سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی لازوال یادوں اور شفقتوں کے چند واقعات
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی پہلی زیارت
۱۹۶۵ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی مرتبہ سندھ تشریف لے گئے، تو سندھ سے واپسی کے سفر کے لیے آپ نے چناب ایکسپریس کے ذریعہ سفر اختیارفرمایا۔
جماعتوں کو پتا چلتا تو ریلوےسٹیشن پر جمع ہوکر حضورؒ کی زیارت کرتیں۔ خاکسار نے اس سے قبل حضورؒ کو نہ دیکھا تھا اور نہ ہی شرفِ زیارت نصیب ہوا تھا۔ ہم چنی گوٹھ ضلع بہاولپور میں رہتے تھے اور چنی گوٹھ میں چناب ایکسپریس کا ایک منٹ کا سٹاپ تھا اور اس اسٹیشن پر گاڑی تھوڑی دیر کے لیے رکتی تھی۔ میرے اباجان سید شوکت علی صاحب کوامیر ضلع بہاولپور چودھری رحمت اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے اطلاع ہوئی تو ابا جان نے ارادہ کیا کہ ہم سب بچے اور والدہ صاحبہ چنی گوٹھ کے ریلوے اسٹیشن پر حضورؒ کی زیارت کریں گے۔لیکن پھر اس خیال سے کہ ایک منٹ تو حضور کا کمپارٹمنٹ تلاش کرنے میں ہی گزر جائے گا، ملاقات ناممکن سی معلوم ہونے لگی۔ پھر ارادہ کیا کہ کسی بڑے اسٹیشن پر چلے جائیں۔ سفر اختیار کرکے وہاں حضورؒ کی زیارت ہوجائے، یہ بھی ناممکن سا معلوم ہوا۔پھر اباجان نے چنی گوٹھ کے اسٹیشن ماسٹر سے بات کی کہ ہمارے روحانی خلیفہ تشریف لارہے ہیں اس لیے اگر ٹرین زیادہ دیر کے لیے رک جائے، انہوں نے پوچھا کہ پتا ہے کس ڈبہ میں ہوں گے؟ چنانچہ انہیں معلوم کرکے بتایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں گاڑی کو تھوڑی زیادہ دیر کے لیے کھڑا کرلوں گا تا کہ آپ لوگ زیارت کرلیں۔ پھر کہنے لگے کہ میری بھی ایک شرط ہے۔ اباجان کچھ گھبرا گئے اور شرط کے بارے میں پوچھنے پر اسٹیشن ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ میری بھی ملاقات اور زیارت کرا دیں۔اباجان نے کہا کہ یہ تو میرے بس کی بات نہیں۔ حضورؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے ذریعہ میں آپ کی بات پہنچا دوں گا۔ پھر حضور پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہاکہ ٹھیک ہے۔
مقررہ دن آنے پر ہماری والدہ صاحبہ نے ہم سب بہن بھائیوں کو تیار کیا۔ نہلایا،اچھے کپڑے پہنا ئے اور پیدل دو میل کاسفر طے کرکے (ہمارے گھر سے اسٹیشن تک کا راستہ تقریباً دومیل بنتا تھا) ہم ریلوے اسٹیشن پر پہنچے، اسٹیشن ماسٹر صاحب نے اباجان کو پتا کرکے بتا دیا تھا کہ فلاں نمبر ڈبہ کس جگہ ہوگا۔ چنانچہ ٹرین آئی اور ہم قریباً صحیح جگہ کھڑے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے کھڑکی سے ہمیں دیکھا۔ میری والدہ صاحبہ نے حضورؒ کو ہم بچوں کا تعارف کرایا اور میرے متعلق میری حضورؒ کی خدمت میں عرض کی حضور یہ میرا بیٹا ہے اور میں اسے وقف کرنا چاہتی ہوں۔پیارے حضور نے بڑے پیار بھر ے انداز میں اچھا کہہ کر گاڑی کی کھڑکی سے اپنا ہاتھ باہر نکالا اور خاکسار کے سر پر شفقت کے ساتھ پھیرتے ہوئے خاکسار کو دعا دی۔ یہ خاکسار کی پہلی زیارت تھی۔الحمدللہ ثم الحمدللہ
