الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت رسول کریم ﷺ کا عشق الٰہی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۶؍اپریل ۲۰۱۳ء میں آنحضرتﷺ کے عشق الٰہی کے بارے میں مکرم ندیم احمد فرخ صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ مومنوں کی ایک صفت کا اظہار یوں فرماتا ہے: اور و ہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، اللہ کی محبت میں(ہر محبت سے)زیادہ شدید ہیں۔ (البقرہ:۱۶۶)
خدا تعالیٰ نے محبت خداوندی کے متوالوں کے لیے یہ اعلان بھی کروایا:تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔ (آل عمران:۳۲)
فرمان الٰہی کی تعمیل میں یہ مژدہ جاں فزا سنانے والے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺتھے جنہوں نے اپنے ربّ سے انتہا درجہ کی محبت کی اور اللہ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہوکر دنیا کو بہترین اور خوبصورت نمونہ دیا ۔آپؐ کی ساری زندگی عشق الٰہی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے۔چنانچہ عشق الٰہی کے نظاروں کو دیکھ کر مکہ کے لوگ یہی کہتے تھے کہ ’’محمدؐ تو اپنے ربّ پر عاشق ہوگیا ہے۔‘‘ (المنقذ من الضلال از امام غزالی صفحہ۱۵۱)
آپؐ کی محبت الٰہی کا اندازہ آپؐ کی عبادات اور ذکر الٰہی سے خوب ہوسکتا ہے مگر آپؐ کا عشق الٰہی میں یہ حال تھا کہ آپؐ حضرت داؤدؑ کی یہ دعا بڑے شوق سے اپنی دعاؤں میں شامل فرماتے تھے: اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچادے۔اے اللہ ! اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال،میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو۔ (ترمذی کتاب الدعوات)
اور پھر محبت الٰہی کے حصول کے لیے آپؐ نے خود بھی جو دعا سکھلائی وہ بلاشبہ حضرت داؤدؑ کی دعا سے کہیں بڑھ کر ہے۔آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور دعاگو ہیں: ’’اے اللہ مجھے اپنی محبت عطا کراور اس کی محبت جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔اے اللہ میری دل پسند چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیزوں کے حصول کے لیے قوت کا ذریعہ بنادے اور میری وہ پیاری چیزیں جو تو مجھ سے علیحدہ کردے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرمادے۔‘‘ (ترمذی کتاب الدعوات)
عشق الٰہی میںآپؐ کی حالت یہ تھی کہ دنیا سے بے پروا ہوکر رات کو صبح تک یوں عبادت کرتے تھے کہ بعض دفعہ آپؐ کے پاؤں مبارک سوج جاتے تھے اور آپؐ کو دیکھنے والوں کو آپؐ کی حالت پر رحم آتا تھا۔جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے ایک ایسے ہی موقع پر کہا: یا رسول اللہ!آپؐ تو خدا تعالیٰ کے پہلے ہی مقرب ہیں آپؐ اپنے نفس کو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں۔ تو آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ!کیا مَیں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
ایک سچے عاشق کی طرح جب بھی اپنے معشوق کے گھر سے بلاوا سنتے تو لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوجاتے۔ اپنی امّت کو تو یہ سہولت دے دی کہ جب کھانا چُنا جا چکا ہو تو کھانے سے فارغ ہوکر نماز ادا کرلو مگر اپنا یہ حال تھا کہ بلال کی آواز سنی تو صرف اتنا کہا: ’’اسے کیا ہوا اللہ اس کا بھلا کرے۔‘‘ اور اگلے ہی لمحے وہ چھری وہیں رکھ دی جس سے بھنا ہوا گوشت کاٹ رہے تھے اور نماز کے لیے تشریف لے گئے۔(ابو داؤد کتاب الطہارت)
بیماری میں بھی نماز ضائع نہ ہونے دیتے تھے۔ایک دفعہ گھوڑے سے گر جانے کے باعث جسم کا دایاں پہلو شدید زخمی ہوگیا ۔کھڑے ہو کر نمازنہ ادا فرما سکتے تھے چنانچہ بیٹھ کر نماز پڑھائی مگر باجماعت نماز میں ناغہ نہ فرمایا۔(بخاری کتاب المرضیٰ)
