احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
خوددار اور صاحب وقار طبیب
جیساکہ ذکر کیاگیاہے کہ حضرت اقدسؑ کے والد ماجد نے طبابت کو ذریعہ معاش کبھی نہیں بنایا بلکہ وقار اور خودداری اور عزت نفس کا ہمیشہ خیال رکھا۔اور یہی عالی ہمتی اور وقار اپنے خاندان اوراولاد کے لیے پسندکیا۔
’’ایک …موقع پر بٹالہ کا راجہ تیجا سنگھ بیمار ہوا۔اس کو کاربنکل کی قِسم کا ایک پھوڑا تھا۔ بہت معالجات کئے گئے۔کوئی صورت فائدہ کی نہ ہوئی۔آخر حضرت مرزا صاحبؒ قبلہ کی طرف رجوع کیا گیا اور اپنے عمائد کو بھیج کر مرزا صاحب کو بلایا۔مرزا صاحب کی توجہ اور تشخیص بے خطا ثابت ہوئی اور الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں شفا دی۔راجہ صاحب نے مرزا صاحب قبلہ کو ایک کثیر رقم اور خلعتِ شتاب کوٹ کے علاوہ بعض دیہات ان دیہات میں سے جو آپ کی ریاست کا ایک جزو تھے، دینے کے لئے پیش کیا۔ مگر آپ نے نہایت حقارت کے ساتھ اسے واپس کر دیا اور باوجود اصرار کے انکار کیا اور فرمایا:’’میں ان دیہات کو علاج میں لینا اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے ہتک سمجھتا ہوں۔‘‘ (حیات احمدؑ،جلداول صفحہ۵۰)
یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ فن طبابت سے شغف اس خاندان کاا یک حصہ بن چکا ہے۔ آپؒ کے بعد حضرت بانی سلسلہ احمدؑیہ نے تو خود اپنے والد ماجد سے طبابت پڑھی اور مخلوق خداکو اس سے فیض یاب بھی فرماتے رہے۔
چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں :’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ طبابت کا علم ہمارا خاندانی علم ہے اور ہمیشہ سے ہمارا خاندان اس علم میں ماہر رہا ہے۔ دادا صاحب نہایت ماہر اور مشہور حاذق طبیب تھے۔ تایا صاحب نے بھی طب پڑھی تھی۔حضرت مسیح موعودؑ بھی علم طب میں خاصی دسترس رکھتے تھے اور گھر میں ادویہ کا ایک ذخیرہ رکھا کرتے تھے جس سے بیماروں کو دوا دیتے تھے۔ مرزا سلطان احمدصاحب نے بھی طب پڑھی تھی۔ اور خاکسار سے حضرت خلیفہ ثانی ؓنے ایک دفعہ بیان کیاتھا کہ مجھے بھی حضرت مسیح موعودؑ نے علم طب کے پڑھنے کے متعلق تاکید فرمائی تھی۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ باوجود اس بات کے کہ علم طب ہمارے خاندان کی خصوصیت رہا ہے۔ہمارے خاندان میں سے کبھی کسی نے اس علم کو اپنے روزگار کا ذریعہ نہیں بنایااور نہ ہی علاج کے بدلے میں کسی سے کبھی کچھ معاوضہ لیا۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۵۰)
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جو کہ ایک روحانی طبیب تو تھے ہی آپؓ نے طبابت کے علم سے بھی مخلوق خداکو فیض یاب فرمایا۔ گوکہ اب اس طبابت میں یونانی طب کے ساتھ ساتھ ایک حیرت انگیز علم طب ہومیوپیتھی(علاج بالمثل)کا اضافہ بھی ہو چکاتھا۔اسی طرح آپؓ نے اپنے ایک بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزاوسیم احمدصاحبؒ کو طبابت کا علم سکھایا۔آپ کے ایک دوسرے بیٹے صاحبزادہ حضرت مرزاطاہر احمدصاحب ؒ جو کہ عالمگیرجماعت احمدیہ کے چوتھے خلیفہ تھے وہ ایک ماہر اورمشہور ہومیوپیتھ بھی تھے۔ ایم ٹی اے پر آپ کے لیکچرز نشر بھی ہوتے رہے جو کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں اور اب عالمگیر جماعت احمدیہ کے پانچویں امام حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو کہ حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے پڑپوتے ہیں۔آپ روحانی طبیب توہیں ہی،ہومیوپیتھی علاج بھی فرماتے ہیں اور عبیداللہ علیم صاحب کے اس شعر کے مصداق ہیں
