خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ اکتوبر 2023ء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائی وحی کے ذریعہ یہ اشارہ ہوچکا تھا کہ حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہونی چاہئے
اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے کفر کی وجہ سے علیحدہ ہوتی ہے تو پھر خاوند کے ایمان لانے پر دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی
اَللّٰهُمَّ اِنِّي اُعِيْذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ۔اے اللہ! اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا فِیْ شَمْلِھِمَا۔ اے اللہ! ان دونوں میں برکت رکھ اور ان دونوں کے جمع ہونے میں برکت رکھ دے
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا نَسْلَھُمَا۔’’اے میرے اللہ! توان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اوران کے ان تعلقات میں برکت دے جو
دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اوران کی نسل میں برکت دے۔‘‘یہ دعا ہے جو شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے ان کے ماں باپ کو بھی کرنی چاہیے
آج کل کے شادی کے بعد لڑکا لڑکی میں جو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف دنیا کی ہوا و ہوس ہے جو بہت زیادہ ہو گئی ہے اور دین اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر توجہ کم ہے۔ اگر دین کو مقدّم رکھا جائے اور اس طرح دعا کی جائے اور والدین بھی اس طرح اپنا کردار ادا کریں تو رشتے قائم رہ سکتے ہیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہؓ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکّی پیسنے سے آپؓ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی مگر پھر بھی آپؐ نے ان کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجّہ کیا
مسلمان ممالک کو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے
ہمیں دعاؤں پر زور دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس جنگ کا خاتمہ کرے اور معصوم مظلوم فلسطینیوں کی حفاظت بھی فرمائے۔ مزید ان پر ظلم نہ ہوں اور ظلم کو جہاں بھی ظلم ہیں دنیا سے ختم کرے
سریہ زید بن حارثہ ؓ، غزوۂ سویق اور مسلمانوں کی پہلی عید الاضحی سے متعلق تاریخی واقعات کا پُراثربیان
حماس، اسرائیل جنگ کے پیش نظر دعا کی تحریک اور مسلم ممالک کو نصیحت
مسلمان ممالک کو دنیا میں قیام امن کے لیے بیک آواز ہو کر اپنا بھرپور اور مؤثر کردار ادا کرنے کی تلقین
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 20؍اکتوبر2023ء بمطابق 20؍اخاء 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج بھی
بدر کے فوری بعد ہونے والے بعض واقعات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے ذکر
کروں گا۔ تاریخ میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص کے قبولِ اسلام کا واقعہ
یوں درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں زید بن حارثہؓ کی کمان میں ایک سریہ عیصمقام کی جانب روانہ فرمایا۔ عِیْصمدینے سے چار دنوں کی مسافت پر ہے۔ دنوں کی مسافت کا یہ ذکر جب ہوتا ہے تو تاریخ دان یہ کہتے ہیں ایک دن کی مسافت بارہ میل ہوتی ہے۔ اس طرح یہ مقام اڑتالیس میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اس سریہ کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں زید بن حارثہ کو ستر صحابہؓ کی کمان میں مدینہ سے روانہ فرمایا۔ اس مہم کی وجہ یہ لکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تھی کہ شام کی طرف سے قریش مکہ کا ایک قافلہ آ رہا ہے تو آپؐ نے اس دستے کو روانہ فرمایا۔ اور وہ جو تجارتی سامان کا قافلہ تھا ان کا مقصد یہ تھا کہ اس کی آمد سے پھر مسلمانوں پہ حملہ کیا جائے اور جنگ کی جائے۔ بہرحال انہوں نے اس کو روک لیا اور ان کا سازو سامان قبضےمیں لے لیا۔ بعض قیدی بھی پکڑے۔ ان قیدیوں میں ابوالعاص بھی گرفتار ہوئے تھے۔
(ماخوذ از شرح الزرقانی علیٰ المواہب اللدنیۃ جلد 3 صفحہ 124-125، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
(اردو لغت جلد 17 صفحہ 772 زیر لفظ ’’مرحلہ‘‘)
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو یوں لکھا ہے کہ ’’ان قیدیوں میں جو سریہ بطرف عِیص میں پکڑے گئے ابوالعاص بن الربیع بھی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اورحضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ اس سے قبل وہ جنگِ بدر میں بھی قید ہوکر آئے تھے مگر اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ مکہ پہنچ کر آپؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کو مدینہ بھجوا دیں۔ ابوالعاص نے اس وعدہ کو تو پورا کر دیا تھا مگر وہ خود ابھی تک شرک پرقائم تھے۔ جب زید بن حارثہ انہیں قید کر کے مدینہ میں لائے تورات کاوقت تھا مگر کسی طرح ابوالعاص نے حضرت زینبؓ کو اطلاع بھجوا دی کہ میں اس طرح قید ہو کر یہاں پہنچ گیا ہوں۔ تم اگرمیرے لئے کچھ کرسکتی ہو تو کرو۔ چنانچہ عین اس وقت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ صبح کی نماز میں مصروف تھے [حضرت] زینبؓ نے گھر کے اندر سے بلند آواز سے پکار کر کہا کہ ’’اے مسلمانو! مَیں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔’’جو کچھ زینب نے کہا ہے وہ آپ لوگوں نے سن لیا ہوگا۔ واللہ! مجھے اس کا علم نہیں تھا۔