جامعہ احمدیہ میں داخلہ اور جلسہ سالانہ پر زیارت
خاکسار ۱۹۶۶ء میں پہلی مرتبہ ربوہ آیا اور مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے بعد جامعہ میں داخل ہوا۔اس کے بعد مسجد مبارک اور دیگر جماعتی تقریبات میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے اور زیارت کرنے کا موقع نصیب ہوتا رہا۔
جلسہ ہائےسالانہ کے مواقع پر ہماری ڈیوٹیاں بھی لگتیں۔ خاکسار کی پہلی ڈیوٹی ریلوے اسٹیشن ربوہ پر مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب کے ساتھ شعبہ استقبالیہ میں لگی۔جب حضورؒ جلسہ کی ڈیوٹیوں کے معائنہ کے لیے تشریف لائے تو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ان دنوں جلسہ کے ایام میں دور دور کی جماعتوں کی بھی حضورؒ سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔چنانچہ جس دن ضلع بہاولپور کی جماعتوں کی زیارت و ملاقات کی باری تھی خاکسار بھی اپنے اباجان کے ساتھ قصر خلافت میں گیا اور حضور ؒسے شرف مصافحہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک اَور شفقت
جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران ہمیں ہائیکنگ پر بھی جانا ہوتا تھا۔ جب ہماری باری آئی تو ایبٹ آباد، کاغان، ناران، بٹہ کنڈی، جھیل سیف الملوک والے علاقہ کی طرف گئے ۔جب ہائیکنگ مکمل کرکے اسلام آباد واپس آئے تو پتا چلا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بھی ان دنوں اسلام آباد رونق افروزہیں۔ ہم طلبہ نے اپنے ٹیوٹر مکرم قریشی نورالحق صاحب تنویر اور مکرم ملک مبارک احمد صاحب سے گزارش کی کہ وہ حضورؒ کی خدمت میں ملاقات کے لیے درخواست دیں۔ اللہ کے فضل سے ہماری ملاقات کی درخواست منظور ہوگئی اور حضورؒ نے اپنی کوٹھی پر ہم سب کو شرف ملاقات بخشا۔سب طلبہ ملاقات کے کمرے میں چلے گئے اور حضور ایک چھوٹے تخت پر تشریف فرما ہوئے۔میں سب سے آخر میں داخل ہوا۔ جب اندر پہنچا توبیٹھنے کو کوئی کرسی نہ ملی۔ خاکسار حضورؒ کے قدموں میں نیچے بیٹھنے لگا تو حضور نے میرے بازو کو پکڑ کر اوپر اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا۔ الحمدللہ و ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔ ہمارے استاد مکرم ملک مبارک احمد صاحب یہ دیکھ رہے تھے، وہ مجھے ہاتھ کے اشارہ سے باربار کہنے لگے کہ میں نیچے بیٹھوں۔ لیکن خاکسار کو تو حضور نے خود بٹھایا تھا۔ میری کیا مجال کہ حضورکی دی ہوئی عنایت کی ناشکری کرتا !ملاقات کے بعد خاکسار نے محتر م ملک صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ آپ ہی نے تو ہمیں یہ سبق سکھایا تھا کہ اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ۔ اب بتائیں حضور کے ارشاد کی کس طرح میں حکم عدولی کرتا؟آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔
خاکسار کو ایک قیمتی اور انمول نصیحت
