسی بنیادی اصول کو پس پشت ڈالنے کا سبب ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ اس انسانی زندگی کی نشو ونما اور خدا کی تخلیق میں دخل دینے سے اور اپنی ناقص توجیحات کے دینے سے منع کرتے ہوئے فرماتا ہے:وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًا۔(بنی اسرائیل:۳۲)ترجمہ :اور اپنی اولاد کو کنگال ہونے کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم ہی ہیں جو انہیں رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ ان کو قتل کرنا یقیناً بہت بڑی خطا ہے۔ اور پوری انسانیت کے وقار اور تحفظ کے قیام کے لیے قرآن کریم بطور مکمل ضابطہ حیات توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے :مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا وَمَنْ اَحْيَاھَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۔(المائدہ:۳۳)ترجمہ :جس نے بھی کسی ایسے نفس کو قتل کیا جس نے کسی دوسرے کی جان نہ لی ہو یا زمین میں فساد نہ پھیلایا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ اور جس نے اُسے زندہ رکھا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کردیا۔
یہ انسانی زندگی کے حوالے سے قرآن کریم کے بحر بے کنار سے چند آیات کے نمونے پیش کیے ہیں۔
دوسری ضرورت
زندہ رہنے کے حق کو قائم کرنے کے بعد دوسری اہم ضرورت اس کے حصول معیشت میں آزادی ہے۔
۱۔ قرآن کریم نے زندگی کا حق دینے کے ساتھ ہی ہر انسان کو اپنی جسمانی ضروریات کے لیے روزی کمانے کا حق بھی دیا ہے۔ اور فرمایا:وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ(الرحمٰن :۱۱)ترجمہ:اور زمین کی بھی کیا شان ہے۔ اُس نے اُسے مخلوقات کے لیے (سہارا) بنایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کے لیے زمین کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی کفالت کے لیے مقرر کیا ہے۔
ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِہَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ وَاِلَيْہِ النُّشُوْرُ۔(الملک :۱۶)ترجمہ : وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے ماتحت کر دیا پس اس کے راستوں پر چلو اور اس (یعنی اللہ) کے رزق میں سے کھاؤ اور اسی کی طرف اٹھایا جانا ہے۔
انسان کی بنیادی ضروریات اور اسے دی گئی سہولیات کا ذکر کرنے کے بعد ارباب اقتدار کو انسانی ضرورتوں کے مہیا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
لازمی اسباب معیشت کا ذکر
جن کا ملنا ہر شخص کو ضروری ہے۔ اس کے متعلق فرمایا:اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْہَا وَلَا تَعْرٰى۔ وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْہَا وَلَا تَضْحٰي۔ (طٰہٰ: ۱۱۹ تا ۱۲۰)ترجمہ : تیرے لیے مقدر ہے کہ نہ تُو اس میں بھوکا رہے اور نہ ننگا۔ اور یہ (بھی) کہ نہ تُو اُس میں پیاسا رہے اور نہ دھوپ میں جلے۔ یعنی اے انسان! اگر تو اس قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگی گزارے گا تو تو نہ بھوکا رہے گااور نہ ننگا ہو گا۔ نہ تو پیاسا ہو گا۔ اور نہ تو تمازتِ آفتاب محسوس کرے گا۔ گویا خوراک، پوشاک اور مکان کی تمام سہولتیں ہر انسان کو حاصل ہوں گی۔
آج ووٹ کے لیے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے والے تو بہت ہیں لیکن مکمل قرآنی تعلیمات پر عمل نہ کر نے کے نتیجے میں وہ عوام کو سکھ مہیا کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔
تیسری ضرورت:انسانی مساوات
انسانی معاشرہ اپنے امن کے قیام کے لیے ہر انسان کے بطور انسان مساوی ہونے کے اعلان کا محتاج ہے۔جن کا ملنا ہر شخص کو ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو پاک فطرت پیدا کیا ہے۔قرآن کریم سب انسانوں کو پیدائشی طور پر یکساں قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰىكُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (الحجرات: ۱۴)ترجمہ :اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔
چوتھی ضرورت یکساں عدل و انصاف
قرآن کریم نے تمام انسانوں کو عدل و انصاف کے لحاظ سے ایک ہی سطح پر قرار دیا ہے۔ سب کے یکساں حقوق قرار دیئے ہیں۔اور دشمن سے بھی عدل کا حکم دیا ہے:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدہ:۹)ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔
پانچویں ضرورت
معاشرہ میں رہتے ہوئے ایک انسان فطری طور پر آزادی سوچ کا ضرورتمند ہے قرآن کریم ہی وہ پہلی آسمانی کتاب ہے جس نے حریت فکر اور آزادی رائے کا حق برملا عطا کیا۔وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَۗ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ۔(الکہو: ۳۰)ترجمہ : اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔
یہ جو اسلام کے ٹھیکیدار ہیں انہوں نے مرتد کی سزا قتل کا فتویٰ دے کر خون کا بازار گرم کیا ہوا ہے ان کے اس فعل کو ٹھکرانے کا اعلان یہ آیت کر رہی ہے کہ لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۔(البقرہ:۲۵۷)ترجمہ: دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناًہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔
دوسرا حصہ:انسان کی انفرادی ضروریات کی کفالت ہے
