سلام ایک عظیم تحفہ ہے
سلام کا لفظ سَلَمَہ سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہر طرح کی امن و سلامتی کے ہیں۔ یوں تو دنیا میں ہرمذہب،قوم،اور قبیلےکے سلام کے مخصوص الفاظ اور طریقے رائج ہیں۔ ہندو رام رام،پرنام،آریہ نمستے،سکھ واہگرو کی جے کہتے ہیں۔ اور آپس میں ایک دوسرے سے ملنے کے وقت احترام اورمحبت کےکلمات کہنےکا بھی رواج ہے۔اسلام سے قبل عربوں میں بھی دعائیہ کلمات کہنے کا رواج تھا۔ جب وہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے تو’’حیاک اللّٰہ ‘‘یا’’انعم اللّٰہ بک عینا ‘‘یعنی اللہ تمہیں زندہ رکھے۔اللہ تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے،کہتے۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اسلام میں السلام علیکم کا کلمہ جاری ہوا جو امن وسلامتی اور خیر سگالی کا پیغام ہے۔اب ایک مسلمان کےلیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کےتمام احکامات کی پیروی کرے۔اور ان احکام میں سے ایک حکم السلام علیکم کہنا ہے۔
قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے سلام کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔سلام اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور قیمتی تحفہ ہے ۔سلام نہایت جامع متبرک دعائیہ کلمہ ہےاور خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے،اور عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے، اور دعاؤں میں سے ایک اچھی دعا ہے،اور اس کو افضل الاعمال میں سے ایک عمل قرار دیا گیا ہے۔السلام علیکم کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ آپ کو ہر طرح کی سلامتی نصیب فرمائے،اور ہر تکلیف اور رنج و غم سے سلامتی رہے اور تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل ہو۔ یہ کلمہ آپس میں محبت و پیار، اخوت، سلامتی، عزت و تکریم، شفقت پیدا کرتا ہےاور اچھی خواہشات اور نیک تمناؤں کا اظہار ہوتا ہے جو کہ صرف دعائیہ کلمات کے ذریعے سے ہی ہو سکتا ہے۔یہ کلمہ چھوٹوں میں شفقت، پیار و محبت اور بڑوں میں اکرام و تعظیم کے لیے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹے بچوں کوبھی سلام کرتے اور سلام کرنے میں پہل کرتے۔حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام کو بھی سلام کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو سلام کر لیا کرو یہ تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے باعث برکت ہے۔ (ترمذی)
اس میں ہر شخص کے لیے اجر و ثواب ہے۔ جس انسان نے جس قدر اچھے انداز میں سلام کیا اسی قدر نیکی کا اجر و ثواب پاتا ہے۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اچھی طرح سلام کرے تاکہ نیکیوں کا اجر و ثواب پائے۔ اور اسلام کو عمدہ اور بہتر بنانا مسلمان کا کام ہے۔سب سے بہتر بات یہی ہے کہ چھوٹا بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی طرز زندگی پر نظر ڈالیںتو سلام کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اور صحابہ کرامؓ بازاروں میں صرف اس غرض سے جاتے تھے کہ ایک دوسرے کو سلام کریں۔ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے ساتھی سے کہا :چلو بازار چلیں۔ اس نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا لوگوں کو ہم سلام کریں گے اور وہ ہمیں سلام کریں گے۔(مشکوٰۃ)
اگر ہم دور حاضر کی بات کریں تو سلام صرف نام کا رہ گیا ہے۔اور سلام دینے میں بڑی کوتاہی سے کام لیا جاتا ہے۔ ہم نے ہر چیز میں غیروں کا طریقہ اپنا لیا ہے۔بعض لوگ ایک دوسرے کو سلام اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں سلام کی اہمیت و فضائل کا پتا نہیں۔بعض لوگ ایک دوسرے کے پاس سے بڑے فخر سے گزر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سلام کیوں کریں؟ہم تو بڑے ہیں وہ چھوٹا ہے حالانکہ سلام کرنے میں بڑے اور چھوٹے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سلام کرنے کا علم ہوتا ہے لیکن اپنےآپ کو دوسروں سےبڑا سمجھتے ہیں۔ یا بعض لوگ سلام کہنے کی بجائے دوسرے مقامی تہنیتی الفاظ بولتے ہیں جو دوسرے لوگوں میں رائج ہیں۔اورہم نے بڑی بڑی باتوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بھلا دیا ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مقامی تہنیتی الفاظ کے بجائے اسلامی طریق سلام کو فروغ دیں۔ مسلمان کی پہچان ایک دوسرے کوسلام کرنے میں ہے۔لہٰذا ہمیں بحیثیت مسلمان سلام کو رواج دینا چاہیے۔ہم اس کلمہ کوعام لوگوں کی طرح رسمی طور پر ادا نہ کریں بلکہ خلوص نیت سے ادا کریں۔اللہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