درود شریف کیا ہے اور کیوں پڑھنا چاہیے؟
درود شریف کی اہمیت اور اس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے مقرب فرشتے نبی کریمﷺ پر درود وسلام بھیجتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت مومنین کوبھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ آپؐ پر درود و سلام بھیجا کریں۔جیساکہ ارشادِ مبارک ہے :اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا(الاحزاب : ۵۷)یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ بابرکات پرخلوصِ نیت، پوری توجہ، انہماک، دلی جوش اور نہایت محبت سے درود وسلام بھیجنا چاہیے تاکہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل ہوجائے بلکہ ہمارا ایسا کرنا اُس کی نگاہ میںمقبول ومنظور ہوکر ہمارا وجود محبوبوں کی فہرست میں شامل کرلیا جائے۔ قرآن کریم کی مندرج بالا آیت کریمہ میں درود شریف پڑھنے والوں کے لیے یہ اہم نکتہ بھی پنہاں ہے کہ درود شریف پڑھنے والے اللہ تعالیٰ اور اُس کے مقرب فرشتوں کی ہمنوائی کا شرف حاصل کرلیتے ہیں۔پس یہ کیا ہی خوب منظر ہوگا کہ عرش والے بھی رحمت بھیج رہے ہوں اور فرش والے بھی درودوسلام میں سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہوں۔
درود شریف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اسلام کی اہم ترین عبادت یعنی نماز کا لازمی جزو ہے اس طرح ہر نماز پڑھنے والا درود شریف کی برکات سے کچھ نہ کچھ حصہ پالیتا ہے۔اگر نوافل اور سنتوں کی ادائیگی کے دوران رکوع، قیام اور سجدات میں درود شریف شامل کرلیا جائے تواپنی ہمت اور طاقت کے مطابق ان برکات کے دائرے کو مزید وسیع سے وسیع تر کیا جاسکتا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کے لیے بھی ضروری ہے کہ اُن کے ساتھ درود شریف ضرور شامل کیا جائے بلکہ فاتحہ کے بعد دعاؤں کے اوّل و آخر درود شریف شامل کرکے یعنی اُنہیں درود شریف میں سجا سجا کر اپنے مولیٰ کریم کے حضور پیش کرنا چاہیے تاکہ ہمارا یہ تحفہ بارگاہِ ربّ العزت میں پسندآجائے اور ہماری دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کرلیں۔ درود شریف کے بے شمار فیوض و برکات ہیں جن کا ذکر نہایت تفصیل طلب ہے۔ ذیل میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشادات درج کیے جارہے ہیں جن سے درود شریف کی اہمیت اور اس کے پڑھنے کاصحیح طریق جاننے میں مدد ملے گی۔
درود شریف کیا ہے ؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’درود شریف کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عرش کو حرکت دینا ہے۔ جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں۔جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔ ‘‘ (اخبار الحکم قادیان دارالامان۔۲۸؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷)
درود شریف کیوں پڑھنا چاہیے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام درود شریف پڑھنے کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ ہمارے سیدومولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق ووفا دیکھئے۔ آپؐ نے ہر ایک قسم کی بَد تحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب وتکالیف اُٹھائے، لیکن پَروا نہ کی۔ یہی صِدق ووفا تھا، جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (الاحزاب:۵۷)ترجمہ: اللہ تعالیٰ اور اُس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود وسلام بھیجو نبی ؐ پر۔
اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف یا اَوصاف کی تحدید کرنے کے لیے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے، لیکن خود استعمال نہ کیے۔ یعنی آپؐ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپؐ کی روح میں وہ صدق ووفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔ آپؐ کی ہمت وصدق وہ تھا کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں، تو اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۲۳۔۲۴۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
حضورعلیہ السلام کا ایک اور ارشادِ مبارک ہے’’ رسول اللہﷺ کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپؐ نے آکر کیا کیا؟ تو انسان وجد میں آکر اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کہہ اٹھتا ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں،یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے، قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریمؐ نے کیا کیا۔ ورنہ وہ کیا بات تھی جو آپؐ کے لیے مخصوصاً فرمایا گیا:اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:۵۷)کسی دوسرے نبی کے لیے یہ صدا نہیں آئی۔ پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی ایک انسان دنیا میں آیا جو محمد کہلایا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۴۲۱۔ ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
درود شریف پڑھنے کی حکمت
