عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے
شیطان کیونکہ تکبر دکھانے کے بعد سے ابتدا سے ہی یہ فیصلہ کر چکا تھاکہ مَیں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاؤں گااور عبادالرحمٰن نہیں بننے دوں گا اور مختلف طریقوں سے اس طرح انسان کو اپنے جال میں پھنساؤں گاکہ اس سے نیکیاں سرزد اگرہو بھی جائیں تو وہ اپنی طبیعت کے مطابق ان پر گھمنڈ کرنے لگے اور یہ نخوت اور یہ گھمنڈ اس کو یعنی انسان کو آہستہ آہستہ تکبرکی طرف لے جائے گا۔یہ تکبر آخر کاراس کو اس نیکی کے ثواب سے محروم کردے گا۔ توکیونکہ شیطان نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھاکہ وہ انسان کو راہ راست سے بھٹکائے گا اور اس نے خود بھی تکبر کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کاانکار کیا تھا اس لئے یہی وہ حربہ ہے جو شیطان مختلف حیلوں بہانوں سے انسا ن پر آزماتاہے اور سوائے عبادالرحمٰن کے کہ وہ عموماً اس ذریعہ سے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں،عبادت گزار ہو تے ہیں، بچتے رہتے ہیں ۔اس کے علاوہ عموماً تکبر کا ہی یہ ذریعہ ہے جس کے ذریعہ شیطان انسان کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوجاتاہے۔ تو یہ ایک ایسی چیزہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔کہ یہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے یہ شرط تسلیم کرلی کہ تکبر نہیں کریں گے،نخوت نہیں کریں گے، بکلی چھوڑ دیں گے۔یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔اس کی مختلف قسمیں ہیں، مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتارہتاہے۔بہت خوف کامقام ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہو تو اس سے بچا جاسکتاہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ رکھ دیا۔فرمایا کیونکہ تم تکبر کی عادت کوچھوڑوگے تو جو خلا پیدا ہوگا اس کواگر عاجزی اور فروتنی سے پُرنہ کیا توتکبر پھر حملہ کرے گا۔اس لئے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ آپ نے خود بھی اس عاجزی کو اس انتہا تک پہنچا دیا جس کی کوئی مثال نہیں تبھی تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر آپ کو الہاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں ۔ تو ہمیں جو آپ کی بیعت کے دعویدار ہیں، آپ کو امام الزمان مانتے ہیں، کس حد تک اس خُلق کو اپنانا چاہئے۔انسان کی تو اپنی ویسے بھی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ تکبر دکھائے اوراکڑتا پھرے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍اگست ۲۰۰۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۴؍اکتوبر ۲۰۰۳ء)