آنحضرتﷺ کی قناعت و میانہ روی
اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالۡبَنِیۡنَ وَالۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالۡفِضَّۃِ وَالۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَالۡاَنۡعَامِ وَالۡحَرۡثِؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَاللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ۔ (آل عمران: ۱۵)یعنی لوگوں کو (عام طور پر) پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے اور چاندی کے محفوظ خزانوں اور خوبصورت گھوڑوں اور مویشیوں اور کھیتی کی محبت اچھی شکل میں دکھائی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کا سامان ہے اور اللہ (تو) وہ (ذات) ہے جس کے پاس نہایت عمدہ ٹھکانہ ہے۔
مادہ پرستی کے اس دور میں حرص و ہوس بہت بڑھتی جارہی ہے۔ انسان دنیوی زندگی کا سامان جمع کرنے میں لگا رہتا ہے۔ قناعت ومیانہ روی مفقود ہوتی ہوئی نظر آ تی ہے۔ امیر شخص پر مزید امیر ہونے کا بھوت سوار ہے۔نفسانی خواہشات کا لامتناہی پہاڑ ہر وقت سامنے کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ نیک خواہشات دبتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اوراس کی جگہ دنیا داری اور مال ومتاع کی لالچ انسان کو گھیرے ہوئے ہے۔جہاں نفس کی تمنائیں اور آرزوئیں بے لگام ہو تی ہوئی حلال و حرام کی تمیز کو ختم کر دیتی ہیں۔وہاں پرایک لالچی اورحریص شخص اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں جائز اورناجائز طریق کو بروئے کا رلانے سے گریز نہیں کرتا۔ اس طرح آہستہ آہستہ انسان شیطان کے جال میں پھنستا جاتا ہے اور وہ کام کرتا ہے جس سےاللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔جھوٹ بولنا اس کامشغلہ بن جاتا ہے،دغا و فریب کرنا اُ س کا عام معمول ہو جاتا ہے۔ وہ دوسروں کے مال پر قبضہ کرتاہوادکھائی دیتاہے۔مال حاصل کرنے کی خاطر خوشامد کرنا،دوسروں کے حقوق کی پامالی کرنااُس کاوطیرہ بن جاتا ہے۔یوں قناعت،میانہ روی اورصبر کرنے کی خُوبی تو جاتی رہتی ہےاوراس کی جگہ لالچ، طمع،حرص وہوا لے لیتی ہے۔ وہ شخص شیطان کا دوست بن جاتاہےاور اُس کا نفس شیطان کے شکنجے میں آ جاتا ہے۔یہاں تک کہ شیطان اس کے مال اور اولاد میں شریک ہو جاتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہُمۡ بِصَوۡتِکَ وَاَجۡلِبۡ عَلَیۡہِمۡ بِخَیۡلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکۡہُمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَوۡلَادِ وَعِدۡہُمۡ ؕ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا۔‘‘(بنی اسرائیل:۶۵) یعنی اپنی آواز سے ان میں سے جسے چاہے بہکا اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا اور اموال میں اور اولاد میں ان کا شریک بن جا اور ان سے وعدے کر۔ اور شیطان دھوکے کے سوا ان سے کوئی وعدہ نہیں کرتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں’’ ان کی اولاد میں شیطان اپنا حصہ ڈالتا ہے جیسا کہ آیت وَ شَارِكَهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَ الْاَوْلَاد (بنی اسرائیل:۶۵)اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں شیطان کو خطاب ہےکہ ان کے مالوں اور بچوں میں حصہ دار بن جا یعنی وہ حرام کے مال اکٹھا کریں گی اور نا پاک اولاد جنیں گی۔‘‘(تحفہ گولڑو یہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۹۸)