آپؐ خوشی کی حالت میں بھی یاد الٰہی سے غافل نہ ہوتے اور نہ ہی غمی کے مواقع پر، نہ سفر میں یا حضر میں بلکہ جیسے بھی آپؐ کو اطلاع ہوتی تو خدا کے حضور حاضر ہوجاتے۔صحت کی حالت ہو یا بیماری کی آپؐ ذکر الٰہی سے کبھی غافل نہ ہوتے۔
غزوہ احد کی شام جب لوہے کے خود کی کڑیاں دائیں رخسار میں ٹوٹ جانے سے بہت سا خون بہ چکا تھا۔آپؐ زخموں سے نڈھال تھے اور ۷۰؍ اصحاب کی شہادت کا غم کہیں بڑھ کر اور اعصاب شکن تھا، اس روز بھی بلال کی اذان پر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔
آخری بیماری میں تپ محرقہ میں مبتلا تھے مگر فکر تھی تو نماز کی۔گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے کیا نماز کا وقت ہوگیا؟ بتایا گیا کہ لوگ آپؐ کے منتظر ہیں۔بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایا: پانی کے مشکیزے میرے اوپر ڈالو۔ تعمیلِ ارشاد ہوئی۔ پھر غشی طاری ہوگئی۔ پھر ہوش آیا تو پوچھا: نماز ہوگئی؟ جب پتا چلا کہ اصحاب انتظار میں ہیں تو فرمایا مجھ پر پانی ڈالو۔ تعمیل کی گئی۔ بخار کم ہوا تو تیسری بار نماز کے لیے جانے لگے مگر نقاہت کے باعث نیم غشی کی کیفیت طاری ہوگئی اور آپؐ مسجد تشریف نہ لے جاسکے۔ (بخاری کتاب المغازی)
بخار میں جب ذرا سا افاقہ ہوا تو اسی بیماری اور نقاہت میں دو صحابہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اور اُن کا سہارا لے کر نماز پڑھنے مسجد گئے۔ حالت یہ تھی کہ پاؤں زمین پر گھسٹتے جارہے تھے۔حضرت ابو بکرؓ نماز پڑھارہے تھے۔ آپؐ نے ان کے بائیں پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور یوں آخری دَم تک عبادتِ الٰہی کا حق ادا کر کے دکھا دیا۔ (بخاری کتاب الاذان)
عشق حقیقی کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ انسان اپنے محبوب سے منسوب ہر چیز سے محبت کرتا ہے ۔چنانچہ رسول خداﷺ کلام الٰہی سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ کا کلام سنتے تو بے اختیار آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ خصوصاً وہ آیات جن میں آپؐ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔چنانچہ عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہؐ نے فرمایا: قرآن شریف کی کچھ آیات مجھے سناؤ۔مَیں نے اس کے جواب میں کہا یا رسول اللہ! قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے مَیں آپ کو کیا سناؤں۔فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ دوسرے لوگوں سے بھی پڑھوا کر سنوں۔ اس پر میں نے سورۃ النساء پڑھ کر سنانی شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچا کہ فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا… تو آپؐ نے فرمایا: بس کرو بس کرو۔ میں نے آپؐ کی طرف دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہؐ کے ساتھ مجھے رات گزارنے کا موقع ملا آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے اور روتے روتے گر گئے پھر بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی اور ہر بار روتے روتے گر پڑتے تھے اور آخر پر فرمایا وہ شخص بڑا ہی نامراد ہے جس پر رحمان اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔ (الوفاء باحوال المصطفیٰ لابن جوزی)
