اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
مئی۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ہجوم کے ہاتھوں ایک اور پُر تشدد قتل
مردان،خیبر پختونخواہ۔۶؍مئی ۲۰۲۳ء: پاکستان تحریک انصاف کا ایک ریلی سے خطاب کرنے والا کارکن توہین کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں قتل۔ خیبرپختونخواہ کے نگران وزیر اعلیٰ نے اس واقعہ کی مذمت کی اور پولیس کو حکم دیا کہ قانون کے نفاذ اور امن عامہ کی صورتحال کو یقینی بنائیں۔
یہاں پر قتل ہونے والا شخص احمدی نہیں تھا بلکہ ایک دیوبندی ملاں تھا۔وہ تحریک انصاف کا حامی تھا اور تحریک انصاف کے حامیوں کے ہاتھوں ہی قتل ہوا۔یہ واقعہ پاکستانی معاشرے میں پھیلی ہوئی صورتحال کو عیاں کرتا ہے۔جس کو انتہائی بدنیتی کے ساتھ جان بوجھ کر اس معاشرے میں پیدا کیا گیا اورپھر اس کا نفاذ کیا گیا۔اور پھر احمدیوں کو بار بار جھوٹے طور پر ان الزامات کا نشانہ بنا کر پھنسایا جاتا ہے۔ یہ تو ایک دیوبندی مولوی تھا جس کو یوں قتل کیا گیا ہے۔ آپ پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کی بے چارگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جن کو اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔
ٹریبیو ن ڈاٹ کام اور ڈیلی ڈان میں چھپنے والی خبروں کے چند اقتباس پیش خدمت ہیں۔ہفتے کے روز مردان میں تحریک پاکستان کا ایک جنون کی حد تک حامی مقامی ملاں توہین کے الزامات کے بعد مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔پولیس کے مطابق نگار نامی مولوی سوادیر ضلع مردان میں تحریک انصاف کے حامیوں کے ہاتھوں اس وقت مارا گیا جب وہ ریلی سے خطاب کر رہا تھا۔
سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مولوی زمین پر گرا ہوا ہے اور لوگ اس کو پتھر مار رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قبل ہی وہ جان سے جاچکا ہے۔
ایک پولیس والے کا بیان ہے کہ جب یہ دیکھا گیا کہ ہجوم سخت مشتعل ہو چکا ہے اور اس کو مارنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے تو ہم اس کو بچا کر ایک دکان کے اندر لےگئے۔ لیکن مشتعل ہجوم دکان کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گیا اور اس کو مکوں،لاتوں اور ڈنڈوں سے مارنا شروع کر دیا۔
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہےکہ مشتعل ہجوم اس ملاں کی لاش کے اوپر اچھل رہا ہے۔ اس نے یہ کہا تھا کہ میں اس الیکشن کے امیدوار کی اسی طرح عزت کرتا ہوں جیسے کہ میں انبیاء کی عزت کرتا ہوں۔
مردان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پانچ سال قبل ۲۳؍اپریل ۲۰۱۷ء کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں میس کام کے طالب علم مشال خان کو بھی توہین کاالزام لگا کر طالبعلموں نے تشدد کرکے اور پھر گولی مارکر قتل کر دیا تھا۔
۹؍مئی ۲۰۲۳ء کو ڈیلی ڈان نے اپنے اداریے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے خلاصہ یوں بیان کیا کہتوہین کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بہت زیادہ اخلاقی جرأت،حوصلہ اور سیاسی اجماع درکار ہے۔ایک حقیقت جس سے پاکستان گریز کر رہا ہے۔
چودھری برادران(شجاعت اور پرویز الٰہی)،پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سیاستدان،عالم آن لائن کا مولوی عامر لیاقت،ایڈووکیٹ اسماعیل قریشی،جمعیت علماء کی سمیعہ راحیل قاضی،منھاج القرآن کا طاہر القادری وغیرہ کھلے عام توہین کے قانون کا سہرا اپنے سر لیتے رہے اور اس کی پُرزور حمایت کرتے رہے۔
