فرانس میں جماعت احمدیہ کا پیغام
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
امير المومنين حضرت خليفۃ المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز گذشتہ چند دنوں سے فرانس کا دورہ فرما رہے ہيں جوحضورِ انور کا فرانس کا ساتواں دورہ ہے۔
فرانس رقبے کے لحاظ سے مغربي يورپ کا سب سے بڑا ملک ہے اور آبادي کے لحاظ سے اس کا شمار دوسرے نمبر پر ہے۔فرانس میں 5؍ملین کے لگ بھگ مسلمان رہائش پذیر ہیں جن میں ايک بڑي تعداد شمالي افريقہ اور مشرق وسطیٰ سے آکرآباد ہوئی ہے۔
بدقسمتي سے گذشتہ چند سالوں ميں دہشت گردي کے افسوس ناک واقعات رونما ہونے کی وجہ سے فرانس میں مسلمانوں کے متعلق منفی خیالات مزید بڑھ گئے ہیں جو قبل ازیں بھی باقی یورپی ممالک کی نسبت زیادہ تھے۔ چنانچہ فرانس کی نصف آبادی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔ نیز ایک سروے کے مطابق بھی یہ ظاہر ہوا ہے کہ فرانس کی کم و بیش نصف آبادی اس کی بات قائل ہے کہ اسلام ان کے ملک کے اقدار اور روایات کا مخالف ہے۔
اسلام کے حوالہ سے منفی خیالات اور خوف ان ملکی قوانین سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو بطور خاص اسلامي اقدار پر حملہ کرنے کے ليے بنائے گئے ہيں۔ يورپي ممالک ميں فرانس وہ پہلا ملک ہے جس نے(2011ء ميں) نقاب پر پا بندي لگائي تھي۔ اس سے قبل 2004ء سے سکولوں ميں کسي بھي قسم کے مذہبي Symbolپہننے کي ممانعت ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود جماعت احمديہ اس ملک میں اسلام کا حقيقي پيغام پھيلانے کا جہاد کرنے کی توفیق پا رہي ہے۔ گذشتہ ایام میں جلسہ سالانہ فرانس کے موقعے پر حضور انور ايّدہ اللہ تعاليٰ نے پُر معارف خطابات ارشاد فرمائے جن کے ذريعہ احباب جماعت کو اپني روحاني ترقي اورعملي اصلاح کے سامان ميسر آئے۔ اسي طرح حضورِ انور نے غير از جماعت مہمانوں کے ساتھ منعقد ہونے والي ايک نشست سے بھی خطاب فرمایا جس ميں حضور انور نے واضح فرمایا کہ اسلام کي حقيقي اور خوبصورت تعليم پر عمل کرنے سے ہی دنیا میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہے۔
آج جب حضرت خليفة المسيح مملکتِ فرانس ميں اسلام کے حقيقي پيغام کا پرچار کرتے ہيں تو ہميں اس ملک میں جماعت کے مشن کي ابتدا کي ياد آتي ہے جب پہلي مرتبہ خليفۃ المسيح کے قدم اس سر زمين پر پڑے اور نہايت مختصر وقت کے لیے اور زبان سے نا واقفيت ہونے کے با وجود اس شہر ميں تبليغ اسلام کا منصوبہ بنايا گيا۔
1924ء ميں آغاز
چنانچہ تاريخ ميں ہميں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضي اللہ عنہ جب 26؍اکتوبر 1924ء کولندن سے پيرس پہنچے تو اسي روز حضور ؓ نے اپنے قافلے کے ممبران کے ساتھ ايک مجلسِ مشاورت منعقد کي اور اِس ملک ميں تبليغ اسلام کے بارہ مشورہ طلب فرمايا۔ قافلے کے ممبران کو تين گروپس ميں تقسيم کر ديا گيا جن کے ذمہ مختلف طبقات کے لوگوں ميں تبليغ کرنا تھا۔