جب ایک انسان شیطان کا دوست بن جاتا ہے تووہ نفس کا غلام ہوجاتا ہےاور وہ نفس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے لگا رہتا ہے۔جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ بے عزّت بھی ہوتا ہے۔ انہی باتوں کا ذکر نبی کریمﷺ یوں کرتے ہیں فرمایا:’’مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے نفس کو بےعزّت کرے۔صحابہؓ نے عرض کیا!کہ کوئی اپنے نفس کو کیسے بےعزّت کر سکتا ہے۔آپﷺ نے جواب دیا۔ اپنے آپ کو ایسی مشکلات میں ڈالےجس کو وہ برداشت نہیں کر سکتا(اوریہ نفس کو بے عزّت کرنا ہے)۔‘‘(سنن ترمذي،كتاب الفتن عن رسول اللّٰہﷺ) نبی کریمﷺ ایک دُعا اللہ تعالیٰ کے حضور کثرت سے کیا کرتے تھے:’’ اے اللہ! میں اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع مند نہ ہو، اس دل سے جس میں خوف نہ ہو، ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دُعا سے جو سُنی نہ جائے۔‘‘ (سنن نسائي،كتاب الاستعاذة)ایک جگہ آپﷺ نے فرمایا:’’سمجھدار وہ ہے جو اپنےنفس کامحاسبہ کرتا رہےاور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور بے سہارا وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے۔‘‘( سنن ابن ماجه،كتاب الزهد) اپنی اُمت کو نصیحت کرتے ہوئےایک اور جگہ آپﷺ نےبیان فرمایا:حُفَّتِ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِهِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ۔(صحيح مسلم، كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا)یعنی جنّت مشکلات میں گھری ہوئی ہےاور (جہنم کی) آگ خواہشاتِ نفسانیہ میں گھری ہوئی۔آپﷺ نے ایک جگہ فرمایا:’’ لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ۔(سنن ترمذي، كتاب الزهد عن رسول اللّٰہﷺ) یعنی غنی وہ نہیں جس کے پاس بہت سا مال ومتاع ہو بلکہ غنی وہ ہے جونفس کا غنی ہے۔اسی طرح آپﷺ نے فرمایا:الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ (سنن ترمذي، كتاب فضائل الجهاد عن رسول اللّٰہﷺ) یعنی مجاہد وہ ہےجو اپنے نفس سے جہاد کرے۔ایک حدیث میں آپﷺ نے سب سے افضل جہاد نفس کا جہاد قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ کون سا جہاد افضل ہے؟ آپﷺ نےجواب میں فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تیرا اپنے نفس اور خواہشات کے(خلاف) جہاد کرنا۔‘‘(حلیۃ الأولیاء وطبقات الاصفیاء2/249)
جو اپنے نفس کو اپنے اُوپرغالب نہیں آنے دیتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر خوش رہتا ہے وہ قانع کہلاتا ہے۔ قناعت ایک ایسا وصف ہے جوکہ مومن کی شان ہے۔ وہ میانہ روی کو اختیار کرتے ہوئے اسراف سے دور بھاگتا ہے۔وہ اپنی خواہشات کو اپنی ضروریات اور حالات کے تابع کرتا ہوا صبر کا دامن پکڑے رکھتا ہے اور دُنیادار ی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوتا۔وہ اعتدال پسند اور افراط وتفریط سے بچ کردرمیانی راہ لیتا ہے جو کہ عین اسلامی راہ ہے۔ہمارے پیارے رسولﷺ نے قانع کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللّٰهُ بِمَا آتَاهُ۔(كِتَاب الزَّكَاة، باب فِي الْكَفَافِ وَالْقَنَاعَةِ) یعنی کامیاب ہو گیا وہ شخص جس کو اسلام قبول کرنے کی ہدایت نصیب ہوئی،اُس کواُس کی ضرورت کے مطا بق اللہ تعالیٰ نےرزق دیا اور اُ س نے اُ س پر قناعت کی۔ایک اور جگہ آپﷺ نے ایک مانگنے والے نوجوان کو ان الفاظ میں نصیحت کی :حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے نبی کریمﷺ سے کچھ مانگنے کے لیے بھیجا۔میں آپﷺ کے پا س گیا اور بیٹھ گیا۔آپﷺ نے میری طر ف اپنا چہرہ مبارک کیا اور فرمایا:’’ جو غنی بننا چاہے گا اللہ عزو جل اسے غنی بنا دے گا۔