‘‘ یہ بات میرے علم میں نہیں تھی ’’مگر مومنوں کی جماعت ایک جان کاحکم رکھتی ہے اگران میں سے کوئی کسی کافر کوپناہ دے تو اس کا احترام لازم ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے [حضرت] زینبؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ ’’جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں‘‘ اور جو مال اس مہم میں ابوالعاص سے حاصل ہوا تھا وہ اسے لوٹا دیا۔ پھر آپؐ گھر میں تشریف لائے اوراپنی صاحبزادی زینبؓ سے فرمایا ’’ابوالعاص کی اچھی طرح خاطر تواضع کرو۔مگر اس کے ساتھ خلوت میں مت ملو کیونکہ موجودہ حالت میں تمہارا اس کے ساتھ ملنا جائز نہیں ہے۔‘‘ چند روز مدینہ میں قیام کرکے ابوالعاص مکہ کی طرف واپس چلے گئے مگر اب ان کا مکہ میں جانا وہاں ٹھہرنے کی غرض سے نہیں تھا کیونکہ انہوں نے بہت جلد اپنے لین دین سے فراغت حاصل کی اور کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔ جس پر آپؐ نے حضرت زینبؓ کو ان کی طرف بغیر کسی جدید نکاح کے لوٹا دیا… بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اس وقت حضرت زینبؓ اورابوالعاص کا دوبارہ نکاح پڑھا گیا تھا مگر پہلی روایت زیادہ مضبوط اورصحیح ہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 670-671)کہ نکاح کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے یہ فتویٰ بھی مل گیا کہ
اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے کفر کی وجہ سے علیحدہ ہوتی ہے تو پھر خاوند کے ایمان لانے پر دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔
حضرت زینبؓ اپنے خاوند کے اسلام قبول کرنے کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہ رہیں۔ آٹھ ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا۔ حضرت ام ایمنؓ، حضرت سودہؓ، حضرت ام سلمہؓ اور حضرت ام عطیہؓ نے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق غسل دیا۔
(سیرالصحابہ جلد 6صفحہ 90، دارالاشاعت کراچی 2004ء)
حضرت ام عطیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں حکم دیا کہ وہ آپؐ کی بیٹی کو غسل دیں تو آپؐ نے فرمایا تھا اس کے داہنے پہلو سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا۔ ایک دوسری روایت میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینبؓ فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا اس کو طاق یعنی تین یا پانچ دفعہ غسل دینا اور پانچویں دفعہ کافور ڈالنا یا فرمایا کچھ کافور ڈالنا۔ جب تم ان کو غسل دے چکو تو مجھے اطلاع کرنا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے آپؐ کو اطلاع دی۔ آپؐ نے ہمیں اپنا ازار عطا فرمایا اور فرمایا اسے اس کا شعار بنا دینا۔(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فی غسل المیت حدیث 2176،2173) کپڑا جو کمر پہ باندھتے ہیں وہ دیا۔ شعار وہ کپڑا ہے جو بدن کے ساتھ لگا ہوا ہو۔
(لغات الحدیث جلد2صفحہ486 نعمانی کتب خانہ لاہور2005ء)
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ خود قبر میں اترے اور اپنی صاحبزادی کو سپرد خاک کیا۔ حضرت زینبؓ نے اولاد میں دو بچے چھوڑے۔ علی اور امامہ۔ ایک روایت کے مطابق علی نے بچپن میں ہی وفات پائی جبکہ دوسری روایت کے مطابق سن رُشد کو پہنچے۔ ابن عساکر نے لکھا ہے کہ یرموک کے معرکے میں انہوں نے شہادت پائی۔ فتح مکہ میں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔
(سیرالصحابہ جلد 6صفحہ 90، دارالاشاعت کراچی 2004ء)
حضرت امامہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ نے ان کے ساتھ نکاح کر لیا تھا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد8 صفحہ25، دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
حضرت ابوالعاصؓ کا تجارتی کاروبار مکّہ میں تھا اس لیے وہ مدینہ میں قیام نہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ قبولِ اسلام کے بعد وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر پھر مکّہ لوٹ آئے۔ مکّہ کے قیام کی وجہ سے انہیں غزوات میں شرکت کا موقع نہ مل سکا۔ صرف ایک سریہ میں جو دس ہجری میں حضرت علی ؓکی سرکردگی میں بھیجا گیا تھا اس میں شریک ہوئے۔ حضرت علیؓ نے یمن سے واپسی میں انہیں یمن کا عامل بنایا تھا۔ حضرت زینب ؓکے انتقال کے بعد ابوالعاص بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور بارہ ہجری میں انہوں نے وفات پائی۔
(سیرالصحابہ جلد7صفحہ 491 دار الاشاعت کراچی)
(اسدالغابۃ جلد 6 صفحہ 182-183 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ابوالعاص کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے :’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص بن الربیع حضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ دار یعنی حقیقی بھانجے تھے اور باوجود مشرک ہونے کے ان کا سلوک اپنی بیوی سے بہت اچھا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی میاں بیوی کے تعلقات بہت خوشگوار رہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس جہت سے ابوالعاص کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے کہ اس نے میری لڑکی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ابوالعاص حضرت ابوبکرؓکے عہد خلافت میں 12ھ میں فوت ہوئے مگر ان کی زوجہ محترمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو گئیں۔‘‘ اس روایت سے تو یہ لگتا ہے کہ حضرت علیؓ کے بارے میں پہلے جو روایت ہے کہ انہوں نے عامل بنایا وہ ذرا مشکوک ہے۔ ’’ان کی لڑکی امامہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت عزیز تھی حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں مگراولادسے محروم رہیں۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 674)