ايک گروپ حضرت صاحبزادہ مرزا شريف احمد صاحبؓ اور حضرت شيخ يعقوب علي عرفاني صاحبؓ پر مشتمل تھا ۔ ان کے ذمہ اخبار نويسوں سے رابطہ کرنا تھا۔ ايک گروپ حضرت حافظ روشن علي صاحب ؓ، چوہدري محمد شريف صاحب اور مولوي عبد الرحمٰن صاحب پر مشتمل تھا۔ ان کے ذمہ مشرقي مصنفين اور مشرقي سفراء سے رابطہ کرنا تھا۔ ايک گروپ حضرت خان ذو الفقار علي خان صاحب اور حضرت چوہدري محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ پر مشتمل تھا ۔ ان کے ذمہ انگريزي اور مغربي سفرا ءسے رابطہ کرنا تھا۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے خود بھی اس دورہ کے دوران الجزائر کے ايک ممتاز مسلمان سيد محمد سماوي ممبر سپريم کونسل، لي جرنل کے ايڈيٹر، لارڈکريو برٹش منسٹر پيرس اور مسٹر گوسٹن ڈيورنڈ(نمائندہ Harverايجنسي) سے ملاقات کي اور اسلام احمديت کے حوالے سے ان کے ساتھ گفتگو فرمائي۔
(ماخوذ از الفضل 18؍دسمبر 1924ء)
95سال بعد
آج سے 95؍سال قبل اسلام کي ترقي اور سربلندي کے ليے حضرت خليفۃ المسيح نےفرانس کا جو دورہ فرمايا تھا جس کے ذريعہ پہلي مرتبہ خليفۃ المسيح کي آواز کے ذريعہ آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے غلام ِصادق کا پيغام براہ راست اس قوم کے باشندوں تک پہنچا۔ آج ہم ديکھتے ہيں کہ اللہ تعاليٰ نے وہ دن بھي دکھايا کہ کجا وہ وقت کہ حضرت مصلح موعودؓ کےہم سفر احباب خود جا جا کر صحافيوں اور دیگر معززين سے رابطہ کر کے ان کو آگاہ کرتے ہيں کہ اُن کے شہر ميں مسيح محمديؐ کا خليفہ موجود ہے جو ان کے ليے فلاح و بہبود کا پيغام لاياہے اور آج اللہ تعاليٰ نے يہ دن بھي دکھايا کہ حضرت خليفة المسيح UNESCOجيسے معروف اور عالمي شہرت کے حامل ادارے ميں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کا حقيقي پيغام پہنچارہے ہیں۔
حضرت امير المومنين ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز کا مشن دنيا ميں پائیدار امن کا قیام ہے۔ بظاہر UNESCO جيسي عالمي تنظيم بھي اس کي دعويدار ہے۔ تاہم خلفائے احمديت نے بار بار دنيا کو اس امر کي طرف توجہ دلائي ہے کہ خدا تعاليٰ کي طرف توجہ کرنے، اس کے حضور جھکے بغير کسي بھي تنظيم يا سياسي نظام کے پيچھے چل کر دنيا ميں قیامِ امن کي ضمانت نہيں دي جا سکتي۔
چنانچہ حضور انور نےایک موقع پر فرمايا:
‘‘تاريخ کے اس نازک موڑ پر ميرا يہ پختہ يقين ہے کہ ہمارے دور کے بڑے مسائل کے خاتمہ کا صرف ايک ہي طريقہ ہے، صرف ايک ہي راستہ ہے جو ہميں نجات کي طرف لےجا سکتا ہے اور ہميں اس دنيا ميں جنگ و جدل سے چھٹکارا دلا سکتا ہے اور وہ راستہ اللہ تعاليٰ کا ہے۔ امن طاقت اور مال کے ذريعہ سے قائم نہيں ہوتا بلکہ امن تو خدا تعاليٰ کي ذات ميں ہے۔ پس يہ وقت کي ضرورت ہے کہ بني نوع انسان اپنے خالق کو پہچانے۔
…اس زمانہ ميں اللہ تعاليٰ نے دنيا کي اصلاح کے لیے بانئ سلسلہ احمديہ کو مصلح بنا کر بھيجا تاکہ آپؑ بني نوع انسان کو ہدايت ديں اور اسلام کي حقيقي تعليمات پر روشني ڈاليں جوعرصہ سے بھلائي جا چکي تھيں۔ نيز آپؑ اس ليے آئے کہ مسلمانوں اور غير مسلمانوں کو دکھلاديں کہ اسلام ايک امن، مصالحت، بھائي چارہ اوردوستي کا مذہب ہے۔ اور يہ کہ خدا تعاليٰ نے يہ انسانيت کے لیے چاہا کہ وہ امن ميں رہيں اور اپنے خالق اور ايک دوسرے کے حقوق ادا کريں۔’’
(خطاب حضور انور برموقع جلسہ سالانہ جرمني 2019ء۔ بحوالہ الفضل انٹرنيشنل30؍اگست 2019ءصفحہ3تا4)
اللہ تعاليٰ دنيا کو حضور انور کے پيغام کو سمجھنے اور اس پر عمل پيرا ہونے کي توفيق عطا فرمائے۔ آمين۔
٭٭٭