جو سوال کرنے سے بچے گا اللہ عزو جل اُسے سوال کرنے سے بچائے رکھے گا۔اور جو اللہ عزو جل کے دیے ہوئے پر قناعت کرے گا،اللہ تعالیٰ اُسے کافی مقدار میں دے گا۔‘‘ (سنن نسائي،كتاب الزكاة،بَابُ مَنِ الْمُلْحِفُ)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ ’’کسی بندے میں خدا کے راستے کا غبار اور جہنم کا دھواں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ اور نہ ہی کسی بندے کے دل میں ایمان اور حرص جمع ہو سکتے ہیں ‘‘۔ (سنن نسائی کتاب الجہاد باب فضل من عمل فی سبیل اللّٰہ علی قدمہ)اسی طرح آنحضرت صلی اللہﷺنےایک اور جگہ فرمایا:’’ جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہو اس نے گویا ساری دنیا جیت لی اور اس کی ساری نعمتیں اسے مل گئیں۔‘‘ (ترمذی کتاب الزھد باب فی الزھاد فی الدنیا) ایک موقع پر آپﷺ نے فرمایا:’’ قناعت ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے‘‘۔ (رسالہ قشیریہ باب القناعۃ صفحہ۲۱) اسی طرح آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال نصف معیشت ہے‘‘۔ (بیھقی فی شعب الایمان، مشکوٰۃ باب الخدرالثانی فی السور صفحہ ۴۳۰)اسی طرح رسول خداﷺ نے فرمایا ؛’’ فلاح پا گیا جس نے اس حالت میں فرمانبرداری اختیار کی جبکہ اس کا رزق صرف اس قدر ہو کہ جس میں بمشکل گزارہ ہوتا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے قناعت بخشی ہو۔‘‘ (ترمذی کتاب الزھد)
ہمارے آقامحمدﷺ کس قدر قانع ا ورمیانہ رو تھے اُس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے آپﷺکو اللہ نے نبی بنایا اس وقت سے لے کر وصال تک چھنا ہوا آٹا نہیں دیکھا۔ پوچھا گیا کہ بغیر چھنے ہوئے آٹے کو آپ لوگ کیسے کھاتے تھے تو بیان کرتے ہیں کہ ہم جَو کو پیستے تھے اور آٹے کو منہ سے پھونک مارتے تھے۔جس سے بھوسا اڑ جاتا( یعنی موٹا موٹا اس سےعلیحدہ ہوجاتا)اور بقیہ کی روٹی پکاتے اور کھا لیتے تھے۔ (صحیح بخاری عن سھل بن سعدہ کتاب الاطعمۃ باب النفخ فی السعیر)حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ بھانجے ہم دیکھتے رہتے اور رسول اللہﷺ کے گھروں میں دودو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔ اس پر میں نے پوچھا پھر خالہ آپ زندہ کس چیز پر تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم کھجور یں کھاتے اور پانی پیتے تھے سوائے اس کے کہ آنحضرتﷺ کے انصاری ہمسائے تھے ان کے دودھ دینے والے جانور تھے، وہ رسول اللہﷺکو ان کا دودھ تحفۃً بھیجتے تھے، جو آپؐ ہمیں پلا دیتے تھے۔ (بخاری کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریص علیھاباب فضل الھبۃ)
ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا ہوا ہے کہ سارا دن بھوک میں گزر جاتا حتیٰ کہ آپؐ کو اتنی مقدار میں ردّی کھجوریں بھی میسر نہ آتیں کہ جن سے اپنی بھوک مٹا لیتے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد عن نعمان بن بشیر)حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور رکھی ہوئی تھی اور فرما رہے تھے کہ یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے۔(ابوداؤد کتاب الایمان باب الرجل یحلف ان لایتأدم)حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک ایسی چادرپہن کر نماز پڑھی جس میں نقش تھے۔ آپؐ نے اس کے نقشوں کو ایک نظر دیکھا۔جب آپؐ فارغ ہوئےتوفرمایا:میری اس دھاری دار لوئی کو ابوجہم کے پاس لے جاؤ اور ابو جہم کی انجبانی لوئی لے آؤ کیونکہ اس نے مجھے میری نماز سے بے توجہ کردیا۔(بخاری کتاب الصلوٰۃ،باب اذا صلّٰی فی ثوب لھااعلام )