تحریک انصاف کے ایک جانے مانے وزیر علی محمد خان نے احمدیت کو ایک فتنہ قرار دیا۔اور اپیل کی کہ توہین کرنے والے کا سر تن سے جدا کیا جائے۔پنجاب اسمبلی میں پرویز الٰہی (مسلم لیگ (ق)، حالیہ صدر تحریک انصاف پنجاب) کی زیرصدرات متفقہ طور پر قرارداد منظور کی گئی کہ وفاق کو چاہیے کہ توہین کے قوانین کو مزید سخت کیا جائے۔مولویوں نے گذشتہ کئی دہائیوں میں سر توڑ کوشش کی ہے کہ عوام کو یہ باور کروا دیا جائے کہ احمدی عقائد ہی درحقیقت توہین ہیں۔اور ایک احمدی کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ ایک توہین مذہب کرنے والا ہے۔ قانون احمدیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں اور یہ ثابت کر سکیں کہ ان پر لگنےوالے الزام جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔
سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ ۶؍مئی کو تحریک انصاف کے جلسے میں ہونے والا قتل تحریک انصاف اور اس کے عمائدین کے عام لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اسلام کے متعلق شدت پسندی کے نظریات پھیلانے میں ان کےحصے اور کردار کا واضح ثبوت ہے۔
معاشرے کے شر پسند عناصر کی احمدیت مخالف مدرسوں اور سکولوں میں برین واشنگ کی جاتی ہے۔
مردان میں پہلے بھی کئی بار احمدیوں پر حملے ہو چکے ہیں لیکن انتظامیہ نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ غنڈہ گردی کرنے والے مُلانوں کا ساتھ دیا ہے۔
پرویز الٰہی اپنی مذہبی شدت پسندی پر پہلے کی طرح کاربند
سوشل میڈیا۔۲؍مئی ۲۰۲۳ء:پرویز الٰہی (مسلم لیگ (ق)، حالیہ صدر تحریک انصاف پنجاب) جماعت احمدیہ کےساتھ نفرت کی حد تک چلا گیا ہے کہ وہ اپنی سیاست کوچمکانےکےلیے مذہب کےاستعمال کی طرف جھکاؤ میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ درحقیقت وہ اپنے اس طریقہ کارکو اپنا ووٹ بینک بڑھانےکےلیےآلہ کار کےطور پر دیکھتا ہے۔ اس کے ایسے احمدیت مخالف بیانات سوشل میڈیا پر بھی موجودہیں اور ان کاذکر ہم نے اپنی گذشتہ رپورٹوں میں بھی کیا ہے۔
بہر حال پرویز الٰہی کو اس کی سیاسی حماقتوں کا خوب صلہ ملا ہے۔اور گذشتہ تین ماہ سے وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہاتھ سے جانےکے بعد سیاست کےجنگل میں حواس باختہ پھر رہا ہے۔اب انتظامی طاقت کھو جانے کی وجہ سے اس کو اپنے سیاسی حریفوں کی طرف سے شدید رد عمل اور بدلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جبکہ اب اس کے ساتھی بھی بد عنوانی،اختیارات کے ناجائز استعمال اور بھتہ خوری کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مبینہ طور پر مئی کے ابتدائی دنوں میں پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور اس کے گھر کے کمروں کی تلاشی لی۔حالات نے کیسا پلٹا کھایا ہے۔اس نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کےساتھ یہی کچھ کیاتھا۔اس سب سے پرویز الٰہی کو سخت دھچکا لگا ہے اور حقیقت ٹی وی کی ایک ویڈیومیں دیکھا جا سکتا ہےکہ وہ سخت ہڑبڑایا ہوا اور غصے سے بھرا ہوا نظر آرہا ہے۔حیرت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی اس حالت اور تمام مسائل کا ذمہ دار ’’قادیانی‘‘ لابی کو قرار دے رہا تھا۔اس معاملے پر اس کا بیان نوٹ کرنے کےقابل ہے۔احمدی لابی کو مخاطب کرتے ہوئے وہ ویڈیو میں کہہ رہا ہےکہ ’’ہم ان (احمدیوں ) کے مقابل پر ڈٹے ہوئے ہیں اورمیں نے بطور سپیکر پنجاب اسمبلی اور پھر بطور وزیراعلیٰ پنجاب ان کو اس جگہ پہنچایا ہے جو ان کی اصل جگہ ہے‘‘۔اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ پرویز الٰہی کی گفتگو میں کوئی تواتر اور روانی نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی یہ گفتگو غیر مہذبانہ، اخلاق سے گری ہوئی اور بے بنیاد تھی۔
