اللہ تعالیٰ عرش پر ہے یا ہر جگہ؟
جب بھی غیراحمدیوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ سورۃ النساء کی آیت ۱۵۹ بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ …بلکہ اللہ نے اپنی طرف اس کا رفع کرلیا،پیش کرکے استدلال کرتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھالیا۔ اہلحدیث علماء جو اب خود کو سلفی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کو مستوئ عرش مانتے ہیں یعنی یہ کہ وہ عرش پر ہے۔ یہ عقیدہ ان کی بہت سی کتب میں مذکور ہے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
٭…اللہ تعالیٰ کہاں ہے۔ہر جگہ یا عرش پر۔ مصنف نواب محمد صدیق حسن خان بھوپالی
٭…اللہ عرش پر ہے۔ مصنف زبیر علی زئی
٭…عقلیات ابن تیمیہ مصنف محمد حنیف ندوی
٭…اللہ کہاں ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں
٭…اللہ کہاں ہے۔ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری
کیا اللہ تعالیٰ عرش پر ہے؟
قرآن مجید میں استویٰ علی العرش یعنی اللہ تعالیٰ کے عرش پر متمکن ہونے کا سات آیات میں ذکر ہے۔
۱۔اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ…(الاعراف :۵۵)یقیناً تمہارا ربّ وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔
۲۔اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ …(یونس :۴)یقیناً تمہارا ربّ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔
اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ …(الرعد :۳)اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں کے بلند کیا جنہیں تم دیکھ سکو۔ پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔
۴۔تَنۡزِیۡلًا مِّمَّنۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ وَالسَّمٰوٰتِ الۡعُلٰی اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی(طٰہ۶،۵) اس کا اتارا جانا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا۔ رحمٰن۔ وہ عرش پر متمکن ہوا۔
۵۔الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ…(الفرقان : ۶۰)جسنے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔
۶۔اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ… (السجدۃ:۵)اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ زمانوں میں پیدا کیا پھر اُس نے عرش پر قرار پکڑا۔
۷۔ھُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ؕ یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ وَمَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا وَمَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا ؕ وَھُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ وَاللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ(الحدید:۵)وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ زمانوں میں پیدا کیا۔ پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔ وہ جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس میں سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اُترتا ہے اور جو اس میں چڑھ جاتا ہے۔ اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہو۔ اور جو تم کرتے ہو اللہ اس پر ہمیشہ گہری نظر رکھنے والا ہے۔
نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب ’’ اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ ہر جگہ یا عرش پر‘‘ میں مندرجہ بالا آیات نقل کرکے لکھتے ہیں:’’اوپر کی بحث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ عرش پر قائم ہے۔ لیکن اس کا علم، اس کی قدرت اور اس کی بادشاہی ہر جگہ اور ہر مکان میں ہے۔ دنیا کے سارے انسان اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالَم کے نیچے نہیں ہے۔ اسی طرح اس پر بھی متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور چیز کے اوپر نہیں ہے۔ اسی طرح قرآن شریف میں بیان ہوا ہے۔‘‘ (صفحہ۱۰)
اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب صاحب نے صرف آیات نقل کی ہیں دلیل تو کوئی نہیں دی لہٰذا کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ یہ مسئلہ بھی حل طلب ہے کہ ’’ذات‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے۔دوسری بات یہ کہ دنیا میں تو ہر مذہب بلکہ لامذہب اور دہریے بھی پائے جاتے ہیں۔ تو پھر سارے انسان نواب صاحب کی اس بات سے کیسے متفق ہوگئے اور نواب صاحب کے پاس وہ کون سا ذریعہ تھا جس سے انہوں نے آج سے سوا سو سال پہلے دنیا کے سارے انسانوں کا متفق ہونا معلوم کرلیا۔اس کے بعد نواب صاحب چند ائمہ کے اقوال بلا دلیل نقل کرتے ہیں اور اسی سے سمجھتے ہیں کہ ان کی بات ثابت ہوگئی۔ ان میں سے ایک بزرگ امام علی بن مہدی طبری کا قول تبصرہ کے لائق ہے۔ نواب صاحب ان کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’امام علی بن مہدی طبری نے کتاب ’’مشکل الآثار‘‘ میں فرمایا ہے:’’جان لو بیشک اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر، ہر چیز کے اوپر اور اپنے تخت پر قائم ہے۔ استواء کا معنی ’’اعتلاء‘‘ کے ہیں۔ عرب والے بولتے ہیں۔’’میں جانور کی پشت پر مستوی ہوا، چھت پر مستوی ہوا، مکان پر مستوی ہوا یا آفتاب میرے سر پر ہے۔‘‘ (سب کا معنی اعتلاء کے لیا جائے گا) اسی طرح کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اپنی ذات کے ساتھ عالی (بلند) ہے اور اپنی مخلوقات سے جدا ہے۔ دلیل اس کی قرآن پاک کی یہ آیات ہیں۔ (۱) أَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ (۲) وَ رَافِعُکَ إِلَیَّ (۳) ثُمَّ یَعْرُجُ إِلَیْہ۔امام علی بن مہدی کے قول سے جس طرح استواء ثابت ہورہا ہے اسی طرح اللہ کے لیے جہت فوق کا بھی اثبات ہورہا ہے۔‘‘ (صفحہ۱۵)
اس عبارت میں استواء بمعنی اعتلاء کی جو مثالیں دی گئی ہیں وہ سب جسمانی ہیں۔ یعنی مستوی ہونے والا انسان اور جس پر وہ مستوی ہوا یعنی جانور، چھت مکان، یہ سب اجسام ہیں اور آفتاب جو ایک جسم ہے وہ انسان کے جسم پر بلند ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کا بھی جسم ہے جو عرش کے جسم پر مستوی ہوا؟
ایک اہلحدیث عالم ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں صاحب اپنی کتاب ’’اللہ تعالیٰ کہاں ہے‘‘ میں لکھتے ہیں:’’خود اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے اس نے عرش کو پیدا فرمایا، پھر زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد وہ عرش پر غالب ہوا۔‘‘(صفحہ ۲۸)
لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کس جگہ بیان کی ہے۔اگر آپ عرش کے متعلق ساری آیات پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کسی بھی آیت میں یہ بات نہیں لکھی جو ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں صاحب نے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی ہے۔ ایک اہلحدیث عالم محمد حنیف ندوی صاحب نے اپنی کتاب ’’عقلیات ابن تیمیہ‘‘ میں علامہ ابن تیمیہ کی اس بارے میں تنقیحات بیان کرتے ہوئےدیگر اہلحدیث علماء سے مختلف نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’اس اشکال کے حل میں ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ استواء کو کوئی ازلی و ابدی صفت نہ قرار دیا جائے بلکہ ایک شان و حالت قرار دیا جائے، جیسا کہ غزالی نے کہا ہے، اور سمجھنا یہ چاہئے کہ عرش سے مراد کوئی مقام یا جگہ نہیں بلکہ یہ ایک طرح سے مرکز تدبیر سے تعبیر ہے اور اس سے مقصود کسی نہ کسی تکوینی امر کی تدبیر و اہتمام ہے، جس کا ثبوت (یہ) ہے کہ استواء علی العرش کے بارے میں وہ تمام مقام جہاں جہاں یہ لفظ آیا ہے اور نظر و بحث کا ہدف ٹھہرا ہے، وہاں اس کے سیاق میں کسی نہ کسی تکوینی امر کی طرف اشارہ موجود ہے۔‘‘ (صفحہ ۲۱۰)
ان محولہ بالا تمام آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ تخلیق زمین و آسمان کے بعد اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہوا۔لہٰذا ان علماء سے سوال ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کہاں متمکن تھا؟
اللہ ہر جگہ ہے
قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات اس بات پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔
٭…وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(البقرۃ:۱۱۶) اور اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی۔ پس جس طرف بھی تم منہ پھیرو وہیں خدا کا جلوہ پاؤ گے۔ یقیناً اللہ بہت وسعتیں عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
٭……وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ… (البقرۃ:۲۵۶) اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے۔