ہمارے دوست کا ولیمہ تھا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے ولیمے میں مع حضرت بیگم صاحبہ تشریف لائے۔ خاکسار کی ڈیوٹی حضور رحمہ اللہ کو کھانا پیش کرنے پر تھی۔دعا اور ولیمہ کے اختتام پر جب سب لوگ چلے گئے تو حضورؒ نے ہم خدام کو شرف زیارت بخشااور کچھ لمحات ہمارے ساتھ گزارے۔ خاکسار سے حضور نے شادی کے بارے میں دریافت فرمایا۔ عرض کی کہ ابھی شادی نہیں ہوئی حضور! فرمایا میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ غریب گھرانے میں شادی کرنا۔یہ سن کر خاکسار کے چہرے پر کچھ تاثرات ابھرے تو حضور نے دیکھ کر فرمایا کہ پتا ہے کیوں؟ عرض کی کہ نہیں۔ فرمایا کہ مربی کا کام تبلیغ و تربیت کا ہے اور اسے بہت سے سفر بھی درپیش ہوتے ہیں۔اگر مربی صبح کو جائے اور شام کو واپس آئے تو غریب گھر کی بیٹی مربی کے گھر آنے پر اسے اچھی طرح خوش آمدید کرے گی۔ اس کو عزت سے بٹھائے گی، کھانا کھلائے گی۔ لیکن اگر کسی امیر گھرانے کی لڑکی ہوگی تو وہ کہے گی کہ سارا دن کہاں رہےہو؟ انتظارکر کر کے تھک گئی ہوں۔ اتنی دیر کردی آنے میں وغیرہ وغیرہ۔سچ پوچھیں تو میرے لیے تو آپؒ کی یہ نصیحت اس قدر کارگر ثابت ہوئی کہ میں شادی کے بعد اپنے آپ کو جنت میں محسوس کرتا ہوں۔الحمدللہ
چینی سفیر کی ربوہ میں آمد
۱۷؍ اپریل ۱۹۷۲ء کو ربوہ میں چینی سفیر تشریف لائے تھے، اس موقع پر مکرم سید میر داؤد احمد صاحب نے خاکسار کی ڈیوٹی قصر خلافت میں عصرانے میں چائے کے ساتھ ریفریشمنٹ پیش کرنے کے لیے لگائی۔
مجھے یاد ہے کہ اس وقت جامعہ کے صرف چند طلبہ کی ڈیوٹی لگی تھی۔ جن میں مکرم چودھری نصیر احمد صاحب بھی شامل تھے۔ اس موقع پر موجود دیگر بزرگان میں سید میر داؤد احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب بھی شامل تھے۔ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے اس موقع پر ذاتی طور پر کچھ تصاویر لی تھیں۔ بہر کیف حضور رحمہ اللہ تعالیٰ صوفے پر تشریف فرما تھے۔ اورچینی سفیر بھی صوفے پر براجمان تھے۔
یہ دعوت قصر خلافت کے لان میں منعقد ہوئی تھی۔خاکسار اور دوسرے ساتھی اندر سے عصرانے کے لیے خور و نوش کی چیزیں تازہ بتازہ لاکر پیش کررہے تھے۔ اس موقع پر حضور نے چینی سفیر کو ایک ڈش جو غالباً چھوٹےسائز کے قیمہ بھرے سموسے تھے، کے بارے میں فرمایا کہ اس کی ریسیپی صرف ہمارے پاس ہے اور یہ خاص اور عمدہ سموسے ہیں۔اس کے بعد رات کو ایوانِ محمود میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چینی سفیر اور ان کے وفد کو ڈنر پیش کیاگیا۔ یہ بھی یاد ہے کہ اس موقع پر کثرت کے ساتھ چینی بطخوں کا گوشت بھی پیش کیاگیا تھا۔
مجلس مشاورت کے موقع پر
استاذی الحبیب مکرم سیدمیر داؤد احمد صاحب کی وفات کے بعد ۱۹۷۸ء کی مجلس مشاورت تھی۔حضورؒ کا نمائندگان شوریٰ کے ساتھ کھانا تھا۔ خاکسار کوحضورؒ کی خدمت میں کھانا پیش کرنے اور پھر بعد میں ہاتھ دھلانے کی سعادت عظمیٰ نصیب ہوئی۔کھانے سے فراغت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو پانی اور صابن پیش کیا، حضور نے اس دوران استفسار فرمایا کہ آج کل کہاں ہو اور کیا کررہے ہو؟ خاکسار نے عرض کی کہ گھانا جارہا ہوں۔حضورؒ یہ سن کر ازراہ شفقت مسکرائے اور شفقت کا سلوک فرمایا۔ جب خاکسارکے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تومیری امی جان سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حضور کے پاس مٹھائی کا ڈبہ لے کر گئیں اور نام رکھنے کی درخواست پیش کی۔ حضور نے فرمایا : سید ممتاز احمد۔
