ہمیں دنیا کے شغلوں اور مالوں کو کس حد تک اپنانا چاہیے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍مئی ۲۰۱۷ء)
انسان پر مصیبتیں آتی ہیں۔ مشکلات آتی ہیں۔ اس کی وجہ سے جو مال ضائع ہوا ہے اس کے اوپر رونے دھونے نہ لگ جاؤ بلکہ سمجھو کہ اس وجہ سے شاید اللہ تعالیٰ میرا امتحان لے رہا ہے اور اس کا بھی مجھے ثواب ملے گا۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ دنیاوی مالوں کے نقصان پر اتنی جزع فزع انسان نہ کرے جس سے شرک کی بُو آنے لگے۔ کئی کاروباری لوگ ہوتے ہیں جو مالی نقصان پر ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ بعض خود کُشیاں کر لیتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ پر توکّل ہو اور قناعت ہو تو کبھی یہ حالت پیدا نہیں ہوتی۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سے، مومنین سے، اپنی اُمّت کے افراد سے زُہد اور دنیا سے بے رغبتی کے یہ معیار چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے احمدیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے یہ ادراک عطا فرمایا ہے کہ دنیا کے نقصان ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف پہلے سے بڑھ کر رجوع کرنا چاہئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اور بعض اور جگہوں پر بھی احمدیوں کے لاکھوں اور کروڑوں کے کاروبار مخالفین نے تباہ کئے اور جلائے بلکہ ایک وقت میں پاکستان کے ایک وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دوں گا اور اب یہ مانگتے پھریں گے کیونکہ میں نے کشکول پکڑا دیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھنے والے ان احمدیوں نے نہ حکومت سے مانگا، نہ کشکول لے کر کسی اَور سے مانگا بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کی وجہ سے اُن کا ہزاروں اور لاکھوں کا جو کاروبار تباہ ہوا تھا وہ کروڑوں میں بدل گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بڑی تفصیل سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ ہمیں دنیا کے شغلوں اور مالوں کو کس حد تک اپنانا چاہئے۔ قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو سمجھتے ہوئے سب سے زیادہ فہم اور اِدراک تو آپ کو تھا۔
چنانچہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے دنیا کے شغلوں کو جائز رکھا ہے کیونکہ اس راہ سے بھی ابتلاء آتا ہے۔‘‘ (مطلب یہ ہے اگر دنیاوی کام کوئی نہیں کر رہا۔ مالی حالات بہت برے ہیں تو تب بھی ابتلاء آ جاتا ہے۔ انسان مشکلات میں گرفتار ہو جاتا ہے اور فرمایا کہ اسی ابتلاء کی وجہ سے انسان پھر چور بھی بن جاتا ہے۔ قمار باز بھی بن جاتا ہے۔ جؤا کھیلنے لگ جاتا ہے۔ ٹھگ بن جاتا ہے۔ ڈکیت بن جاتا ہے اور کیا کیا بری عادتیں اختیار کر لیتا ہے۔ مالی کمزوری بھی برائیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔) فرمایا ’’مگر ہر ایک چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ دنیوی شغلوں کو اس حد تک اختیار کرو کہ وہ دین کی راہ میں تمہارے لئے مدد کا سامان پیدا کر سکیں اور مقصود بالذات اس میں دین ہی ہو‘‘۔ (یعنی اس سے تمہارا مقصد دین حاصل کرنا ہو۔ یعنی کہ دین کبھی بھی ثانوی حیثیت نہ رکھے۔ دنیا کماؤ، دنیا سے فائدہ اٹھاؤ لیکن ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کا تقویٰ تمہارے سامنے ہو۔ دین کی تعلیم تمہارے سامنے ہو۔) فرمایا کہ ’’پس ہم دنیوی شغلوں سے بھی منع نہیں کرتے اور یہ بھی نہیں کہتے کہ دن رات دنیا کے دھندوں اور بکھیڑوں میں منہمک ہو کر خدا تعالیٰ کا خانہ بھی دنیا ہی سے بھر دو۔‘‘ (یعنی خدا یاد ہی نہ رہے۔ عبادتوں کے وقت بھی دنیاوی چیزوں میں ملوّث ہو۔ نمازوں کے وقت میں انٹرنیٹ پر مصروف ہو۔ فلمیں دیکھنے میں مصروف ہو یا کوئی اور دنیاوی پروگرام دیکھ رہے ہو۔ یہ نہیں۔) فرمایا کہ ’’اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ محرومی کے اسباب بہم پہنچاتا ہے اور اس کی زبان پر نرا دعویٰ ہی رہ جاتا ہے۔‘‘ (پھر دعویٰ ہے، حقیقت کی بیعت نہیں ہے۔ ایمان نہیں ہے۔) ’’الغرض زندوں کی صحبت میں رہو تاکہ زندہ خدا کا جلوہ تم کو نظر آوے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۷۳۔ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
پھر ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ انسان دنیا سے کوئی غرض اور واسطہ ہی نہ رکھے۔‘‘ فرمایا کہ ’’میرا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول سے منع کرتا ہے بلکہ اسلام نے رہبانیت کو منع فرمایا ہے۔ یہ بزدلوں کا کام ہے۔‘‘ (دنیا سے ہٹ کے رہو گے تو یہ بھی بزدلوں کا کام ہے۔) ’’مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں‘‘ (کہ دنیا کے تعلقات بھی ہوں لیکن دنیا مقصود بھی نہ ہو) ’’کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذّات نہ ہو بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔ جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری اور زادِ راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتی ہے، نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات۔ اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر۔‘‘
پھر اس تسلسل میں آپ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی اس دعا کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً(البقرۃ:۲۰۲) کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً اس میں بھی دنیا کو مقدّم کیا ہے۔ لیکن کس دنیا کو؟ حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کو۔‘‘اس دنیا کی حسنات کو، ایسی دنیا کو’’جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جاوے۔ اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسناتُ الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حَسَنَۃُ الدُّنْیَاکے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آ گیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصولِ دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئے۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔ نہ وہ طریق جو کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسائی کا موجب ہو، نہ ہم جنسوں میں کسی عار و شرم کا باعث۔ ایسی دنیا بیشک حَسَنَۃُ الْآخِرَت کا موجب بن جاتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۹۱۔۹۲ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)…
پس ہمیں ان ملکوں کی آسائشیں اور آرام خدا تعالیٰ کی عبادت سے غافل کرنے و الے نہ ہوں۔ اس کے حق ادا کرنے سے محروم کرنے والے نہ ہوں۔ ہمارے اچھے حالات، ہمارے بہتر مالی حالات جو ہیں ہمیں اپنے کمزور مالی حالات رکھنے والے بھائیوں کے حق ادا کرنے سے کبھی محروم کرنے والے نہ ہوں۔ اسی طرح اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام میں بھی ہم اپنا کردار ادا کرنے والے ہوں۔ نہ کہ اس مقصد کو بھول جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے کا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھی حق ادا کئے جائیں اور بندوں کے بھی حق ادا کئے جائیں اور تبلیغ کا جو حق ہے، اشاعت اسلام کا جو مقصد ہے اس کو پورا کیا جائے۔ اسی سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا مقصد ہم پورا کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی تلاش میں رہیں اور اس دنیا کی دھوکے والی زندگی کبھی ہم پر حاوی نہ ہو۔ ہم اس دنیا کی جہنم سے بھی بچنے والے ہوں اور آخرت کی جہنم سے بھی بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رضا ہمارے لئے اس دنیا کو بھی جنت بنا دے اور آخرت میں بھی ہم جنّت حاصل کرنے والے ہوں۔