نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت اورآپؐ کے حسین شمائل
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍ فروری ۲۰۰۵ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍٍکے بارے میں فرماتے ہیں : ’’تُو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق و مفطور ہے۔ یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا متمم اور مکمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں۔ ‘‘ کہ یہ جو اعلیٰ اخلاق ہیں اتنے مکمل آپ میں پائے جاتے ہیں کہ اس سے زیادہ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ فرمایا: ’’کیونکہ لفظ عَظِیْم محاورۂ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو۔ ‘‘ یعنی جو بھی صفت ہے اس میں و ہ انتہا ئی حد تک پہنچی ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’بعضوں نے کہا ہے کہ عَظِیْم وہ چیز ہے۔ جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطۂ ادراک سے باہر ہو۔ ‘‘یعنی عَظِیْم چیز وہ ہوتی ہے کہ عقل اس کو سوچ نہیں سکتی، اس کا احاطہ نہیں کر سکتی، اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ 194 بقیہ حاشیہ نمبر 11)
تو یہ ہیں وہ عظیم اخلاق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے اعلیٰ معیار تک تمہاری عقل و سوچ پہنچ ہی نہیں سکتی۔ وہ سوچ سے باہر ہیں۔ اور جب وہ ایک مومن کی سوچ سے باہر ہوجائیں تو ایک ایسا آدمی جو مومن نہیں ہے، اس کی سوچ تو ان تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ وہ تو ہرایسے پہلو کی اپنی سوچ کے مطابق اپنی ہی تشریح کرے گا۔ اور اگر کرے گا بھی تو اگر اچھائی کی طرف بھی جائے تواس کا ایک محدود دائرہ ہو گا۔ ہمیں بہرحال یہ حکم ہے کہ تم بہرحال اپنی استعدادوں کے مطابق ان اخلاق کی پیروی کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ کی اس زبردست گواہی کے باوجود کہ آپؐ عظیم خلق پر قائم ہیں اور اللہ کا قرب پانے کے لئے، آپؐ کے نقش قدم پر چلنا ضروری ہے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمیشہ اپنے آپ کو عاجز بندہ ہی سمجھا ہے۔ چنانچہ ایک دعا جو آپؐ مانگا کرتے تے وہ آپؐ کے اس خلق عظیم کو اور بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ اور بے اختیار آپ کے لئے درود و سلام نکلتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے :کہ اے اللہ! جس طرح تو نے میری شکل و صورت اچھی اور خوبصورت بنائی ہے اسی طرح میرے اخلاق و عادات بھی اچھے بنا دے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 155مطبوعہ بیروت)
دیکھیں خوبصورت شکل و صورت پر بے اختیار اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کے جذبات نکل رہے ہیں۔ اور ساتھ یہ بھی کہ اے خدا! تو نے کہہ تو دیا کہ یہ نبی خلق عظیم پر قائم ہے۔ لیکن میں بشر ہوں اس لئے میرے اخلاق و اطوار ہمیشہ اچھے ہی رکھنا۔ ان پاک نمونوں کو قائم کرنے کی جوذمہ داری تو نے میرے سپرد کی ہے اس کو مجھے احسن طور پر بجا لانے کی توفیق بھی دینا۔ تو دیکھیں یہ اعلیٰ اخلاق اور عاجزی کی انتہا۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو فرما رہا ہے کہ تم خلق عظیم پر قائم ہو، امت کو فرما رہا ہے کہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔ لیکن آپؐ یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ! میرے اخلاق و عادات و اطوار ہمیشہ اچھے ہی رکھنا۔ دنیاداروں میں دیکھ لیں اگر کوئی افسر کسی کی تعریف کر دے تو دماغ آسمانوں پہ چڑھ جاتا ہے کہ مَیں پتہ نہیں کیا چیزبن گیا ہوں۔ اب یہ اعتراض کرنے والے بتائیں جو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیا انسانی تاریخ میں اس جیسا عاجزی کا پیکر کوئی نظر آتا ہے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی تھی کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے اخلاق پر ڈھالیں۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کے مطابق اپنی زندگی گزاریں اور یوں اپنی امت کے لئے کامل اور مکمل نمونہ بنیں۔ اور آپؐ نے یہ ثابت کر دکھایا۔
چنانچہ حضرت عائشہؓبیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن کے عین مطابق تھے وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں خوش ہوتے تھے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی ہوتی تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں تو اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔ (الشفاء لقاضی عیاض- الباب الثانی۔ الفصل العاشر۔ الاخلاق الحمیدۃ)
اور یہ کوئی چند ایک یا دس بیس واقعات نہیں ہیں جن سے آپؐ کے اخلاق کا ہمیں پتہ چلتا ہے۔ اور اس بارے میں صرف آپؐ کی بیوی کی ہی گواہی نہیں ہے۔ گھریلو زندگی کا اندازہ کرنے کے لئے بیوی کی گواہی بھی بہت بڑی گواہی ہوتی ہے اور بیوی بچوں کی گواہیوں سے ہی کسی کے گھر کے اندرونی حالات کا اور کسی کے اعلیٰ اخلاق کا پتہ لگتا ہے۔ لیکن آپؐ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں تو ہزاروں مثالیں مختلف طبقات کے لوگوں سے مل جاتی ہیں۔ خادم جو گھر کے اندر خدمت کے لئے ہو، گھر کے حالات سے بھی باخبر رہتا ہے اور باہر کے حالات سے بھی باخبررہتا ہے۔ انہیں خدام میں سے ایک حضرت انسؓ تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ حضرت انسؓ کا یہ بیان بھی ہے کہ اتنا عرصہ مَیں نے خدمت کی، ۱۰-۱۲؍ سال جوخدمت کی، کبھی آج تک کسی بات پر، میری کسی کوتاہی پر، میری کسی غلطی پر سخت الفاظ مجھے نہیں کہے۔
پھر آپ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں ایک اور روایت میں حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور خوش اخلاق تھے۔ (بخاری کتاب المناقب۔ باب صفۃ النبیﷺ)