دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ لگانا اور تشہیر: ستّاری اور استغفار کی طرف توجہ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۷ء)
دنیا میں کوئی انسان نہیں جو ہر عیب سے ہر لحاظ سے پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ستّار ہے جو ہماری پردہ پوشی کرتی ہے۔ اگر انسان کی غلطیوں کی، کوتاہیوں کی، گناہوں کی پردہ دری ہونے لگے تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ جو ستّار العیوب ہے اور غفّار الذنوب ہے اس نے ہمیں یہ دعا بھی ہم پر احسان کرتے ہوئے سکھائی کہ تم جہاں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچنے کی کوشش کرو وہاں استغفار بھی کیا کرو تو مَیں تمہارے گناہوں کو بھی معاف کروں گا۔ تمہاری پردہ پوشی کروں گا۔ تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔ ہر ایک کی بہت ساری باتوں کی عمومی پردہ پوشی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مغفرت خاص طور پر ان لوگوں کو بھی اپنی چادروں میں لپیٹتی ہے جو استغفار کرنے والے ہیں۔ غَفَر کا مطلب بھی چھپانا اور ڈھانکنا ہوتا ہے اور یہی مطلب کم و بیش سَتر کا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے اور مسلمانوں نے جس خدا کو مانا ہے وہ رحیم کریم حلیم توّاب اور غفّار ہے۔ جو شخص سچی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘فرمایا کہ ’’لیکن دنیا میں خواہ حقیقی بھائی بھی ہو یا کوئی اور قریبی عزیز اور رشتہ دار ہو وہ جب ایک مرتبہ قصور دیکھ لیتا ہے پھر وہ اس سے خواہ باز بھی آ جاوے(یعنی قصور کرنے والا باز بھی آجاوے) مگر اسے عیبی ہی سمجھتا ہے۔‘‘پس دنیا والے اگر کوئی شخص گناہ اور کسی عیب کو چھوڑ بھی دے تب بھی اسے عیبی اور شک کی نظر سے دیکھنے والے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا ’’لیکن اللہ تعالیٰ کیسا کریم ہے کہ انسان ہزاروں عیب کر کے بھی رجوع کرتا ہے تو بخش دیتا ہے‘‘۔ فرمایا’’دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے بجز پیغمبروں کے (جو خداتعالیٰ کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔) جو چشم پوشی سے اس قدر کام لے‘‘۔ (یعنی سوائے نبیوں کے جو اس قدر چشم پوشی کرے جتنی خدا تعالیٰ کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے بعدنبی ہیں جو اتنا کر سکتے ہیں اور ان کے علاوہ کوئی نہیں کرتا)‘‘بلکہ عام طور پر تو یہ حالت ہے جو سعدی نے کہا ہے ’’خدا داند و بپوشد و ہمسایہ نداند و بخروشد‘‘(ملفوظات جلد 7 صفحہ 178۔ ایڈیشن 1984ء) کہ خدا تعالیٰ تو جانتے ہوئے بھی پردہ پوشی کرتا ہے لیکن ہمسایہ کا تھوڑا سا علم ہو جائے تو اس کمزوری کی مشہوری کرنے لگ جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سعدی کے شعر کے مصرعہ کا جو یہ حوالہ دیا ہے اس کی تشریح ایک جگہ اس طرح بھی فرمائی ہے کہ’’خدا تعالیٰ کی ستّاری ایسی ہے کہ وہ انسان کے گناہ اور خطاؤں کو دیکھتا ہے لیکن اپنی اس صفت کے باعث اس کی غلط کاریوں کو اس وقت تک جب تک کہ وہ اعتدال کی حد سے نہ گزر جاوے ڈھانپتا ہے۔ لیکن انسان کسی دوسرے کی غلطی دیکھتا بھی نہیں اور شور مچاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 1 صفحہ 299-300۔ ایڈیشن 1984ء)
آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’پس غور کرو کہ اس کے کرم اور رحم کی کیسی عظیم الشان صفت ہے‘‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’اگر وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) مؤاخذہ پر آئے تو سب کو تباہ کر دے لیکن اس کا کرم اور رحم بہت ہی وسیع ہے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 179۔ ایڈیشن 1984ء)
پس اگر اس بات کو ہم سمجھ لیں اور اپنے ساتھیوں، اپنے بھائیوں، اپنے سے واسطہ پڑنے والوں کے معاملات میں ہر وقت ٹوہ نہ لگاتے پھریں، تجسس نہ کریں، ان کی کمزوریوں کو تلاش نہ کرتے پھریں تو ایک پیار اور محبت کرنے والا اور پُرامن معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو پردہ پوشی کی بجائے دوسروں کے عیب ظاہر کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اور جب ان کے اپنے متعلق کوئی بات کر دے یا کسی ذریعہ سے ان کو یہ پتا چل جائے کہ فلاں شخص نے میرے متعلق اس طرح بات کی تھی تو سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ انتہائی غصہ میں آ کر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ خود کسی دوسرے کے متعلق کہہ رہے ہوں تو اس وقت کہتے ہیں کہ یہ تو معمولی بات تھی ہم نے تو یونہی کہہ دی۔ ہمیں ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ جو اپنے لئے چاہتے ہو وہی اپنے بھائی کے لئے چاہو۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ حدیث 13)
پس اگر اپنے لئے پردہ پوشی پسند ہے تو دوسروں کے لئے بھی وہی احساسات ہونے چاہئیں اور یہی وہ سنہری اصول ہے جو معاشرے کے امن کے لئے بھی ضروری ہے۔
پس عیب دیکھ کر بجائے اس عیب کو پھیلانے کے ہر ایک کو استغفار کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ہمارے اندر بھی جو بے شمار عیب ہیں وہ کہیں ظاہر نہ ہو جائیں۔ اگر نیک نیت سے انسان دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر خدا تعالیٰ مؤاخذہ پر آئے حساب کتاب لینے لگے تو سب کو تباہ کر دے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے اور ہر وقت استغفار کرتے رہنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کے کسی عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو ڈھانپ دے گا۔ اس کی پردا پوشی فرمائے گا۔ اسے ڈھانپ دے گا اور ستّاری فرمائے گا۔ اور جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ دری کرتا ہے۔ اس کی برائیاں کرتا ہے۔ اس کی برائی کو دیکھ کر لوگوں کو بتاتا پھرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے عیب اور ننگ کو اسی طرح ظاہر کرے گا کہ اس کے گھر میں اس کو رسوا کر دے گا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الحدود باب الستر علی المؤمن … الخ حدیث 2546) پس یہ بڑا سخت انذار ہے۔ خوف کا مقام ہے۔