وہ یوں بھی تھا طبیب وہ یوں بھی طبیب تھا
ضمناً ایک اورواقعہ بھی بیان کرنادلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ لاہور میں ایک رنگساز ارشدبیگ صاحب ہیں جو جدی پشتی رنگسازی کاکام کرتے ہیں۔ان کے والد صاحب اوردادا سب یہی کام کرتے تھے۔دھوبی گھاٹ/ پرانی انارکلی میں ان کی دکان ہے۔خاندان حضرت اقدسؑ کے اکثر افرادبھی ان سے کام کرواتے ہیں۔اوروہ بھی فخراورسعادت سمجھتے ہوئے یہ کام کرتے ہیں اور احمدی احباب سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔خاکسارکا حضرت صاحبزادی امۃ المتین صاحبہؒ اہلیہ مکرم ومحترم میرصاحب اوران کی صاحبزادی محترمہ عائشہ فخر صاحبہ سلمہا اللہ کے کپڑوں کے سلسلہ میں ان کے ہاں اکثر جانارہتاتھا اور یہ ساری باتیں خاکسار نے ان سے خود سنی ہیں۔وہ کہاکرتے تھے کہ حضرت اماں جانؓ اوردیگر خواتین مبارکہ کے ملبوسات بھی ہمارے پاس آتے تھے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا اپنے دستِ مبارک سے لکھاہواایک مکتوب مبارک بھی انہوں نے مجھے دکھایا جس میں حضورانورؒ نے ذکر فرمایا تھا کہ جب وہ سکول میں پڑھاکرتے تھے تو قادیان سے اپنی اُمی کے ملبوسات لے کر یہاں آیا کرتے تھے۔محترم ارشد صاحب نے ان ساری باتوں کے علاوہ ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ بڑے مرزا صاحب (حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒ) ایک خدارسیدہ بزرگ ولی تھےاور چوٹی کے طبیب بھی تھےاوران کے پاس میرے داداپردادکا آنا جاناتھا۔اورمجھے ایک ہاون دستہ دکھاتے ہوئے بتایا کہ بڑے مرزاصاحب نے خاکسار کے داداپرداداکو دیاتھااوراسے ہم بہت حفاظت سے رکھتے ہیں اور بتانے لگے کہ یہ ان بزرگوں کے ہاتھ سے دی ہوئی ایسی بابرکت چیزہے کہ جو رنگ ہم اس میں تیارکرتے ہیں وہ اتنا پکااورپختہ ہوتاہے کہ کبھی کچانہیں ہوااورکوئی شکایت نہیں آتی۔انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے یہ لالچ کرتے ہوئے کہ چھوٹاسا ہے کچھ بڑاکرلوں تاکہ ایک ہی بارمیں زیادہ رنگ تیارہوجایاکرے اس کونچلی سطح سے کھرچ کے بڑاکرناچاہاتونہیں ہوا۔ارشدصاحب کی عمر اس وقت سترسال کے قریب ہوگی۔بہرحال ان کی طبابت اور بزرگی کے ضمن میں ایک واقعہ یادآیا جو ذکر کردیا۔
دشمنوں سے حسن سلوک
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: ’’دشمنوں کو بھی اپنے اس فیض سے محروم نہ رکھتے تھے بلکہ بہت جلد ان کی طرف توجہ کرتے جب موقعہ ہوتا۔اور جس طرح بھی ممکن ہوتا دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے کبھی نہ رکتے۔یہ بے نظیر خوبی بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ دنیادار تو خصوصیت سے اس عیب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں کو بجز گزند پہنچانے کے اَور کچھ جانتے ہی نہیں۔مگر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ہمیشہ اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرتے۔