ہمیشہ اپنے جائزے لیں کہ علم اورعمل میں مطابقت ہے
یہاں مَیں تمام مبلغین اور جو دنیا کے مختلف جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں، ان پڑھنے والوں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں۔ ہمیشہ اپنے جائزے لیتے رہیں کہ ہمارے علم اور عمل میں مطابقت ہے یا نہیں۔ وعظ تو ہم کر رہے ہوں کہ نمازوں میں سستی گناہ ہے اور خودنمازوں میں سستی ہو۔ خاص طور پر طلباء جامعہ احمدیہ جو ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے۔ بعض عملی میدان میں آئے ہوئے بھی سستی کر جاتے ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ دوسروں کو تو ہم یہ کہہ رہے ہوں کہ بد رسومات جو مختلف جگہوں پر ہوتی ہیں، مثلاً شادی بیاہ میں ہوتی ہیں یہ بدعات ہیں اور خلیفہ وقت اور نظامِ جماعت ان کی اجازت نہیں دیتا۔ دین ان کی اجازت نہیں دیتا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سختی سے ان کو ردّ فرمایا ہے۔ اللہ اور رسول ان کو ردّ کرتے ہیں۔ لیکن اپنے بچوں یا اپنے عزیزوں کی شادیوں میں ان باتوں کا خیال نہ رہے یا ایسی شادیوں میں شامل ہو جائیں جن میں یہ بد رسومات کی جا رہی ہوں اور وہاں بیٹھے رہیں اور نہ ان کو سمجھائیں اور نہ اٹھ کر آئیں تو یہ چیزیں غلط ہیں۔ پس اگر دین کا علم سیکھا ہے تو اس لئے کہ عالم با عمل بنیں اور بننے کی کوشش کریں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ واقفِ زندگی ایسے ہونے چاہئیں کہ’’نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں‘‘۔
اب ہر واقفِ زندگی جائزہ لے جو میدانِ عمل میں ہیں یا مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں اور وہ بھی جو جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جب ہمیں جائزے لینے کی یہ عادت پڑے تو پھر ایک تبدیلی بھی پیدا ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس سال کینیڈا کے جامعہ احمدیہ سے بھی واقفینِ نو کی اور مربیان کی، مبلغین کی پہلی کھیپ نکل رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ باقی جگہوں سے بھی واقفینِ نو میں سے نکلنی شروع ہو جائے گی بلکہ پاکستان میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ واقفینِ نو مربیان بن بھی چکے ہوں۔ تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ عاجزی اور انکساری ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہئے لیکن وقار قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۲؍نومبر ۲۰۱۰ء)