حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اسلام کے دفاع اور ناموس رسالت کے قیام کے لیے غیرت اور جماعت کو زرّیں نصائح (قسط اوّل)
اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کو عین اس وقت مبعوث فرمایا جب اسلام اور بانیٔ اسلامؐ کی عزت و وقار پر دجالی قوتوں کے سائے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ آپؑ نے جہاں اسلام اور رسول اللہﷺ کا دفاع فرمایا وہیں حضرت مسیح موعودؑ نے آنحضرتﷺ کی عزت و ناموس کے قیام کی خاطر اپنے متبعین میں محبت و عشقِ رسول کی جاگ لگا دی۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’سچی ہمدردی اسلام کی اور سچی محبت رسولِ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اسی میں ہے کہ ہم ان افتراؤں سے اپنے مولیٰ و سیّد رسول اللہﷺ اور اسلام کا دامن پاک ثابت کر کے دکھلائیں۔ اور وسواسی دلوں کو یہ ایک نیا موقعہ وسوسہ کا نہ دیں کہ گویا ہم تحکّم سے حملہ کرنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں اور جواب لکھنے سے کنارہ کش ہیں۔ ہر ایک شخص اپنی رائے اور خیال کی پیروی کرتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ہمارے دل کو اسی امر کے لئے کھولا ہے کہ اس وقت اور اس زمانہ میں اسلام کی حقیقی تائید اسی میں ہے کہ ہم اس تخمِ بدنامی کو جو بویا گیا ہے اور اُن اعتراضات کو جو یورپ اور ایشیا میں پھیلائے گئے ہیں۔ جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی خوبیوں کے انوار اور برکات اس قدر غیر قوموں کو دکھلاویں کہ اُن کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں۔ اور اُن کے دل ان مفتریوں سے بیزار ہو جائیں جنہوں نے دھوکہ دے کر ایسے مُزخرفات شائع کئے ہیں اور ہمیں اُن لوگوں کے خیالات پر نہایت افسوس ہے جو باوجودیکہ وہ دیکھتے ہیں کہ کس قدر زہریلے اعتراضات پھیلائے جاتے اور عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ان اعتراضات کے رد ّکرنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں صرف مقدمات اٹھانا اور گورنمنٹ میں میموریل بھیجنا کافی ہے‘‘۔ (البلاغ، فریادِ درد، روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۳۸۳)
آپؑ فرماتے ہیں کہ’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجنابؐ پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں اُن سے ہم کیوں کر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبیؐ پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے‘‘۔ (پیغام صلح، روحانی خزائن، جلد۲۳ صفحہ۴۵۹)
حضرت مسیح موعودؑ کے بعد آپ کے خلفائے عظام نے بھی اپنی تحریر و تقریر سے حقیقی عشقِ رسول اور غیرتِ رسول ؐکو دنیا پر ثابت کر دیا۔ چاہے وہ رسالہ ورتمان ہو یا سلمان رشدی کی مذموم تحریرات۔ ہر دور میں ناموس رسالت کے اثبات میں جماعت احمدیہ صفِ اول میں کھڑی نظر آئی۔
انٹرنیٹ کی ایجاد اور سوشل میڈیا کے عام ہوتے ہی اسلام مخالف قوتیں بھی زور دکھانے لگیں۔ یہ ایجادات جہاں اسلام کی خدمت میں استعمال ہورہی ہیںوہیں اسلام دشمن قوتیں آئے روز کسی نہ کسی رنگ میں توہین کی مرتکب ہونے لگیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس زمانہ میں ہماری راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں ایک امام میسر ہے جو ایسے پر خطر طوفان کےبھنور سے اسلام کی کشتی کو بآسانی کھینچ کر باہر لے آتا ہے۔ اوروہ امام ہیں امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔
گذشتہ دو دہائیوں میں جب بھی دشمن نے اسلام اور رسول اللہﷺ کی طرف میلی آنکھ بھی اٹھائی تو حضور انور ایدہ اللہ نے سینہ سپر ہو کر دور اندیشی و دانائی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ اپنی جماعت کو لائحہ عمل دیا۔ اور جب جماعت کو دشمن نے رگیدنا چاہا تو ہمارے امام نے ہمیں اپنے سایہ عاطفت میں لے لیا۔ آیئے اس مساعی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
جماعت احمدیہ ہتک رسولؐ نہیں محبت رسولؐ کرنے والی ہے