غزوۂ سویق
دو ہجری ذوالحجہ میں ہوا۔ غزوۂ سویق کا سبب یہ ہے کہ جب مشرکین شکست خوردہ اور غمناک،مکّہ کی طرف واپس آئے تو ابوسفیان نے خود پر تیل لگانا حرام کر دیا۔ اس نےنذر مانی کہ وہ غسل نہیں کرے گا یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ سے بدر کا انتقام لے لے۔ ایک روایت کے مطابق ابوسفیان دو سو سواروں کے ساتھ جبکہ دوسری روایت کے مطابق چالیس سواروں کو لے کر اپنی قسم کو پورا کرنے کے لیے نکلا اور مدینے کی طرف جانے والا عام اور معمول کا راستہ ترک کرتے ہوئے نجد کے راستے روانہ ہوا۔ جب وہ وادی قَنَاۃکے سرے پر پہنچا تو اس نے یَتِیب نامی پہاڑ کے قریب پڑاؤ ڈالا جو مدینے سے قریباً بارہ میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ قَناۃ مدینہ اور احد کے درمیان مدینہ کی تین مشہور وادیوں میں سے ایک وادی ہے۔ وہ رات کے وقت نکلا اور رات کی تاریکی میں ہی قبیلہ بنو نضیر کی طرف گیا اور حُیَیِّبِن اخطب کے پاس پہنچ کر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ پھر ابوسفیان وہاں سے سَلَّام بن مِشْکَم کے پاس گیا جو اس وقت بنو نضیر کا سردار اور ان کا خزانچی تھا۔ ابوسفیان نے اس سے اجازت مانگی۔ اس نے اجازت دے دی اور اس کی خاطر تواضع کی، کھلایا پلایا اور لوگوں کی راز کی باتیں بتائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز بتائے یعنی کہ آپؐ کا جو بھی روزانہ کا معمول تھا اس کے بارے میں بتایا کہ کیا کرتے ہیں، کس وقت کہاں ہوتے ہیں۔ پھر ابوسفیان رات کے آخری حصے میں وہاں سے روانہ ہوا اور اپنے ساتھیوں سے جا ملا۔ پھر اس نے قریش کے چند لوگوں کو مدینے کے نواح میں عُرَیْض نامی جگہ کی طرف بھیجا۔ عُرَیْض بھی مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک نخلستان ہے۔ انہوں نے وہاں کھجوروں کے درختوں کے کئی جھنڈ جلا دیے اور ایک انصاری شخص اور اس کے حلیف کو قتل کر دیا۔ ایک روایت میں اس انصاری کا نام حضرت معبد بن عمروؓ بیان ہوا ہے۔ پھر جب ابوسفیان نے سمجھا کہ اس کی قسم پوری ہو چکی ہے، نقصان جو اس نے پہنچا دیا تو کچھ نہ کچھ بدلہ لے لیا۔ انتقام کی آگ کچھ ٹھنڈی ہوئی تو وہ اپنا لشکر لے کر مکّہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابوسفیان نے یہ کام اس وقت سرانجام دیا جس رات وہ سَلّام بن مِشْکَم سے مل کر واپس آیا تھا۔
بہرحال جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں حضرت ابولُبابہ بشیر بن عبدالمنذرؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور ہجرت کے بائیسویں ماہ، پانچ ذوالحجہ کو اتوار کے دن مہاجرین اور انصار میں سے دو سو صحابہ کو ساتھ لے کر ان کے تعاقب میں نکلے یہاں تک کہ آپؐ قَرْقَرَةُ الکُدْر پہنچ گئے۔ قَرْقَرَةُ الکُدْر ، مَعْدن کے نواح میں اَرحَضِیّۃکے قریب ایک جگہ ہے۔ اس کے اور مدینہ کے درمیان چھیانوے میل کی مسافت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بنو سُلَیم کا چشمہ ہے۔
بہرحال ابوسفیان اور اس کا لشکر چھپتے چھپاتے بھاگتے جا رہے تھے اور ستو کے تھیلے پھینکتے جا رہے تھے اور یہی ان کا عام زادِ راہ تھا۔ مسلمان انہیں اٹھاتے جا رہے تھے۔ اس لیے اس غزوہ کا نام غزوۃ السویق یعنی ستووں والا غزوہ پڑ گیا۔ عربی میں ستو کو سویق کہتے ہیں۔
ابوسفیان اور اس کا لشکر بھاگ گیا۔ مسلمان انہیں پکڑ نہ سکے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف واپس تشریف لے آئے۔ جب صحابہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس آ رہے تھے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!کیا آپؐ پسند کرتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے غزوہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 174، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 صفحہ 22-23، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(سیرت النبیﷺ از علامہ شبلی نعمانی جلد اول صفحہ 211)
(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد6صفحہ 65-66)
(فرہنگ سیرت صفحہ 242،239،234مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی)
یہ غزوہ ہی ہے چاہے جنگ ہوئی ہے یا نہیں ہوئی۔
اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں بیان ہوئی ہے کہ ’’بدر کے بعد ابوسفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مقتولین بدر کا انتقام نہ لے لے گا کبھی اپنی بیوی کے پاس نہ جائے گا اورنہ کبھی اپنے بالوں کوتیل لگائے گا۔ چنانچہ بدرکے دوتین ماہ بعد ذوالحجہ کے مہینہ میں ابوسفیان دوسومسلح قریش کی جمعیت کواپنے ساتھ لے کر مکہ سے نکلا اورنجدی راستہ کی طرف سے ہوتا ہوا مدینہ کے پاس پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کراس نے اپنے لشکر کوتومدینہ سے کچھ فاصلہ پر چھوڑا اور خود رات کی تاریکی کے پردہ میں چھپتا ہوا یہودی قبیلہ بنونضیر کے رئیس حُیِیبن اَخْطَب کے مکان پر پہنچا اوراس سے امداد چاہی مگر چونکہ اس کے دل میں اپنے عہدوپیمان کی کچھ یاد باقی تھی اس نے انکار کیا۔‘‘ اس نے کہا ہمارا عہد ہے میں نہیں بتا سکتا تمہیں، نہ پناہ دے سکتا ہوں۔ ’’پھرابو سفیان اسی طرح چھپتا ہوا بنونضیر کے دوسرے رئیس سلام بن مشکم کے مکان پر گیا اوراس سے مسلمانوں کے خلاف اعانت کا طلب گار ہوا۔ اس بدبخت نے کمال جرأت کے ساتھ سارے عہدوپیمان کوبالائے طاق رکھ کر ابوسفیان کی بڑی آؤ بھگت کی اوراسے اپنے پاس رات کو مہمان رکھا اور اس سے مسلمانوں کے حالات کے متعلق مخبری کی۔ صبح ہونے سے قبل ابوسفیان وہاں سے نکلا اوراپنے لشکر میں پہنچ کر اس نے قریش کے ایک دستے کو مدینہ کے قریب عریض کی وادی میں چھاپہ مارنے کے لئے روانہ کردیا۔ یہ وہ وادی تھی جہاں ان ایام میں مسلمانوں کے جانور چراکرتے تھے اورجو مدینہ سے صرف تین میل پر تھی اور غالباً اس کا حال ابوسفیان کوسلام بن مشکم سے معلوم ہوا ہو گا۔ جب قریش کا یہ دستہ وادی عریض میں پہنچا توخوش قسمتی سے اس وقت مسلمانوں کے جانور وہاں موجود نہ تھے، البتہ ایک مسلمان انصاری اوراس کا ایک ساتھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ قریش نے ان دونوں کو پکڑ کر ظالمانہ طورپر قتل کر دیا۔ اورپھر کھجوروں کے درختوں کو آگ لگاکر اوروہاں کے مکانوں اور جھونپڑیوں کو جلا کر ابوسفیان کی قیام گاہ کی طرف واپس لوٹ گئے۔ ابوسفیان نے اس کامیابی کواپنی قسم کے پورا ہونے کے لئے کافی سمجھ کر لشکر کو واپسی کا حکم دیا۔ دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوسفیان کے حملہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐ صحابہ کی ایک جماعت ساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے مگر چونکہ ابوسفیان اپنی قسم کے ایفاء کومشکوک نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایسی سراسیمگی کے ساتھ بھاگا کہ مسلمان اس کے لشکر کو پہنچ نہیں سکے اوربالآخر چند دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس لوٹ آئے۔ ‘‘ انہوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ ’’اس غزوہ کو غزوۂ سویق کہتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ابوسفیان مکہ کوواپس لوٹا تو تعاقب کے خیال کی وجہ سے کچھ تو گھبراہٹ میں اور کچھ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے وہ اپنا سامانِ رسد جوزیادہ ترسویق یعنی ستو کے تھیلوں پرمشتمل تھا راستہ میں پھینکتا گیا تھا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ453-454)
غزوۂ سویق کے متعلق آتا ہے کہ اس نام کا غزوہ چار ہجری میں غزوۂ احد کے بعد بھی ہوا تھا۔ چنانچہ
طبری نے دو سویق نامی غزوات کا ذکر کیا ہے۔
ایک غزوۂ بدر سے پہلے جس کی تفصیلات ابھی بیان ہوئی ہیں۔ یہ غالباًغزوۂ احد ہو گا جس کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں اور دوسرا غزوۂ احد کے بعد لیکن باقی سیرت کی کتابوں میں جیسے سیرت ابن ہشام ، سبل الہدیٰ وغیرہ نے اس غزوہ کو غزوۂ بَدْرُ الْمَوْعِد کے نام سے بیان کیا ہے۔ اس غزوہ کی بھی تفصیل تھوڑی سی بیان کر دیتا ہوں۔ خلاصةً یوں ہے کہ ابوسفیان نے احد کے دن واپس جانے کا ارادہ کیا تو آواز لگائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان ایک سال بعد بَدْرُ الصَّفْرَاء کا وعدہ ہے ہم وہاں لڑیں گے۔ عرب کے جمع ہونے کی جگہ اور یہ بَدْرُ الصَّفْرَاء ان کا بازار تھا۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو ارشاد فرمایا کہ کہو ٹھیک ہے۔ ان شاء اللہ۔ تو لوگ اس وعدے پر منتشر ہو گئے۔ چنانچہ احد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابوسفیان سے ہونے والے وعدہ کے مطابق اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کو روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر ابوسفیان کے انتظارمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ راتیں قیام فرمایا۔ ابوسفیان اہل مکہ کے ساتھ مَرُّالظَّہْرَانکے نواح میں مَجَنَّہ آ کر ٹھہرا۔ مَجَنَّہ بھی مکّہ سے چند میل پر مرالظہران میں جبل الاصفر کے قریب ایک شہر ہے۔ اس کے بعد خشک سالی کا بہانہ بنا کر اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس چلا گیا۔ اسے آگے آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اہل مکہ اس فوج کو جیش السویق کہنے لگے کیونکہ یہ ستو پیتے ہوئے گئے تھے۔
(ماخوذ از تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 87، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
(سبل الھدی والرشادجلد4صفحہ 337 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 259 مطبوعہ زوار اکیڈیمی کراچی)
پہلی عید الاضحی کے بارے میں
لکھا ہے کہ دو ہجری میں غزوۂ سویق سے واپسی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی ادا فرمائی۔ یہ مسلمانوں کی پہلی عید الاضحی تھی۔ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو آپؐ اپنے اصحاب کے ہمراہ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے۔ باجماعت نماز ادا فرمائی اور وہیں اپنے دستِ مبارک سے قربانی بھی کی۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد 6صفحہ362-363مطبوعہ دارالمعارف لاہور2022ء)
ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بنو قینقاع سے واپس مدینہ تشریف لائے تو عید الاضحی آ گئی۔ آپؐ نے اور آپ کے صحابہ میں سے جس کو قربانی میسر تھی دسویں ذوالحجہ کو قربانی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ عید گاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپؐ نے عید الاضحی کی پہلی نماز پڑھائی۔ عید الاضحی کی یہ پہلی نماز ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں صحابہ کو پڑھائی اور وہیں عیدگاہ میں آپؐ نے اپنے ہاتھ سے دو بکریاں یا ایک بکری ذبح کی۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ بنو قینقاع سے واپس آ کر ہم نے ذوالحجہ کی دسویں تاریخ میں قربانی کی۔یہ پہلی قربانی تھی جو مسلمانوں کے سامنے ہوئی۔ ہم نے بنو سلمہ میں قربانی کی تھی۔ میں نے قربانیوں کا شمار کیا۔ اس روز اس مقام پر سترہ قربانیاں شمار کی گئیں۔(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 49، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)یہ حوالہ تاریخ طبری میں سے ہے۔
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کے ضمن میں یوں لکھا ہے کہ ’’اسی سال ماہ ذی الحجہ میں دوسری اسلامی عید یعنی عیدالاضحی مشروع ہوئی جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کوتمام اسلامی دنیا میں منائی جاتی ہے۔ اس عید میں علاوہ نماز کے جو ہر سچے مسلمان کی حقیقی عید ہے ہرذی استطاعت مسلمان کے لئے واجب ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے کوئی چوپایہ جانور قربان کرکے اس کا گوشت اپنے عزیزواقارب اوردوستوں اور ہمسایوں اوردوسرے لوگوں میں تقسیم کرے اور خود بھی کھائے۔‘‘ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ذرا تفصیل اس لیے لکھ دیتے ہیں تا کہ بنیادی مسائل کا بھی بیچ میں پتہ لگتا رہے۔ تو یہ ہے اس گوشت کی تقسیم جو قربانی کا ہے۔ ’’چنانچہ عیدالاضحی کے دن اوراس کے بعد دودن تک تمام اسلامی دنیا میں لاکھوں کروڑوں جانور فی سبیل اللہ قربان کئے جاتے ہیں اوراس طرح مسلمانوں کے اندر عملی طورپر اس عظیم الشان قربانی کی یاد زندہ رکھی جاتی ہے جوحضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسمٰعیلؑ اورحضرت ہاجرہؑ نے پیش کی اور جس کی بہترین مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تھی اور ہر ایک مسلمان کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے آقا ومالک کی راہ میں اپنی جان اور مال اور اپنی ہر ایک چیز قربان کردینے کے واسطے تیار رہے۔ یہ عیدبھی عیدالفطر کی طرح ایک عظیم الشان اسلامی عبادت کی تکمیل پرمنائی جاتی ہے اوروہ عبادت حج ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 454-455)
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح
بھی دو ہجری میں ہوا۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت فاطمہؓ سے عقد کی درخواست کی جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بخوشی قبول فرمایا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمرؓ دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر حضرت فاطمہؓ سے شادی کی درخواست کی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ ہے کہ پہلے حضرت عمرؓ و ابوبکرؓنے کہا تھا۔ پھر بعد میں حضرت علیؓ نے کہا تھا جو آگے روایات کھلتی ہیں۔ بہرحال حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپؐ حضرت فاطمہؓ کی شادی مجھ سے کریں گے! آپؐ نے فرمایا کیا تمہارے پاس مہر کے لیے کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا گھوڑا اور میری زرہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا گھوڑا تو تمہارے لیے ضروری ہے البتہ زرہ کو بیچ دو۔ چنانچہ میں نے اپنی زرہ کو چار سو اسّی درہم میں بیچ کر حق مہر کی رقم کا انتظام کیا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے زرہ حضرت عثمانؓ کو بیچی اور حضرت عثمانؓ نے زرہ کی قیمت بھی ادا کر دی اور زرہ بھی واپس کر دی۔ حضرت علی ؓکہتے ہیں کہ میں وہ رقم لے کر آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے مٹھی بھر بلال کو دیتے ہوئے فرمایا اس سے کچھ خوشبو خرید لاؤ اور کچھ لوگوں کو ارشاد فرمایا کہ حضرت فاطمہؓ کا جہیز تیار کرو۔ چنانچہ حضرت فاطمہؓ کے لیے ایک چارپائی، چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی یہ سب تیار کیا گیا۔ تو یہ ہے حق مہر کا استعمال۔ اس طرح بھی ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں شادی ہو گئی تو ہم حق مہر نہیں دیں گے لیکن وہاں یہ مثال نظر آتی ہے کہ حق مہر سے ہی خرچ پورا ہوا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ سے یہ رشتہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا۔ میرے رب نے مجھے ایسا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