نبی کریمؐ کے عشق الٰہی کی انتہا کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکہ کے ظالموں نے اپنے ظلم کی آپؐ پر انتہا کردی ہر طرح کے مظالم کا آپ کو نشانہ بنایا مگر اس وقت تک آپؐ نے مکہ کو نہ چھوڑا جب تک کہ خداتعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مکہ چھوڑنے کا حکم نہ دیا۔ اس سے قبل اہل مکہ کے ظلموں کی شدت دیکھ کر جب صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تو اصحاب رسول نے خواہش ظاہر کی کہ آپؐ بھی ان کے ساتھ چلیں تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھے ابھی تک خداتعالیٰ کی طرف سے اذن نہیں ملا۔ حضورؐ تنِ تنہا دشمنوں کے درمیاں رہے۔ صرف اس لیے کہ خدا کی طرف سے حکم نہیں ہواتھا اور پھر جب مکہ والے لشکر بن کر مدینہ میں مسلمانوں پرٹوٹ پڑنے کو تیار تھے تو اس وقت بھی جب خدا نے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دے دی تو آپؐ مقابلہ کے لیے نکلے۔ غرض ہر موقع پر آپؐ اپنے محبوب کے حکم یعنی اذنِ الٰہی کے منتظر رہے اور کبھی کوئی قدم خود سے نہ اٹھایا۔ بلکہ آپؐ کے عشق الٰہی کا اظہار آپؐ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری سے خوب ہوتا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ جب سورۃ النصر میں افواج کے اسلام میں داخلہ پر استقبال کی خاطر اللہ کی تسبیح و حمد اور استغفار کرنے کا حکم ہوا تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: اس کے بعد رسول اللہؐ کی کوئی نماز خالی نہ جاتی تھی جس میں آپؐ یہ کلمات نہ پڑھتے ہوں کہ اے اللہ! تُو پاک ہے، اے ہمارے ربّ اپنی حمد کے ساتھ، اے اللہ! مجھے بخش دے۔ (بخاری کتاب الاذان)
نبی کریمؐ کے عشق الٰہی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آپؐ کے دل میں اللہ کے نام کا اس قدر احترام تھا کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی صحابی نے حضورؐ سے عرض کیا کہ وہی ہوا جو اللہ اور آپؐ نے چاہا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تم نے مجھے خدا کے برابر ٹھہرادیا ہے۔ گویا صرف ماشا ء اللہ کہو کہ یہی کامل توحید ہے۔ (مسند احمد جز اوّل)
نبی کریمؐ نے ساری زندگی عشق الٰہی میں ڈوبی ہوئی گزاری اور توحید کے قیام میں پورا زور لگایا اور شرک سے انتہائی نفرت کی حتّٰی کہ وفات کے وقت جب آپؐ جان کندنی کی حالت میں تھے تو کبھی دائیں کروٹ لیتے اور کبھی بائیں اور فرماتے جاتے: خدا لعنت کرے ان یہود و نصاریٰ پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالیا ہے۔یعنی وہ نبیوں کی قبروں پر سجدہ کرتے ہیں اور ان سے دعائیں کرتے ہیں۔
اسی طرح جب غزوہ احد میں کفار مکہ کے درۂ احد سے دوبارہ حملہ کے بعد مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اس دوران ۷۰؍ مسلمان شہید ہوئے تھے۔خود رسول اللہؐ کی شہادت کی خبر پھیل گئی تھی۔دشمن اس خوشی میں لگا ہواتھا کہ ہم نے مسلمانوں کی طاقت کو توڑ کے رکھ دیا ہے۔ تو ابو سفیان مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:کیا تم لوگوں میں محمدؐ موجود ہے؟ رسول اللہؐ نے ازراہ مصلحت خاموشی کا فرمایا کہ جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔پھر ابو سفیان بولا: کیا تم میں ابو قحافہ کا بیٹا (یعنی ابوبکر) موجود ہے؟ رسولؐ اللہ نے پھر فرمایا جواب نہ دو۔پھر ابو سفیان بولا: کیا تم میں عمر ہے؟ مسلمانوں کی مسلسل خاموشی دیکھ کر ابو سفیان نے فتح کا نعرہ لگایا:اُعلُ ھُبَل۔ہبل بت زندہ باد۔
یہ فقرہ سنا ہی تھا کہ رسول اللہؐ کی غیرتِ توحید نے جوش مارا اور آپؐ نے اصحاب کو جواب دینے کاارشاد فرمایا۔ اصحاب نے پوچھا کیا جواب دیں؟ فرمایا کہو : اللّٰہ اَعلیٰ وَاَجَلُّ اللہ سب سے بلند اور اعلیٰ شان والا ہے۔
ابو سفیان پھر بولا ہمارا توعندیٰ بت ہے تمہارا کوئی عندیٰ نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اسے جواب دو: ’’اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔‘‘ (بخاری کتاب المغازی)