کسی بھی انسان کے اعمال کی جزامیں اُس کی نیت کا بہت عمل دخل ہے، چنانچہ نیت میں جس قدر وسعت،صدق ووفا،ذاتی محبت اوروالہانہ جوش ہوگا،اُسی نسبت سے اُس کا اجر اور فیض ملے گا۔ پس درود شریف پڑھنے میں اس طریق پر متوجہ رہنا چاہیے جس طریق پر کوئی اپنے کسی بہت ہی پیارے کے لیے برکت چاہتا ہے۔ اس لیے نہایت اخلاص اور ذوق کے ساتھ نبی کریمﷺکے لیے برکت چاہتے ہوئے، نہایت تضرع اور بنا کسی بناوٹ کے سچی دوستی اور روح کی سچائی سے آنحضرتﷺ کے لیے وہ برکتیں مانگی جائیں جو درود شریف میں مذکور ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی نقطہ ٔ معرفت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لیے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کی ایک جز ہوجاتا ہے۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بےانتہا ہیں اس لیے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتاہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لیے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔‘‘(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ ۵۳۵۔کمپوزڈ ایڈیشن )
درود شریف پڑھنے کا صحیح طریق
درود شریف پڑھنے کا ایک صحیح طریق یہ ہے کہ اسے رسم اور عادت کے طورپر نہ پڑھا جائے بلکہ درود پڑھنے سے پہلے آنحضرتﷺ کے بے انتہا احسانات کو یاد کرتے ہوئے اور انہیں اپنے دماغ میں لاکر نہایت تضرع سے یہ التجا کی جائے کہ خدا تعالیٰ کی برکات کاملہ آنحضرتﷺ پر نازل ہوتی رہیں اور ان کا فیض تا ابد جاری رہے۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ایک مکتوب میں تحریرفرماتے ہیں:’’درود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ اُن کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضورِ تام سے اپنے رسول ِمقبول کے لیے برکاتِ الٰہی مانگتے ہیں بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کرلینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہرگز اپنا دل یہ تجویز نہ کرسکے کہ ابتداء زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فردِ بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہوسکتا ہے کہ جو کچھ محبانِ صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اُٹھاتے رہے ہیں یاآئندہ اُٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کرسکتی ہے۔ وہ سب کچھ اُٹھانے کے لیے دلی صدق سے حاضر ہو۔ اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوتِ واہمہ پیش نہ کرسکے کہ جس کے اُٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کرسکے کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہوجو اُس جنس کی محبت میں حصہ دار ہواور جب یہ مذہب قائم ہوگیاتو درود شریف …اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوندکریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالم کے لیے سرچشمہ برکتوں کا بناوے اور اُس کی بزرگی اور اس کی شان وشوکت اِ س عالَم اور اُس عالم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہوگا یا یہ درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسول ِ مقبول پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہئے۔ اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔ پس جب اس طور پر یہ درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلاشبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ وبکا ساتھ شامل ہو۔ اور یہاں تک یہ توجہ رگ و ریشہ میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہوجاوے۔ ‘‘ (مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۲۲-۵۲۳۔ کمپوزڈ ایڈیشن )
درود شریف سے برکتیں حاصل کرنے کا طریق
حقیقت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کو ہماری دعاؤںکی حاجت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے درود شریف کے ذریعہ سے ہمیںاپنی حاجتیں اور دعائیں قبول کروانے کا ایک اہم ذریعہ اور طریق سکھایا ہے اور بتایا ہے کہ جب تم میرے محبوبﷺ کے ذریعہ اورآپ کے واسطے سے میرے پاس آؤ گے تواس وسیلے کی وجہ سے میں تمہاری عبادتوں اور دعاؤں کو پھل لگاؤں گا اوراُنہیں قبولیت کادرجہ عطا کروں گا۔ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور مکتوب میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’ آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کے لیے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم کے لیے برکت چاہیںاور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اُس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لیے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کی ایک جزو ہوجاتا ہے۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدّیت کے بے انتہا ہیں اس لیے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لیے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔‘‘(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ ۵۳۴تا ۵۳۵۔ کمپوزڈ ایڈیشن )