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںکہ ’’آج مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آنحضرتﷺ کی ہتک عزت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان مخالفین کواس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ تمہاری عقلوں او ر آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لئے تمہیں کچھ نظر نہیں آرہا۔ آج تمہارے پاس طاقت ہے تو تم جو چاہو کرنے یا کہنے کی کوشش کرو، کرتے رہو، کہتے رہو۔ مولوی کی آنکھ پر پردے تو پڑے ہوئے تھے ہی اور ہیں ہی۔ ان کا کام تو صرف فساد اور نفرتیں پھیلانا ہی ہے افسوس تو اس بات کا ہوتاہے کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی باوجود جاننے کے اور ذاتی مجالس میں اس کے اظہار کے پھر بھی کھلے عام یہ اعتراف نہیں کرتے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جوسب سے زیادہ آنحضرتﷺ سے محبت کرنے والی ہے اور آپ کی تعلیم کی پیروی کرنے والی ہے۔ اِکّا دُکّا آپ کو ملیں گے، آپ کے دوست ہوں گے، یہی اعتراف کریں گے۔ لیکن اس علم کے باوجود کبھی کھل کے نہیں کہہ سکتے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا، بعض دفعہ اظہا ر ہوچکاہے، اور اس اظہار کے باوجود، ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا جوقانون پاس کیا تھااس کے بارہ میں بھی اظہار ہوتاہے کہ یہ غلط تھا۔ اور اس وقت مُلّاں کو خوش کرنے کے لئے یا جو بھی مقاصد تھے اس زمانے کی حکومت کے ان کو پورا کرنے کے لئے جو قدم اٹھایا گیا تھا اس سے سوائے ملک میں بدامنی اور بے چینی کے ملک کو کچھ اور نہیں ملا، بے چینی اور بدامنی ضرور ملی ہے۔ یہ اظہار کرتے ہیں غیر بھی۔ پھر بھی مُلّاں کے پیچھے چلتے ہیں۔‘‘
غیرت دکھانے میں احمدی صف اول میں ہے
فرمایا: اب بعض مولوی بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا حوصلہ دکھاتے ہوئے احمدیوں کو کہتے ہیں، بعض اخباروں میں بھی آ جاتا ہے، تقریریں بھی کرتے ہیں کہ اگر تم احمدیت سے منحرف ہو جاؤ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو چھوڑ دو تو ہم تمہیں سب سے بڑا عاشق رسول سمجھیں گے اور اپنے سینے سے لگائیں گے۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ تمہیں کیا پتہ کہ عشق رسول کیا ہوتا ہے۔ جس شخص کو تم چھوڑنے کے لئے کہہ رہے ہو اسی سے تو ہم نے عشق رسول کے اسلوب سیکھے ہیں۔ عشق رسول کی پہچان تو ہمیں آج حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے ملی ہے۔ ان کو چھوڑ کر ہم تمہارے پاس آئیں جن کے پاس سوائے گالیوں کے اور غلیظ ذہنیتوں کے اور ہے ہی کچھ نہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ ان باتوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی عشق رسول کے اظہار اور غیرت دکھانے کا معاملہ آیا احمدی ہمیشہ صف اول میں رہا، اور انشاءاللہ تعالیٰ ہمیشہ رہے گا۔ پرانے زمانے میں مذہبی اختلاف کے باوجود کچھ شرافت تھی، کچھ قدریں تھیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے اگر اسلام کے دفاع کے لئے، آنحضرتﷺ کے لئے غیرت دکھانے کے لئے کوئی کام ہوا تو غیروں نے بھی اس کا برملا اظہار کیا۔ جماعت کی خدمات کی توصیف و تعریف کی۔ آجکل کے اخباروں کی طرح، لوگوں کی طرح خوف زدہ ہو کر نہیں بیٹھ گئے کہ پتہ نہیں کیا مصیبت آجائے گی ہم پہ اگر ہم نے کچھ کہہ دیا۔(خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍ دسمبر۲۰۰۴ء)
احمدی پہلے سے بڑھ کر آنحضرتﷺ سے عشق و محبت کی مثالیں قائم کرے
حضور انور نے گذشتہ زمانہ کے اخبارات میں جماعت کی مساعی کے مثبت ذکر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’تو یہ تھی ان لوگوں کی شرافت لیکن آج کل کی شرافت گونگی ہے۔ گھروں میں بیٹھ کے بات کر لیں گے باہر نکل کے نہیں کر سکتے۔ تو یہ آنحضرتﷺ سے عشق اور آپ کے لئے غیرت کی ایک مثال ہے جو اسی تعلیم کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں دی ہے جو غیروں کو بھی نظر آرہی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ صرف بات یہ ہے کہ اب اکثر سے شرافت اٹھ گئی ہے۔ اگر شرافت ہو تو آج بھی جو خدماتِ اسلام اور جو کوشش آنحضرتﷺ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کررہی ہے اس کو سمجھتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے کی بجائے، احمدی پر ہتک رسول کا الزام لگانے کی بجائے، ان خدمات کو سراہیں۔ ان کی تعریف کریں۔… لیکن احمدی کا بھی یہ کام ہے کہ پہلے سے بڑھ کر آنحضرتﷺ سے عشق و محبت کی مثالیں قائم کرے اور آپ پر درود بھیجے۔ عشق و محبت کی جو تعلیم اور جو مثالیں حضرت مسیح موعودؑ قائم کر گئے ہیں ان کا کوئی مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ اور نہ ہی احمدی کے علاوہ اس کا کوئی اظہار کر سکتا ہے۔پس یہ آج احمدی کا ہی کام ہے کہ اس کا اظہار کریں اور بتائیں دنیا کو۔