قادیان میں ان کی رعیت کے بعض محسن کش لوگ ان کے مقابلہ میں قِسم قِسم کی شرارتیں کرتے اور مقدمات کا سلسلہ شروع کر دیتے۔ لیکن وہ ساتھ ہی جانتے اور یقین کرتے تھے کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا وجود ان کے لئے ابرِ رحمت ہے۔وہ کینہ توز اور انتقامی فطرت رکھتے ہی نہ تھے۔کہتے ہیں کہ ایک دکھ دینے والا دشمن جو قادیان ہی کا باشندہ تھا۔فوت ہو گیا۔ایک شخص نے آکر میرزا صاحب کو مبارک باد دی تو انہوں نے اس کو اپنی مجلس سے نکال دیااور سخت ناراض ہوئے۔اس کی وفات پر اظہار افسوس کیا۔
یہ فطرت ہر شخص کو نہیں دی جاتی۔اور بجز وسیع الحوصلہ انسان کے کسی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرے۔یہ لوگ جو آئے دن ان کی مخالفت کرتےجب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاتے تو ان کا حضرت مرزا صاحب کے پاس آ کر صرف یہ کہہ دینا کافی ہوتا کہ ہم تو آپ کی رعایا ہیں۔پھر وہ اپنی شان اور ہمت کے خلاف پاتےکہ ان کی ایذارسانی کی کوشش کریں۔بلکہ ان کی تکالیف اور شکایت کو دور کر دینے کے لئے ہر ممکن سعی فرماتے۔حکام چونکہ حضرت مرزا صاحب کی بہت عزت و احترام کرتے تھےاور مقامی حکام ان کے مکان پر تشریف لاتے تھے۔اس لئے ایسے معاملات میں جو حکام سے متعلق ہوتے حضرت مرزا صاحب بلا تکلّف مراسلہ لکھ دیتےاور معاملات کو رفع دفع کرا دیتے۔‘‘(حیات احمدؑ جلد اول صفحہ۵۱)
علم اور کتب خانہ سے محبت
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ایک عالم بھی تھے اور علم دوست بھی، کتب خانہ کا خاص طور پر شوق تھااور بہت سی کتابیں آپ کے کتب خانہ میں موجود تھیں۔آپ کی ایک بہت بڑی لائبریری تھی۔چنانچہ آپ کے پوتے جو خود ایک ذی علم اورصاحب طرز ادیب بھی تھے۔یعنی حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحبؓ،ان کی ایک روایت بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں :’’بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی۔ اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں…‘‘(سیرت المہدی جلد اول،روایت نمبر۲۲۷)یہ بیان کیاجاچکاہے کہ آپؑ کے بزرگ آباءواجدادکا ایک وسیع کتب خانہ تھا جوکہ قادیان پر سکھوں کے قبضہ کے وقت جلادیاگیا۔لیکن آپؑ کے بزرگوں کی علم سے محبت کایہ عالم تھا کہ انہوں نے جب قادیان واپس آکرقادیان کو آبادکیا تو مساجد کے ساتھ ساتھ اس کتب خانہ کو بھی دوبارہ بحال کیا۔یہ کتب خانہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ہزارہاکتب پر محیط تھاجس میں ایک ہزارسے زیادہ کتابیں تو صرف طب کے متعلق ہی تھیں۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک جگہ اس کتب خانہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’مَیں نے بعض متن کتب طب کے بیس بیس جزو کے حفظ کئے تھے۔ہزارسے زیادہ کتاب طب کی ہمارے کتب خانے میں موجود تھی۔ جن میں سے بعض کتابیں بڑی بڑی قیمتیں دے کر خرید کی گئی تھیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۸صفحہ ۱۹۰)