رخصتی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا جب فاطمہ تمہارے پاس آئیں تو جب تک میں نہ آؤں کوئی بات نہ کرنا۔ چنانچہ حضرت علی ؓکہتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ حضرت ام ایمنؓ کے ساتھ آئیں اور گھر کے ایک حصےمیں بیٹھ گئیں۔ میں بھی ایک طرف بیٹھ گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کیا میرا بھائی یہاں ہے؟ ام ایمن نے کہا کہ آپؐ کا بھائی؟ اور آپؐ نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں کیونکہ ایسے رشتےمیں شادی ہو سکتی ہے وہ بہرحال سگا بھائی نہیں ہے اور اس طرح کزن کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ آپؐ اندر تشریف لائے اور حضرت فاطمہؓ سے کہا میرے پاس پانی لاؤ۔ وہ اٹھیں اور گھر میں رکھے ہوئے ایک پیالے میں پانی لائیں۔ آپؐ نے اسے لیا اور پھر منہ میں کچھ دیر رکھ کر دوبارہ پیالے میں ڈال دیا۔ پھر حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ آگے بڑھو۔ وہ آگے ہوئیں۔ آپؐ نے ان پر اور ان کے سر پر کچھ پانی چھڑکا اور دعا دیتے ہوئے کہا۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّي اُعِيْذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ۔اے اللہ! اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دوسری طرف رخ کرو۔ جب انہوں نے دوسری طرف رخ کیا تو آپؐ نے ان کے کندھوں کے درمیان پانی چھڑکا۔ پھر ایسا ہی حضرت علیؓ کے ساتھ کیا۔ حضرت علیؓ سے فرمایا اپنے اہل کے پاس جاؤ اور اللہ کا نام اور برکت کے ساتھ۔
اسی طرح حضرت علیؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں وضو کیا پھر اس پانی کو حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ پر چھڑکا اور فرمایا۔
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا فِیْ شَمْلِھِمَا۔ اے اللہ! ان دونوں میں برکت رکھ اور ان دونوں کے جمع ہونے میں برکت رکھ دے۔
حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم فاطمہ کو تیار کریں یہاں تک کہ ہم اس کو حضرت علیؓ کے پاس لے جائیں چنانچہ ہم گھر کی طرف متوجہ ہوئے۔ ہم نے اس کو بطحا کے نواح کی نرم مٹی سے لیپا۔ پہلے گھر ٹھیک کیا۔ پھر کھجور کے ریشوں سے دو تکیے بھرے۔ ہم نے اس کو اپنے ہاتھوں سے دُھنا۔ پھر ہم نے کھجور اور منقہ کھانے کے لیے اور میٹھا پانی پینے کے لیے رکھا اور ایک لکڑی لی اور اس کو کمرے میں ایک طرف لگا دیا تا کہ اس پر کپڑے وغیرہ لٹکائے جا سکیں اور اس پر مشکیزہ لٹکایا جائے۔
ہم نے حضرت فاطمہؓ کی شادی سے اچھی شادی کوئی نہیں دیکھی۔
دعوت ولیمہ کھجور، جَو، پنیر اور حَیْس پر مشتمل تھا۔
حَیْس اس کھانے کو کہتے ہیں جو کھجور اور گھی اور پنیر وغیرہ سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔ حضرت اسماء بنت عمیسؓ بیان کرتی ہیں کہ اس زمانے میں اس دعوت ولیمہ سے بہتر کوئی ولیمہ نہیں ہوا۔
(شرح العلامہ الزرقانی علیٰ المواھب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 357تا 366ذکر تزویج علی بفاطمۃ دار الکتب العلمیۃ 1996ء)
(تاریخ الخمیس جزء2 صفحہ77 فی الوقائع من اول ھجرتہ ﷺ الی وفاتہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2009ء)
(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب الولیمة حدیث نمبر 1911)
(طبقات الکبریٰ جزء8صفحہ19دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
(لغات الحدیث جلد1صفحہ542 نعمانی کتب خانہ لاہور2005ء)
یہ وہ شادی اور دعوت ولیمہ ہے جو سادگی کی مثال ہے۔ حضرت فاطمہؓ اور حضرت علی ؓکی شادی کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں لکھا ہے۔ یہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ بعض باتیں اس میں زائد بھی ہیں اس لیے بیان ضروری ہے۔ لکھا ہے کہ ’’حضرت فاطمہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اولاد میں سب سے چھوٹی تھیں جو حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئی۔ اور آپؐ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہؓ کوعزیز رکھتے تھے۔ اوراپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے وہی اس امتیازی محبت کی سب سے زیادہ اہل تھیں۔‘‘ ان میںخوبیاں بھی بہت تھیں۔ ’’اب ان کی عمر کم وبیش پندرہ سال کی تھی اورشادی کے پیغامات آنے شروع ہوگئے تھے۔ سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے لئے حضرت ابوبکرؓنے درخواست کی،مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کر دیا۔ پھر حضرت عمرؓنے عرض کیا مگر ان کی درخواست بھی منظور نہ ہوئی۔ اس کے بعد ان دونوں بزرگوں نے یہ سمجھ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارادہ حضرت علیؓ کے متعلق معلوم ہوتا ہے حضرت علیؓ سے تحریک کی کہ تم فاطمہؓ کے متعلق درخواست کر دو۔ حضرت علیؓ نے جوغالباً پہلے سے خواہش مند تھے مگر بوجہ حیا خاموش تھے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست پیش کردی۔ دوسری طرف
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائی وحی کے ذریعہ یہ اشارہ ہوچکا تھا کہ حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہونی چاہئے،
چنانچہ حضرت علیؓ نے درخواست پیش کی تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھے تو اس کے متعلق پہلے سے خدائی اشارہ ہوچکا ہے۔ پھر آپؐ نے حضرت فاطمہؓ سے پوچھا وہ بوجہ حیا کے خاموش رہیں۔‘‘ بولی نہیں لیکن شرمائیں۔ تو لکھتے ہیں کہ ’’یہ ایک طرح سے اظہارِ رضا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصار کی ایک جماعت کوجمع کر کے حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کا نکاح پڑھ دیا۔ یہ سنہ۲ ہجری کی ابتداء یا وسط کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد جب جنگ بدر ہو چکی تو غالباً ماہ ذوالحجہ سنہ۲ ہجری میں رخصتانہ کی تجویز ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کوبلاکر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کے لئے کچھ ہے یا نہیں ؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہؐ! میرے پاس توکچھ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ زرہ کیاہوئی جومیں نے اس دن (یعنی بدر کے مغانم میں سے) تمہیں دی تھی؟