اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
اپریل ۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
پولیس کی موجودگی میں احمدیہ مسجد کی بے حرمتی
گھوگھیاٹ،ضلع سرگودھا،پنجاب۔اپریل ۲۰۲۳ء: اس گاؤں میں احمدیوں کی مخالفت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ گذشتہ سال مئی میں تیس احمدیوں کی قبروں سے اسلامی اصطلاحات کو مٹا دیا گیا تھا اور اس سال احمدیوں کو عید پر قربانی کرنےسے روک دیا گیا تھا۔ مخالفین نے پولیس کی مدد سے مسجد کے باہر ایک بورڈ آویزاں کر دیا ہے جس پر لکھا ہو ا ہے کہ یہ مسجد نہیں ہے قادیانیوں کی عبادت گاہ ہے۔
۱۶؍اپریل ۲۰۲۳ء کو خلیل الرحمان نامی ایک شخص نے تھانہ میانی میں درخواست دی کہ جب وہ قادیانی عبادت گاہ کے پاس سے گزر رہا تھا تو اس نے ایک قادیانی استاد کو بچوں کو قرآن پڑھاتے سنا۔تو اس نے ڈیوٹی پر کھڑے پولیس والے کو کہا کہ اس کومنع کرے۔ چنانچہ اس کے معلم کو روکنے پر معلم نے رکنے کی بجائے شکایت کنندہ کو قتل کی دھمکی دی۔
معلوم ہوتا ہےکہ شکایت کنندہ ایسے گروہ سے تعلق رکھتا ہے جس کی نظر میں جھوٹ بولنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔
اس کے بعد عشاء کے وقت مخالفین مسجد کے باہر جمع ہو گئے اور کہا کہ گنبد اور محراب کو مسمار کیا جائے۔ حالانکہ یہ مسجد ایک سو اٹھارہ سال پرانی ہے اور امتناع قادیانیت آرڈیننس سے بہت پہلے کی تعمیر شدہ ہے۔اس کے بعد مخالفین نے مسجد پر چڑھنے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کو روکا۔لیکن گیارہ بجے کے قریب آخر کار وہ لوگ سیڑھی کی مدد سے چھت پر چڑھ گئے اور پولیس کی موجودگی میں گنبد اور محراب کو شہید کر دیا۔
اگلے روز ۱۷؍اپریل کو پولیس نےتین احمدیوں کے خلاف سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے اورتوہین کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔
احمدیوں نے بھی مسجد پر حملہ کرنے اور گنبد اور محراب کو مسمار کرنے کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ پولیس نے تئیس معلوم اور انیس نامعلوم ملزمان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا اور پانچ ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
بھیرہ کے مجسٹریٹ رانا خالد محمود نے ملزمان کو رعایت دیتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کر لی کہ ان پر کوئی بھی مقدمہ درج نہیں ہوا۔اس نے کہا کہ مقدمہ عام آدمی کی طرف سے درج ہوا ہے لہٰذا توہین کی دفعہ نہیں لگتی اور باقی کے جرم قابل ضمانت ہیںاور جج نے ایسے مجرموں کی ضمانت منظور کرلی جنہوں نے انتہائی سفاکانہ طریق پر مظلوم فریق کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا تھا۔
ہفتہ وار فرائیڈے ٹائمز نے بھی اس بات کا ذکر کیا۔چند اقتباس یوں ہیں۔
سرگودھا میں پولیس کی موجودگی میں احمدیہ عبادت گاہ کی بے حرمتی
