حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک دَور کی چند جھلکیاں
قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جب بھی کسی قوم میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور زمانے میں ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْر کی گونج پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو قوم کی اصلاح کے واسطے مبعوث فرماتا ہے اور خدا تعالیٰ کے مقربین کی صداقت کی ایک دلیل ان کی بیان کردہ پیشگوئیوں کا پورا ہوناہے۔ چنانچہ سرور کائنات فخر موجودات خاتم النبیین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب سورة جمعہ نازل ہوئی تو آپ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک صحابی حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ لَو كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهٗ رِجَالٌ اَوْرَجُلٌ من هَؤُلَاءِ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۸۹۷)کہ اگر زمانے میں بگاڑ پیدا ہوا اور اس قدر ہوا کہ ایمان ثریا ستارے پر بھی چلا گیا تو اس شخص کی نسل سے ایک شخص مبعوث کیا جائے گا جو احیائےاسلام کرے گا، خدا کی وحدانیت کے جھنڈے کو زمین میں قائم کرے گا۔ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ وہ شخص مسیح موعود اور مہدی معہود کی صورت میں ہمارے سامنے آئے۔ جو بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام ہیں۔ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اس شخص کے مبعوث ہونے اور وفات پا جانے کے بعد خلافت قائم ہوگی اور وہ خلافت علیٰ منہاج النبوة کی صورت میں ہوگی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد خلافت کا نظام جاری ہوا اور وہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پہلے خلیفہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک دور کی چند جھلکیاں پیش ہیں۔
حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ ۱۸۴۱ء میں بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم حافظ غلام رسول صاحب اور آپ کی والدہ نوربخت صاحبہ تھیں۔
آپ کے اوصاف کریمہ میں عبادت گزاری، پرہیزگاری، عشق قرآن اور اطاعت وفرمانبرداری سب سے نمایاں ہیں۔ آپ کے وصف میں اطاعت کا ایسا عالم تھا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کے متعلق فرمایا: ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔
آپؓ کا وجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اس دعا کا زندہ نشان تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے کوئی ایسا مددگار عطا فرمائے جو میرا دست و بازو ہو کر کام کر سکے۔
ہمارے موجودہ پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مولوی صاحب کے متعلق فرماتے ہیں:’’ یہ ایک زبردست اعزاز ہے جو کہ زمانے کے امام نے اپنے ماننے والوں کے لیے ہر چیز کا معیار حضرت مولانا نورالدین کے معیار کو بنا دیا کہ اگر ہر ایک نورالدین بن جائے تو ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ (خطبہ جمعہ ۱۳؍نومبر ۲۰۱۵ء)
۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تو نظام جماعت کو چلانے کے لیے ۲۷؍ مئی کوحضرت مولوی صاحب کو آپ علیہ السلام کے جانشین اور خلیفہ منتخب ہوئے۔چنانچہ مولوی صاحب نے درج ذیل الفاظ میں تمام جماعت سے بیعت لی:
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ( تین دفعہ )
آج میں نورالدین کے ہاتھ پر تمام ان شرائط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں جن شرائط سے مسیح موعود و مہدی معہود بیعت لیا کرتے تھے۔ اور نیز اقرار کرتا ہوں کہ خصوصیت سے قرآن و سنت اور احادیث صحیحہ کے پڑھنے، سننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا اور اشاعت اسلام میں جان ومال سے بقدر وسعت و طاقت کمربستہ رہوں گا۔ اور انتظام زکوۃ بہت احتیاط سے کروں گا اور باہمی اخوان میں رشتہ محبت کے قائم رکھنے اور قائم کرنے میں سعی کروں گا۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْه(تین دفعہ)
رَبِّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْۢبِی۔ فَاغْفِرْلِی ذُنُوْبِی فَاِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔
اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں آمین
جلسہ سالانہ ۱۹۱۰ء کے موقع پر اپنے الفاظ بیعت میں مندرجہ ذیل کلمات کا اضافہ فرمایا کہ میں شرک نہیں کروں گا۔ چوری نہیں کروں گا بدکاریوں کے نزدیک نہیں جاؤں گا کسی پر بہتان نہیں لگاؤں گا چھوٹے بچوں کو ضائع نہیں کروں گا۔ نماز کی پابندی کروں گا اور زکوۃ اور حج اپنی طاقتوں کے موافق ادا کرنے کو مستعد رہوں گا۔ (حیات نور صفحہ۳۳۷)
تعلیم الاسلام ہائی سکول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک زندگی میں ہی قائم ہو گیا تھا لیکن حضرت مولوی صاحبؓ کی خواہش تھی کہ اس ادارے کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھا جائے۔ چنانچہ یکم مارچ ۱۹۰۹ءکو باقاعدہ طور پر مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا۔ مدرسہ احمدیہ کے پہلے ہیڈماسٹر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ مقرر ہوئے پھر اس ادارے کی باگ ڈور حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کے ہاتھ میں دے دی گئی۔
حضرت مولوی صاحبؓ کو قرآن کریم سے بہت عشق تھا۔ آپ خلافت سے پہلے بھی ہر روز قرآن کا درس دیا کرتے تھے۔ آپؓ کے تفسیری نکات پر مشتمل کتاب حقائق الفرقان کے نام سے چھپی ہوئی ہے۔ آپؓ کے دور مبارک میں انگریزی ترجمہ قرآن کا کام آپ ہی کی زیر نگرانی شروع ہوا تھا جس کی تکمیل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مبارک میں ہوئی۔
آپؓ کے دور مبارک میں مسجد نور اور نور ہسپتال کی تعمیر ہوئی۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ میں توسیع بھی کی گئی۔
آپؓ کے عہد مبارک میں اخبار نور، اخبار الحق، رسالہ احمدیہ، احمدی خاتون اور اخبار پیغام صلح جاری ہوئے۔
۱۸؍جون ۱۹۱۳ء کو الفضل اخبار جاری کیا گیا جس کو آج ہم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کے ہر کونے میں بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں۔ اللّٰھم زد فزد
۱۸؍نومبر۱۹۱۰ءکا دن پوری جماعت کے لیے بہت تکلیف دہ دن تھا جب حضرت مولوی صاحبؓ گھوڑے پر سوار تھے کہ آپ گر پڑے۔ آپ کے ماتھے پر سخت چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے چند ماہ آپ علیل رہے۔
کسی بھی جماعت یا گروہ کے سچا ہونے کی ایک نشانی یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ دن بدن ترقی کرتی ہے۔ دشمن خواہ کتنا ہی ایڑی چوٹی کا زور لگا لے مگر وہ جماعت ترقی کی منازل طے کرتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مبارک میں جماعت کی ترقی کا ایک نیا باب کھلا جس کے نتیجے میں انگلستان میں پہلا بیرونی مشن قائم ہوا اور حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ کو بطور مبلغ لندن بھجوایا گیا۔
چونکہ یہ عہد مبارک خلافت احمدیہ کی عمارت کو قائم کرنے کے لیے بطور پہلی اینٹ کے تھا اس لیے آپ کے عہد میں دشمنوں نے ہر طرح سے حملے کیے مگر سنت اللہ یہی ہے کہ خدا کی تقدیر ہی غالب آیا کرتی ہے اس لیے دشمن جماعت کا بال بھی بیکا نہ کر سکا۔ دشمن تو آج بھی جماعت کی مخالفت میں سرتوڑ حملے کر رہا ہے مگر جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اور خلافت احمدیہ کے طفیل دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ آج جماعت احمدیہ ۲۱۳؍ سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے اور دنیا کے ہر کونے میں خلیفۃالمسیح کی دعاؤں کی بدولت اسلام احمدیت کا جھنڈا بلند ہورہا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کے بارے میں یہ شعر تحریر فرما کر حضرت مولوی صاحبؓ کی اعلیٰ صفات کو امر فرما دیا؎
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امّت نورِ دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نورِ یقیں بودے