عالمی جنگ اب سامنے کھڑی نظر آرہی ہے (حماس، اسرائیل جنگ کے پیش نظر دعا کی تحریک)
٭…جنگ کے حالات جس تیزی سے شدت اختیار کر رہے ہیںاور اسرائیل کی حکومت اور بڑی طاقتیں جس پالیسی پر عمل کرتی نظر آرہی ہیں اس سے تو عالمی جنگ اب سامنے کھڑی نظر آرہی ہے
٭…احمدیوں کو دعاؤں کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔relax نہ ہو جائیں۔
کم از کم ہر نماز میں ایک سجدہ یا کم از کم کسی ایک نماز میں ایک سجدہ تو ضرور اس کے لیے پڑھنا چاہیے، ادا کرنا چاہیے، اس میں دعا کرنی چاہیے
(اسلام آباد، ٹلفورڈ، ۲۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء) امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء میں دنیا کے موجودہ حالات، حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی خطرناک صورت حال اور مظلومین کے لیے خصوصی دعاؤں کی تحریک فرمائی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ
آج کل دنیا کے جو حالات ہیں دعا کے لیے میں ان کی یاد دہانی دوبارہ کروا دوں۔ حماس اور اسرائیل کی جنگ اور اس کے نتیجے میں معصوم فلسطینی عورتوں اور بچوں کی شہادتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ جنگ کے حالات جس تیزی سے شدت اختیار کر رہے ہیں اور اسرائیل کی حکومت اور بڑی طاقتیں جس پالیسی پر عمل کرتی نظر آرہی ہیں اس سے تو عالمی جنگ اب سامنے کھڑی نظر آرہی ہے۔ اور اب تو بعض مسلمان ملکوں کے سربراہوں نے بھی کھل کے یہ کہنا شروع کردیا ہے، روس، چین نے بھی اور اسی طرح مغربی تجزیہ نگاروں نے بھی یہ کہنا اور لکھنا شروع کردیا ہے کہ اب اس جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا نظر آرہا ہے۔ اگر فوری حکمت والی پالیسی اختیار نہ کی گئی تو دنیا کی تباہی ہے۔ سب کچھ خبروں میں آرہا ہے۔ آپ سب کے سامنے صورتِ حال ہے۔ اس لیے احمدیوں کو دعاؤں کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ relax نہ ہو جائیں۔ کم از کم ہر نماز میں ایک سجدہ یا کم از کم کسی ایک نماز میں ایک سجدہ تو ضرور اس کے لیے پڑھنا چاہیے، ادا کرنا چاہیے، اس میں دعا کرنی چاہیے۔
مغربی دنیا کا تو کسی بھی ملک کا سربراہ ہو وہ اس معاملے میں انصاف سے کام لینا نہیں چاہتا۔ نہ اس بارے میں کچھ کہنے کی جرأت رکھتا ہے۔ احمدی ان بحثوں میں نہ پڑھیں کہ کس ملک کا وزیر اعظم یا سربراہ اچھا ہے اور کس کا اچھا نہیں ہے اور اس کو یہ نہیں کہنا چاہیے اور مسلمانوں کو اس کے خلاف نہیں بولنا چاہیے۔ یہ سب فضول باتیں ہیں۔ جب تک کوئی جرأت سے جنگ بندی کی کوشش نہیں کرتا وہ بہرحال دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے کا ذمہ دار ہے۔
پس اپنے ماحول میں دعاؤں کے ساتھ اس بات کو پھیلانے کی کوشش کریں کہ ظلم کو روکو! اگر کسی احمدی کے کسی سے تعلقات ہیں تو اسے سمجھائیں۔ یہی جرأت ہے، یہی اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کا معیار ہے۔
اسرائیلی حکومت کے نمائندے کہتے ہیں کہ حماس نے ہمارے معصوموں کو مارا، ہم بدلہ لیں گے۔ اور یہ بدلہ اب تمام حدیں پار کرگیا ہے۔ جتنی اسرائیلی جانوں کو نقصان ہوا ہے، جو بیان کی جاتی ہیں اس سے چار پانچ گنا زیادہ فلسطینی جانوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ اگر ان کا حماس کو ختم کرنے کا ٹارگٹ ہے جیسے یہ کہتے ہیں تو پھر ان سے دُو بدو جنگ کریں۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں۔ پھر ان لوگوں کو پانی، خوراک، علاج سب سے محروم کردیا ہے۔ حقوقِ انسانی اور جنگوں کے اصول کے تمام دعوے یہاں آکر ان حکومتوں کے ختم ہوجاتے ہیں۔
ہاں بعض اس طرف توجہ بھی دلاتے ہیں جیسے گذشتہ دنوں امریکہ کے سابق صدر اوباما نے کہا تھا کہ جنگ اگر کرنی بھی ہے تو جنگی اصولوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ سویلین پر ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ یو این (UN) کے سیکرٹری جنرل صاحب بھی بولے تھے۔ اس پر اسرائیلی حکومت نے شور مچا دیا۔ تو باقی دنیا کے امن کے دعویدار جو اپنے آپ کو سب سے بڑا امن کو قائم کرنے والا سمجھتے ہیں یا چیمپین سمجھتے ہیں سیکرٹری جنرل کے بیان کی تائید میں کچھ نہیں بولے بلکہ انہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ بہرحال
حالات خطرناک ہیں اور خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔
مغربی میڈیا ایک طرف کی خبریں تو بڑھا چڑھا کر دیتا ہے اور دوسری طرف کی ایک کونے میں چھوٹی سی خبر۔ جیسے گذشتہ دنوں رہائی پانے والی جو عورتیں تھی، ایک عورت نے کہا کہ مجھ سے قید میں بہتر سلوک ہوا۔ اس کی خبر تو ایک کونے میں چلی گئی اور جو یہ بیان ہے کہ حماس کی قید جہنم تھی اسے مستقل بڑی خبر کا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔
انصاف تو یہ ہے کہ سب صورت حال سامنے رکھی جائے پھر دنیا کو اپنا فیصلہ کرنے دیں کہ کون ظالم ہے، کون مظلوم ہے۔ کس حد تک یہ جنگ جائز ہے اور کہاں جا کے یہ ختم ہونی چاہیے۔
تو دنیا کے سامنے ساری صورتحال آنی چاہیے نہ کہ ایک طرفہ رائے۔ بہرحال ہمیں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے، ظلم کو ختم کرنے کے لیے اپنے دائرے میں کوشش بھی کرنی چاہیے اور دعا بھی۔ مسلمان مظلوموں کے لیے بھی اور مسلمان حکومتوں کو ایک جامع اور دیرپا منصوبہ بندی بنانے کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔
مسلمانوں کی مشکلات دور ہونے کے لیے ہمیں خاص درد رکھنا چاہیے۔
ہم تو اس مسیح موعود کے ماننے والے ہیں جس نے مسلمانوں کے لیے، باوجود اس کے کہ تکلیفیں ہمیں پہنچتی رہتی ہیں ان سے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ
’’اے دل! تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار
کاخر کنند دعو اٰیٔ حبِّ پیمبرم‘‘
کہ اے دل تُو ان لوگوں کا لحاظ رکھ۔ آخر وہ میرے پیغمبر کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ پس آنحضرتﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی دے اور مسلمانوں کو بھی اور دنیا کو عقل بھی دے۔ (آمین)