عورتوں کی عزت و تکریم
اسلام جوکہ بڑا پاک اوربالکل فطرت انسانی کے مطابق واقع ہوا ہے اوربڑی کامل اور حکیمانہ تعلیم اپنے اندر رکھتا ہے اس نے عورتوں کے نکاح میں جس طرح ولی کا ہونا ضروری قرار دیا ہے اسی طرح ان کی طلاق میں بھی ایک ولی کا ہونا ضروری رکھا ہے مثلاً جس طرح عورت اپنے نکاح کے واسطے اپنے ولی کی محتاج ہے اسی طرح طلاق کے واسطے بھی ولی کی محتاج ہے۔اگر کسی عورت کا کسی خاص شخص سے گذارہ اورنباہ نہیں ہوسکتا تواس کو اجازت ہے کہ قاضی یا حاکم وقت کی معرفت خلع کرائے۔ وہی قاضی یا حاکم وقت اس کا ولی طلاق ہوگا۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ باقی رہا ورثہ کے متعلق سوقرآن شریف نے مرد سے عورت کا حصہ نصف رکھا ہے اس میں بھید یہ ہے کہ نصف اس کو والدین کے ترکہ میں سے مل جاتا ہے اورباقی نصف وہ اپنے سسرال میں سے لیتی ہے اورپھر اس کے نان ونفقہ،لباس وپوشاک کا ذمہ دار بھی اس کا خاوند ہوتا ہے۔ اس طرح پر ایک طرح سے عورت مرد سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ ان معترضوں کو شرم اورحیا سے کام لینا چاہیے۔ پہلے اپنے گریبان میں تومنہ ڈال کر جھانک لیاکریں پھر زبان اعتراض کھولا کریں۔
(ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۲۰۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
لڑکی سسرال میں جا کر ایک حصہ لیتی ہے پس اس طرح سے ایک حصہ ماں باپ کے گھر سے پاکر اور ایک حصہ سسرال سے پاکر اس کا حصہ لڑکے کے برابر ہوجاتا ہے۔
(چشمۂ معرفت،روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ ۲۱۲)
پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جُوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی دوسری پہن لی۔ یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کےکامل نمونہ ہیں۔ آپؐ کی زندگی میں دیکھو کہ آپؐ عورتوں کےساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے۔ میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے۔آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو مطالعہ کروتا تمہیں معلوم ہو کہ آپؐ ایسے خلیق تھے۔باوجود یکہ آپؐ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپؐ کو کھڑا کرتی تو آپؐ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے۔
(ملفوظات جلد۴صفحہ۴۴۔۴۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)