خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 14؍ دسمبر 2018ء
بمطابق 14؍فتح 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
صحابہ کے ذکر میں سے آج حضرت مِسْطَح بن اُثَاثہ کا ذکر ہو گا۔ ان کا نام عَوف اور لقب مِسْطَحْ تھا ان کی والدہ حضرت ام مسطح سلمیٰ بنت صَخْرتھیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی خالہ رَیْطَہ بنت صَخْر کی بیٹی تھیں۔
(الاصابہ جلد 6 صفحہ 74 مسطح بن اثاثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
(اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 150 مسطح بن اثاثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
(استیعاب جلد 4 صفحہ 1472 مسطح بن اثاثہؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
حضرت مِسْطَح بن اُثَاثہ نے حضرت عُبَیْدہ بن حارث اور ان کے دو بھائیوں حضرت طُفَیل بن حارث حضرت حُصَیْن بن حارث کے ساتھ مکہ سےہجرت کی۔ سفر سے پہلے طے پایا کہ یہ لوگ وادیٔ نَاجِحْ میں اکٹھے ہوں گے لیکن حضرت مِسْطَح بن اُثاثہ پیچھے رہ گئے کیونکہ ان کو سفر کے دوران سانپ نے ڈس لیا تھا۔ اگلے دن ان لوگوں کو جو پہلے چلے گئے حضرت مِسْطَح کے سانپ کے ڈسے جانے کی اطلاع ملی پھر یہ لوگ واپس گئے اور انہیں ساتھ لے کر مدینہ آ گئے۔ مدینہ میں سب لوگ حضرت عبدالرحمٰن بن سلمہ کے ہاں ٹھہرے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 37 عبیدہ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مِسْطَح بن اُثاثہ اور زید بن مُزَیَّنْ کے درمیان مؤاخات کا رشتہ قائم کیا تھا۔ حضرت مسطح غزوہ بدر سمیت دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 39 مسطح بن اثاثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
ہجرت کے آٹھ مہینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبَیدہ بن حارث کو ساٹھ یا ایک روایت کے مطابق اسّی سواروں کے ساتھ روانہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبَیدہ بن حارث کے لئے ایک سفید رنگ کا پرچم باندھا، ایک جھنڈا بنایا جسے مِسْطَح بن اُثاثہ نے اٹھایا۔ اس سَرِیّہ کا مطلب یہ تھا کہ قریش کے تجارتی قافلے کو راہ میں روک لیا جائے۔ قریش کے قافلے کا امیر ابوسفیان تھا، بعض کے مطابق عِکْرِمَہ بن ابوجہل اور بعض کے مطابق مِکْرَزْ بن حَفْص تھا۔ اس قافلے میں 200 آدمی تھے جو مال لے کر جا رہے تھے۔ صحابہ کی اس جماعت نے رَابِغْ وادی پر اس قافلے کو جالیا، اس مقام کو وَدَّانْ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قافلہ صرف تجارتی قافلہ نہیں تھا بلکہ جنگی سامان سے لیس بھی تھا اور اس قافلے کی جو آمد ہونی تھی وہ بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں استعمال ہونی تھی کیونکہ واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ وہ پوری طرح سے تیار تھے۔ بہرحال یہ لوگ جب گئے تو دونوں فریق کے درمیان تیر اندازی کے علاوہ کوئی مقابلہ نہیں ہوا اور لڑائی کے لئے باقاعدہ صف بندی بھی نہیں ہوئی۔ پہلے بھی اس کا ایک اور صحابی کے ذکر میں ایک دفعہ ذکر ہو چکا ہے۔ وہ صحابی جنہوں نے مسلمانوں کی جانب سے پہلا تیر چلایا وہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تھے اور یہ وہ پہلا تیر تھا جو اسلام کی طرف سے چلایا گیا۔ اس موقع پر حضرت مِقْدَاد بن اَسْوَد اور حضرت عُیَیْنَہ بن غَزْوَان، (سیرت ابن ہشام اور تاریخ طبری میں عُتْبَہ بن غَزْوَان ہے) مشرکوں کی جماعت سے نکل کر مسلمانوں میں آ ملے کیونکہ ان دونوں نے اسلام قبول کیا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں کی طرف جانا چاہتے تھے۔ حضرت عُبَیدہ بن حَارِث کی سرکردگی میں یہ اسلام کا دوسرا سَرِیّہ تھا۔ تیر اندازی کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹ گئے۔ (پہلے بھی کسی خطبہ میں ایک دفعہ ذکر ہو چکا ہے) اور مشرکین پر مسلمانوں کا اس قدر رعب پڑا کہ انہوں نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر ہے جو ان کی مدد کر سکتا ہے۔ لہٰذا وہ خوفزدہ ہو کر واپس چلے گئے اور مسلمانوں نے بھی ان کا پیچھا نہیں کیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ جلد 3 صفحہ 215-216 سریہ عبیدۃ بن الحارثؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)(سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 592 سریۃ عبیدۃ بن الحارثؓ مطبوعہ مصطفی البابی مصر 1955ء)(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 12 سنۃ 1ھ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء) کیونکہ مقصد جنگ نہیں تھا صرف ان کو روکنا تھا اور یہ سبق دینا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف اگر وہ تیاری کریں گے تو مسلمان بھی تیار ہیں۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے موقع پر حضرت حضرت مِسْطَح اور اِبْنِ اِلیاس کو پچاس وسق غلہ عطا فرمایا (اس زمانے میں مال غنیمت میں یہ دیا جاتا تھا طبقات الکبریٰ میں یہ باتیں لکھی ہیں) ان کی وفات 56برس کی عمر میں 34 ہجری میں حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت تک زندہ رہے اور حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ صِفِّیْن میں شامل ہوئے اور اسی سال 37 ہجری میں وفات پائی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 39 مسطح بن اثاثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(الاصابہ جلد 6 صفحہ 74 مسطح بن اثاثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت مسطح وہی شخص ہیں جن کے نان و نفقہ کا بندوبست حضرت ابوبکرؓ کیا کرتے تھے، ان کے ذمہ تھا۔ لیکن جب حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی گئی۔ الزام لگایا گیا تو ان لگانے والوں میں مسطح بھی شامل ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ نے اس وقت قسم کھائی کہ آئندہ ان کی کفالت نہیں کریں گے جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وَلَا یَاْتَلِ اُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا۔ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (النور23:)
اور تم میں سے صاحبِ فضیلت اور صاحبِ توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں۔ پس چاہئے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
بہرحال یہ آیت نازل ہوئی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے دوبارہ ان کا نان و نفقہ جاری فرما دیا اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ کی بریت نازل فرما دی تو پھر بہتان لگانے والوں کو سزا بھی دی گئی۔ بعض روایات کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے والے جن اصحاب کو کوڑے لگوائے تھے ان میں حضرت مِسْطَح بھی شامل تھے۔
(الاصابہ جلد 6 صفحہ 74 مسطح بن اثاثہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
یہ افک کا الزام لگانے کا جو واقعہ ہے یہ کیونکہ ایک بڑا تاریخی، ایک اہم واقعہ ہے۔ تاریخی تو نہیں ایک اہم واقعہ ہے اور مسلمانوںکے لئے اس میں سبق بھی ہے اس لئے اس کی تفصیل بھی بڑی لکھی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں قرآن کریم میںآیات بھی نازل فرمائیں۔ بہرحال اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ و استغفار اور دعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کا ذکر کر کے وعدہ اور وعید کے فرق کو ظاہر فرمایا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہو گئے تھے۔‘‘ ان کا مقصد فتنہ نہیں تھا۔ سادہ لوحی میں شامل ہو گئے۔ ’’ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے دو وقتہ روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی: وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ للہُ لَکُمْ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (النور23:) تب حضرت ابوبکرؓ نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگا دی۔ اسی بنا پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ‘‘ (یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مسئلہ حل کیا ) کہ ’’اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسنِ اخلاق میں داخل ہے۔‘‘ (وعید کیا ہے؟) فرمایا کہ ’’مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ مَیں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرّع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق اللہ ہو جائے۔ مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں۔ ترکِ وعدہ پر بازپرس ہوگی مگر ترکِ وعید پر نہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 181)
وعدہ ایک ایسا عہد ہے جو تمام منفی اور مثبت پہلو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے اور اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ اس کو توڑنا، پھر اس کی پوچھ گچھ بھی ہو گی یا پھر کچھ جرمانہ بھی ہو گا۔
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ واقعہ افک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں۔ اس کی تفصیل کی کیونکہ اہمیت ہے۔ اس لئے میں بھی اب بیان کر رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر میں نکلنے کا ارادہ فرماتے تو آپؐ اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ پھر جس کا قرعہ نکلتا آپؐ اس کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ چنانچہ آپؐ نے ایک حملے کے وقت جو آپؐ نے کیا ہمارے درمیان قرعہ ڈالا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میرا قرعہ نکلا۔ مَیں آپؐ کے ساتھ گئی۔ اس وقت حجاب کا حکم اتر چکا تھا، پردے کا حکم آگیا تھا۔ مَیں ہودج میں بٹھائی جاتی (ہودج جو اونٹ کے اوپر سواری کی جگہ بنائی جاتی ہے۔ covered ہوتی ہے) اور ہودج سمیت اتاری جاتی۔ کہتی ہیں کہ ہم اسی طرح سفر میں رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس حملے سے فارغ ہوئے اور واپس آئے اور ہم مدینہ کے قریب ہی تھے کہ ایک رات آپؐ نے کوچ کا حکم دیا۔ جب لوگوں نے کوچ کرنے کا اعلان کیا تو مَیں بھی چل پڑی اور فوج سے آگے نکل گئی۔ کہتی ہیں مَیں پیدل ہی چل پڑی۔ کیونکہ رفع حاجت کے لئے جانا تھا تو ایک طرف ہو کے چلی گئیں جب مَیں اپنی حاجت سے فارغ ہوئی، تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور مَیں نے اپنے سینے کو ہاتھ لگایا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ظفار کے کالے نگینوں کا میرا ہار گر گیا ہے۔ ایک ہار پہنا ہوا تھا وہ گر گیا ہے۔ کہتی ہیں مَیں اپنا ہار ڈھونڈنے کے لئے واپس لوٹی اور اس کی تلاش نے مجھے روکے رکھا تو کچھ وقت لگ گیا۔ اتنے میں وہ لوگ جو میرے اونٹ کو تیار کرتے تھے، آئے اور انہوں نے میرا ہودج اٹھا لیا اور وہ ہودج میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی۔ وہ خالی تھا۔ لیکن وہ سمجھے کہ مَیں اسی میں ہوں۔ کہتی ہیں کہ عورتیں ان دنوں میں ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں۔ بھاری بھرکم نہ تھیں۔ ان کے بدن پر زیادہ گوشت نہ ہوتا تھا۔ وہ تھوڑا سا تو کھانا کھایا کرتی تھیں۔ لوگوں نے جب ہودج کو اٹھایا تو اس کے بوجھ کو غیر معمولی نہ سمجھے۔ یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ ہلکا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے اس کو اٹھا لیا اور میں کم عمر لڑکی تھی۔ انہوں نے اونٹ کو بھی اٹھا کر چلا دیا اور خود بھی چل پڑے۔ جب سارا لشکر گزر چکا اور اس کے بعد میں نے اپنا ہار بھی ڈھونڈ لیا تو میں ڈیرے پر واپس آئی۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ پھر میں اپنے اس ڈیرے کی طرف گئی جس میں مَیں تھی اور مَیں نے خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے تو یہیں واپس لوٹ آئیں گے۔ کہتی ہیں مَیں بیٹھی ہوئی تھی کہ اسی اثناء میں میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔
صَفَوان بن مُعَطَّلْ سُلَمِی ذَکْوَانِی فوج کے پیچھے رہا کرتے تھے۔ ایک آدمی پیچھے ہوتا تھا تا کہ دیکھ لے کہ قافلہ چلا گیا ہے توکوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی۔ کہتی ہیں وہ صبح میرے ڈیرے پر آئے اور انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کا وجود دیکھا اور میرے پاس آئے۔ اور حجاب کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ واپس آئے تو انہوں نے اِنَّا للہ پڑھا۔ ان کے انَّالِلہ پڑھنے پر میں جاگ اٹھی۔ اس کے بعد پہلے اونٹنی قریب لے آئے، اور جب انہوں نے اپنی اونٹنی بٹھائی تو میں اس پر سوار ہو گئی اور وہ اونٹنی کی نکیل پکڑ کر چل پڑے۔ کہتی ہیں: یہاں تک کہ ہم فوج میں اس وقت پہنچے جب لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ڈیروں میں تھے۔ پھر جس کو ہلاک ہونا تھا ہلاک ہو گیا۔ یعنی اس بات پر بعض لوگوں نے الزام لگانے شروع کر دئے۔ غلط قسم کی باتیں حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب کر دیں۔
فرماتی ہیں اس تہمت کا بانی عبداللہ بن اُبَی بن سَلُول تھا۔ ہم مدینہ پہنچے۔ مَیں وہاں ایک ماہ تک بیمار رہی۔ تہمت لگانے والوں کی باتوں کا لوگ چرچا کرتے رہے اور میری اس بیماری کے اثناء میں جو بات مجھے شک میں ڈالتی تھی وہ یہ تھی کہ مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مہربانی نہیں دیکھتی تھی جو مَیں آپؐ سے اپنی بیماری میں دیکھا کرتی تھی۔ بڑا چرچا ہو گیا۔ تہمت لگائی۔ مشہوری ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی باتیں پہنچیں۔ کہتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیماری میں جو سلوک میرے ساتھ پہلے ہوا کرتا تھا وہ مجھے نظر نہیں آتا تھا۔ آپؐ صرف اندر آتے اور السلام علیکم کہتے۔ پھر پوچھتے کہ اب وہ کیسی ہے۔ اور وہ بھی ان کے والدین سے پوچھ لیتے۔ کہتی ہیں کہ مجھے اس تہمت کا کچھ بھی علم نہ تھایہاں تک کہ جب مَیں نے بیماری سے شفا پائی۔ اور نقاہت کی حالت میں تھی کہ مَیں اور ام مسطح مَنَاصِعْ کی طرف گئیں جو قضائے حاجت کی جگہ تھی۔ ہم رات کو ہی نکلا کرتے تھے اور یہ اس وقت سے پہلے کی بات ہے جب ہم نے اپنے گھروں میں، گھروں کے قریب بیوت الخلاء بنائے تھے۔ اس زمانے میں رفع حاجت کے لئے لوگ باہر جایا کرتے تھے اور عورتیں رات کو جب اندھیرا پھیل جائے نکلا کرتی تھیں۔ کہتی ہیں اس سے قبل ہماری حالت پہلے عربوں کی سی تھی کہ جنگل میں یا باہر جا کر قضائے حاجت کیا کرتے تھے۔ میں اور ام مسطح بنت ابی رُھم دونوں جا رہی تھیں کہ اتنے میں وہ اپنی اوڑھنی سے اٹکی اور ٹھوکر کھائی۔ تب بولی کہ مسطح بدنصیب ہو۔ مَیں نے اس سے کہا کہ کیا بری بات کی ہے تم نے۔ کیا تُو ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہے جو جنگِ بدر میں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ اری بھولی بھالی لڑکی! کیا تم نے نہیں سنا جو لوگوں نے افترا کیا ہے؟ تب اس نے مجھے تہمت لگانے والوں کی بات سنائی کہ یہ الزام تمہارے پر لگایا گیا ہے۔ کہتی ہیں مَیں بیماری سے ابھی اٹھی تھی، نقاہت تو تھی ہی۔ یہ بات سن کے میری بیماری بڑھ گئی۔