‘‘ جو غنیمت کا مال ملا تھا اس میں سے زرہ میں نے تمہیں دی تھی وہ کہاں گئی؟ ’’حضرت علیؓ نے عرض کیا وہ تو ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ بس وہی لے آؤ۔ چنانچہ یہ زرہ چار سو اسی درہم میں فروخت کردی گئی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی رقم میں سے شادی کے اخراجات مہیا کئے۔ جو جہیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کودیا وہ ایک بیل دار چادر۔ ایک چمڑے کاگدیلا جس کے اندر کھجور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک مشکیزہ تھا۔ اورایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کے جہیز میں ایک چکی بھی دی تھی۔ جب یہ سامان ہوچکا تومکان کی فکر ہوئی۔ حضرت علیؓ اب تک غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرہ وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہوجس میں خاوند بیوی رہ سکیں، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو۔ حضرت علیؓ نے عارضی طورپر ایک مکان کا انتظام کیا اوراس میں حضرت فاطمہؓ کارخصتانہ ہو گیا۔ اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اورتھوڑا ساپانی منگاکر اس پر دعا کی اورپھر وہ پانی حضرت فاطمہؓ اورحضرت علیؓ ہردو پریہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑکا:‘‘پہلے بھی میں دعا بتا چکا ہوں کہ
’’اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا نَسْلَھُمَا۔‘‘یہ دعا ہے جو شادی کرنے والے جوڑوں کے لیے ان کے ماں باپ کو بھی کرنی چاہیے۔
آج کل شادی کے بعد لڑکا لڑکی میں جو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف دنیا کی ہوا و ہوس ہے جو بہت زیادہ ہو گئی ہے اور دین اور خدا تعالیٰ کے احکامات پر توجہ کم ہے۔ اگر دین کو مقدم رکھا جائے اور اس طرح دعا کی جائے اور اس طرح والدین بھی اپنا کردار ادا کریں تو رشتے قائم رہ سکتے ہیں۔
بہرحال اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ ’’یعنی اے میرے اللہ! توان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اوران کے ان تعلقات میں برکت دے جودوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اوران کی نسل میں برکت دے۔‘‘ اور پھر آپؐ اس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کرواپس تشریف لے آئے۔ اس کے بعد جوایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حَارِثہ بن نُعمان انصاریؓ کے پاس چند ایک مکانات ہیں آپؐ ان سے فرماویں کہ وہ اپنا کوئی مکان خالی کر دیں۔‘‘ ہمارے لیے ہم وہاں چلے جائیں آپؐ کے قریب آ جائیں۔ ’’آپؐ نے فرمایا وہ ہماری خاطر اتنے مکانات پہلے ہی خالی کرچکے ہیں کہ اب مجھے تو انہیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حارثہ کوکسی طرح اس کا علم ہوا تو وہ بھاگے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ
یارسول اللہؐ! میرا جو کچھ ہے وہ حضور کا ہے اور واللہ! جو چیز آپؐ مجھ سے قبول فرمالیتے ہیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اس چیز کے جو میرے پاس رہتی ہے
اورپھر اس مخلص صحابیؓ نے باصرار اپنا ایک مکان خالی کروا کے پیش کردیا اور حضرت علیؓ اور فاطمہؓ وہاں اٹھ گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 455-456)
حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ اپنی تنگدستی اور غربت کے باوجود زہد و قناعت کا نمونہ دکھایا کرتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں ذکر ہے کہ حضرت علیؓ نے بیان فرمایا کہ حضرت فاطمہؓ نے چکی چلانے سے اپنے ہاتھ میں تکلیف کی شکایت کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئیں اور آپؐ کو نہ پایا۔ آپؓ حضرت عائشہؓ سے ملیں اور ان کو بتایاکہ کس طرح میں آئی تھی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہؓ کے اپنے ہاں آنے کا بتایا۔ حضرت فاطمہؓ کہتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہمارے گھر تشریف لے آئے جبکہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے آپؐ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی۔ آپؐ نے فرمایا: کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر بات نہ بتاؤں جو تم نے مانگا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو تو چونتیس۳۴ مرتبہ اللہ اکبر کہو، تینتیس۳۳ دفعہ سبحان اللہ کہو اور تینتیس۳۳ دفعہ الحمد للہ کہو۔ یہ تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپؐ سے خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں اور کام کی شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا: تم اس خادم کو ہمارے پاس نہیں پاؤ گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتاؤں جو تیرے لیے خادم سے بہتر ہے۔ تم اپنے بستر پر جاتے ہوئے تینتیس۳۳ دفعہ سبحان اللہ کہو، تینتیس۳۳ مرتبہ الحمد للہ کہو اور چونتیس۳۴ دفعہ اللہ اکبر کہو۔ یہ مسلم کی روایت ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاوالتوبۃ…باب التسبیح اوّل النہار و عند النوم حدیث نمبر6915، 6918)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ،اس واقعہ کو بخاری کے حوالے سے آپ نے بیان فرمایا ہے۔ فرمایا کہ ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے شکایت کی کہ چکّی پیسنے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ اسی عرصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام آئے۔ پس آپؓ آنحضرتؐ کے پاس تشریف لے گئیں لیکن آپؐ کو گھر پر نہ پایا۔ اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنی آمد کی وجہ سے اطلاع دے کر گھر لوٹ آئیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے جنابؐ کو حضرت فاطمہؓ کی آمد کی اطلاع دی جس پر آپؐ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ میں نے آپؐ کو آتے دیکھ کر چاہا کہ اٹھوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر لیٹے رہو۔ پھر ہم دونوں کے درمیان آ کر بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپؐ کے قدموں کی خنکی میرے سینہ پر محسوس ہونے لگی۔ جب آپؐ بیٹھ گئے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں کوئی ایسی بات نہ بتا دوں جواس چیز سے جس کا تم نے سوال کیا ہے بہتر ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنے بستروں پر لیٹ جاؤ تو چونتیس۳۴ دفعہ تکبیر کہو اور تینتیس۳۳ دفعہ سبحان اللہ کہو اور تینتیس۳۳ دفعہ الحمد للہ کہو۔ پس یہ تمہارے لئے خادم سے اچھا ہو گا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہؓ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکّی پیسنے سے آپؓ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی مگر پھر بھی آپؐ نے ان کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجّہ کیا۔
آپؐ اگر چاہتے تو حضرت فاطمہؓ کو خادم دے سکتے تھے کیونکہ جو اموال تقسیم کے لئے آپؐ کے پاس آتے تھے وہ بھی صحابہؓ میں تقسیم کرنے کے لئے آتے تھے اور حضرت علیؓ کا بھی ان میں حق ہو سکتا تھا اور حضرت فاطمہؓ بھی اس کی حق دار تھیں لیکن آپؐ نے احتیاط سے کام لیا اور نہ چاہا کہ ان اموال میں سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کودے دیں کیونکہ ممکن تھا کہ اس سے آئندہ لوگ کچھ کا کچھ نتیجہ نکالتے اور بادشاہ اپنے لئے اموال الناس کو جائز سمجھ لیتے‘‘ لیکن بدقسمتی سے آجکل کے بادشاہ، مسلمان بادشاہ تو پھر بھی جائز ہی سمجھتے ہیں۔ ’’پس احتیاط کے طور پر آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کو ان غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو آپؐ کے پاس اس وقت بغرض تقسیم آئیں کوئی نہ دی۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جن اموال میں آپؐ کا اور آپ کے رشتہ داروں کا خدا تعالیٰ نے حصہ مقرر فرمایا ہے ان سے آپؐ خرچ فرما لیتے تھے اور اپنے متعلقین کو بھی دیتے تھے۔ ہاں جب تک کوئی چیز آپؐ کے حصہ میں نہ آئے اسے قطعاً خرچ نہ فرماتے اور اپنے عزیز سے عزیز رشتہ داروں کو بھی نہ دیتے۔
کیا دنیا کسی بادشاہ کی مثال پیش کر سکتی ہے جو بیت المال کا ایسا محافظ ہو۔ اگر کوئی نظیر مل سکتی ہے تو صرف اسی پاک وجود کے خدام میں سے ورنہ دوسرے مذاہب اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتے۔‘‘
(سیرۃ النبی ؐ، انوارالعلوم جلد 1صفحہ544-545)
باقی ان شاء اللہ آئندہ۔ اس وقت میں
دوبارہ دنیا کے حالات کے حوالے سے دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔
اب تو مغربی دنیا بلکہ امریکہ کے بھی بعض لکھنے والوں نے اخباروں میں یہ لکھا ہے کہ بدلے کی بھی کوئی انتہا ہونی چاہیے اور امریکہ اور مغربی ممالک کو حماس اور اسرائیل کی جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور صلح اور جنگ بندی کی کوشش کرنی چاہیے لیکن لکھنے والے یہ بھی لکھتے ہیں کہ لگتا ہے یہ لوگ جنگ بند کروانے کی بجائے بھڑکانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کی کل خبر تھی کہ وزارت خارجہ کے ایک بڑے افسر نے اس بات پر استعفیٰ دے دیا کہ اب انتہا ہو چکی ہے۔ فلسطینی معصوموں پر بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے اور بڑی طاقتوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ تو ان لوگوں میں بھی شرفاء موجود ہیں۔ اسی طرح بعض دفعہ میڈیا پہ آتا ہے بعض یہودی ربائی (Rabbis)بھی ان کے حق میں بول رہے ہیں اور ظلم کے خلاف بول رہے ہیں۔
روس کے وزیر خارجہ نے بھی بیان دیا ہے کہ اگر اسی طرح یہ ممالک اپنا رویّہ رکھے رہے تو یہ جنگ پورے خطے میں پھیل جائے گی بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں پھیل جائے گی۔ پس ان لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اسی طرح
مسلمان ممالک کو جیساکہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ایک ہو کر اور ایک آواز ہو کر بولنا چاہیے۔ اگر دنیا کے ترپّن، چوّن ممالک کہے جاتے ہیں کہ مسلمان ہیں وہ ایک آواز میں بولیں تو یہ بڑی طاقت ہو گی اور اس کا اثر بھی ہو گا ۔
ورنہ پھر اِکَّا دُکَّا آوازیں کوئی اثر نہیں رکھتیں اور یہی ایک طریقہ ہے دنیا میں امن قائم کرنے کا اور اس جنگ کے خاتمے کا۔ پس
مسلمان ممالک کو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ان کو اس کی توفیق بھی دے۔ لیکن
ہمیں بہرحال دعاؤں پر زور دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس جنگ کا خاتمہ کرے اور معصوم مظلوم فلسطینیوں کی حفاظت بھی فرمائے۔ ان پر مزید ظلم نہ ہوں اور ظلم کو جہاں بھی ظلم ہیں، دنیا سے ختم کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے۔