ہتک رسول کے اصل میں مر تکب تم لوگ ہو
مولوی نے سوائے فتنہ و فساد کے اور کچھ نہیں پیدا کرنا۔ آج بھی، مَیں پھرکہتاہوں کہ ہر احمدی کا یہی جواب ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا ’گر کفرایں بود بخدا سخت کافرم ‘کہ اگر تم اس کو کفر سمجھتے ہو تو پھر ٹھیک ہے ہم کافر ہی ہیں۔ بے شک تم ہتک رسول میں اپنی مرضی سے اسے اندر کردو۔ لیکن خدا کو پتہ ہے کہ اصل میں یہ ہتک رسول میں سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ عشقِ رسول میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ لیکن تم لوگ مسیح موعود کو نہ مان کر آنحضرتﷺ کی پیروی سے باہر نکل رہے ہو اور ہتک رسول کے اصل میں مر تکب تم لوگ ہو رہے ہو۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ خدا کا خوف کرو۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ بدلے لینے پہ آتا ہے پھر بہت خطرناک حالات ہوتے ہیں۔ پھر یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کون بچ گیا اور کون مر گیا۔ بہرحال ان لوگوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہر احمدی کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ ہر احمدی کا بھی یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے آنحضرتﷺ کی پیروی کرے اور پہلے سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرے اور آپ پر درود و سلام بھیجے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ ۱۰؍ دسمبر ۲۰۰۴ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍ دسمبر۲۰۰۴ء)
رسول اللہ ؐکی پیرو ی میں خدا کی غیرت اپنائیں
سال ۲۰۰۵ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سیرت النبیﷺ پر ایک تسلسل سے خطبات ارشاد فرمائےاور اپنے تمام متبعین سے ان اخلاق کو اپنی عملی زندگیوں کا حصہ بنانے کی تلقین فرمائی۔ فرمایاکہ ’’اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے آپؐ پیدا ہوئے تھے۔ ایک اعلیٰ انسان اور عبد رحمٰن کا مقام جو کسی کو ملا وہ سب سے اعلیٰ مقام آنحضرتﷺ کو ملا۔ اور بندے کی پہچان اپنی ذات کی پہچان اور خداتعالیٰ کی ذات کی پہچان کرانے کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے۔ توحید کے قیام کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے۔ اور ساری زندگی اسی میں آپؐ نے گزاری۔ اور یہی آپ کی خواہش تھی کہ دنیا کا ہر فرد ہر شخص اس توحید پر قائم ہو جائے۔ اور اس زمانے میں بھی آ پؐ کے غلام حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی پہچان اس تعلیم کی رو سے ہمیں کروائی۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے آقا و مطاعﷺ کی پیروی میں خدائے واحد کی عبادت اور اس کے نام کی غیرت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تبھی ہم حقیقت میں لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا کلمہ پڑھنے والے کہلا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ۴؍ فروری ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍ فروری۲۰۰۵ء)
۲۰۰۶ء کا ہیجانی سال