جب اپنے گھر لوٹی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے۔ آپؐ نے السلام علیکم کہا اور آپؐ نے پوچھا اب تم کیسی ہو؟ مَیں نے کہا: مجھے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں۔ کہتی تھیں کہ میں اُس وقت یہ چاہتی تھی کہ میں ان کے پاس جا کر اس کی نسبت معلوم کروں یعنی یہ الزام جو لگا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ میں اپنے والدین کے پاس آئی تو میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں! میری ماں نے کہا کہ بیٹی اس بات سے اپنی جان کو جنجال میں نہ ڈالو۔ ہلکان نہ کرو۔ اطمینان سے رہو۔ اللہ کی قسم! کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کبھی کسی شخص کے پاس کوئی خوبصورت عورت ہو، اس کی بیوی ہو جس سے وہ محبت بھی رکھے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر لوگ اس کے برخلاف باتیں نہ کریں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں۔ مَیں نے اس پہ کہاکہ سبحان اللہ۔ لوگ ایسی بات کا چرچا کر رہے ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ مَیں نے وہ رات اس طرح کاٹی کہ صبح تک میرے آنسو نہیں تھمے۔ اتنا بڑا الزام مجھ پر لگایا ہے۔ ساری رات مجھے نیند نہیں آئی اور مَیں روتی رہی۔
جب صبح اٹھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید کو بلایا۔ اس وقت جب وحی کے آنے میں دیر ہوئی تا ان دونوں سے اپنی بیوی کو چھوڑنے کے بارے میں مشورہ کریں۔ یعنی یہ فیصلہ کہ اس طرح جو الزام لگایا ہے اس کے بعد آیا ان کو رکھوں نہ رکھوں؟ اسامہؓ نے تو آپؐ کو اس محبت کی بنا پر مشورہ دیا جو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے تھی۔ اسامہؓ نے کہا کہ یارسول اللہ! آپؐ کی بیوی ہیں اور ہم اللہ کی قسم! سوائے بھلائی کے اَور کچھ نہیں جانتے۔ ہم نے تو کوئی عیب نہیں دیکھا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ لیکن علی بن ابی طالب نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کچھ تنگی نہیں رکھی۔ حضرت علیؓ ذرا تیز طبیعت کے تھے۔ اس لئے انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ آپؐ پر کبھی تنگی نہیں رکھی اور اس کے سوا اور عورتیں بھی بہت ہیں۔ پھر حضرت علی نے یہ کہا کہ اس خادمہ سے پوچھئے۔ جو حضرت عائشہؓ کی خادمہ تھیں۔ ان سے پوچھیں کہ کیسی ہیں۔ (وہ) آپؐ سے سچ سچ کہہ دے گی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا۔ وہ خادمہ تھیں اور آپؐ نے کہا بریرہ! کیا تم نے اس میں یعنی حضرت عائشہؓ میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تمہیں شبہ میں ڈالے؟ بریرہ نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ میں اس سے زیادہ کوئی اور بات نہیں دیکھی جس کو میں ان کے لئے معیوب سمجھوں کہ وہ کم عمر لڑکی ہے۔ یعنی آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے۔ ذرا بے پرواہی ہے اور اتنی گہری نیند اُن کو آتی ہے کہ گھر کی بکری آتی ہے اور وہ اسے کھا جاتی ہے۔ ان کی یہ ایک مثال دے کے بتایا کہ کوئی برائی تو نہیں ہے لیکن یہ کمزوری ہے۔ نیند غالب آجاتی ہے۔ یہ سن کر اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مخاطب فرمایا اور عبداللہ بن اُبَی بن سَلُول کی شکایت کی کیونکہ اسی نے مشہور کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسے شخص کو کون سنبھالے جس نے میری بیوی کے بارے میں مجھے دکھ دیا ہے۔ مَیں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اپنی بیوی میںسوائے بھلائی کے اور کوئی بات مجھے معلوم نہیں اور ان لوگوں نے ایسے شخص کا ذکر کیا ہے جس کی بابت بھی مجھے بھلائی کے سوا کوئی علم نہیں۔ یعنی کہ حضرت عائشہؓ کے بارے میں جس پر الزام لگایا ہے اور میرے گھر والوں کے پاس جب بھی وہ آیا کرتے میرے ساتھ ہی آتے۔ اس پر حضرت سعد بن مُعَاذ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! بخدا میں اس سے آپؐ کا بدلہ لوں گا جس نے یہ الزام لگایا ہے۔ اگر وہ اوس کا ہوا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اگر وہ ہمارے بھائیوں خزرج سے ہوا تو جو بھی آپؐ ہمیں حکم دیں گے ہم آپؐ کا حکم بجا لائیں گے۔ اس پر سعد بن عُبَادہ کھڑے ہوئے اور وہ خزرج قبیلہ کے سردار تھے اور اس سے پہلے وہ اچھے آدمی تھے لیکن قومی عزت نے انہیں بھڑکایا اور انہوں نے کہا تم نے غلط کہا۔ اللہ کی قَسم! تم اسے نہیں مارو گے اور نہ ایسا کر سکو گے ۔ بحث شروع ہو گئی۔ اس پر اُسَید بن حُضَیْر کھڑے ہو گئے۔ تیسرا شخص بھی کھڑا ہو گیا اور انہوں نے کہاکہ تم نے غلط کہا ہے۔ اللہ کی قسم! اللہ کی قسم! ہم اسے ضرور مارڈالیں گے جس نے بھی الزام لگایا ہے۔ اور پھر یہاں تک کہہ دیا کہ تُو تو منافق ہے جو منافقوں کی طرف سے جھگڑتا ہے۔ اس پر دونوں قبیلے اوس اور خزرج بھڑک اٹھے۔ آپس میں غصہ میں آ گئے، طیش میں آ گئے۔ یہاں تک کہ لڑائی شروع ہو گئی۔ شروع تو نہیں ہوئی لیکن لڑنے کے قریب تھے،کہتے ہیں لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے تھے آپ اترے اور ان کو ٹھنڈا کیا یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو رہے۔
