ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ ہفتم)
خدمت کا جذبہ
پچھلے پہر خاکسار ایک نوجوان خادم سے محوِ گفتگو تھا جو لوکل قائد (نارتھ انگلینڈ) تھے ۔انہوں نے مجھے بتایا کہ گذشتہ شام انہوں نے محترم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے ساتھ رات ایک بجے رہائش گاہ کا دورہ کیا۔ سردی شدید تھی اور محترم صدر صاحب نے دیکھا کہ ایک نوجوان فیملی خیموں میں رہائش پذیر تھی اور ان کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا جس کی عمر دو سے تین سال ہوگی۔
یہ دیکھنے پر محترم صدر صاحب نے قائد صاحب سے کہا کہ خدام کو اپنے کمبل ایسی فیملیز کو دے دینے چاہئیں تاکہ ان کو آرام دہ بستر کی سہولت میسر آ سکے۔ اس پر قائد صاحب نےفوری طور پر اپنا بستر لا کر انہیں پیش کر دیا۔ مگر اس فیملی نے اصرار کیا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ وہ اپنے بچے کو buggy سیٹ میں ہی سلائیں گے کیونکہ وہ زیادہ گرم ہوتی ہے۔
مکرم قائد صاحب کہتے ہیں کہ جب محترم صدر صاحب نے مجھے کہا کہ خدام کو اپنے بستر اس بچے کے لیے پیش کرنے چاہئیں تو ذاتی طور پر یہ مجھے مشکل لگ رہا تھا۔میں سارا دن اپنی ڈیوٹی میں مصروف رہا تھا اور اگلے دن بھی وہی ڈیوٹی کرنی تھی اس لیے فوری طور پر آرام کرنا چاہتا تھا۔بہرحال یہ بستر ان کو دے دینا مشکل امر تھا لیکن یہ بطور خدام ہمارا فرض ہے کہ دوسروں کی خدمت کریں۔
اس واقعہ کو سنتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ خلافت کی طرف سے ہونے والی ٹریننگ کا معیار کتنا اعلیٰ ہے کہ خدام کے اندر یہ بات رَچ بَس گئی ہے کہ دوسروں کے آرام کے لیے اپنے آرام کو قربان کر دیں۔ دوسری طرف مجھے اس فیملی کی سعادت مندی کا خیال آیا جو جلسہ کی ہر ممکنہ برکت کا حصول یقینی بنانا چاہتے تھے اور اپنے ایمان کی خاطر اپنے آرام کو قربان کرنے کے لیے تیار تھے تاکہ وہ اس روحانی ماحول کا حصہ بن سکیں۔ جیسا کہ اس دن حضور انور نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ بہت سے احمدی ایسے ہیں جو جلسہ سالانہ کی خاطر ہر قسم کی مشکل اور تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
Uncle Bill اور پرانی یادیں
گھر واپس آکر میں نے ایم ٹی اے لگایا تو وہاں اس دن جلسہ کی ایک نشست کا پروگرام چل رہا تھا۔ اس نشست میں ایک انگریز احمدی بزرگ مکرم Bilal Atkinsonصاحب بھی شامل تھے، جو کئی سال تک نارتھ ایسٹ کے ریجنل امیر رہےہیں۔ مکرم بلال صاحب نے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں احمدیت قبول کی تھی اس وقت Hartlepool میں میرے والد صاحب ڈاکٹر حمید احمد خان صاحب مرحوم نے ان کو تبلیغ کی تھی۔ قبول احمدیت سے قبل مکرم بلال احمد کا نام ’Bill‘ تھا۔ یوں بچپن سے میں آپ کو Uncle Bill کے طور پر جانتا تھا۔