حضورؒ کی ہم نالائقوں پر مزید شفقتیں
حضورؒ نے خاکسار کی تقرری گھانا مغربی افریقہ کے لیے فرمائی۔ دفتر نے گھانا کے ویزا کے حصول کے لیے کارروائی شروع کردی۔ جس میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ خاکسار نے ایک دن دفتر اصلاح و ارشاد سے چھٹی لی اور حضورؒ سے ملاقات کےلیے درخواست دے دی۔ حضور نے شرف ملاقات عطا فرمایا اور دیکھتے ہی فرمایا کہ تم ابھی ادھر ہی پھر رہے ہو۔ گھانا کیوں نہیں گئے ؟ خاکسار نے عرض کی حضور ویزے کا انتظار کررہا ہوں۔ حضور نے فرمایا اتنی دیر تو نہیں لگنی چاہیے اور P.S صاحب کو اندر بلایا اور فرمایا کہ ان کے ویزے کی کارروائی میں کیوں دیر ہورہی ہے؟ پتا کروائیں۔ چنانچہ اس کے چند دن بعد ہی گھانا کا ویزا آگیا اور خاکسار نے گھانا جانے کے لیے تیاری شروع کردی۔ خاکسار کے ساتھ مکرم حمید اللہ ظفر صاحب بھی گھانا کے لیےروانہ ہوئے۔
گھانا جانے سے پہلے بھی کئی مرتبہ حضور نے ملاقات کا شرف عنایت فرمایا۔جس دن آخری ملاقات تھی خاکسار نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ دل چاہتا ہے آپ کے پاؤں دباؤں اور برکت لوں، حضور تخت پر بیٹھے تھے۔ حضور نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ اس طر ح حضور کے پاؤں اور ٹانگیں دبانے کا شرف حاصل ہوا۔ حضور نے اس موقع پر بعض نصائح بھی فرمائیں کہ گھانا جاکر کیا کرنا ہے اور کام کس طرح کرنا ہے۔
ملاقات کے بعد خاکسار نے حضور سے عرض کی کہ حضور کے ساتھ فوٹو کھینچوانےکو بھی جی چاہتا ہے۔ حضور نے فرمایا اچھا! حالانکہ ان ایام میں حضور بہت ہی مصروف تھے کیونکہ لندن کانفرنس میں شرکت کے لیے سفر درپیش تھا۔ اور اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ کے دورے کی تیاری بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی تا وہاں کے مکینوں کو جامِ شفابخشیں! چنانچہ خاکسار نےحضور سے ملاقات کے فوراً بعد نیچے آکر دفتر میں درخواست لکھ کر دے دی کہ حضور فوٹو کے لیے وقت عنایت فرما دیں۔ حضور نے اس درخواست پر فرمایا:نماز عصر کے بعد نیچے کھڑے ہوکر ایک منٹ کے لیے۔ یہی مفہوم تھا جو میں نے اپنے الفاظ میں لکھا ہے۔
یہ خوشخبری پاکر خاکسار نے ایک اور مبلغ بھائی کو جو اس وقت نائیجیریا تشریف لےجارہے تھے اطلاع کردی کہ وہ بھی فوٹو کےلیے آجاویں، اور اِ دھر میں نے اپنے بیٹے عزیزم سید ممتاز احمد طاہر کو بھی فوٹو کے لیے تیار کروا لیا۔ جو اس وقت صرف چھ ماہ کا تھا۔جوں ہی حضور نے ہمیں دیکھا تو فرمایا، یہ تین سے چار کیسے ہوگئے ہیں۔ (کیونکہ اجازت تو صرف ہم تین مبلغین کی تھی) اس کے بعد حضور نے فرمایا: اکیلے اکیلے یا اکٹھی تصویر؟میں نے عرض کی اکیلے اکیلے۔ جب اکیلے اکیلے سب کی تصاویر ہوگئیں تو پھر خاکسار نے عرض کی ایک اجتماعی تصویر بھی ہوجائے۔ حضور نے اس کی بھی اجازت دے دی۔ حضور کے ساتھ تصاویر اتروانے کے بعد ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ خیر حضور تو اوپر تشریف لےگئے۔ وہاں محترم میر صاحب کھڑے تھے، مجھے کہنے لگے کہ ’حضور آپ لوگوں کے بہت نخرے برداشت کرتے ہیں‘ اور یہی حقیقت تھی۔ اللہ تعالیٰ حضورؒ کےدرجات بلند سےبلند تر فرماتا جائے۔ آمین