٭…هُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَفِي الْأَرْضِ…(الانعام:۴)اور وہی اللہ ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی۔
٭…اللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ۔(النور:۳۶)اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
٭…وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ(الصافات: ۱۰۰)اور اس نے کہا میں یقیناً اپنے ربّ کی طرف جانے والا ہوں وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا۔
٭…وَہُوَ الَّذِیۡ فِی السَّمَآءِ اِلٰہٌ وَّفِی الۡاَرۡضِ اِلٰہٌ ؕ وَہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡعَلِیۡمُ۔ (الزخرف:۸۵)اور وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہی بہت حکمت والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
٭…وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۔ (قٓ:۱۷) اور ہم اس سے (اس کی) رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
٭…فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِؕاِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ (الذاریات :۵۱) پس تیزی سے اللہ کی طرف دوڑو۔ یقیناً میں اُس کی طرف سے تمہیں ایک کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں۔
اہلحدیث علماء کے برعکس دیوبندی اور بریلوی حضرات کی مندرجہ ذیل کتب سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود مانتے ہیں:
٭…قوارع القھار فی الردّ علی المجسمۃ الفجّار۔مصنفہ احمد رضا خان بریلوی
٭…’’اللہ تعالیٰ بغیر جہت اور مکان کے موجود ہیں‘‘ مصنفہ ابوحفص اعجاز احمد اشرفی، فاضل جامعہ اشرفیہ، لاہور۔
٭…’’انوارِ آفتابِ صداقت‘‘ صفحہ ۲۲۴تا۲۲۷۔ مصنفہ قاضی فضل احمد صاحب
٭…فتاویٰ دارالعلوم زکریا۔ جلد اول۔ کتاب الایمان و العقائد صفحہ ۳۲ تا ۳۴
٭…عقائد اہل السنۃ و الجماعۃ۔ مصنف محمد الیاس گھمن۔
٭…جاء الحق مصنفہ احمد یار خان نعیمی
٭…عقائد علمائے دیوبند مصنف خلیل احمد انبیٹھوی
٭…آثار الاحسان مصنفہ ڈاکٹر علامہ خالد محمود
٭…جنتی زیور۔ مصنفہ علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی مجددی
٭…کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب۔ مصنف محمد الیاس عطار قادری
البغدادی اپنی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ میں سیّدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’و قد قال أمیر المؤمنین علی رضی اللّٰہ عنہ: إن اللّٰہ تعالیٰ خلق العرش إظہارًا لقدرتہ لا مکانًا لذاتہ‘‘ و قال ایضًا: ’’قد کان ولا مکان، و ھو الآن علی ما کان‘‘
امیرالمؤمنین علی ؓنے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے مکان کے طور پر نہیں بلکہ اپنی قدرت کے اظہار کے لیے عرش کو تخلیق کیا۔اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ تب بھی تھا جب کوئی مکان نہیں تھا اور وہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ (صفحہ ۲۸۷)
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ اہلحدیث علماء اللہ تعالیٰ کو عرش پر مقیم مانتے ہیں۔لہٰذا غلط یا ادھوری ہی سہی لیکن بہرحال وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کی طرف رفع ماننے کی ایک دلیل رکھتے ہیں ۔لیکن تعجب کی بات ہے کہ دیوبندی اوربریلوی حضرات تو اللہ کا ہر جگہ موجود ہونا مانتے ہیں اور اس کے جسم اور جہت کا انکار کرتے ہیں تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کی ’’طرف‘‘ رفع کیسے مان سکتے ہیں! یہ اسی طرح کا کھلا تضاد ہے جو بیک وقت نزولِ مسیحؑ اور ختم نبوت کا عقیدہ رکھنے میں ہے۔ یعنی ایک طرف تو یہ کہا جائے کہ نبی اکرم ﷺ ہر طرح سے غیر مشروط اور قطعی طور پر آخری نبی ہیں اور دوسری طرف ان کے بعد ایک نبی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا عقیدہ رکھا جائے۔
کیا اللہ تعالیٰ آسمانوں میں رہتا ہے؟
مندرجہ ذیل دو آیات سے غیراحمدی استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ السماءیعنی آسمان میں ہے۔
ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمُ الۡاَرۡضَ فَاِذَا ھِیَ تَمُوۡرُ ۔اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ(الملک:۱۸،۱۷)کیا تم اُس سے جو آسمان میں ہے محفوظ ہو کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ پس وہ اچانک تھرانے لگے۔یا کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے محفوظ ہو کہ وہ تم پر پتھر برسانے والے جھکڑ چلائے؟ پس ضرور تم جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا تھا۔
سَمَاء(آسمان ) کیا ہے؟
اس سوال کہ کیا اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے، کا جواب جاننے سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عربی زبان میں ’’ سَمَاءٌ ‘‘ کا کیا مطلب ہے اور قرآن مجید میں اسے کن معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ امام راغب اپنی کتاب مفردات راغب میں لکھتے ہیں: ’’ ہر شے کے بالائی حصہ کو سَمَاءٌکہا جاتا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ ہر سَمَاءٌ اپنے ماتحت کے لحاظ سے سَمَاءٌ ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے اَرْضکہلاتا ہے۔‘‘ قرآن مجید کی چند آیات میں بادل کو بھی سَمَاءٌ کہا گیا ہے۔
…وَاَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزۡقًا لَّکُمۡ… (البقرۃ:۲۳)اور آسمان سے پانی اُتارا اور اس کے ذریعہ ہر طرح کے پھل تمہارے لیے بطور رزق نکالے۔
…وَاَرۡسَلۡنَا السَّمَآءَ عَلَیۡہِمۡ مِّدۡرَارًا… (الانعام:۷) اور ہم نے ان پر موسلادھار بارش برساتے ہوئے بادل بھیجے۔
ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں رہتا ہے، بلکہ یہ بات اس لحاظ سے فرمائی گئی ہے کہ انسان فطری طور پر جب خدا سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے۔ کسی آفت کے موقع پر سب سہاروں سے مایوس ہوتا ہے تو آسمان کا رُخ کرکے خدا سے فریاد کرتا ہے۔ کوئی ناگہانی بلا آپڑتی ہے تو کہتا ہے یہ اوپر سے نازل ہوئی ہے۔ غیرمعمولی طور پر حاصل ہونے والی چیز کے متعلق کہتا ہے یہ عالمِ بالا سے آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتب کو کتب سماوی یا کتب آسمانی کہا جاتا ہے۔ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص ایک کالی لونڈی کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ پر ایک مؤمن غلام آزاد کرنا واجب ہوگیا ہے، کیا میں اس لونڈی کو آزاد کرسکتا ہوں؟ حضور ؐنے اس لونڈی سے پوچھا اللہ کہاں ہے؟ اس نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کردیا۔ حضورؐ نے پوچھا اور میں کون ہوں؟ اس نے پہلے آپؐ کی طرف اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کیا، جس سے اس کا یہ مطلب واضح ہورہا تھا کہ آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا، اسے آزاد کردو، یہ مؤمنہ ہے…اس میں اس شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کو آسمان میں مقیم قرار دیتا ہے۔ یہ شبہ آخر کیسے پیدا ہوسکتا ہے جبکہ اسی سورۂ ملک کے آغاز میں فرمایا جاچکا ہے کہ اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (جس نے تہہ بہ تہہ سات آسمان پیدا کیے) اور سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (پس تم جدھر بھی رُخ کرو اُسی طرف اللہ کا رُخ ہے)۔‘‘ (تفہیم القرآن جلد ۶ صفحہ ۴۹،۴۸)
یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ متعدد آیات میں فرماتا ہے کہ اس نے ارض و سماوات تخلیق کیے۔اور چند آیات میں یہ بھی ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آسمان یا آسمانوں میں رہتا ہے تو ان کی تخلیق سے پہلے وہ کہاں رہتا تھا؟
عرش پانی پر تھا تو پانی کہاں تھا؟
وَھُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّکَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا …(ھود:۸)اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا تخت پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرنے والا ہے۔
پانی یا تو زمین پر پایا جاتا ہے یا آسمان سے برستا ہے۔ گویا پانی کے دو ہی ٹھکانے ہیں۔سوال یہ ہے کہ تخلیقِ ارض و سماء سے پہلے اللہ کا عرش پانی پر تھا تو پانی کہاں تھا؟ پانی تو جسم یعنی مادہ کی ایک شکل ہے۔ تو کیا عرش بھی جسمانی وجود ہے اور کیا اس پر بیٹھنے والا اللہ تعالیٰ بھی جسمانی وجود رکھتا ہے؟پھر فرمایا کہ عرش پانی پر اس لیے ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ عرش کے پانی پر ہونے سے ہمارے اچھے اعمال کا کیا تعلق ہے؟