جس کتب خانے میں صرف علم طب پر ایک ہزارسے زائد کتب ہوں اس کی وسعت اور قیمت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔لیکن افسوس یہ کتب خانہ آہستہ آہستہ مرورِزمانہ کا شکار ہوکر ختم ہوگیا۔نہ جانے کتنی قیمتی کتابیں اس میں موجودہوں گی۔ اس کتب خانے میں قرآن کریم بھی کثرت سے تھے اور قلمی نسخے تھے۔ایک قرآن کریم تو دیرتک قادیان کی احمدیہ مرکزی لائبریری میں موجود رہا۔اس ضمن میں جلسہ سالانہ قادیان ۲۰۰۹ء کے موقعہ پر مکرم ومحترم جناب مولانا حمیدکوثر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان نے خاکسار کو بتایا کہ انہوں نے خود ایک قرآن کریم دیکھاتھا جو بہت ہی خوبصورت لکھاہواتھا اوربڑے سائز میں تھا۔اوراس کے ابتدائی صفحہ پرحضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کانام بھی لکھاہواتھا۔
خاکسار نے اس مسودے کو حتمی شکل دیتے وقت محترم مولانا حمید کوثر صاحب کی خدمت میں یہ بات بغرض ِ توثیق لکھ کر قادیان فیکس کی اور درخواست کی کہ اگروہ تحریری طور پر یہ روایت ارسال فرمادیں توخاکسار اس کو درج بھی کردے۔ چنانچہ مولانا صاحب نے اس کے جواب میں جو خط لکھا وہ من وعن درج کیاجاتاہے :
جامعہ احمدیہ قادیان دارالامان
تاریخ: ۲۰۱۰-۰۸-۲۵
بخدمت محترم …
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تحریر خدمت ہے کہ آنمحترم کی چٹھی ۱۰-۸-۲ موصول ہوئی۔اس کے جواب میں تحریر خدمت ہے کہ جب خاکسار تعلیم الاسلام سکول کی پہلی،دوسری،تیسری اور چوتھی کلاس میں تھا توہمارے بزرگ استاد محترم قریشی فضل الحق صاحب درویش مرحوم جو مسجد مبارک کے خادم بھی تھے۔ ہم سے مسجد مبارک کی صفائی کے لئے مسجد مبارک میں وقارعمل کرواتے تھے۔اور اس دوران ہم وہاں رکھے ہوئے بڑے بڑے سائز کے قرآن مجید کو اٹھا کران کو صاف کرتے اور اوپر لے جا کردھوپ میں رکھتے۔اس دوران خاکسار اور وحیدالدین صاحب حال قائمقام ناظر تعلیم ونگران دارالمسیح نے بھی وہاں ایک قرآن مجید کو بارہا دیکھا جو تقریباً ڈیڑھ فٹ لمبااور ایک فٹ چوڑا ہوگا۔اس کے اوپر چمڑے کی خوبصورت جلد تھی اور یہ قرآن مجید ہاتھ کا لکھا ہواتھا۔اور خطاطی کا اعلیٰ نمونہ تھا۔اس کے شروع میں مرزاغلام مرتضیٰ لکھا ہواتھا۔اوراس کی گواہی وحیدالدین صاحب بھی دے سکتے ہیں۔جن کے دستخط ذیل میں موجودہیں۔بعدازاں خاکسار ۱۹۷۴ء میں تبلیغی میدان میں چلا گیا۔اس کے بعد معلوم نہیں وہ بڑے بڑے قرآن مجید اور مذکورہ قرآن کہا ں گئے؟
والسلام خاکسار محمدحمیدکوثر پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان
اس خط پر محترم مکرم وحیدالدین صاحب کے بطورگواہ کے دستخط بھی ہیں۔اور اس خط سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ۱۹۷۴ء تک یہ قرآن مجید موجودتھا۔بہرحال یہ ایک قیمتی اورنادرکتب خانہ تھا اور اس کی آخری نشانی وہ قرآن مجید ہوسکتاتھا جو ۱۹۷۴ء تک مسجد مبارک قادیان میں موجود رہا۔ خدا کرے کہ قادیان سے ہی کسی مکان کے گوشے سے کوئی اورنادرومتبرک یادگار دریافت ہوجائے۔
بات ہورہی تھی آپؒ کے علم وادب سے دلچسپی کی۔اوریہ علم وادب سے دلچسپی اورمحبت ہی تھی کہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے آپ نے بھاری مشاہرے پر اساتذہ مقرر فرمائے جو مختلف علاقوں سے قادیان میں صرف تعلیم کے لئے قیام فرمارہتے۔
البتہ تعلیم اورعلم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں سے محبت کا یہ پہلو بھی غالب تھا کہ مطالعہ میں اتنا زیادہ شغف نہ ہوکہ خرابیٔ صحت کا اندیشہ ہو۔