حضور رحمہ اللہ اپنے خدام مبلغین سے جو سلوک فرماتے تھے وہ بھی بے انتہا شفقت والا تھا، ہر ایک مبلغ بھائی کے ساتھ جو حضور کے ذاتی تعلقات تھے اور ذاتی شفقتیں تھیں وہ تو گنی بھی نہیں جاسکتیں۔ میں جب گھانا آیا تو میرا بڑا بچہ جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں، بہت بیمار ہوگیا۔ خاکسار نے حضور کی خدمت میں گھانا سے بچے کی شفایابی کے لیے دعائیہ خط لکھا۔ حضور نے فوراً ہی کسی کو ہمارے گھر بھجوا کر بچہ کی صحت کی اطلاع منگوائی۔ ایک اور مبلغ بھائی نے مجھے لکھا کہ اس کا بچہ لاہور میں بیمار تھا ۔حضور کو دعا کے لیے لکھا تو حضور نے فوراً ہی دو سو روپیہ ان کے گھر علاج کے لیے بھجوایا اور بچہ کی صحت کے متعلق اطلاع منگوائی۔
حضور کی دعا کا میٹھا پھل
میدانِ تبلیغ و تربیت میں مبلغ کو بعض اوقات بہت سے مسائل و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایسے مواقع پر خلیفہ وقت کی دعائیں تریاق کا کا م کرتی ہیں۔ خاکسار جب گھانا کے لیے روانہ ہوا تو حضور سے بچوں سمیت ملاقات کا وقت لیا۔ ملاقات کے دوران حضور سےاپنی ڈائری پر کچھ تبرکاً لکھنے کی عرض کی اس پر حضور نے اپنے دستِ مبارک سے جولکھا وہ یہ تھا :’’اللہ کی رحمتوں کے سایہ میں رہو آمین ‘‘دستخط27.4.78۔ مہر خلیفۃ المسیح الثالث
اس دعا کا پھل خاکسار نے ہمیشہ کھا یا۔بعض اوقات بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ ا لیکن ہر دفعہ اللہ تعالیٰ حضور کی دعا سے اپنی رحمت کا سلوک فرماتا رہا اور خدا تعالیٰ کی عنایت کا سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔ خدا کرے کہ حضور کی یہ دعا ہمیشہ مقبول رہے اور وہ ہمیں ہمیشہ ہی اپنی رحمتوں کے سایہ میں رکھے۔ آمین اللّٰھم آمین
گھانا میں حضور کا ورودِ مسعود
۲۴؍اگست ۱۹۸۰ء کا دن جماعت احمدیہ گھانا مغربی افریقہ کی تاریخ میں ایک نہایت ہی اہم اور تاریخی دن تھا کیونکہ اس روز گھانا کی سرزمین پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ورود مسعود ہوا۔ استقبال کرنے والوں کا اس قدر مجمع تھا کہ میں نے تو اپنی زندگی میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ حضورکی ذات والا صفات اپنے پیارے آقا ومطاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کامل مجسم عجز و انکسار بنی ہوئی تھی۔ اگر ایسے موقع پر کوئی بھی دنیاوی لیڈر ہوتاتو اپنے استقبال کے اتنے بڑے مجمع کو دیکھ کر اس کی گردن یقیناً تکبر اور فخر سے اور اکڑ جاتی۔ میں نے محسوس کیا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ مجسم عجزو انکسار بنے اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف میں مصروف ہیں۔