درود شریف کس قدر پڑھنا چاہیے؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور مکتوب میں درود شریف پڑھنے کا طریق اور اس کی مقدار کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیۡتَ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبۡرَاھِیۡمَ اِنَّکَ حَمِیۡدٌمَّجِیْدٌّ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکۡ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکۡتَ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبۡرَاھِیۡمَ اِنَّکَ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ۔جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں۔ اُ ن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کرلینا چاہئے کہ جو پرہیزگاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالارہے اُس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا وِرد ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضرور نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اُس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقّت اور بیخودی اور تاثر کی پیدا ہوجائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔ ‘‘(مکتوباتِ احمد جلد اوّل صفحہ ۵۲۶۔ مکتوب نمبر ۱۳۔ بتاریخ ۲۶؍اپریل ۱۸۸۳ء۔ کمپوزڈ ایڈیشن )
اسی طرح حضور علیہ السلام نے ایک اور مکتوب میں تحریر فرمایاہے کہ’’درود شریف پڑھنے کی مفصل کیفیت پہلے لکھ چکا ہوں …کسی تعداد کی شرط نہیں۔ اس قدر پڑھا جائے کہ کیفیت صلوٰۃ سے دل مملو ہوجائے اور ایک انشراح اور لذت اور حیواۃ قلب پیدا ہوجائے۔ اور اگر کسی وقت کم پیدا ہو تب بھی بے دل نہیں ہونا چاہئے اور کسی دوسرے وقت کا منتظر رہنا چاہئے اور انسان کو وقت صفا ہمیشہ میسر نہیں آسکتا۔ سو جس قدر میسر آوے اُس کو کبریت اَحمر سمجھے اور اُس میں دل وجان سے مصروفیت اختیار کرے۔ ‘‘ (مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۵۳۲۔ مکتوب نمبر ۱۷بتاریخ ۲؍جون ۱۸۸۳ء۔ کمپوزڈ ایڈیشن )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے صحابی حضرت چوہدری رستم علی رضی اللہ عنہ کو ایک خط میں تحریر فرمایا کہ ’’ آپ کے لیے دعا کی ہے۔ خدا تعالیٰ دنیا وآخرت محمود کرے۔ بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں۔ اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا وِرد مقرر رکھیں تو بہتر ہے اور بعد نماز صبح اگر ممکن ہوتو، تین سو مرتبہ استغفار کا ورد رکھیں۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد دوم مکتوب نمبر ۴ تاریخ ۱۸؍ستمبر ۱۸۸۴ء صفحہ ۴۵۸۔کمپوزڈ ایڈیشن )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک خط کے جواب میں حضرت چوہدری رستم علی رضی اللہ عنہ کو تحریر فرمایا کہ’’بعد نماز مغرب وعشاء جہاں تک ممکن ہو درود شریف بکثرت پڑھیں اور دلی محبت واخلاص سے پڑھیں۔ اگر گیارہ سَو دفعہ روز ورد مقرر کریں یا سات سَو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیۡتَ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبۡرَاھِیۡمَ اِنَّکَ حَمِیۡدٌمَّجِیْدٌّ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکۡ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکۡتَ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبۡرَاھِیۡمَ اِنَّکَ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ۔ یہی درود شریف پڑھیں۔ اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جاوے تو زیارت رسول کریم بھی ہوجاتی ہے اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لیے بہت مؤثر ہے۔ اور بعد نمازصبح کم سے کم سو مرتبہ استغفار دلی تضرع سے پڑھنا چاہئے۔ ‘‘(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۴۶۲۔مکتوب نمبر ۱۲بتاریخ ۲؍اگست ۱۸۸۵ء۔ کمپوزڈ ایڈیشن )
تمام دعاؤں کا مجموعہ
حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں درود شریف کثرت سے پڑھتا تھا اور اس میں بہت لذت اور سرور حاصل کرتا تھا۔ انہی ایام میں مَیں نے ایک حدیث میں پڑھا کہ ایک صحابی نے رسول کریمﷺکے حضور میں عرض کیا کہ میری ساری دعائیں درود شریف ہی ہوا کریں گی۔ یہ حدیث پڑھ کر مجھے بھی پر زور خواہش پیداہوئی کہ میں بھی ایسا ہی کروں ۔ چنانچہ ایک روز جب کہ میں قادیان آیا ہوا تھااور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنی تمام خواہشوں اورمرادوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے درود شریف ہی کی دعا مانگا کروں۔ حضور ؑنے اس پر پسندیدگی کا اظہار فرمایااور تمام حاضرین سمیت ہاتھ اُٹھا کر اسی وقت میرے لیے دعا کی۔ تب سے میرا اس پر عمل ہے کہ اپنی تمام خواہشوں کو درود شریف کی دعا میں شامل کرکے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں۔ اور یہ قبولیت دعا کا ایک بہت بڑا ذریعہ میرے تجربہ میں آیا ہے۔ وَمَا تَوۡفِیۡقِیۡ اِلَّا بِاللّٰہِ الۡعَلِیِّ الۡعَظِیۡمِ۔ ‘‘ (رسالہ درود شریف صفحہ ۱۳۸۔کمپوزڈ ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں درود شریف کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اُسی جوش،والہانہ محبت،اخلاص ووفا، صدق وصفا اور دردِ دل سے درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُس کی بارگاہ میں مقبول ومنظور ہوجائے۔