عید میلاد النبیﷺ
آج خبریں پڑھتے ہوئے اس خبر پر نظر پڑی کہ بعض اسلامی ممالک نےعید میلاد النبی کے حوالہ سے ۲۹؍ستمبر ۲۰۲۳ء بمطابق ۱۲؍ربیع الاوّل کو عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔ ۱۲؍ربیع الاول کا دن ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں بہت جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔پیغمبرِ اسلام کا یومِ ولادت منانے کے لیےاس دن جلوس نکالے جاتے ہیں، مجلسیں سجائی جاتی ہیں،قوالیاں پیش کی جاتی ہیں۔لیکن یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ اس قسم کے دن منانے کا آغاز آنحضرتﷺ یا آپ کے اصحاب کے دور میں نہیں ہوا بلکہ آپﷺکی وفات سے ساڑھے۳۰۰ سال بعد عبداللہ بن محمد نامی ایک شخص نےاس کو جاری کیا۔(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍مارچ ۲۰۰۹ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۳؍اپریل ۲۰۰۹ء)
رسولِ کریمﷺ کی تاریخِ ولادت
مؤرخین نے آنحضرتﷺ کی ولادت کے حوالہ سے مختلف تاریخوں کا ذکر کیا ہے۔ان سب تواریخ کو دیکھنے کے بعد مستند ترین روایت آپ کی پیدائش کے حوالہ سے یہ ہے کہ آپﷺ عام الفیل میں پیر کے روز پیدا ہوئے۔ معروف طور پر آپﷺ کی تاریخ ِپیدائش ۱۲؍ربیع الاول بمطابق ۲۰؍اگست ۵۷۱ء بیان کی جاتی ہے۔ دوسری طرف محمود فلکی کی نئی تحقیق کے مطابق آنحضرتﷺ کی پیدائش ۲۰؍اپریل ۵۷۱ء بروز سوموار بمطابق ۹؍ربیع الاول کو ہوئی جس کا ذکر مشہور اسلامی مؤرخ علامہ شبلی نعمانی نے اپنی تصنیف سیرت النبی میں کیا ہے۔ یہ تحقیق فرانسیسی رسالہ Journal Asiatique میں مارچ ۱۸۵۸ء میں شائع ہوئی۔اسی طرح بعض آپﷺ کی ولادت ماہِ رمضان میں بیان کرتے ہیں اور بعض محرم یا صفر میں۔
(Mémoire Sur le calendrier Arabe avant l‘islamisme et sur la naissance et l‘âge du Prophète Mohammad, Journal Asiatique March 1858)
نتائج الأفهام في تقويم العرب قبل الإسلام و في تحقيق مولد النبي و عمره عليه الصلاة و السلام(فرانسیسی رسالہ کاعربی ترجمہ)
کیا آپﷺ نے کسی نبی کامولود کروایا؟
مسلمانوں کی دو عیدوں کے متعلق تو یہ سب کو معلوم ہے کہ عید الفطر یکم شوال کو اور عید الاضحی ذوالحجہ کی ۱۰ تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ان دنوں کے حوالہ سے مسلم امہ میں کوئی ابہام نہیں پایا جاتا۔ کتب حدیث میں واضح طور پر ان دنوں کی تعیین مذکور ہے۔لیکن عید میلاد النبی کے حوالہ سے آنحضرتﷺ اور آپ کے اصحاب کی سنت نہیں ملتی۔آپﷺ نے کہیں بھی اپنے اصحاب کو اپنی یوم ولادت منانے کا ارشاد نہیں فرمایا۔
اس حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان کرتے ہیں کہ’’آنحضرتﷺ نے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہئے۔ سچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرتﷺ نے کیا ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے یا نہیں؟ حضرت ابراہیمؑ آپؐ کے جدامجد تھے اور قابل تعظیم تھے۔ کیا وجہ کہ آپؐ نے ان کا مولودنہ کروایا؟‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۶۲۔ ایڈیشن ۱۹۱۱ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اسلام میں صرف دو ہی عیدیں شارع علیہ السلام نے مقرر فرمائی ہیں۔ یا جمعہ کا دن ہے‘‘۔(حیات نور باب ہفتم صفحہ۵۰۷)
آنحضرتﷺ کے تذکرہ کو حرام کہنا بڑی بےباکی ہے
یاد رہے کہ آنحضرتﷺ کا ذکر خیر کرنا، جلسہ یا تقریب منعقد کرنا غلط نہیں ہے بلکہ کارِ ثواب ہے۔بدعت یہ ہے کہ میلاد النبی کے نام پر غیر اسلامی حرکات کرتے ہوئےجلوس نکالے جائیں،راہ گیروں کا راستہ روکا جائے،سیٹیاں،تالیاں اور شور سے اہل محلہ کو پریشان کیا جائے، آنحضرتﷺ کے نام پر لوگوں کو مجبور کرکےاُن سے چندے وصول کیے جائیں اور جو نہ دے اس کو گالیاں دی جائیں۔حضرت مسیح موعود ؑ نے بیان فرمایاکہ’’آنحضرتؐ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خد انے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں۔خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو۔ آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں۔ اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تووہ ایک وعظ ہے۔ آنحضرتؐ کی بعثت، پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے۔ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنا لیویں‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ۱۵۹-۱۶۰ ایڈیشن۱۹۱۱ء)نیز آپؑ نے فرمایا:’’آنحضرتﷺ کے تذکرہ کو حرام کہنا بڑی بےباکی ہے۔ جبکہ آنحضرتﷺ کی سچی اتباع خداتعالیٰ کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور اصل باعث ہے اور اتباع کا جوش تذکرہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی تحریک ہوتی ہے۔ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے اس کا تذکرہ کرتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ۱۶۰ حاشیہ ایڈیشن۱۹۱۱ء)
میلاد النبی کیسے منائی جائے؟
غیر ازجماعت افراد اکثر جماعت احمدیہ کو اس تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ہم عید میلاد النبیؐ ان کے طریق پر نہیں مناتے اور اس دن کا اہتمام نہیں کرتے۔ان کے لیے تو یہی جواب کافی ہے کہ ہم تو آنحضرتﷺ اور آپ کے اصحاب کے طریق پر چلتے ہیں۔
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ (سنن ابن ماجہ کتاب أبواب السنۃبَابُ اتِّبَاعِ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ)تم پر لازم ہے کہ میری اورمیرے خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی کرو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ میں عید میلاد النبیﷺ صحیح طریق سے منانے کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں کہ ’’خلاصہ یہ کہ مولود کے دن جلسہ کرنا، کوئی تقریب منعقد کرنا منع نہیں ہے بشرطیکہ اس میں کسی بھی قسم کی بدعات نہ ہوں۔ آنحضرتﷺ کی سیرت بیان کی جائے۔ اور اس قسم کا (پروگرام) صرف یہی نہیں کہ سال میں ایک دن ہو۔ محبوب کی سیرت جب بیان کرنی ہے تو پھر سارا سال ہی مختلف وقتوں میں جلسے ہو سکتے ہیں اور کرنے چاہئیں اور یہی جماعت احمدیہ کا تعامل رہا ہے، اور یہی جماعت کرتی ہے۔ اس لیے یہ کسی خاص دن کی مناسبت سے نہیں، لیکن اگر کوئی خاص دن مقرر کر بھی لیا جائے اور اس پہ جلسے کیے جائیں اور آنحضرتﷺ کی سیرت بیان کی جائے بلکہ ہمیشہ سیرت بیان کی جاتی ہے۔ اگر اس طرح پورے ملک میں اور پوری دنیا میں ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ بدعات شامل نہیں ہونی چاہئیں۔کسی قسم کے ایسے خیالات نہیں آنے چاہئیں کہ اس مجلس سے ہم نے جوبرکتیں پالی ہیں ان کے بعد ہمیں کوئی اور نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے جیساکہ بعضوں کے خیال ہوتے ہیں۔ تو نہ افراط ہو نہ تفریط ہو‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍مارچ ۲۰۰۹ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۳؍اپریل ۲۰۰۹ء)
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج ہم احمدی ہی ہیں جو حقیقی طور پر اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابر کت زندگی کی صحیح رنگ میں خوشی مناتے ہیں آپﷺ کی سیرت اور شان پر جلسہ منعقد کرتے ہیں، آپﷺ پر درودو سلام بھیجتے ہیں اور اس محبت کا اظہار صرف قول سےہی نہیں کرتے بلکہ آپﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر بھی اپنے عشق کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کو میلاد النبیﷺ منانے کا درست طریق بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آج اگر حقیقی خوشی منانی ہے تو پھرآپ کے اُسوہ پر عمل کر کے منائی جا سکتی ہے جہاں عبادتوں کے معیار بھی بلندہوں۔ جہاں توحید پہ بھی کامل یقین ہو اور اعلیٰ اخلاق کے معیار بھی بلند ہوں۔ اگر یہ نہیں تو ہم میں اور غیر میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ہم عمل نہیں کر رہےتو وہ لوگ جو بکھرے ہوئے ہیں اور عارضی لیڈر اور نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر لوگوں کے لئے تنگیوں کے سامان کر رہے ہیں ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا تقاضا یہی ہے کہ ہر کام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو سامنے رکھیں۔ اللہ کرے کہ اس کی ہم سب کو توفیق ملے‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر ۲۰۱۷ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۷ء)