حضور ایئرپورٹ سے صدر مملکت گھانا کے ساتھ ملاقات کے بعد اکرا مشن ہاؤس تشریف لائے جہاں عشاق کا مجمع حضور کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب کھڑا تھا۔ اور اس موقع پر بارش بھی کہہ رہی تھی کہ صرف آج ہی برسنا ہے۔ مگر یہ عشاق تھے کہ نہایت خاموش، بے تاب اور دعاؤں میںمشغول انتظار کر رہے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس منظر کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیاجاسکتا۔ دوسری جانب حضور بھی بارش کی قطعاً پروا کیے بغیر مشن ہاؤس میں اس جگہ تشریف لے آئے جہاں عشاقِ احمدیت موجود تھے۔مشن ہاؤس میں ایک جگہ سائبان لگایا گیا جس میں حضور کے لیے میز اور کرسی لگائی گئی۔ حضورؒ اپنی کرسی سے اٹھ کر میز کی اگلی جانب خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے اور مکرم امیر صاحب گھانا آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے تاکہ حضور کی تقریر کا مقامی زبان میں ترجمہ کرسکیں ۔ بارش اتنی تیز تھی کہ بیان سے باہر ہے۔حضور خطاب فرما رہے تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بت بنے اسے سن رہے تھے۔ مجال ہے کہ ایک شخص بھی بارش کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہلا ہو۔ اس موقع پر خاکسار حضور کے بالکل پیچھے کھڑا تھا۔ خاکسار نے دیکھا کہ سائبان میں ایک جگہ سوراخ ہے اور وہاں سے بارش کے قطرے نکل کر حضور کی پگڑی پر گر رہے ہیں۔ ایسے میں کیا کیا جائے! خاکسار نے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ایک شخص چھتری لیے کھڑا ہے۔ خاکسار نےاس سے چھتری لی اور میز پر چڑھ کر حضور کی پگڑی کے اوپر تان لی۔ جب تک حضور خطاب فرماتے رہے خاکسار چھتری لیے کھڑا رہا۔حضور نے جب خطاب ختم فرمایا تو فضا نعرۂ تکبیر: اللہ اکبر، اسلام: زندہ باد، حضر ت خاتم الانبیاء: زندہ باد، احمدیت: زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ خاکسار نے قریب ہوکر حضور کی خدمت میں السلام علیکم کے بعد گھانا تشریف لانے پر مبارکباد عرض کی۔ حضو رنے پیچھے مڑ کر نہایت ہی پیار اور شفقت سے اپنے دستِ مبارک سے خاکسار کو پیار دیا اور پوچھا کہ کیا حال ہے۔ حضور نے جس پیار اور محبت سے اپنے مبارک ہاتھ سے خاکسار کو پیار دیا اس کی لذت تو شاید مرتے دم تک نہ بھول پاؤں۔اس وقت جو روحانی تسکین اور سرور حاصل ہوا دنیا و مافیہا کی نعماءملنے سے بھی وہ سکون اور لذت حاصل نہ ہو۔ حضور کی شفقت کا یہ نظارہ ہمیشہ ہی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے اور حضور کے لیے دل سے دعا نکلتی ہےکہ اے میرے رحیم و کریم مولا! اے پیار کرنے والوں میں سب سے زیادہ پیار کرنے والے تو ہمارے لیے ایک شفیق باپ سے بڑھ کر شفقتوں کا سلوک کرنے والےاپنے اس پیارے پر انتہائی پیار اور رحمت کا سلوک فرما۔ آمین۔
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی زرّیں ہدایت