فتح مکہ کے موقع پر بھی غیرتِ توحید کی عجب شان دیکھنے میں آئی۔ وہ گھر جس کے بارے میں حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی کہ اے خدا! میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچانا۔بعثتِ نبیؐ سے پہلے اس خانۂ خدا میں ۳۶۰بت تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کی دعاؤں کے طفیل جب نبی کریم ؐنے اس گھر کوجھوٹے خداؤں سے پاک کیا تو مکّے میں داخل ہوتے وقت اگرچہ انکساری کی یہ حالت تھی کہ فخر انسانیت کا سر اتنا جھکا ہوا تھا کہ سواری کے پالان کو چھونے لگا تھا۔لیکن ربّ جلیل کی عظمت و وحدانیت کی خاطر غیرت کا اظہار یوں فرمایا کہ ہر ایک بُت پر پوری قوّت سے اپنی کمان ماری اور اس کو گراتے چلے گئے اور بڑے جلال سے یہ آیت تلاوت کرتے رہے: جَآءَ الۡحَقُّ وَزَہَقَ الۡبَاطِلُ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا(بنی اسرائیل:۸۲)(بخاری کتاب المغازی باب فتح مکہ)
الغرض آنحضرتﷺ کی ساری زندگی عشق الٰہی میں ڈوبی ہوئی گزری جس کا اظہار ہم نے آپؐ کی عبادات، نمازوں، دعاؤں، ذکر الٰہی،غمی و خوشی کے لمحات میں دیکھا اور یہی عشق الٰہی تھا جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فرمایا:تُو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔(آل عمران آیت ۳۲)
پس اگر آج کوئی اللہ سے محبت کرنا چاہتا ہے یا چاہتا ہے کہ خدا اس سے محبت کرے تو اُس کے لیے نبی کریمﷺ کی پیروی اور اسوۂ حسنہ پر عمل لازم ہے ۔
………٭………٭………٭………
زم زم کا مقدّس چشمہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۹؍نومبر۲۰۱۳ء میں آب زم زم کے حوالے سے مختصر معلومات شائع کی گئی ہیں جو ’’عجائبات عالم‘‘ سے ماخوذ ہیں۔
چند ارباب دانش کے نزدیک زم زم کے لغوی معانی ہیں ’’ٹھہرجا ٹھہرجا‘‘ جبکہ بعض ماہرین لسّانیات کے مطابق یہ عربی لفظ زمزمہ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے ’’چھوٹے چھوٹے گھونٹ میں پانی پینا یا چُلّو سے پانی پینا۔‘‘
آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اگر حضرت ہاجرہؑ زم زم کو اسی حالت میں چھوڑ دیتیں (یعنی چاروں طرف مٹی ڈال کر اسے گھیر نہ لیتیں) تو زم زم بہتا ہوا ایک بہت بڑا چشمہ ہوتا۔
اسی مقام پر بعدازاں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی۔ اس کے بعد اہل فارس بھی ادھر آتے رہے۔ ایران کا بادشاہ ساسان بن بابق(جو ساسانی خاندان کا بانی تھا) ۲۲۶قبل مسیح میں اس چشمے کی زیارت کو آیا تھا۔ ایرانیوں کے اس کنویں سے برکت حاصل کرنے کے لیے آنے کا تذکرہ قدیم پارسی شاعری میں بھی ملتا ہے۔
جب بنوجرہم مکّہ سے جانے لگے تو انہوں نے چشمے کو بند کردیا۔ سینکڑوں سال بعد آنحضورﷺ کے دادا حضرت عبدالمطّلب کو خواب میں کنواں کھودنے کا حکم ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے حارث کی مدد سے کنواں کھودا اور وہاں سے پانی برآمد ہوا۔ اس وقت سے وقتاً فوقتاً پانی کم یا خشک ہونے کی وجہ سے کنویں کی گہرائی میں اضافہ ہوتا رہا۔ کنویں کے اوپر موجودہ عمارت ۱۶۶۱ء میں عثمانی ترکوں کے عہد میں تعمیر کی گئی۔ یہ کنواں خانہ کعبہ سے جنوب مشرق کی طرف ۳۳؍گز کے فاصلے پر حجر اسود کی دیوار کے بالمقابل واقع ہے اور ۱۴۰؍ فٹ گہرا ہے۔ اس میں سے پانی ٹیوب ویل کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔
آب زم زم کی مقدار کا حتمی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ ۱۳۹۱ہجری میں سعودی وزارت زراعت کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ اس چشمے سے ایک منٹ میں ۱۶۴ سے ۲۱۷ گیلن پانی پھوٹتا ہے۔ بعدازاں بین الاقوامی کمپنیوں نے یہ اندازہ لگایا کہ ایک گھنٹے میں ساٹھ میٹر تک پانی نکلتا ہے۔ بعدازاں ایک اَور رپورٹ کے مطابق ایک سیکنڈ میں گیارہ اور اٹھارہ لیٹر کے درمیان پانی نکلتا ہے۔
اس بات پر سب ماہرین کا اتفاق ہے کہ چشمے کا پانی تین پتھروں کے درمیان سے پھوٹتا ہے۔ یہ پتھر کعبہ، صفا اور مروہ کی طرف سے آرہے ہیں اور زم زم کے چشمے پر ملتے ہیں۔
………٭………٭………٭