۲۰۰۶ء کا سال ایک ہیجان لیے ہوئے آیا۔ ڈنمارک اور مغربی ممالک کے اخبارات میں آقائے دوجہاں کےدل آزار کارٹون کی اشاعت سے پوری دنیا کے مسلمان دل سوختہ ہوئے۔ مسلمان علماء نے مسلم امہ کو اور انگیخت کیا اور دنیابھر میں ایک طوفان آگیا۔ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت خلافت کے بابرکت وجود نے جہاں ہمارے دلوں پر مرہم رکھی وہیں ہمیں اس طوفان میں سے بآسانی کھینچ نکالا۔ آنحضرتؐ کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے کارٹونوں پررنج وغم اورمذمّت کااظہار کرتےہوئے فرمایا: ’’آجکل ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک کے آنحضرتﷺ کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے، ابھارنے والے، کارٹون اخباروں میں شائع کرنے پر تمام اسلامی دنیا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور ہر مسلمان کی طرف سے اس بارے میں رد عمل کا اظہار ہو رہا ہے۔ بہرحال قدرتی طور پر اس حرکت پر رد عمل کا اظہار ہونا چاہئے تھا۔ اور ظاہر ہے احمدی بھی جو آنحضرتﷺ سے محبت و عشق میں یقیناً دوسروں سے بڑھا ہواہے کیونکہ اس کو حضرت مسیح موعودؑ کی وجہ سے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ کے مقام کا فہم و ادراک دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور کئی احمدی خط بھی لکھتے ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں، تجاویز دیتے ہیں کہ ایک مستقل مہم ہونی چاہئے، دنیا کو بتانا چاہئے کہ اس عظیم نبی کا کیا مقام ہے تو بہرحال اس بارے میں جہاں جہاں بھی جماعتیں Activeہیں وہ کام کر رہی ہیں لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا رد عمل کبھی ہڑتالوں کی صورت میں نہیں ہوتا اور نہ آگیں لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور نہ ہی ہڑتالیں اور توڑ پھوڑ، جھنڈے جلانا اس کا علاج ہے۔
اسلامی معاشرے اور مغربی جمہوریت کے تصادم کی حقیقت
پھر فرمایاکہ ’’اس زمانے میں دوسرے مذاہب والے مذہبی بھی اور مغربی دنیا بھی اسلام اور بانیٔ اسلامﷺ پر حملے کر رہے ہیں۔ اس وقت مغرب کو مذہب سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی اکثریت دنیا کی لہوو لعب میں پڑ چکی ہے۔ اور اس میں اس قدر Involve ہو چکے ہیں کہ ان کا مذہب چاہے اسلام ہو، عیسائیت ہویا اپنا کوئی اَور مذہب جس سے یہ منسلک ہیں ان کی کچھ پرواہ نہیں وہ اس سے بالکل لاتعلق ہو چکے ہیں۔ اکثریت میں مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہو چکا ہے بلکہ ایک خبر فرانس کی شاید پچھلے دنوں میں یہ بھی تھی کہ ہم حق رکھتے ہیں ہم چاہے تو، نعوذباللہ، اللہ تعالیٰ کا بھی کارٹون بنا سکتے ہیں۔ تو یہ تو ان لوگوں کا حال ہو چکا ہے۔ اس لئے اب دیکھ لیں یہ کارٹون بنانے والوں نے جو انتہائی قبیح حرکت کی ہے اور جیسی یہ سوچ رکھتے ہیں اور اسلامی دنیا کا جو ردّ عمل ظاہر ہوا ہے اس پر ان میں سے کئی لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ یہ ردّ عمل اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولر جمہوریت کے درمیان تصادم ہے حالانکہ اس کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب تو ان لوگوں کی اکثریت جیسا کہ مَیں نے کہا اخلاق باختہ ہو چکی ہے۔ آزادی کے نام پر بے حیائیاں اختیار کی جا رہی ہیں، حیا تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
اسلام کی عجیب خوفناک تصویر
اسی خطبہ میں حضور انور ایدہ اللہ نے مغرب کے غلطی پرہونے پر جہاں نشاندہی فرمائی وہیں اخبار کی جانب سے معافی کو تسلیم نہ کرنا بھی اورعجیب و غریب شرائط پر معافی تسلیم کرنے پر مسلم امہ کے ہیجان کو بھی غلط ٹھہرا تے ہوئے فرمایا کہ ’’مسلمانوں کی اکثریت بھی جیسا کہ مَیں نے کہا کہتی ہے کہ ہمیں معذرت کو مان لینا چاہئے لیکن ان کے ایک لیڈر ہیں جو ۲۷تنظیموں کے نمائندے ہیں وہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ اگرچہ اخبار نے معذرت کر دی ہے تاہم وہ ایک بار پھر ہمارے سب کے سامنے آ کر معذرت کرے تو ہم مسلمان ملکوں میں جا کر بتائیں گے کہ اب تحریک کو ختم کر دیں۔ اسلام کی ایک عجیب خوفناک تصویر کھینچنے کی یہ کوشش کرتے ہیں۔ بجائے صلح کا ہاتھ بڑھانے کے ان کا رجحان فساد کی طرف ہے۔ ان فسادوں سے جماعت احمدیہ کا تو کوئی تعلق نہیں مگر ہمارے مشنوں کو بھی فون آتے ہیں، بعض مخالفین کی طرف سے دھمکیوں کے خط آتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ جہاں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں، مشن ہیں، محفوظ رکھے اور ان کے شر سے بچائے۔
احمدی ہڑتالوں اور احتجاج میں شامل کیوں نہیں ہوتے؟