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورۂ گھانا کے دوران جب حضور آبوری گارڈ ن تشریف لے گئے تو وہاں خاکسار کو حضور کے ساتھ کافی دیر تک شرفِ ملاقات نصیب ہوا۔ خاکسار کی زندگی کے وہ لمحات جو اس وقت حضور کے ساتھ گزر ے نہایت قیمتی اور یاد گار لمحات تھے۔دوران گفتگو حضور نے خاکسار سے مشن کے متعلق دریافت فرمایا، اس پر خاکسار نے عرض کیا کہ مشن ہاؤس اور مسجد کے لیے زمین کے حصول کی درخواست دی ہے تو اس پر حضور نے فرمایا کہ جب بھی زمین کے حصول کا معاملہ ہو خواہ مسجد کے لیے اور خواہ مشن ہاؤس کے لیے ’’ وسّع مکانک ‘‘کے تحت وسیع زمین کا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ تو الٰہی جماعت ہے جو ہر روز ترقی کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی ضروریات کے لیے وسع مکانک کے تحت زیادہ سے زیادہ تعمیرات ہونی چاہئیں تاکہ یہ الہام ہر دفعہ شان کے ساتھ پورا ہو۔
ایک اَور شفقت
خاکسار نے حضور سے اکرا مشن ہاؤس میں عرض کی کہ حضور سے قریباً سوا دو سال بعد ملاقات ہوئی ہے۔ حضور نے اس وقت یہ سُن کر بس اتنا ہی فرمایا کہ ’’سوا دو سال بعد؟ ‘‘ خاکسار نے عرض کی، جی حضور! اگلے دن جب کماسی کے ایک ہوٹل میں جماعت نے حضور کی خدمت میں استقبالیہ پیش کیا تو حضور نے اس وقت خاکسار سے ازراہ شفقت مذاقاً فرمایاتم تو کل کہہ رہے تھے کہ تمہیں یہاں آئے ہوئے سوادو سال ہوگئے ہیں، کیسے ہوگئے ہیں، ابھی کل تو میں نے تمہیں بھجوایا ہے۔ مَیں نے عرض کی کہ حضورکل؟ مسکراتے ہوئے فرمایا: ہاں !میں نے عرض کی کہ جی حضور! اسی طرح ایک موقع پر اکرا ایمبیسیڈر ہوٹل میں دیوار پر ڈیکوریشن کے لیے بنے ہوئے پھل تھے ،حضور نے خاکسار سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اگر تم یہ کھالو تو تمہیں پانچ پاؤنڈ انعام دوں گا۔ یہ حضور رحمہ اللہ کی شفقت تھی کہ میرے جیسے نالائق سے بھی حضور اس طرح شفقت سے گفتگو فرمارہے تھے۔ اللّٰہم اجزہ جزاءً کاملًا وافرًا من عندک! آمین۔
خاکسار نے ایک دفعہ گھانا سے اپنی اہلیہ اور بچوں کو خطوط لکھے، جب لفافہ میں خطوط بند کردیے تو اوپر حضور کا ایڈریس لکھ دیا اور ادھر جو خط حضورؒ کو لکھا تھا اس پر اہلیہ کا ربوہ کا ایڈریس لکھ دیا۔ جب حضور کو میری اہلیہ والا خط ملا تو حضور نے اسے خاکسار کے گھر بھجوا دیا۔
حضورؒ کی کماسی مشن ہاؤس میں آمد
دورے کے دوران حضورؒ جب بذریعہ کار کماسی تشریف لائے تو کماسی شہر سے باہر میل ہا میل تک جماعت احمدیہ کے افراد کیا مرد کیا خواتین اور کیا بچے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور جب مشن ہاؤس پہنچے تو ویسا نظارہ بھی چشم فلک نے اس وقت تک نہیں دیکھا تھا۔ مشن ہاؤس کے اندر اور باہر، سڑکوں پر، گلیوں میں، مکانوں کی چھتوں پر ہر کوئی اپنی اپنی زبانوں میں خوشیوں کے گیت گا رہا تھا۔غرض جہاں بھی کسی کے لیے ممکن تھا حضور کے درشن کے لیے کھڑا تھا۔حضور ایک دو مرتبہ (مشن ہاؤس کی) بالکونی پر تشریف لائے اور ہاتھ ہلا کر جواب دیتے رہے۔ احباب جونہی لوگ حضور کو دیکھتے تو وہ جذبے سے نظمیں اور لاالٰہ الا اللّٰہ کا ورد کرنے لگ جاتے۔ کماسی مشن ہاؤس میں مکرم حمید اللہ ظفر صاحب خدمات بجا لا رہے تھے۔
حضورؒ کی گھانا سے واپسی