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں، یہ روایت چل رہی ہے۔ بخاری کی لمبی روایت ہے کہ میں سارا دن روتی رہی۔ نہ میرے آنسو تھمتے اور نہ مجھے نیند آتی۔ میرے ماں باپ میرے پاس آ گئے۔ میں دو راتیں اور ایک دن اتنا روئی کہ میں سمجھی کہ یہ رونا میرے جگر کو شق کر دے گا۔ میں ختم ہو جاؤں گی۔ کہتی تھیں کہ اسی اثناء میں کہ وہ دونوں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے یعنی ماں باپ بیٹھے ہوئے تھے اور میںرو رہی تھی کہ اتنے میں ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے اسے اجازت دے دی۔ وہ بھی بیٹھ کر میرے ساتھ رونے لگی۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں اندر آئے اور بیٹھ گئے۔ اور اس سے پہلے جس دن سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی آپؐ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ دور سے حال پوچھ کر چلے جایا کرتے تھے یا ملازمہ سے حال پوچھ کے چلے جایا کرتے تھے اور جب گھر آگئی ہیں تو وہاں پوچھتے تھے۔ بہرحال اُس دن آئے اور کہتی ہیں میرے پاس بیٹھے اور آپؐ ایک مہینہ منتظر رہے۔ مگر میرے متعلق آپؐ کو کوئی وحی نہ ہوئی۔ جس دن سے یہ الزام لگا تھا مہینہ گزر گیا تقریباً اور آپؐ میرے پاس بیٹھے نہیں تھے لیکن اس دن آ کر بیٹھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس انتظار میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کچھ بتا دے گا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپؐ نے تشہد پڑھا پھر آپؐ نے مجھے فرمایا کہ عائشہ! مجھے تمہارے متعلق یہ بات پہنچی ہے۔ پہلی دفعہ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سےکی ۔ سو اگر تم بَری ہو تو ضرور اللہ تعالیٰ تمہیں بَری فرمائے گا اور اگر تم سے کوئی کمزوری ہو گئی ہے تو اللہ سے مغفرت مانگو اور اس کے حضور توبہ کرو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اس کے بعد توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم کرتا ہے۔ کہتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات ختم کر لی تو پہلے چونکہ مَیں بہت رو رہی تھی میرے آنسو خشک ہو گئے۔ یہاںتک کہ آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی محسوس نہ ہوا۔
میں نے اپنے باپ سے کہا۔ اس وقت حضرت عائشہؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے جواب دیجئے۔ انہوں نے کہا بخدا میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ سے کیا کہوں۔ کیا بات کروں۔ کیا جواب دوں۔ یہی چاہتی ہوں گی ناں کہ میری بریت کا جواب دیں۔ پھر میں نے اپنی ماں سے کہا۔ آپ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو آپ نے فرمایا ہے اس کا میری طرف سے جواب دیں۔ انہوں نے کہا بخدا میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہوں۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ میں کم عمر لڑکی تھی۔ قرآن مجید کا اس وقت مجھے زیادہ علم نہیں تھا۔ بہرحال میں نے اس کے باوجود اس وقت کہا کہ بخدا مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ لوگوں نے وہ بات سنی ہے جس کا لوگ آپس میں تذکرہ کرتے ہیں۔ یعنی یہ جو مجھ پر بڑا گندا الزام لگایا گیا ہے، وہ بات آپ کے دلوں میں بیٹھ گئی ہے۔ اور آپ نے اسے درست سمجھ لیا ہے۔ بلکہ یہ کہتی ہیں مَیں نے کہا کہ آپ نے شاید سمجھ لیا ہے کہ یہ درست ہے۔ اور اگر میں آپ سے کہوں کہ میں بَری ہوں۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ جانتا ہے کہ میں فی الواقعہ بَری ہوں تو آپ مجھے اس میں سچا نہیں سمجھیں گے کیونکہ اتنا مشہور ہو چکا ہے اور لوگ اتنی زیادہ باتیں کر رہے ہیں کہ شاید یہ ہوجائے کہ میں سچی نہیں ہوں۔ اور اگر میں آپ کے پاس کسی بات کا اقرار کر لوں حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ میں بَری ہوں اور میں نے ایسی کوئی غلط حرکت نہیں کی تو آپ اس اقرار پر مجھے سچا سمجھ لیں گے۔ اگر اقرار کر لوں تو آپ سچا سمجھ لیں کہ ہاں شاید بات ٹھیک ہی ہو گی۔ کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں اپنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مثال نہیں پاتی سوائے یوسف کے باپ کی۔ انہوں نے کہا تھا کہ صبر کرنا ہی اچھا ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگنی چاہئے۔ حضرت یعقوبؑ نے یوسف کے بھائیوں کو جو کہا تھا کہ اللہ ہی سے اس بات میں مدد مانگنی چاہئے جو تم لوگ بیان کر رہے ہو۔ کہتی ہیں میں نے یہ آیت پڑھ دی۔ اس کے بعد میں ایک طرف ہٹ کر اپنے بستر پر آ گئی اور میں امید کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے بری کرے گا۔ وہ جانتی تھیں میں بے گناہ ہوں اللہ تعالیٰ بری کرے گا لیکن کہتی ہیں کہ بخدا مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ میرے متعلق بھی کوئی وحی نازل ہو گی۔ یہ تو خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ بری کردے گا لیکن یہ خیال نہیں تھا کہ اس حد تک، یہاں تک ہو جائے گاکہ اللہ تعالیٰ میری بریت کے بارہ میں وحی نازل کرے بلکہ میں اپنے خیال میں اس سے بہت ادنیٰ تھی کہ میری نسبت قرآن کریم میں بیان کیا جائے۔ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں میرے بارے میں کوئی وحی کرے لیکن مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند میں کوئی ایسی خواب دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بری قرار دیتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! آپؐ ابھی بیٹھنے کی جگہ سے الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ اہلِ بیت میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اتنے میں آپؐ پر وحی نازل ہوئی اور وحی کے دوران جو سخت تکلیف آپؐ کو ہوا کرتی تھی وہ آپؐ کو ہونے لگی۔ آپ کو اتنا پسینہ آتا تھا کہ سردی کے دن میں بھی آپ سے پسینہ موتیوں کی طرح ٹپکتا تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حالت جاتی رہی تو آپؐ مسکرا رہے تھے اور پہلی بات جو آپؐ نے فرمائی یہ تھی کہ عائشہ! اللہ کا شکر بجا لاؤ کیونکہ اللہ نے تمہاری بریت کر دی ہے۔ کہتی ہیں اس پر میری ماں نے مجھ سے کہا اٹھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم! ہرگز نہیں۔ میں ان کے پاس اٹھ کر نہیں جاؤں گی اور اللہ کے سوا کسی کا شکریہ ادا نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وحی کی تھی۔ وہ لوگ یعنی کہ جنہوں نے بہتان باندھا ہے وہ تم ہی میں سے ایک جتھا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے میری بریت میں یہ وحی نازل کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اور وہ مسطح بن اُثاثہ کو بوجہ اس کے قریبی ہونے کے خرچ دیا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم! جو مسطح نے عائشہ پر افتراء کیا ہے میں اس کے بعد اب اس کو کوئی خرچ نہیں دوں گا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا یعنی سورہ نور کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ آیت میں نے پڑھ دی ہے اور اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم میں سے صاحب فضیلت اور صاحب توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں۔ پس چاہئے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ کہنے لگے کہ کیوں نہیں۔ اللہ کی قسم میں ضرور چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے مجھے بخش دے۔ مسطح کو جو خوراک وہ دیا کرتے تھے پھر ملنے لگی۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب بنتِ جَحش سے بھی میرے معاملے کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زینب! تم کیا سمجھتی ہو جو تم نے دیکھا ہے۔ وہ کہتیں یا رسول اللہ میں اپنی شنوائی اور بینائی محفوظ رکھوں گی۔ میں تو عائشہؓ کو، (یعنی کہ میں کبھی یہ نہیں کہہ سکتی) پاکدامن ہی سمجھا ہے۔ اپنے کانوں کو اور آنکھوں کو میں محفوظ سمجھتی ہوں اور ہمیشہ محفوظ رکھوں گی۔ میں غلط باتیں نہیں کہہ سکتی۔ کہتی ہیں مَیں نے تو عائشہؓ کو پاکدامن ہی دیکھا ہے اور پاکدامن ہی سمجھتی بھی ہوں۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ یہی زینبؓ وہ تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے میری برابری کیا کرتی تھیں۔ اللہ نے انہیں پرہیزگاری کی وجہ سے بچائے رکھا اور ان کی بہن حَمْنَہ بنتِ جَحش اُن کی طرفداری کر رہی تھی اور ہلاک ہو گئی یعنی جن لوگوں نے الزام لگایا تھا اُن کی طرفداری کر رہی تھی اور ان لوگوں کے ساتھ تھی جو ہلاک ہوئے۔
(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب الشہادات باب تعدیل النساء … الخ حدیث 2661 جلد 4 صفحہ 721 تا 731 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک حدیث 4141 جلد 8 صفحہ 325 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں یہ واقعہ بیان فرمایا ہے جو میں پہلے بخاری کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں۔ زائد بات جو انہوں نے اس میں لکھی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جب کہتی ہیں کہ ان صحابی نے اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا تو میں جاگ اٹھی تو میں نے اس وقت دیکھتے ہی جھٹ اپنا منہ اپنی اوڑھنی سے ڈھانک لیا کیونکہ پردے کا حکم جاری ہو چکا تھا اور خدا کی قسم! اس نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے بات بھی کوئی نہیں کی اور نہ میں نے اس کلمہ کے سوا ان کے منہ سے کوئی اَور الفاظ سنے یعنی اِنَّالِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کے سوا۔ اس کے بعد وہ اپنے اونٹ کو آگے لایا اور میرے قریب اسے بٹھا دیا اور اس نے اونٹ کے دونوں گھٹنوںپر اپنا پاؤں رکھ دیا تا کہ وہ اچانک نہ اٹھ سکے۔ چنانچہ میں اونٹ کے اوپر سوار ہوگئی۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 563)
وہاں بخاری میں یہ تھا کہ ہاتھ پہ پاؤں رکھ کے چڑھیں یہاں یہ ہے کہ انہوں نے اونٹ کے آگے گھٹنوں پر پاؤں بھی رکھ دیا تا کہ اونٹ ایک دم نہ اٹھ جائے۔ جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا ہے کہ میرے بارے میں خدا تعالیٰ کی وحی کی میرے لئے بڑی اہمیت تھی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میرے لئے تو اس وحی کی بڑی اہمیت تھی کیونکہ مجھے اس کی توقع نہیں تھی۔