قرآن کریم نے جہاں انسانی معاشرہ کے جنت نظیر بنانے کے لیے ہر طرح کی ہدایات دی ہیں وہاں اس معاشرہ کے افراد کی ضروریات کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اس میں انسانی فطرت کے مطابق رشتہ داروں اور معاشرہ کے کمزور اور ضعیف طبقات کی ضروریات مہیا کرنے کا ایسا بے نظیر نظام پیش کیا ہے کہ آج بھی عقل اسے سوچ کر دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح قرآن کریم نےان کی عزّت نفس کی حفاظت کرتے ہوئے ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام کیا ہے۔اور کمال یہ ہے کہ اس نے رشتہ داروں اور دوسرے ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ ان میں بظاہر کوئی دُوئی نہیں ہے۔ فرمایا:فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّہٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ وَاُولٰىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن۔ (الروم:۳۹)ترجمہ: پس اپنے قریبی کو اس کا حق دو نیز مسکین کو اور مسافر کو۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے اچھی ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔
سائل اور محروم کی ضروریات کا کفیل
اللہ تعالیٰ جنت کے مکینوں کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔ (الذّٰریٰت:۲۰)ترجمہ : اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بےسوال ضرورت مندوں کے لیے ایک حق تھا۔
ماں باپ کی ضروریات کا کفیل
دین فطرت ہونے کی وجہ سے رشتہ داروں کی ضروریات پوری کرتے وقت ان کے درجات کا خیال رکھا۔ادب و احترام کے لحاظ سےوالدین کا خاص مقام ہے۔اس لیے ان کا خاص خیال رکھنے کے لیے قرآن کریم میں متعدد بار الگ بیان فرمایا: فرماتا ہے: وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ؕاِمَّا يَـبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيْمًا۔ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىْ صَغِيْرًا۔(بنی اسرائیل: ۲۴: ۲۵)ترجمہ : اور تیرے ربّ نے فیصلہ صادر کردیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر۔ اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پَرجُھکا دے اور کہہ کہ اے میرے ربّ! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی۔
ایک اور مقام پر فرمایا:وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسٰـنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا۔(الاحقاف:۱۶)ترجمہ :اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے۔ اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا۔ اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے۔
قرآن کریم کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کے لیے یہ چند آیات وقت کی مناسبت سے پیش کی ہیں ورنہ یہ کتاب تو مصداق ہے حضرت مسیح موعودؑ کے اس شعر کی:
کس سے اُس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ
وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا
قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے کہ جو بھی میری تعلیمات سے منہ موڑے گا اس کے لیے سوائے ناکامیوں اور حسرتوں کے کچھ نہیں۔ چنانچہ سورہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِيْشَۃً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُہٗ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ اَعْمٰى (طٰہٰ :۱۲۵) ترجمہ : اور جو شخص میرے یاد دلانے کے باوجود اعراض سے کام لے گا۔ اسے تکلیف والی زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔
یہاں ذکر سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی جو کوئی قرآنی تعلیمات سے پہلو تہی کرے گا تو وہ اپنے لیے تنگی کی راہیں خود کھولے گا۔حضرت مسیح موعودؑ قرآن کریم کے ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’یہ خدا ہی کا کلام ہے جس نے اپنے کھلے ہوئے اور نہا یت واضح بیان سے ہم کو ہمارے ہر یک قول اور فعل اور حرکت اور سکون میں حدود معیّنہ مشخّصہ پر قائم کیا اور ادب انسا نیّت اور پاک روشنی کا طریقہ سکھلایا۔وہی ہے جس نے آنکھ اور کان اور زبان وغیرہ اعضاء کی محافظت کے لئے بکمال تا کید فر مایا۔ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ (النور :۳۱)یعنی مومنوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آنکھوں اور کا نوں اور ستر گا ہوں کو نامحرموں سے بچاویں اور ہر یک نا دیدنی اور نا شنید نی اور ناکر دنی سے پرہیز کریں کہ یہ طریقہ ان کی اندرونی پا کی کا موجب ہو گا، یعنی ان کےدل طرح طرح کے جذبات نفسانیہ سے محفو ظ رہیں گے، کیو نکہ اکثر نفسا نی جذبا ت کو حرکت دینے والے اور قُویٰ بہیمیہ کو فتنہ میں ڈالنے والے یہی اعضاء ہیں…اسی طرح زبان کو صدق و صواب پر قائم رکھنے کے لئے تاکید فرمائی اور کہا قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا۔ (احزاب: ۷۱)… یعنی وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہو۔ اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سرِمُو دخل نہ ہو۔ اور پھر جمیع اعضاء کی وضعِ استقامت پر چلانے کے لئے ایک ایسا کلمہ جامعہ اور پر تَہْدِید بطور تنبیہ و انذار فرمایا جو غافلوں کو متنبہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور کہا اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا (بنی اسرائیل :۳۷)یعنی کان اور آنکھ اور دل اور ایسا ہی تمام اعضاء اور قوتیں جو انسان میں موجود ہیں۔ان سب کے غیرمحل استعمال کرنے سے باز پرس ہو گی۔اور ہر یک کمی بیشی اور افراط اور تفریط کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔اب دیکھو اعضاء اور تمام قوتوں کے مَجری خیر اور صلاحیت پر چلانے کے لئے کس قدر تصریحات او ر تاکیدات خدا کے کلام میں موجود ہیں۔اور کیسے ہر یک عضو کو مرکز اعتدال اور خط استوا پر قائم رکھنے کے لئے بکمال و ضاحت بیان فرمایا گیا ہے۔ جس میں کسی نوع کا ابہام و اجمال باقی نہیں رہا۔‘‘ (براہین احمدیہ ہر چار حصص، روحانی خزائن جلد اول،حاشیہ صفحہ ۲۰۹۔۲۱۰)