حضورؒ جب اپنا دورہ مکمل کر کے واپس تشریف لے گئے تو اکرا ایئرپورٹ پر بھی الوداع کرنے کے لیے بے شمار لوگ تھے۔ ایئرپورٹ پر بھی حضور نے کافی وقت عنایت فرمایا۔اس موقع پر حضور نے گھانا سے شائع شدہ قرآن مجید کی کاپیاں مختلف ہائی آفیشلزکو عطا فرمائیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی رحلت کی خبر اور ہماری حالت
خاکسار کو گھانا میں چارسال خدمات بجا لانے کی توفیق مل چکی تھی کہ ایک دن محتر م امیر صاحب گھانا مولانا عبدالوہاب آدم صاحب نے خط بھیجا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے خاکسار کی تقرری گھانا سے سیرالیون فرما ئی ہے اس لیے میں سیرالیون جانے کی تیاری کروں نیز یہ کہ حضورؒ نے فرمایا کہ شمشاد کی فیملی سیرالیون بھجوائی جائے، خاکسار چارسال تک گھانا میں بغیر فیملی کے تھا۔
جب خاکسار سیرالیون آیا تو یہاں پر مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری امیر و مشنری انچارج تھے۔ آپ نے خاکسار کا تقرر مبورکا (Magburaka) کے شمال مشرقی علاقے میں کیا۔ اور کچھ ماہ بعد خاکسار کی فیملی بھی یہاں پہنچ گئی۔
ایک دن محتر م امیر صاحب خاکسار کے علاقے کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ مکالی، مسنبی اور سیفاڈو کے علاقے کادورہ تھا۔ جب ہم مکالی کے نزدیک پہنچے تو ایک ٹیکسی بڑی تیزی سے ہماری کار کے آگے رکی۔ دیکھا تو اس میں مکرم مولوی عبدالعزیز صاحب وینس مربی سلسلہ مرحوم تھےجو فری ٹاؤن میں تعینات تھے۔انہوں نے محترم امیر صاحب سے کہا کہ ابھی تار آیا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ میں فری ٹاؤن سے آپ کے پاس یہ خبر لے آیا ہوں۔ ہم سب پر ایک قسم کا سکتہ طاری ہوگیا اور ہم غم سے نڈھال ہوگئے۔
ہم وہیں سے واپس لوٹ آئے۔محتر م امیر صاحب نے خاکسار کو مبورکا کے مشن ہاؤس میں چھوڑا اور خود فری ٹاؤن کے لیے واپس تشریف لے گئے۔ خاکسار نے اسی وقت مسنگبی میں ڈاکٹر ساجد احمد صاحب کو اطلاع کی، وہ بھی آگئے۔ اپنے ریجن کی جماعتوں کو اطلاع بھجوائی، سب ہی غم سے نڈھال تھے، بس اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ مرکز سے کس وقت نئے چاند کے طلوع ہونے کی اطلاع آئے۔ اس وقت تار کے ذریعہ ہی خبر پہنچا کرتی تھی۔ ساری جماعت نے وہ وقت بڑی بے چینی میں گزارا۔رات کو خاکسار نے خواب میں دیکھا کہ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ سفید پگڑی پہنے ایک مجمع عام میں خطاب فرمارہے ہیں۔ادھر اسی قسم کی خواب مکرم ڈاکٹر ساجد احمد صاحب نے بھی سنائی۔ ہم دن میں کئی کئی بار نزدیکی شہر مکینی جاکر ہیڈکوارٹر فری ٹاؤن میں محترم امیر صاحب کو فون کرکے پتا کرتے کہ کیا خبر آئی ہے!چنانچہ ایک دن محترم امیر صاحب نے یہ خبر سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک بار پھر خلافت کی لڑی میں پرو دیا ہے اور مومنین کی تسکین کے سامان ہوئے ہیں اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحب قدرت ثانیہ کے چوتھے مظہر کے طور پر مسند خلافت پر متمکن ہوئے ہیں۔فالحمدللہ علی ذالک
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے درجات بلند سے بلند ترکرتا رہے۔آمین