ایم ٹی اے پر مکرم بلال صاحب کو دیکھتے ہوئے مجھے وہ دن یاد آگئے جب ۱۹۸۰ء کی دہائی میں خاکسار نوجوان تھا۔ خاکسار کے والد اور والدہ مکرمہ ساجدہ حمید صاحبہ اللہ کے فضل سے تبلیغ میں خوب فعال تھے اور انہیں درجنوں انگریزوں کو احمدیت میں شامل کرنے کی توفیق ملی تھی۔ ہر رات جب میرے والد صاحب کام سے گھر واپس لوٹتے تو چند انگریز مہمان تشریف لاتے اور ہمارے گھر میں محفل لگتی۔ ہمارے پاس دو رہائشی کمرے تھے۔ ایک طرف خواتین میری والدہ کے پاس بیٹھ جاتیں اور دوسری طرف مرد حضرات میرے والد صاحب کے پاس بیٹھ جاتے۔ کم عمر ہونے کی وجہ سے مجھے مرد و خواتین دونوں طرف جانے کی سہولت ہوتی۔
میرے ذمہ دو کام مستقل طور پر تھے۔ ایک یہ کہ میری والدہ مجھے کھانا اور چائے دیتیں جو مردوں کی طرف بھیجنا ہوتا تھا اور دوسرا یہ کہ مجلس برخاست ہونے پر میں خواتین کو جا کر مطلع کرتا کہ ان کے شوہر گھرواپس جانے کے لیے تیار ہیں۔ اکثر جب تک آخری مہمان اجازت لیتے اس وقت رات کے گیارہ بج چکے ہوتے تھے یا آدھی رات کے بعد کا وقت ہو جاتا تھا ۔ مجھے روزانہ کا یہ معمول بہت اچھا اور بالکل نارمل لگتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ شاید ہر گھر کا یہی ماحول ہوتا ہے۔لیکن جب میں خود جوان ہوااور میرا اپنا گھر اور فیملی بنی تو مجھے احساس ہوا کہ روزانہ اپنے گھرپر مہمانوں کو مدعو کرنا آسان کام نہیں ہے۔
حضور انور کی محبت اور شفقت کی ایک مثال
حضور انور کے لجنہ اماء اللہ کے خطاب سے پہلے آپ نے درجنوں طالبات کو انعامات سے نوازا جنہوں نے بہترین علمی کارکردگی دکھائی تھی۔ جس دوران میں یہ خطاب جلسہ گاہ کے مردوں کے حصہ میں سکرین پر دیکھ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ حضور انور نے ایک طالبہ کے آنے پر اس کی فیملی کے بارے میں استفسار فرمایا۔
بعد ازاں مجھے پتا چلا کہ وہ مکرم مظہر احسن صاحب کی ہمشیرہ تھیں۔ جنہوں نے جامعہ احمدیہ یو کے سے شاہد پاس کیا اور کینسر کی وجہ سے بہت زیادہ علیل تھے۔اگرچہ اس وقت کہا جارہا تھا کہ ان کی طبیعت سنبھل رہی ہے تاہم یہ مشیت الٰہی تھی کہ ستمبر ۲۰۱۶ء میں ان کی وفات ہوگئی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جب میں نے دیکھا کہ حضور انور اس ممبر لجنہ سے استفسار فرما رہے ہیں تو مجھے حیرت ہوئی کہ اس قدر مصروفیت کے باوجود حضور انور مشکل اور پریشانی میں گھرے ہوئے احباب کی تسکین کے لیے موقع نکال لیتے ہیں۔
نیند غالب آنے کا خوف
بعد ازاں حضور انور اپنی رہائش گاہ پر واپس تشریف لائے جہاں میں نے افسر جلسہ سالانہ مکرم ناصر احمد خان صاحب کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں سرخی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کہ وہ کھڑے کھڑے ہی سو جائیں گے۔میں نے پوچھا کہ کیا انہیں جلسہ کے دوران نیند پوری کرنے کا موقع ملا ہے؟ جواب میں مکرم خان صاحب نے بتایا کہ ان تین دنوں میں مجھے صرف چند گھنٹے ادھر ادھر نیند پوری کرنے کے لیے ملتے ہیں۔ جلسہ گاہ میں مجھے سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ سٹیج پر ہی نیند نہ آ جائے۔ دراصل مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے اور ایک مرتبہ میری بیٹی نے مجھے میسج کیا کہ جاگ جاؤں کیونکہ اس نے مجھے ایم ٹی اے پر سوتے ہوئے دیکھ لیا تھا ‘۔