عینی شاہدین کے مطابق رات گیارہ بجے ایک ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں یہ سب کیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ عبادت گاہ(مسجد)ایک سو اٹھارہ سال پرانی ہے۔اور احمدیہ عبادت گاہوں پر ہجوم کا حملہ کر کے ان کے گنبد اور محراب مسمار کرنا آئین پاکستان اور جسٹس تصدق حسین کے ۲۰۱۴ء کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے مختلف حصوں میں احمدیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور پنجاب اس کا گڑھ ہے۔اور اب تو یہ عالم ہے کہ احمدیوں کو رمضان میں بھی ان مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن نے حقائق کی تلاش کے لیے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس کے مطابق گوجرانوالہ اور اس کے گردو نواح میں احمدیہ جماعت کی عبادتگاہوں کے محرابوں کو مسمار کرنے،قبروں کے کتبوں کو مسمار کرنے،احمدیوں پر ایف آئی آر درج کروانےاور ان کو قربانی سے روکنے میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
تعصب خیرات پر سبقت لے گیا
نوا کوٹ،ضلع شیخوپورہ۔اپریل ۲۰۲۳ء: رمضان کے مہینے میں پورے پاکستان میں احمدیوں نے مذہب و عقیدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرے کے غریب طبقات کی امداد کی ٹھانی۔نوا کوٹ میں احمدیوں نے دوسو پچاس ضرورت مند گھروں میں ضروری اشیائے خورو نوش کے پیکٹ تقسیم کیے۔
جیسے ہی مذہبی انتہاپسندوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے پولیس سے رابطہ کیا اورلوگوں سے یہ پیکٹ واپس مانگے جس پر پچاس کے قریب لوگوں نے تو پیکٹ واپس کر دیے لیکن باقیوں نے بشمول ایک غیر احمدی امام مسجد پیکٹ دینے سے انکار کر دیا۔جس کا اس کو بعد میں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔
پولیس نے کہا کہ یہ پیکٹ بانٹنے والوں(احمدیوں ) کو واپس لوٹا دیے جائیں گے۔لیکن وہ پیکٹ احمدیوں کو واپس نہیں ملے۔ غالب گمان ہے کہ ان سے کسی اور ضرورتمند طبقے نے فائدہ اٹھایا ہوگا۔
احمدی وکیل ٹوکےکے وار سے زخمی
لالیاں ضلع چینوٹ،۱۳؍اپریل ۲۰۲۳ء:زبیر انور نامی ایک شخص نے ایک احمدی وکیل پر ان کے چیمبر میں ٹوکے سے حملہ کر کے ان کو زخمی کر دیا جس سے ان کو سر پر گہری چوٹ آئی۔ موصوف کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا اور طبی امداد دی گئی۔ یہ حملہ لالیا ں میں ہوا جو احمدیوں کے مرکز ربوہ سے مغرب کی جانب صرف بارہ کلومیٹر دور ہے۔ حملہ آور پہلے بھی احمدیوں کے خلاف متشددانہ ریکارڈ کا حامل ہے۔یہ احمدی وکیل ایک نمایاں کارکن ہیں اوراحمدیوں کے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔
ٹی وی،بول انٹرٹینمنٹ،۷؍اپریل۲۰۲۳ء:کچھ سال قبل بول ٹی وی پر پاکستان کے ایک نام نہاد عالم عامر لیاقت نے اپنے ایک پروگرام عالم آن لائن میں جماعت احمدیہ کو کافر قرار دینے کی چونتیسویں سالگرہ کے موقع پر دو پاکستانی مولویوں کو بلایا جو مکہ میں مقیم تھے۔ ان دونوں نے جماعت کے متعلق انتہائی نازیبا گفتگو کی اور خونی جہاد کا ذکر کیا۔ بول ٹی وی کو اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ اس سے سننے والوں پر کیا اثر پڑے گا۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس پروگرام کے چند روز کے اندر دو معروف احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔
یوں لگتا ہے کہ نام نہاد پاکوں کی سرزمین اپنے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھتی اور اب پھر رمضان میں بول ٹی وی نے ایک ہوسٹ فیصل قریشی کوتحفظ ختم نبوت کے متعلق ایک پروگرام ہوسٹ کرنے کو کہا۔اس پروگرام کا موضوع توہین سے متعلق تھااور اس پر نام نہاد مولویوں کی رائے لی گئی۔ان مولویوں نے کھلے عام کہا کہ توہین کا مرتکب واجب القتل ہے۔