بہرحال یہ ایک اہم واقعہ تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل پر ایک بہت بڑا الزام لگایا گیا تھا۔ حضرت عائشہؓ کا ایک خاص مقام تھا اور یہ مقام اس وجہ سے بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وحی بھی مجھے سب سے زیادہ عائشہ کے حجرے میں ہی ہوتی ہے اور سورہ نور میں ان الزام لگانے والوںکے بارے میں مومنوں کا جو ردّ عمل ہونا چاہئے اس کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کیا ہونا چاہئے۔ اس بارے میں مکمل دس گیارہ آیتیں ہیں۔ بہرحال حضرت عائشہؓ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کے علاوہ جو حدیث کے حوالے سے مَیں بیان کر چکا ہوں حضرت مصلح موعودؓ نے جو زائد باتیں بیان فرمائی ہیں وہ بیان کرتا ہوں۔ اول پہلے تو آیت پڑھ دوں۔
آیت یہ ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْا بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیٴٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (النور12:) یعنی یقیناً وہ لوگ جو جھوٹ گھڑ لائے انہی میں سے ایک گروہ ہے۔ اس معاملہ کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر شخص کے لئے ہے جو اس نے گناہ کمایا جبکہ ان میں سے وہ اس کے بیشتر کے ذمہ دار ہیں اس کے لئے بہت بڑا عذاب مقدر ہے۔ اس کے آگے پھر مزید آیتیں بھی ہیں۔ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ بہرحال اس آیت کی تفسیر میں جو سارا واقعہ بیان کیا ہے اور پھر آپؓ نے یہ لکھا کہ جب مدینہ پہنچے تو عبداللہ بن اُبی بن سَلول اور اس کے ساتھیوں نے مشہور کر دیا کہ حضرت عائشہؓ نعوذ باللہ جان بوجھ کر پیچھے رہی تھیں اور ان کو صَفْوان سے تعلق تھا، جو بعد میں اونٹ لے کے آئے تھے۔ لکھتے ہیں کہ یہ شور اتنا بڑھا کہ بعض صحابہ بھی نادانی سے ان کے ساتھ مل گئے جن میں سے ایک حسان بن ثابت ہیں اور دوسرے مِسْطَح بن اُثاثہ۔ اسی طرح ایک صحابیہ حَمنہ بنت جحش بھی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چونکہ اس حادثے سے صدمہ سخت ہوا تھا اور وہ چھوٹی عمر میں ایک ایسے جنگل میں تن تنہا رہ گئی تھیں جہاں ہُو کا عالم تھا اور مدینہ پہنچ کر اس صدمہ سے بیمار ہو گئیں۔ تنہائی کا جو ایک خوف تھا، ایک ڈر تھا حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ یہ بھی بیماری کی وجہ ہے۔ ادھر ان کے متعلق منافقین میں کھچڑی پکتی رہی۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں پہنچ گئیں۔ آپ ؐحضرت عائشہؓ کی بیماری کو دیکھ کر ان سے دریافت نہیں فرما سکتے تھے۔ پوچھا بھی نہیں کہ منافقین کیا باتیں کر رہے ہیں؟ ادھر دن بدن باتیں زیادہ بڑھتی جاتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں یہ دیکھ کر حیران ہوتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لاتے تو آپؐ کا چہرہ اترا ہوا ہوتا تھا اور مجھ سے بات نہیں کرتے تھے۔ کہتی ہیں بڑا پریشان چہرہ ہوتا تھا اور دوسروں سے میرا حال پوچھ کے چلے جاتے تھے۔ کہتی ہیں میںآپؐ کی اجازت سے ایک دن اپنے والدین کے ہاں چلی گئی اور پھر وہی قضائے حاجت والا واقعہ ہوا۔ جو رشتہ دار تھیں ان کے ساتھ باہر جاتی تھیں اُس نے اپنے بیٹے مسطح کا نام لے کر کہا کہ اس کا برا ہو۔ حضرت عائشہؓ نے اس پر کہا کہ ایسا کیوں کہتی ہو؟ اس نے کہا کہ ایسا کیوں نہ کہوں۔ تمہیں پتہ نہیں کہ وہ تو اس قسم کی باتیں کرتا ہے۔ تو حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے وہ عورت کوئی موقع نکالنا چاہتی تھی کہ بات کہے۔ حضرت عائشہؓ کو بات بتائے کہ آپ پہ کیا الزام لگ رہے ہیں کیونکہ ان کو پتہ نہیں تھا۔ جب حضرت عائشہؓ نے یہ بات سنی تو انہیں بڑا سخت صدمہ ہوا۔ واپس آ گئیں اور جیسا کہ پہلے انہوں نے ذکر کیا ہے کہ مجھےبڑی نقاہت تھی۔ جوں توں کر کے گھر تک پہنچیں مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیماری پھر زور پکڑ گئی۔
بہرحال پھر آپؓ آگے واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور اسامہ بن زیدؓ کو بلا کر مشورہ لیا کہ کیا کرنا چاہئے۔ حضرت عمرؓ اور اسامہ بن زیدؓ دونوں نے کہا کہ یہ منافقوں کی پھیلائی ہوئی بات ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں لیکن حضرت علیؓ کی طبیعت تیز تھی۔ انہوں نے کہا کہ بات کوئی ہو یا نہ ہو۔ آپؐ کو ایسی عورت سے جس پر اتہام لگ چکا ہے تعلق رکھنے کی کیا ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ آپؐ اُن کی لونڈی سے پوچھ لیں۔ اگر کوئی بات ہوئی تو وہ بتا دے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کی لونڈی بریرہ سے پوچھا کیا تجھے عائشہؓ کا کوئی عیب معلوم ہے؟ اُس نے کہا عائشہؓ کا سوائے اس کے اور کوئی عیب نہیں کہ کم سنی کی وجہ سے وہ سو جاتی ہیں۔ جلدی نیند کا غلبہ آجاتا ہے اور پھر گہری نیند آتی ہے اور وہی واقعہ بیان کیا۔ بہرحال کہتے ہیں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ صحابہ کو جمع کیا اور پھر فرمایا کہ کوئی ہے جو مجھے اس شخص سے بچائے جس نے مجھے دکھ دیا ہے۔ اس سے مراد آپؐ کی عبداللہ بن اُبی بن سَلول سے تھی کہ اس نے دکھ دیا ہے۔ حضرت سعد بن معاذ جو اَوس قبیلہ کے سردار تھے کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر وہ شخص ہم میں سے ہے تو ہم اس کو مارنے کے لئے تیار ہیں۔ اور اگر وہ خزرج سے ہے تب بھی اس کو مارنے کے لئے تیار ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ شیطان تو ہروقت فتنہ ڈلوانے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتا ہے اس موقع پر بھی شیطان نہیں چونکا۔ خزرج کو یہ خیال نہ آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے کتنا صدمہ پہنچا ہے۔ جب سعد بن معاذ ؓنے یہ بات کی تو دوسرے قبیلہ کو غصہ آ گیا۔ چنانچہ سعد بن عبادہؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے سعد بن معاذؓ سے کہا کہ تم ہمارے آدمی کو نہیںمار سکتے اور نہ تمہاری طاقت ہے کہ ایسا کر سکو۔ اس مکالمے میں دوسرے صحابی بھی اٹھے اور انہوں نے کہا کہ ہم اسے مار ڈالیں گے اور دیکھیں گے کون اسے بچاتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اب بجائے اس کے کہ یہ مقابلہ باتوں تک ہی رہتا اوس اور خزرج نے میانوں سے تلواریں نکالنی شروع کر دیں کہ باقاعدہ جنگ ہونے لگی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی مشکل سے ان کو ٹھنڈا کیا۔ اوس کہتے تھے کہ جس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا ہے اس کو ہم مار ڈالیں گے اور خزرج کہتے تھے کہ تم یہ بات اخلاص سے نہیں کرتے۔ چونکہ تم جانتے ہو کہ وہ ہم میں سے ہے اس لئے یہ بات کہتے ہو۔ بہرحال یہ بات بھی ثابت ہے کہ ان دونوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت بھی تھی مگر شیطان نے ان میں فتنہ پیدا کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اس وقت کی حالت کے متعلق ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ کیسی دردناک حالت ہو گی۔ ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی ایذاء پہنچ رہی تھی اور ادھر مسلمانوں میں تلوار چلنے تک نوبت پہنچی ہوئی تھی۔ تو شیطان بعض دفعہ نیکوں میں بھی یہ حالت کر دیتا ہے۔
بہرحال پھر آگے حضرت مصلح موعودؓ وہی واقعہ بیان کرتے ہیں جو حضرت عائشہؓ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت عائشہؓ سے یہ سارا واقعہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں مانوں گی تو جھوٹ کہوں گی۔ اگر اپنے آپ کو بَری ثابت کروں گی تو آپ لوگ یقین نہیں کریں گے۔ اس وقت میں وہی کہتی ہوں جو حضرت یوسفؑ کے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا تھا کہ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ (یوسف19:)کہ اچھی طرح صبر کرنا ہی میرے لئے مناسب ہے اور اس بات کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے اور مانگی جاتی ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے یہ کہا کہ وہاں سے اٹھ کر میں اپنے بستر پہ آگئی۔ اس پر پھر یہ آیت نازل ہوئی جو مَیںنے ابھی پہلے پڑھی ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے خطر ناک جھوٹ بولا ہے وہ تمہی میں سے ایک گروہ ہے مگر تم اس کے اس الزام کو اپنے لئے کسی خرابی کا موجب نہ سمجھو بلکہ خیر کا موجب سمجھو کیونکہ اس الزام کی وجہ سے جھوٹا الزام لگانے والوں کی سزاؤں کا جلدی ذکر ہو گیا اور تمہیں ایک پرحکمت تعلیم مل گئی۔ اور یقینًا اس میں سے ہر شخص اپنے اپنے گناہ کے مطابق سزا پائے گا اور جو شخص اس گناہ کے بڑے حصہ کا ذمہ دار ہے اس کو بہت بڑا عذاب ملے گا۔ بہرحال اس وحی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ روشن ہوا اور اس وقت حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میری والدہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر کرو تو میں نے یہی کہا کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں گی۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 269تا 271)
بہرحال جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک جگہ ایک خطبہ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت عائشہؓ پر الزام لگانے کی وجہ سے تین اشخاص کو کوڑے لگے تھے جن میں سے ایک حَسَّان بن ثابت تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر اعظم تھے۔ ایک مسطح تھا جو حضرت عائشہ کے چچا زاد اور حضرت ابوبکرؓ کے خالہ زاد بھائی تھے اور وہ اس قدر غریب آدمی تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں ہی رہتا تھا۔ وہیں کھانا کھاتا تھا۔ آپؓ ہی ان کے لئے کپڑے بنواتے تھے اور ایک عورت تھیں۔ ان تینوں کو سزا ہوئی۔ (ماخوذ از خطبات محمودؓ جلد 18 صفحہ 279-280)
اور سنن ابی داؤد میں بھی اس سزا کا ذکر ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الحدود باب حد القازف حدیث 4474-4475) بہرحال بعض کے نزدیک یہ سزا ہوئی۔ بعض کے نزدیک نہیں ہوئی۔(تفسیر القرطبی جزء 15 صفحہ 169 سورۃ النور مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 2006ء) لیکن یہ جو صحابہ تھے انہیں سزا ہوئی یا نہیں ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا۔ جو دنیاوی سزا تھی وہ ملنی تھی وہ مل گئی اور بعد کے غزوات میں بھی جیسا کہ میں نے بتایا یہ شامل ہوئے اور یہ مسطح ایک بدری صحابی تھے۔ ان کا ایک بڑا مقام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا انجام بخیر کیا اور اس مقام کو قائم رکھا اور قائم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