منظوم کلام حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام
کیا خدا بھولا رہا تم کو حقیقت مِل گئی
کیا رہا وہ بے خبر اور تم نے دیکھا حالِ زار
بدگمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کر دیا
ورنہ تھے میری صداقت پر بَراہیں بیشمار
جہل کی تاریکیاں اور سُوءِ ظن کی تُندباد
جب اکٹھے ہوں تو پھر ایماں اُڑے جیسے غبار
زہر کے پینے سے کیا انجام جز موت و فنا
بدگمانی زہر ہے اس سے بچو اَے دیں شعار
کانٹے اپنی راہ میں بوتے ہیں ایسے بدگماں
جن کی عادت میں نہیں شرم و شکیب و اصطبار
یہ غلط کاری بشر کی بدنصیبی کی ہے جڑ
پر مقدّر کو بدل دینا ہے کس کے اِختیار
سخت جاں ہیں ہم کسی کے بُغض کی پروا نہیں
دِل قوی رکھتے ہیں ہم دَردوں کی ہے ہم کو سہار
جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اَے روبۂ زار و نزار
ہے سرِ رہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم
پس نہ بیٹھو میری رہ میں اَے شریرانِ دیار
سنّت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے
تا عیاں ہو کون پاک اور کون ہے مُردار خوار
(در ثمین صفحہ ۱۴۹)