حنیف قریشی،امین شہیدی،فضل سبحان،نوید عباس، یونس صدیقی،محمد علی شاہ اور مفتی ابو محمد وہ مولوی ہیں جو اس پروگرام میں شامل تھے۔
فیصل قریشی عامر لیاقت کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شاید وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ اس کے پیش رو کو شاید اب کوئی بھی یاد نہیں کرتا۔فیصل قریشی کا پروگرام تشدد پھیلا رہا ہے لہٰذا اس کو فوراً بند کرنا چاہیے۔
احمدیوں کی موجودہ صورتحال پر پاکستان میں ایک منطقی رائے
پاکستان میں احمدیوں پر مظالم اس قدر واضح اور کھلے عام ہیں کہ بعض غیر ملکی انسانی حقوق کے اداروں کےلیے یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔گو کہ یہ بات عام پاکستانیوں سے مخفی نہیں ہے اور عام پاکستانیوں کو اس بات سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ احمدیوں کےساتھ کیا ہو رہا ہے۔بہر حال کچھ دانشور ایسے ہیں جو کسی حد تک احمدیوں کےحق میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
ایسی ہی ایک رائے سوشل میڈیا کی اینکر محترمہ فوزیہ یزدانی صاحبہ کی جانب سے یوٹیوب چینل نیا دور پر مختصر طور پر پیش کی گئی۔انہوں نے اپنے مہمانوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس طرح ذکر کیاکہ اقلیتی برادری سے ہمارے بہن بھائی بھی ہیں،اقلیتی پاکستانی۔وہ ایک بار پھر نشانہ پر ہیں۔چاہے سندھ سے ڈاکٹر بیربل ہوں یاپشاور سے دیال سنگھ ہوں یا پھر کاشف مسیح اور ان سب سے پہلے احمدی۔شاید اب ہم ان کو انسان سمجھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔پھر دوبارہ پروگرام میں جب کسی نے احمدیوں کا ذکر کیا تو فوزیہ صاحبہ نے کہا کہ ہم ان کو انسان نہیں سمجھتے اور شاید ہم نے ان کو انسانوں میں شمار کرنا چھوڑ دیا ہے۔
مشعال خان یاد ہے
۱۳؍اپریل ۲۰۲۳ء
۱۳؍اپریل ۲۰۱۷ءکو عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، پشاور،خیبر پختونخوا کے طالبعلم مشعال خان کو اس کی یونیورسٹی کی رہائشگاہ سے انتہائی دائیں جانب کی جماعت کے سینکڑوں کارکن طلبہ نے تشدد کرتے ہوئے گھسیٹا اور اس کوباہر لا کر گولی مار دی اور پھر مزید تشدد کر کے اس کی نعش کی ہیئت ہی بدل دی۔مشعال احمدی نہیں تھا۔
ستاون لوگ گرفتار ہوئے اور ان میں سے صرف ایک عمران علی نامی شخص کو سزائے موت ہوئی۔ ابھی حال ہی میں ایک اور آدمی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
مشعال کے والد کا کہنا ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملا۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ بہت ساری ویڈیوز اور دوسرے ثبوت موجودہونے کے باوجود کیسے سب مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔
ٹویٹر پر ایک صارف مونا فاروق نے لکھا کہ آج مشعال خان کی چھٹی برسی ہے۔ جب اس کو ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنا کر موت کےگھاٹ اتار دیا۔ لیکن حیرت ہے کہ اتنا بڑا واقعہ بھی ہمارے مردہ شعور کو بیدار نہیں کر سکا۔ وہی جنونیت ابھی بھی جاری ہے۔ توہین کے قوانین ایسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں مدد فراہم کر رہے ہیں لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ہم کس قدر جذبات سے عاری قوم ہیں۔
(مرتبہ:مہر محمد داؤد)