کبھی مجھے بھی درِ حبیبِ خداؐ پہ جانے کا اذن دے دے
مرے خدایا! حکایتِ دل مجھے سنانے کا اذن دے دے
کبھی مجھے بھی درِ حبیبِ خداؐ پہ جانے کا اذن دے دے
یہ تیرا لطف و کرم ہے تُو نے زمانۂ آخریں دکھایا
اب اس زمانے کو دورِ اوّل سے بھی ملانے کا اذن دے دے
میں دیکھ لوں وہ حرا جہاں یہ چراغِ نورِ خدا جلا تھا
مجھے بھی نورِ محمدیؐ سے دیا جلانے کا اذن دے دے
دل و نظر میں بسا ہوا ہے حریم بطحا کا سبز گنبد
کبھی تو اس بے مثال بستی میں سر جھکانے کا اذن دے دے
سنا ہے میں نے وہاں پر لطف و کرم کی بارش کا سلسلہ ہے
وجود بھر جائے نور سے گر وہاں نہانے کا اذن دے دے
وہاں پہ کہتے ہیں حوضِ کوثر کا جام ملتا ہے مَے کشوں کو
مجھے بھی تشنہ لبی کو جا کے وہاں مٹانے کا اذن دے دے
غبار دل کا بہا کے لے جائے معصیّت کی ہر اک سیاہی
ان آنسوؤں کو اس آستاں پر ذرا بہانے کا اذن دے دے
وہ سرورِ دو سرا جسے ایک تو نے رحمت بنا کے بھیجا
مرے چمن کو اسی کے صدقے سے لہلہانے کا اذن دے دے
کیا مجھے مالا مال دنیا جہاں کی سب نعمتوں سے تُو نے
وصالِ دلدار کی سعادت کو بھی کمانے کا اذن دے دے
وه پاک ہستی کہ جس پہ تُو بھی، ملائکہ بھی درود بھیجیں
مجھے بھی اس بارگہ میں جا کر یہ نعت گانے کا اذن دے دے
ہؤا ہے جشنِ بہار جاری اسی کا ہے ذکرِ خیر ہر سُو
مری مچلتی ہر اک تمنّا کو مسکرانے کا اذن دے دے
شفیعِ محشر کا بس وسیلہ ہی مجھ ظفؔر کا ہے اک سہارا
جو میرے سر پر ہے بارِ عصیاں اُسے بتانے کا اذن دے دے
(مبارک احمد ظفؔر)