نبی پاکﷺ میانہ رو ی میں اپنی مثال آپ تھے۔ سب کے ساتھ اعتدال پسندی کا معاملہ کرتے اور بے تکلف ہو جاتے۔ ایک دفعہ نبی کریمﷺ کو آپؐ کے ایرانی ہمسائے نے دعوت پر بلایا۔ آپؐ نے بلا تکلف فرمایا کہ کیا میری اہلیہ عائشہؓ کو بھی ساتھ دعوت ہے؟اس نے کہا: ’’نہیں‘‘ آپؐ نے فرمایا:’’پھر میں بھی نہیں آتا۔‘‘دو تین دفعہ کے تکرار کے بعد ایرانی نے آکر کہا کہ ٹھیک ہے حضرت عائشہؓ بھی آجائیں۔تب نبی کریمﷺ اور حضرت عائشہؓ خوش خوش اس کے گھر کی طرف چلے۔(مسند احمد جلد۳صفحہ۱۲۳مطبوعہ بیروت)
نبی کریمﷺ کے عاشق صادق اورآپﷺکے رنگ میں رنگین اس زمانہ کے امام مہدی بھی نبی کریمﷺ کی اتباع میں قناعت و میانہ روی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کرنیل الطاف علی خان صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ کرنیل صاحب کوٹ پتلون پہنے، داڑھی مونچھ منڈوائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا تم اندر چلے جاؤ، باہر سے ہم کسی کو نہ آنے دیں گے۔ پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں، چنانچہ کرنیل صاحب اندر چلے گئے اور آدھ گھنٹے کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے۔ کرنیل صاحب جب باہر آئے تو چشم پُر آب تھے۔ مَیں نے ان سے پوچھا آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہے یعنی رو رہے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریے پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن بوریے پر حضور کا گھٹنا ہی تھا اور باقی زمین پر بیٹھے تھے میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں اور حضور نے یہ سمجھا کہ غالباً میں (یعنی کرنیل صاحب) بوریے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔ اس لیے حضور نے اپناصافہ بوریے پر بچھا دیا اور فرمایا: آپ یہاں بیٹھیں۔ یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے اور میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں بپتسمہ لے چکا ہوں مگر اتنا بے ایمان نہیں ہوا کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جاؤں۔ حضور فرمانے لگے کچھ مضائقہ نہیں کوئی حرج نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں میں صافے کو ہاتھ سے ہٹا کر بوریے پر بیٹھ گیا۔ اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا کہ میں شراب بہت پیتا ہوں، دیگر گناہ بھی کرتا ہوں، خدا رسول کا نام نہیں جانتا لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کرکے مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں ان کو چھوڑنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ حضور نے فرمایا: استغفار پڑھا کرو اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہامیری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا اور ایسی حالت میں اقرار کر کے کہ مَیں استغفار اور نماز ضرور پڑھا کروں گا۔ آپ کی اجازت لے کر آگیا، وہ اثر میرے دل پر اب تک ہے۔ (روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب، مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے صفحہ ۹۳، ۹۴، الفضل انٹر نیشنل ۱۴؍مئی۲۰۰۴ء،صفحہ۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی پاکﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئےقانع اور میانہ رو بنادے اورمادہ پرستی کی نفسانی خواہشات سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔آمین