بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۶۳)
٭…اہلِ فارس سے متعلق سنن ترمذی کی دو معروف روایات کے بارے میں سوال
٭…کیسے فیصلہ کیا جائے کہ مغربی ممالک میں ملنے والا گوشت حلال ہے یا حرام؟
٭…عید الاضحیہ پر قربانی کرنے والے کے بال اور ناخن کاٹنے کے بارے میں راہنمائی
سوال: یوکے سے ایک مربی صاحب نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں سنن ترمذی کی دو روایات بھجوا کر استفسار کیا کہ کیا یہ احادیث ٹھیک ہیں اور کیا ہم انہیں اپنے دلائل میں استعمال کر سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۸؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: سنن ترمذی کی یہ روایات (کتاب التفسیر بَاب وَمِنْ سُورَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) میں روایت ہوئی ہیں۔ ان کا مضمون یہ ہے کہ حضورﷺ نے آیت وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْا أَمْثَالَكُمْ(سورہ محمد:۳۹) یعنی اگر تم پھر جاؤ، تو وہ تمہاری جگہ ایک اور قوم کو بدل کر لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح (سستی کرنے والے) نہیں ہوں گے، کی تلاوت کی، جس پر صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں تو حضورﷺ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ اور اس کی قوم، یہ اور اس کی قوم۔ اور دوسری روایت میں ہےکہ حضرت سلمان فارسیؓ حضورﷺ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چنانچہ صحابہؓ کے سوال کرنے پر حضورﷺ نے آپ کی ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ یہ اور اس کے ساتھی اور ساتھ فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا ستارہ پر چلا گیا تو فارس کے رجال اسے ضرور واپس لے آئیں گے۔
اسی قسم کی ایک روایت صحیح بخاری میں بھی مروی ہے جس میں سورۃ الجمعہ کے نزول پر وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ۔( اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی (وہ اسے بھیجے گا) جو ابھی تک ان سے ملی نہیں) کے بارے میں صحابہ نے دریافت کیا کہ یہ کون خوش قسمت لوگ ہوں گے جن میں آپ کا دوبارہ نزول ہو گا۔ اس پر حضورﷺ نے حضرت سلمان فارسی ؓ پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارہ پر چلا جائے گا تو ان فارسی الاصل لوگوں میں ایک رجل یا رجال اسے ضرور پا لیں گے۔
دراصل ان دونوں روایات میں حضورﷺ نے ایک ہی زمانہ اور ایک ہی واقعہ کی پیشگوئی فرمائی ہے۔ سنن ترمذی کی روایات میں بھی امت مسلمہ کو انذار کیا گیا ہے کہ اگر تم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کو نظر انداز کر کے طرح طرح کی دنیوی برائیوں میں مبتلا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ ایسی قوم سے اپنے ایمان کی نعمت کو اٹھا لے گا۔ اور پھراہل فارس میں سے ایسے نیک اور صالح جواں مرد اس ایمان کو دنیا میں دوبارہ قائم کریں گے۔ اور صحیح بخاری والی روایت میں یہ بشارت عطا فرمائی کہ جب دنیا کے بگڑ جانے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ دنیا کو ایمان کی نعمت سے محروم کر دے گا تو چونکہ دنیا میں ہر طرف ضلالت و گمراہی پھیل جائے گی (جو کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے فرستادوں کی بعثت کا موجب ہوتی ہے) تو اس فساد فی الارض کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ اہل فارس میں ایسے نیک اور صالح لوگوں کو پیدا کرے گا، جو آنحضورﷺ کے مثیل ہوں گے اور ان کا آنا حضورﷺ کا آنا ہوگا۔ اور یہ لوگ ایمان کو ثریا سے لا کر دوبارہ اس دنیا میں قائم کریں گے۔
پس دونوں کتب کی روایات بالکل درست ہیں اور ایک دوسرے کی تائید کر رہی ہیں۔ نیز ایک ہی زمانہ کی بابت ان میں بشارتیں دی گئی ہیں۔ ہم صحیح بخاری کی روایت کو اپنے علم الکلام میں زیادہ اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ یہ کتاب زیادہ مستند ہے اور اسے مسلمانوں کی اکثریت اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ کا درجہ رکھنے کی وجہ سے زیادہ قابل استناد سمجھتی ہے۔
سوال: جامعہ احمدیہ کینیڈا کے ایک طالبعلم نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ آج کل یوکے میں مرغیوں کو ذبح کرنے کی بجائے زیادہ تر گیس کے ذریعہ ان کا دم گھونٹ کر انہیں مارا جاتا ہے۔ یا گردن کاٹنے کی بجائے انہیں Stunکر کے جب ان کے پراتارنے کے لیے انہیں ابلتے ہوئے پانی میں ڈالا جاتا ہے تو وہ مر جاتی ہیں اور ان کا خون نہیں بہتا۔ کیا اس طرح ذبح کیے جانے والے جانوروں کا گوشت کھانا جائز ہے؟ اسی طرح مغربی ممالک میں بہت سے مذبح خانوں میں جانوروں کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کیا جاتا ہے، ذبح کرنے سے پہلے چھریاں بھی ان جانوروں کے سامنے ہوتی ہیں اور جب انہیں ہینگرز پر لٹکایا جاتا ہے توا ن کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ پھر ان مغربی ممالک میں بہت سے دہریہ یا ایسے مذہب کے لوگ جانورذبح کرتے ہیں جو اہل کتاب نہیں ہیں جبکہ اسلام نے صرف اہل کتاب کے کھانے کو جائز قرار دیا ہے۔ تو کیا زیادہ بہتر نہیں کہ ہم بڑے بڑے مذبح خانوں کے گوشت کی بجائے چھوٹی حلال دکانوں سے گوشت لیا کریں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۲؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: گیس کے ذریعہ دم گھونٹ کر مارا جانے والا جانور یا ذبح کیے بغیر ابلتے پانی میں ڈال کر مارا جانے والا جانور اسلامی تعلیم کی رُو سے حلال نہیں ہوتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ صاف طور پر قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَمَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَالۡمُنۡخَنِقَۃُ وَالۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَالۡمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیۡحَۃُ وَمَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ۔(سورۃ المائدہ:۴) یعنی تم پر مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور دم گھٹ کر مرنے والا اور چوٹ لگ کر مرنے والا اور گِر کر مرنے والا اور سینگ لگنے سے مرنے والا اور وہ بھی جسے درندوں نے کھایا ہو حرام کر دیا گیا ہے، سوائے اس کے کہ جسے تم (اس کے مرنے سے پہلے) ذبح کر لو۔
باقی جہاں تک جانوروں کو Stun کرنے کی بات ہے تو انہیں کسی قدر تکلیف سے بچانے کے لیے Half Stun کیا جاتا ہے، جس کے بعد انہیں ذبح بھی کیا جاتا ہے، جس سے ان کا خون بہ جاتا ہے، کیونکہHalf Stunہونے کی صورت میں بھی ان کا دل اور دماغ دونوں کام کررہے ہوتے ہیں۔ البتہ اگر ان جانوروں کوگردن کی نچلی طرف سے ذبح کرنے کی بجائے،اوپر کی طرف سے جھٹکے کے طریق پر گردن کاٹ کر مارا جائے تو ایسی صورت میں بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کاکھانا جائز نہیں۔ لیکن مغربی ممالک میں زیادہ تر جانوروں کو گردن کی نچلی طرف سے ہی ذبح کیا جاتا ہے۔
باقی رہی یہ بات کہ ان جانوروں کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کیا جاتا ہے یا چھریاں ان کے سامنے ہوتی ہیں، یا ذبح کرنے کے بعد انہیں ہینگرز پر لٹکانے سے بعض اوقات ان کی ہڈیاں ٹوٹ جاتی ہیں، یا ایسے لوگ انہیں ذبح کرتے ہیں جو دہریہ یا ایسے مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں جو اہل کتاب نہیں ہیں، اس لیے وہ ان جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے۔تو ان باتوں سے ذبح کیے گئے جانور کے گوشت کے حلال و حرام ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ ان جانوروں کو انسانی صحت کے اصولوں کے مطابق گردن کی نچلی جانب سے ذبح کیا گیا ہو اور ان پر اللہ کے سوا کسی اَور کا نام نہ لیا گیا ہو۔ ایسے گوشت کو اگر کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لی جائے تو اس کا کھانا جائز ہے۔
پس بہت زیادہ مین میکھ نکال کر اور وہم میں پڑ کر اپنے لیے بلا وجہ مشکلات پیدا نہیں کرنی چاہئیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے،حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں۔ أَنَّ قَوْمًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَنَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمُّوا اللَّهَ عَلَيْهِ وَكُلُوهُ۔(صحیح بخاری کتاب البیوع بَاب مَنْ لَمْ يَرَ الْوَسَاوِسَ وَنَحْوَهَا مِنْ الشُّبُهَاتِ)یعنی کچھ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ایک جماعت ہمارے پاس گوشت لے کر آتی ہے، ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے (اسے ذبح کرتے وقت) اس پر اللہ کا نام لیا ہوتا ہے یا نہیں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا تم اس گوشت پر اللہ کا نام (بسم اللہ )پڑھ لیاکر و اور اسےکھالیا کرو۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا گیاکہ کیا ہندوؤں کے ہاتھ کا کھانا درست ہے؟ فرمایا: شریعت نے اس کو مباح رکھا ہے۔ ایسی پابندیوں پر شریعت نے زور نہیں دیا بلکہ شریعت نے تو قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاپر زور دیا ہے۔ آنحضرتﷺ آرمینیوں کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں کھا لیتے تھے اور بغیر اس کے گذارہ بھی تو نہیں ہوتا۔ (الحکم نمبر ۱۹، جلد ۸، مؤرخہ ۱۰؍جون۱۹۰۴ءصفحہ۳)