اس کا یہ بیان دو باتوں کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے۔
۱۔پاکستانی احمدیوں کا اصل ٹھکانہ تو پاکستان ہے۔ اب وہ ہمیں سچائی اور راستبازی سے بتائے کہ وہ ہمیں کس جگہ دھکیلنا چاہتا ہے۔
۲۔وہ کسی حد تک اپنی سیاسی تباہی کا ذمہ دار احمدی لابی کو بھی قرار دے سکتا ہے کیونکہ احمدی اپنی تہجد کی نمازوں میں اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہیں اور پرویز الٰہی جیسے ظالم اور جابر لوگوں اور اس کے ہم قماشوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
احمدی تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی دعائیں عام طور پر بارگاہ ایزدی میں قبولیت کا شرف پا ہی جاتی ہیں۔
خیبر پختونخواہ بار کونسل بھی تعصب کی حد پار کرنے والوں کی فہرست میں شامل
پشاور۔۳،مئی ۲۰۲۳ء:ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ سید مبشر شاہ کی زیر صدارت کے پی بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سے ہر وکیل اپنے intimation فارم کے ساتھ ختم نبوت کا حلف نامہ بھی شامل کرے گا۔اس سے قبل بھی کئی بار ایسوسی ایشنوں نے ایسے رجعت پسندانہ فیصلے لیے ہیں۔ان میں ملتان،اسلام آباد اور گوجرانوالہ کی کونسلیں شامل ہیں۔
کے پی کے بار نے جو حلف نامہ پیش کرنے کو کہا ہے وہ یوں ہے۔
میں حلفیہ اقرار کرتا/کرتی ہوں کہ میں خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی حتمی اور غیر مشروط خاتم النبوت پر ایمان رکھتا / رکھتی ہوں۔ اور یہ کہ میں نہ ایسے کسی بھی شخص پر ایمان رکھتا/ رکھتی ہوں اور نہ اسے بطور پیغمبر یا مصلح مانتا /مانتی ہوں جس نے حضرت محمدﷺ کے بعد پیغمبر ہونے کا، لفظ پیغمبر کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کےلحاظ سے دعویٰ کیا ہو یا کرتا/کرتی ہو۔اور نہ ہی میں قادیانی یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے منسوب کرتے ہیں) تعلق رکھتا/ رکھتی ہوں۔
بار کونسلوں کی جانب سے کیے جانے والے ایسے اقدام نہ صرف غیر خوش آئند بلکہ قابل مذمت ہیں کیونکہ بار کونسلیں تو نہ صرف عام معاشرے کے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہیں بلکہ یہ لوگ تو عام لوگوں سے قدرے پڑھےلکھے ہوتے ہیں اور ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ لوگ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے معاملے میں زیادہ محتاط ہوں گے۔ایک ایسے شخص کو کونسل کی ممبر شپ نہ دینا جو بہت زیاہ قابل ہے اور صرف ختم نبوت کی تشریح پر اختلاف رکھتا ہے۔انتہائی ناقابل برداشت،عقل و دانش سے عاری حتیٰ کہ مضحکہ خیز ہے۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کےقابل ہے کہ ایسی تنظیمیں سیاسی پارٹیوں کے برعکس نہ تو ووٹوں کو ملحوظ خاطر رکھتی ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے انسانی مذہبی جذبات کو۔
خیبرپختونخواہ ایسی سرزمین ہے جو قاری عبدالراشد، ظہیرالدین بابر،خوشحال خان خٹک،رحمان بابا،خان عبدالغفار خان اور مشعال خان جیسے لوگوں کا فخر ہے۔ ایسی تاریخی سرزمین کے وکیلوں کو چودھویں پندرھویں صدی ہجری کے ملانوں کے پیچھےلگ کر گمراہ ہونے سے خود کو محفوظ رکھنا چاہیے۔