آئیں اب قرآن کریم کے حیات روحانی کے لیے کامل ضابطہ حیات ہونے کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کے مقدس الفاظ میں کچھ دیکھیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:’’ہمارا مشاہدہ اور تجربہ اور ان سب کا جو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں اس بات کا گواہ ہے کہ قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے سچے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے دل کومنور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑ ہ ٹکڑہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے اور خدا کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشتا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتاہے اور ہرایک جواس شخص سے مقابلہ کرے جو قرآن شریف کا سچا پیرو ہے خدا اپنے ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اس پر ظاہر کردیتا ہے کہ وہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اس کے کلام کی پیروی کرتا ہے۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۳۰۵تا۳۰۹) اور آپؑ نے اپنے منظوم کلام قرآن کریم کی روحانی تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ؎
پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہر اک لفظ مسیحا نکلا
پھر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئےحضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ اور حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے۔ سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِیْ الْقُرْآن۔ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں…تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے… تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے۔‘‘… قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو… ‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۲۶-۲۷)
’’قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے
بے اِس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے‘‘
(نصرۃ الحق براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد۲۱صفحہ۱۲)
قرآن کریم کی محبت سے محبت الٰہی کے پیدا ہونے کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’پَرَسْتِشْ کی جڑ تلاوت کلام الٰہی ہے کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور سچے محب کے لئے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے‘‘۔ (سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۲۸۳)
وفادار عاشِق کا ہے یہ نِشاں
کہ دِلبر کا خط دیکھ کر ناگہاں
لگاتا ہے آنکھوں سے ہو کر فِدا
یہی دیں ہے دِلدارگاں کا سَدا
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’ پھر یہ یاد رکھو کہ قرآن کریم خداکی کتاب اور اس کے منہ کی باتیں ہیں اس کا ادب واحترام کرو۔ قرآن کریم کے بغیر کوئی دین نہیں اور اس دین کے بغیر کہیں ایمان نہیں اور ایمان کے بغیر نجات نہیں۔ وہ شخص ہر گز جنت نہیں پا سکتا جو قرآن کریم پر عمل نہ کرے… دیکھو اگر کسی رشتہ دار کا خط آئے تو پڑھے ہوئے سے پڑھوا کر سنا جاتا ہے۔ اسی طرح قرآن بھی خط ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے نام آیا ہے اس کو اپنے رشتہ داروں سے پڑھوا کر سنو… اور اسے یاد کرو… تمہیں چاہئے کہ خدا کے کلام کو خدا کے الفاظ میں سنو اور عربی پڑھو اور اس کے معنے سیکھو۔ خواہ کوئی عمر ہو پڑھنے سے جی نہ چراؤ…خود پڑھنے اور دوسرے سے سننے میں بڑا فرق ہے۔ سننے میں صرف کان ہی مشغول ہوتے ہیں۔ خود پڑھنے سے آنکھیں بھی مشغول رہتی ہیں۔ اور اس طرح زیادہ ثواب ہوتا ہے… دیکھو اگر کوئی بھوکا ننگا ہو تو دوسروں سے کھانا اور کپڑے مانگ لیتا ہے اور اس میں شرم نہیں کرتا۔ جب ایسی چیزوں کے لئے نہیں کی جاتی تو خدا تعالیٰ کی باتیں سننے اور پڑھنے میں کیوں شرم کی جائے؟ ‘‘ ( الازھار لذوات الخمار صفحہ ۳۹-۴۱)
خاکسار اپنی گزارشات کو اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر ختم کرتی ہے۔آپ فرماتے ہیں: آج یہ ہم احمدیوں کا کام ہے کہ ہم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرتے ہوئے اس تعلیم کی خوبیوں کو اپنے قول و فعل سے کر کے دکھائیں، عمل کر کے دکھائیں۔ دنیا کو بتائیں کہ قرآن کریم ہی ہے جو ہر قسم کی بیماریوں کا علاج ہے اور اس کو بھیجنے والا وہ خدا ہے جس نے اسے بامقصد بنا کر دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍ مارچ ۲۰۲۳ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍مارچ ۲۰۲۳ء)