چاکلیٹس کا ڈبہ
ایک تقریر کے دوران مجھے مکرم عبد الوہاب آدم صاحب (سابق امیر و مشنری انچارج غانا) کا خیال آیا جو ہماری جماعت کے ایک نہایت مخلص خدمت گار تھے۔ پہلی مرتبہ جب مجھے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہمراہ خلافت جوبلی کے سال ۲۰۰۸ء میں مغربی افریقہ کے دورہ میں شامل ہونے کا موقع ملا تو بڑی عمر اور حضرت خلیفۃ المسیح کی میزبانی کی اہم ذمہ داری ادا کرنے کے باوجود میں نے کبھی بھی آپ کے چہرے کو بغیر مسکراہٹ کے نہیں دیکھا۔ یہی معاملہ اس وقت بھی تھا جب آپ لندن تشریف لائے۔ آپ کی خلافت کے لیے محبت اور تعظیم غیر معمولی تھی اور ساتھ ہی حضور انور کی آپ سے محبت بھی خوب عیاں تھی۔
ایک مرتبہ لندن میں مکرم عبد الوہاب آدم صاحب نے خاکسار کو چاکلیٹس کا ایک ڈبہ دیا۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے آپ سے پوچھا کہ کوئی خاص وجہ یا موقع ہے جو انہوں نے مجھے یہ چاکلیٹس تحفے کے طور پر دی ہیں۔ جواب میں مکرم عبد الوہاب صاحب نے بتایا کہ اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ مجھے میرے محبوب خلیفہ کی مصروفیات سے اپنی پریس ریلیزز کے ذریعہ باخبر رکھتے ہیں۔
بعد ازاں اس کا ذکر میں نے حضور انور سے کیا اور آپ نے مکرم عبد الوہاب صاحب کے جواب کو خوب سراہا۔ تاہم آپ نے آئندہ کے لیے مجھے ایک ادب بھی سکھایا۔ حضور انور نے فرمایا کہ اگر (مکرم )عبد الوہاب صاحب جیسے بزرگ آپ کو کچھ چاکلیٹس دیں تو آپ کو صرف جزاکم اللہ کہنا چاہیے ،بجائے یہ پوچھنے کے کہ ان کے دینے کی کیا وجہ ہے ۔
یہ فرماتے ہوئے حضور انور مسکرائے مگر یہ واضح تھا کہ آپ کے نزدیک میرا عبد الوہاب صاحب سے یہ سوال کرنا نامناسب تھا۔
ایک پُر شفقت لمحہ
جونہی مختلف وفود کے ساتھ حضور انور کی میٹنگز اختتام پذیر ہوئیں حضور انور اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے اور اپنی گاڑی کی طرف تشریف لے گئے۔ تاہم اس دوران آپ کے پوتے صاحبزادہ معاذ بھاگتے ہوئے آپ کی طرف آئے۔ عزیزم معاذ نے حضور انور کا ہاتھ پکڑا اور ساتھ چلنے لگے۔ حضور انور نہایت شفقت سے اس سمت میں چل پڑے جس طرف معاذ آپ کو کھینچ رہے تھے اور وہ حضور انور کی رہائش گاہ کے قریب ایک کمرے میں چلے گئے۔ چند منٹ کے بعد آپ دونوں باہر تشریف لائے اور پھر اپنے پوتے کے ساتھ کچھ مزید لمحات گزارنے کے بعد حضور انور اپنی گاڑی میں تشریف فرما ہوئے۔یہ ایک نہایت خوش کن اور پُر شفقت لمحہ تھا۔ (جاری ہے)
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)