پھر اسی خطبہ میں جماعت احمدیہ کے رد ِّعمل کے بارے میں فرمایا کہ ’’یقینی طور پر سب سے زیادہ اس حرکت پر ہمارے دل چھلنی ہیں لیکن ہمارے ردّعمل کے طریق اور ہیں۔ یہاں مَیں یہ بھی بتا دوں کہ کوئی بعید نہیں کہ ہمیشہ کی طرح وقتاً فوقتاً یہ ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دل آزاری ہو۔ اور ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہو سکتا ہے کہ قانوناً مسلمانوں پر خاص طور پر مشرق سے آنے والے اور برصغیر پاک و ہند سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندی لگانے کی کوشش کی جائے۔ بہرحال قطع نظر اس کے کہ یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں، ہمیں اپنے رویّے، اسلامی اقدار اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے چاہئیں، بنانے چاہئیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اسلام کے اور آنحضرتﷺ کے خلاف ابتداء سے ہی یہ سازشیں چل رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ اس کی حفاظت کرنی ہے، وعدہ ہے اس لئے وہ حفاظت کرتا چلا آرہا ہے، ساری مخالفانہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اس زمانے میں اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو اس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے، اور اس زمانے میں جو آنحضرتﷺ کی ذات پر حملے ہوئے اور جس طرح حضرت مسیح موعو دؑ نے اور بعدمیں آپؑ کی تعلیم پر عمل کر تے ہوئے آپؑ کے خلفاء نے جماعت کی رہنمائی کی اور ردّعمل ظاہر کیا اور پھر جو اس کے نتیجے نکلے اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ وہ لوگ جو احمدیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہڑتالیں نہ کرکے اور ان میں شامل نہ ہو کر ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمیں آنحضرتﷺ کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی درد نہیں ہے، ان پر جماعت کے کارنامے واضح ہو جائیں۔ ہمارا ردّ عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرتﷺ کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے۔ قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے۔ آنحضرتﷺ کی ذات پر ناپاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کارروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں۔…‘‘
اس کے بعد حضور انور نے لیکھرام اور آتھم کے دردناک انجام کا ذکر فرمایا۔(خطبہ جمعہ ۱۰؍ فروری ۲۰۰۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مارچ ۲۰۰۶ء)
اتحاد امت اورغیرت کے اظہار کا درست طریق
ناموس رسالت پر حملے کے وقت مسلم امہ کے اتحاد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ’’مسلمان کہلانے والوں کو بھی مَیں یہ کہتا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ احمدی ہیں یا نہیں، شیعہ ہیں یا سنی ہیں یا کسی بھی دوسرے مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی ذات پر جب حملہ ہو تو وقتی جوش کی بجائے، جھنڈے جلانے کی بجائے، توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے، ایمبیسیوں پر حملے کرنے کی بجائے اپنے عملوں کو درست کریں کہ غیر کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے۔ کیا یہ آگیں لگانے سے سمجھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی عزت اور مقام کی نعوذ باللہ صرف اتنی قدر ہے کہ جھنڈے جلانے سے یا کسی سفارت خانے کا سامان جلانے سے بدلہ لے لیا۔ نہیں ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو آگ بجھانے آیا تھا، وہ محبت کا سفیر بن کر آیا تھا، وہ امن کا شہزاد ہ تھا۔ پس کسی بھی سخت اقدام کی بجائے دنیا کو سمجھائیں اور آپؐ کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتائیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے لیکن مَیں احمدیوں سے یہ کہتاہوں کہ ان کو تو پتہ نہیں یہ عقل اور سمجھ آئے کہ نہ آئے لیکن آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردّعمل کے طور پر اپنے آپ کوایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے۔ اب بڑے جوش سے لوگ کھڑے ہیں (پاکستان کی ایک تصویر تھی) آگ لگا رہے ہیں جس طرح کوئی بڑا معرکہ مار رہے ہیں۔ یہ پانچ منٹ میں آگ بجھ جائے گی، ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو۔ وہ آگ ہے آنحضرتﷺ سے عشق و محبت کی آگ جو آپؐ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو۔ جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے۔ یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں۔ پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے۔ لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ہی بننا ہے۔ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرتﷺ کی محبت کو دلوں میں سلگتا رکھنے کے لئے، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے، آنحضرتﷺ پر بے شمار درود بھیجنا چاہئے۔ کثرت سے درود بھیجنا چاہئے۔ اس پُر فتن زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرتﷺ کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا(الاحزاب:۵۷) کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا، بلکہ اس کے تو کئی حوالے ہیں کہ مجھ پر تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا درود بھیجنا ہی کافی ہے تمہیں جو حکم ہے وہ تمہیں محفوظ رکھنے کے لئے ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۱۰؍ فروری ۲۰۰۶ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍مارچ ۲۰۰۶ء)
ہمیں تمہاری مسلمان کی تعریف کی ضرورت نہیں
ایک احمدی بچے کی جانب سے پولیس کے کہنے پر کلمہ کی تختی اتارنے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تمام جماعت کو نصیحت فرمائی کہ کسی احمدی نے ایسا فعل دوبارہ نہیں کرنا۔ اور کلمہ کی حفاظت کی تلقین کرتے ہوئے حضور انورنے فرمایا کہ ’’خدا کرے کہ ہمارے مخالفین کو عقل آ جائے اور وہ امامِ وقت کی مخالفت ترک کریں اور اس درد مندانہ پیغام کو سمجھیں۔ پاکستان میں بدنامِ زمانہ اور ظالمانہ قانون نے احمدیوں پر جو پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ اس میں ایک یہ بھی ہے کہ احمدی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا کلمہ نہ پڑھ سکیں۔ نہ کسی جگہ لکھ کر اس کا اظہار کر سکتے ہیں…پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ احمدی کیونکہ ان کی بنائی ہوئی تعریف کے مطابق مسلمان نہیں ہیں اس لئے کلمہ پڑھنے اور لکھنے کی بھی ان کو اجازت نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں تمہاری تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے کہہ دیا کہ جو کلمہ پڑھے وہ مسلمان ہے۔
… ہم ہی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کے حقیقی معنی کو سمجھنے والے ہیں۔ ہم ہیں جو آنحضرتﷺ کے مقامِ ختمِ نبوت کو سمجھنے والے ہیں۔ وقتاً فوقتاً احمدیوں پر الزام تراشی کرتے ہوئے ہمارے خلاف جو نام نہاد علماء مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان حقائق کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو چاہئے کہ دیکھیں اور پرکھیں۔ جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے، احمدی اپنی جانوں کو تو قربان کر سکتے ہیں لیکن کبھی لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حقیقی معنی سمجھ کر پھر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ یہ جو کلمے مٹائے جاتے ہیں، یہ جو کلمے کی حفاظت کے نام پر احمدیوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، جو کلمے کے نام پر احمدیوں کو شہید کیا جاتا ہے یہی کلمہ مرنے کے بعد ہمارے حق میں خداتعالیٰ کے حضور گواہی دے گا کہ یہی حقیقی کلمہ گو ہیں۔ اور یہی کلمہ احمدیوں پر ظلم کرنے والوں اور ان کو شہید کرنے والوں کے بارے میں قتلِ عمد کی گواہی دے گا۔ پس ہم خوش ہیں کہ جنت کی خوشخبری دے کراللہ تعالیٰ ہمیں دائمی زندگی سے نواز رہا ہے۔ پس جہاں شہداء دائمی زندگی کی خوشخبری پارہے ہیں وہاں ہم سب جو ہیں اور ہم میں سے ہر ایک جو ثباتِ قدم کا مظاہرہ کر رہا ہے اللہ تعالیٰ کے پیار کو یقیناً جذب کرنے والا ہے۔ پس اس روح کو کبھی مرنے نہ دیں۔ کبھی مرنے نہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔(خطبہ جمعہ ۲۱؍ مئی ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍ جون۲۰۱۰ء)(باقی آئندہ)