پس انسان کو وہموں اور شک و شبہ میں مبتلا ہوئے بغیر تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنے معاملات اور دنیاوی امور کو بجا لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اورجہاں براہ راست کسی ممنوع کام میں پڑنے کا امکان ہو یا کسی چیز کی حرمت واضح طور پر نظر آتی ہواس سےبہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔چنانچہ اس بارے میں حضورﷺ کی ایک اورحدیث ہماری بہترین راہنمائی کرتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں۔مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَأْثَمْ فَإِذَا كَانَ الْإِثْمُ كَانَ أَبْعَدَهُمَا مِنْهُ۔(صحیح بخاری کتاب الحدود بَاب إِقَامَةِ الْحُدُودِ وَالِانْتِقَامِ لِحُرُمَاتِ اللّٰهِ)یعنی نبی کریمﷺ کو جب بھی دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان صورت کو اختیار کیا جب تک کہ وہ گناہ کی بات نہ ہو۔ اگر وہ گناہ کی بات ہوتی تو آپ اس سے بہت زیادہ دُور رہتے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بھی آتا ہے کہ ایک موقع پرامریکہ اور یورپ کی حیرت انگیز ایجادات کا ذکر ہوا۔اسی میں یہ ذکر بھی آیا کہ دودھ اور شوربا وغیرہ جو کہ ٹینوں میں بند ہو کر ولایت سے آتا ہے بہت ہی نفیس اور ستھرا ہوتا ہے اور ایک خوبی ان میں یہ ہوتی ہے کہ ان کو بالکل ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔دودھ تک بھی بذریعہ مشین دوہا جاتا ہے۔اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:چونکہ نصاریٰ اس وقت ایک ایسی قوم ہو گئی ہے جس نے دین کی حدود اور اس کے حلال وحرام کی کوئی پروا نہیں رکھی اور کثرت سے سؤر کا گوشت اُن میں استعمال ہوتا ہے اور جو ذبح کرتے ہیں اس پر بھی خدا کا نام ہرگز نہیں لیتے بلکہ جھٹکے کی طرح جانوروں کے سر جیساکہ سنا گیا ہے علیحدہ کر دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے شبہ پڑ سکتا ہے کہ بسکٹ اور دودھ وغیرہ جو اُن کے کارخانوں کے بنے ہوئے ہوں اُن میں سؤر کی چربی اور سؤر کے دودھ کی آمیزش ہو۔اس لیے ہمارے نزدیک ولایتی بسکٹ اور اس قسم کے دودھ اور شوربے وغیرہ استعمال کرنے بالکل خلاف تقویٰ اور ناجائز ہیں۔جس حالت میں کہ سؤر کے پالنے اور کھانے کا عام رواج ان لوگوں میں ولایت میں ہے تو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسری اشیائے خوردنی جو کہ یہ لوگ تیار کرکے ارسال کرتے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حصہ اس کانہ ہوتا ہو۔
اس پر ابو سعید صاحب المعروف عرب صاحب تاجر برنج رنگون نے ایک واقعہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں یوں عرض کیا کہ رنگون میں بسکٹ اور ڈبل روٹی بنانے کا ایک کارخانہ انگریزوں کا تھا۔وہ ایک مسلمان تاجر نے قریب ڈیڑھ لاکھ روپے کے خرید لیا۔جب اس نے حساب و کتاب کی کتابوں کو پڑتال کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ سؤر کی چربی بھی اس کا رخانہ میں خریدی جاتی رہی ہے۔دریافت پر کارخانہ والوں نے بتایا کہ ہم اُسے بسکٹ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر یہ چیزیں لذیذ نہیں ہوتیں اور ولایت میں بھی یہ چربی ان چیزوں میں ڈالی جاتی ہے۔
اس واقعہ کے سننے سے ناظرین کو معلوم ہو سکتاہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خیال کس قدر تقویٰ اور باریک بینی پر تھا۔ لیکن چونکہ ہم میں سے بعض ایسے بھی تھے جن کو اکثر سفر کا اتفاق ہوا ہے اور بعض بھائی افریقہ وغیرہ دور درازا مصاروبلاد میں ابتک موجود ہیں جن کو اس قسم کے دودھ اور بسکٹ وغیرہ کی ضرورت پیش آسکتی ہے اس لیے اُن کو بھی مد نظر رکھ کر دوبارہ اس مسئلہ کی نسبت دریافت کیا گیا۔ اور نیز اہل ہنود کے کھانے کی نسبت عرض کیا گیا کہ یہ لوگ بھی اشیاء کو بہت غلیظ رکھتے ہیں اور ان کی کڑاہیوں کو اکثر کتے چاٹ جاتے ہیں۔اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک نصاریٰ کا وہ طعام حلال ہے جس میں شبہ نہ ہو اور ازروئے قرآن مجید کے وہ حرام نہ ہو۔ورنہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ بعض اشیاء کو حرام جان کر گھر میں تو نہ کھایا مگر باہر نصاریٰ کے ہاتھ سے کھا لیااور نصاریٰ پر ہی کیا منحصر ہے اگر ایک مسلمان بھی مشکوک الحال ہو تو اس کا کھانا بھی نہیں کھا سکتےمثلاً ایک مسلمان دیوانہ ہے اور اسے حرام و حلال کی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کے طعام یا تیار کردہ چیزوں پر کیا اعتبار ہو سکتاہے۔اسی لیے ہم گھر میں ولایتی بسکٹ استعمال نہیں کرنے دیتے بلکہ ہندوستان کی ہندو کمپنی کے منگوایا کرتے ہیں۔
عیسائیوں کی نسبت ہندوؤں کی حالت اضطراری ہے کیونکہ یہ کثرت سے ہم لوگوں میں مل جل گئے ہیں اور ہر جگہ انہی کی دوکانیں ہوتی ہیں۔اگر مسلمانوں کی دوکانیں موجود ہوں۔اور سب شئے وہاں ہی سے مل جاوے تو پھر البتّہ ان سے خوردنی اشیاء نہ خریدنی چاہئیں۔ (البدر نمبر۲۷، جلد ۳، مورخہ ۱۶؍جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ۳)
پس خلاصہ کلام یہ کہ انسان کو نہ تو بہت زیادہ وہموں میں پڑ کر جائز اشیاء کے استعمال سے بلا وجہ کنارہ کشی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی غیر محتاط انداز اختیار کر کے ہر جائز و ناجائز چیز کو استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ ایک مناسب اور محتاط حد تک معاملات کی تحقیق کر کے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ کیا عید الاضحیہ کی قربانی کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذی الحجہ کا چاند نکلنے سے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔ اور کیا یہ حکم بیرون ملک رہنے والوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو خود قربانی کرنے کی بجائے جماعت کو یا کسی عزیز کو رقم دےکر قربانی کرواتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۲؍اگست ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: احادیث میں آتا ہے کہ قربانی کرنے والا ذوالحجہ کا چاند نکلنے کے بعد قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ ؓکی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو تو جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہواسے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہیں کٹوانے چاہئیں۔ (صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ)علاوہ ازیں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ مدینہ سے قربانی کا جانور بھیجتے تو میں آپ کی قربانی کے جانور کے ہار بٹتی، پھر آپؐ ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے تھے جن سے محرم پرہیز کرتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الحج بَاب فَتْلِ الْقَلَائِدِ لِلْبُدْنِ وَالْبَقَرِ)
ان دونوں قسم کی احادیث کی بنا پر فقہاء کی اس مسئلہ کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ بعض فقہاء قربانی کرنے والے کے لیے بال اور ناخن کٹوانا حرام قرار دیتے ہیں۔شافعیہ کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ ہے حرام نہیں ہے۔ امام مالک کی ایک روایت کے مطابق ایسا کرنا مکروہ ہے اور ایک دوسری روایت کے مطابق مکروہ نہیں ہے۔جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے۔ (شرح النووی علی مسلم کتاب الاضاحی باب من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ)
سیدناحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں :جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں ان کو چاہیے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں۔ اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ عام لوگوں میں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔ (اخبار الفضل قادیان دارالامان، نمبر۲۴، جلد ۵، مورخہ ۲۲؍ستمبر۱۹۱۷ء صفحہ۴)
خلاصہ کلام یہ کہ قربانی کرنے والے کے لیے بال اور ناخن نہ کٹوانا مستحب اور پسندیدہ امر ہے، لازمی اور ضروری نہیں ہے۔ اس لیے اگر کوئی قربانی کا ارادہ کرنے والا شخص اپنے بال یا ناخن کاٹ لے تو اس سے اس کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔اسی طرح خود قربانی کریں یا کسی کے ذریعہ قربانی کروائیں ہر دو حالتوں پر ایک ہی قسم کا حکم لاگو ہوگا۔