تاج محل
تاج محل یعنی مقبرہ ملکہ ممتاز محل زوجہ شاہ جہاں (۱۶۲۷ء۔۱۶۵۹ء)بھار ت کے شہر آگرہ میں واقع سنگ مرمر سے بنی ایک عظیم الشان عمارت ہےجسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نےاپنی زوجہ کی یادگار کے طور پر دریائے جمنا کے ساحل پر بنایاتھا۔تاج محل اپنے فن تعمیر کی خوبیوں اور خصوصیتوں کی بنا پردنیا بھر میں مشہور ہے اور عجائبات عالم میں شمارہوتاہے۔ہرسال لاکھوں سیاح اس کو دیکھنے کے لیےآتے ہیں۔دنیا کی مختلف زبانوں کی نظم ونثر میں تاج محل اور اس کے عجائب پر اس قدر لکھاجاچکا ہے کہ ان سب کا احاطہ ایک علیحدہ کتاب کا متقاضی ہے۔
تاج محل مغل طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز میں فارسی،ترک،بھارتی اور اسلامی طرز تعمیر کا انوکھاملاپ نظر آتا ہے۔
۱۹۸۳ء میں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کیا۔اس کے ساتھ ہی اسے عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی،بہترین تعمیر ات میں سے ایک بتایاگیا۔تاج محل کو بھارت کے اسلامی فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ استاد احمد لاہوری کو عام طورپر اس کامعمار خیال کیا جاتا ہے۔
تعمیر
کہاجاتا ہے کہ عیسیٰ شیرازی نامی ایک ایرانی انجینئر نے اس کا نقشہ تیار کیا تھالیکن بادشاہ نامے میں لکھاہے کہ خود شاہ جہاں نے اس کاخاکہ تیار کیا۔یہ عمارت ۱۶۳۲ء سے ۱۶۵۳ء تک کل بیس سال سے زائد عرصے میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر پر ساڑھے چار کروڑ روپے صرف ہوئے اور بیس ہزار معماروں اور مزدوروں نے اس کی تکمیل میں حصہ لیا۔یہ تمام عمارت سنگ مر مر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی ۱۳۰ فٹ اوربلندی ۲۰۰ فٹ ہے۔عمارت کی مر مری دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچّی کاری کی ہوئی ہے۔ پچّیکاری (Mosaic) ایک فنکارانہ ترکیب ہے جس میں روغنی مٹی، شیشوں، قیمتی پتھروں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ان سے نقش یا تصویر بنائی جاتی ہے۔ مقبرے کے اندر اور باہر پچّی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمار ت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترہ جو سطح زمین سے سات میٹر اونچاہے۔اس کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہےاور سامنے کی طرف کرسی کے نیچے ایک حوض ہے جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے۔اس مقبرے کے اندرملکہ ممتاز محل اور شاہ جہان کی قبریں ہیں۔
سیاحت
ہر سال اس تاریخی یادگار کو۳۰؍ لاکھ افراد دیکھنے آتے ہیں۔یہ تعدا د بھارت کے کسی بھی سیاحتی مقام پر آنے والے افراد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔تاج محل مغلیہ دور کے فن تعمیر کاایک عظیم شاہکار ہےاور ایک ایسی بےمثال عمارت ہےجو تعمیر کے بعد ہی سے دنیا بھرکے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی۔محبت کی یہ لازوال نشانی شاعروں،ادیبوں ، مصوروں اور فنکاروں کے لیے اگرچہ وجدان کا محرّک رہی ہےلیکن حقیقت میں یہ ایک مقبرہ ہے۔ سنہ ۱۸۷۴ء میں ایک برطانوی سیاح ایڈ ورڈ لیئر نے کہا تھا کہ دنیا کے باشندوں کو دوحصوںمیں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ ایک وہ جنہوں نے تاج محل کادیدار کیا اور دوسرے وہ جو اس سے محروم رہے۔
پیلا تاج محل
آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث محبت کی اس عظیم یادگار کی رنگت سفید سےپیلی ہوگئی ہے۔یہ بات مئی ۲۰۰۷ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔اس رپورٹ کے مطابق آگرہ میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سےتاج محل کے جگمگاتے سفید سنگ مرمر کو نقصان پہنچا۔ آلودگی کے باعث اس تاریخی یادگار کی حقیقی خوبصورتی متاثر ہورہی ہے۔رپورٹ میں تاج محل کی خوبصورتی بچانے اور سنگ مرمر کو اس کی اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لیے اسے صاف کرنے کی سفارش کی گئی۔
عجوبہ
۲۰۰۷ء میں ایک بین الاقوامی مقابلے کے ذریعے طے پانے والے دور جدید کے سات عجائبات میں آگرہ کے تاج محل کو بھی شامل کیا گیا۔
(اے اے امجد )