کیا اللہ تعالیٰ سب سے نچلی زمین پر ہے؟
نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتے ہیں:’’استواء اور جہت فوق کے معارض کوئی حدیث نہیں ہے۔‘‘ (صفحہ ۲۶) حالانکہ صحاح ستہ کی ایک کتاب ترمذی میں اللہ تعالیٰ کے سب سے نچلی زمین پر ہونے کی یہ حدیث موجود ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ نَبِيُّ اللّٰهِ صلى اللّٰہ عليه وسلم وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّكُمْ دَلَّيْتُمْ رَجُلاً بِحَبْلٍ إِلَى الْأَرْضِ السُّفْلَى لَهَبَطَ عَلَى اللّٰهِ ثُمَّ قَرَأَ(هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ)(ترمذی کتاب تفسیر القرآن۔باب تفسیر سورۃ الحدید)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالىٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی جان ہے اگر تم لوگ نیچے زمین کی طرف رسی پھینکو گے تو وہ اللہ تک پہنچے گی اور پھر یہ آیت پڑھی۔(هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ وہی ہے سب سے پہلا اور سب سے پچھلا اور باہر اور اندر اور وہ سب کچھ جانتا ہے)
فرعون کے دین پریا موسیٰ ؑ کے دین پر؟
حضرت امام رازیؒ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:’’فظھر أن تعریف ذات اللّٰہ بکونہ في السماء دین فرعون و تعریفہ بالخلاقیۃ و الموجودیۃ دین موسی، فمن قال بالأول کان علی دین فرعون، و من قال بالثاني کان علی دین موسی‘‘(تفسیر کبیر الرازی۔ الجزء السابع والعشرون صفحہ۶۵ زیر تفسیر سورۃ غافر آیت ۳۷)
پس ظاہر ہوا کہ اللہ کی ذات کی تعریف کو آسمان میں ہونے کے طور پر تصور کرنا فرعون کا دین ہے جبکہ اسے خالق اور موجود کے طور پر تصور کرنا موسیٰ کا دین ہے۔ پس جو اول الذکر عقیدہ رکھے وہ فرعون کے دین پر ہے اور جو ثانی الذکر عقیدہ رکھے وہ موسیٰ کے دین پر ہے۔
اس کے برعکس نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی مذکورہ بالا کتاب میں اللہ تعالیٰ کے لیے جہت مانتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’سورہ مؤمن میں ہے۔’’ یٰہَامٰنُ ابۡنِ لِیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ اَسۡبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی وَاِنِّیۡ لَاَظُنُّہٗ کَاذِبًا (فرعون نے کہا) اے ہامان میرے واسطے ایک محل بنا کہ میں آسمان کے جو دروازے ہیں (ان) دروازوں کو پہنچ سکوں اور موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں بیشک میں سمجھتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے۔‘‘ کتاب ’’تنزیہ الصفات‘‘، کتاب ’’فرع نابت‘‘ کتاب ’’اعلام الموقعین‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’فرعون نے یہ اس وقت کہا تھا جب موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا تھا کہ میرا رب آسمان پر ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ پچھلے پیغمبر بھی یہی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے نہ کہ زمین پر یا زمین کے نیچے۔ پچھلی شریعتوں میں یہ بات ثابت شدہ تھی۔ اب اگر کوئی اللہ کے لیے جہت فوق کا عقیدہ نہیں رکھتا تو فرعون کا بھائی ہے۔‘‘ (صفحہ ۲۱،۲۲)
اب غور کریں کہ امام رازیؒ تو فرمارہے ہیں کہ جو اللہ کو آسمان میں مانے وہ فرعون کے دین پر ہے جبکہ نواب صاحب فرمارہے ہیں کہ جو اللہ کو اوپر نہ مانے وہ فرعون کے دین پر ہے۔ پھر چند کتابوں کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ نے فرعون سے کہا تھا کہ میرا رب آسمان میں ہے۔اس آیت کو نقل کرکےاسی طرح کی بات ایک اور اہلحدیث عالم ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں صاحب نے اپنی کتاب ’’اللہ تعالیٰ کہاں ہے‘‘ میں لکھی ہے:’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کا تعارف کراتے ہوئے فرعون سے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو آسمانوں سے اوپر ہے۔‘‘ (صفحہ ۴۴)
حالانکہ نہ تو اس آیت میں اور نہ ہی قرآن میں کسی بھی جگہ حضرت موسیٰ ؑ کا ایسا کوئی قول نہیں لکھا۔ یہی بات ایک اور اہلحدیث عالم غلام مصطفیٰ ظہیر صاحب نے بلا حوالہ لکھی ہے۔
دعا کیسے مانگنی چاہیے؟
اللہ تعالیٰ کے آسمان پر ہونے کے قائلین کہتے ہیں کہ انسان جب دعا مانگتا ہے تو آسمان کی طرف نگاہ کرتا ہے اور اوپر کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے یعنی اسے فطری طور پر معلوم ہے کہ اللہ اوپر ہے۔ لیکن دنیا کے تمام انسان اس طرح آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں مانگتے۔ لہٰذا یہ انسانی فطرت نہیں ہے بلکہ مسلسل پراپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ ہم رکوع میں جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے العظیم ہونے اور سجدہ میں زمین پر سر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے الاعلیٰ ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔ ان دونوں مقامات پر آسمان کی طرف نہ تو سر اٹھاتے ہیں نہ ہاتھ۔ ایک حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا سب سے مضبوط ذریعہ اور مقام سجدہ کا ہے جہاں کی گئی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں۔
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أنَّ رسُولَ اللّٰه ﷺ قَالَ: أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ العَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهَوَ سَاجِدٌ، فَأَكْثِرُوا الدُّعاءَ رسول اللہﷺ نے فرمایا:بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کثرت سے دعا کرو۔(مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یقال فی الرکوع و السجود۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ۔باب فی الدعا فی الرکوع والسجود)
ایک اور حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے نماز میں آسمان کی طرف آنکھیں اٹھا کر دیکھنے سے منع فرمایا ہے: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَرْفَعُوْنَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلَاةِ أَوْ لَا تَرْجِعُ إِلَيْهِمْ و فی روایۃ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُھُمْ (صحیح مسلم باب النَّهْىِ عَنْ رَفْعِ الْبَصَرِ، إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلَاةِ ۔ ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب النَّظَرِ فی الصَّلَاۃِ۔ سنن نسائی کتاب السھو باب النھی عن رفع البصر الی السماء) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ضرور بالضرور وہ لوگ باز آجائیں نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھانے سے ورنہ وہ (نظریں) ان کی طرف نہیں لوٹیں گی۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی نظریں اُچک لی جائیں گی۔
مُلَّا علی قاریؒ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں دعا کے لیے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے بلکہ یہ کہ وہ قبلہ دعا ہے:’’حکمۃ الرفع الی إلسماء أنھا قبلۃ الدعاء و مھبط الرزق والوحي و الرحمۃ و البرکۃ‘‘ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانے کی حکمت یہ ہے کہ وہ دعا کا قبلہ اور رزق، وحی، رحمت اور برکت کا منبع ہے۔ (کتاب الدعوات۔ جلد خامس۔ صفحہ ۱۲۷)
حضرت مسیح موعودؑ کا انعامی چیلنج
آریہ مذہب کے لوگوں نے اعتراض کیا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہے۔لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کو محدود مانتے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انعامی چیلنج دیا کہ اگر کوئی قرآن سے یہ ثابت کردے کہ عرش کوئی جسمانی چیز ہے تو اسے تین ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔
’’مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے۔ تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے۔ خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا مَیں ہی پیدا کرنے والا ہوں۔ مَیں ہی زمین و آسمان اور رُوحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں۔ مَیں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے۔ ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے۔ مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا مَیں پیدا کرنے والا ہوں۔ اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش کوئی جسمانی اورمخلوق چیز ہے تو میں اس کو قبل اس کے جو قادیان سے باہر جائے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا۔ مَیں اُس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ مَیں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کروں گا۔ ورنہ میں بادب کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود لعنت کا محل ہوگا جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے۔اب ظاہر ہے کہ اس اعتراض کی بنیاد تو محض اس بات پر ہے کہ عرش کوئی علیحدہ چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے اور جب یہ امر ثابت نہ ہو سکا تو کچھ اعتراض نہ رہا۔ خدا صاف فرماتا ہے کہ وہ زمین پر بھی ہے اور آسمان پر بھی اورکسی چیز پر نہیں بلکہ اپنے وجود سے آپ قائم ہے اور ہر ایک چیز کو اُٹھائے ہوئے ہے اور ہر ایک چیز پر محیط ہے۔ جہاں تین ہوں تو چوتھا ان کا خداہے۔ جہاں پانچ ہوں تو چھٹا ان کے ساتھ خدا ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں خدا نہیں اور پھر فرماتا ہے۔ اَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ (البقرہ:۱۱۶)۔جس طرف تم منہ کرو اسی طرف خدا کا منہ پاؤ گے۔ وہ تم سے تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہی ہے جو پہلے ہے اور وہی ہے جو آخر ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے اور وہ نہاں در نہاں ہے اور پھر فرماتا ہے۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(البقرہ:۱۸۷)یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے۔ پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں جو شخص مجھ پر ایمان لاکر مجھے پکارتا ہے تو مَیں اس کا جواب دیتا ہوں۔ ہر ایک چیز کی کَلْ میرے ہاتھ میں ہے اور میرا علم سب پر محیط ہے۔میں ہی ہوں جو زمین و آسمان کو اٹھا رہا ہوں۔ مَیں ہی ہوں جو تمہیں خشکی تری میں اُٹھا رہا ہوں۔
یہ تمام آیات قرآن شریف میں موجود ہیں۔ بچہ بچہ مسلمانوں کا ان کو جانتا اور پڑھتا ہے۔ جس کا جی چاہے وہ ہم سے آکر ابھی پوچھ لے۔ پھر ان آیات کو ظاہر نہ کرنا اور ایک استعارہ کو لے کراس پر اعتراض کر دینا کیا یہی دیانت آریہ سماج کی ہے ایسا دنیا میں کون مسلمان ہے جو خدا کو محدود جانتا ہے یا اس کے وسیع اور غیر محدود علم سے منکر ہے۔ اب یاد رکھو کہ قرآن شریف میںیہ تو کہیں بھی نہیں کہ خدا کو کوئی فرشتہ اُٹھا رہا ہے بلکہ جابجا یہ لکھا ہے کہ خدا ہرایک چیز کو اُٹھا رہا ہے ہاں بعض جگہ یہ استعارہ مذکورہے کہ خدا کے عرش کو جو دراصل کوئی جسمانی اور مخلوق چیز نہیں فرشتے اٹھارہے ہیں۔ دانشمند اس جگہ سے سمجھ سکتا تھا کہ جبکہ عرش کوئی مجسم چیز ہی نہیں تو فرشتے کس چیز کو اٹھاتے ہیں۔ ضرور کوئی یہ استعارہ ہوگا مگر آریہ صاحبوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کیونکہ انسان خود غرضی اور تعصب کے وقت اندھا ہو جاتا ہے۔ اب اصل حقیقت سنو کہ قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے۔‘‘(نسیمِ دعوت، روحانی خزائن، جلد ۱۹ صفحہ۴۵۳-۴۵۵)
یہ انعامی چیلنج صرف آریہ مذہب کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ مذکورہ بالا غیر احمدی علماء سمیت ہر اس شخص کے لیے ہے جو یہ مانتا ہے کہ عرش ایک جسمانی چیز ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر بیٹھا ہے۔ اس بارے میں تفصیل تفسیر سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زیر تفسیر سورۂ الاعراف آیت ۵۵ اور تفسیر کبیر از سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓ زیر تفسیر سورۂ یونس آیت ۴ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مختصرًا عرض ہے کہ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چشمۂ معرفت میں بیان فرمودہ ایک لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ عرش درحقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات تنزیہیہ کا نام ہے جو ازلی و ابدی ہیں جن کا ظہور صفات تشبیہیہ کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور وہ حامل عرش کہلاتی ہیں۔ عرش کے پانی پر ہونے کے بارے میں حضورؓ فرماتے ہیں کہ پانی سے مراد الہامی زبان کے مطابق کلام الٰہی ہے۔
ان تمام عقلی و نقلی نکات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسم اور جہت سے پاک ہے اور کسی ایک طرف نہیں بلکہ ہر جگہ ہے۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اللہ کی طرف اٹھانے سے مراد انہیں جسم سمیت آسمان کی طرف اٹھانا نہیں بلکہ درجات کی بلندی اور یہود کی ناپاک سازش سے بچانا مراد ہے۔