مکاتب حضرت شیخ احمد سرہندیؒ مجدد الف ثانی
آپ کا نام احمد لقب بدرالدین اور کنیت ابوالبرکات تھی۔آپ کے والد گرامی کا نام عبدالاحد تھا۔آپ کی ولادت ۱۴؍شوال ۹۷۱ھ کو سرہند میں ہوئی جس کا پرانا نام سہرند تھا۔آپ کا شجرہ نسب حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔قرآن کریم بھی حفظ کیا۔سلوک کی منازل مختلف صوفی منش افراد کی صحبت میں طے کیںجن میں حضرت باقی باللہ نمایاں ہیں۔آپ صاحب کشف والہام ہستی تھے۔سلسلہ نقشبندی سے منسلک تھے۔آپ کا وصال۲۰؍صفر۱۰۳۴ھ بعمر۶۳؍ سال ہوا۔ سرہند میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔
آپ کے مکتوبات کی کل تعداد۶۳۴ہے جوآپ کے تین خلفاء نے مرتب کیے تھے۔
۱۔ جلد اول موسوم بہ درالمعرفت از یارمحمد۱۰۲۵ھ تعداد ۳۱۳۔
۲۔جلد دوم موسوم بہ نورالخلائق از عبدالحی ۱۰۲۸ھ تعداد۳۳۔
۳۔جلد سوم موسوم بہ معرفۃ الحقائق از خواجہ محمد ہاشم برہانپوری تعداد ۲۲۲۔
اب یہ مکتوبات دو جلدوں میں مکتوبات امام ربانی کے نام سے اردو ترجمہ میں مکتبة العلم اردو بازارلاہور نے شائع کیے ہیں۔کچھ مکاتیب کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
۱۔آنحضرتﷺ کی رحلت کے بعدہزارسال اور چندسال کے بعدایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرماتی ہے اورحقیقت کعبہ سے متحد ہوجاتی ہے اوراس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہوجائے گا اور ذات احد جل سلطانہ کا مظہربن جاتی ہے اوردونوں اسم مبارک اپنے مسمی کے ساتھ متحقق ہوجاتے ہیں اور پہلا مقام حقیقت محمدی خالی رہے گا یہاں تک کہ حضرت عیسیؑ نزول فرمائیں اورشریعت محمدی کے موافق عمل کریں۔اس وقت حقیقت عیسوی اپنے مقام سے عروج کرکے حقیقت محمدی کے مقام میں جو خالی رہا تھا قرار پکڑے گی۔حضرت مہدی جن کی تشریف آوری کی نسبت حضرت خاتم الرسلﷺ نے بشارت فرمائی ہے ہزارسال کے بعد پیدا ہوںگے اور حضرت عیسیٰؑ بھی ہزارسال بعد نزول فرمائیں گے۔(مکتوب نمبر۲۰۹)
۲۔اے فرزند!یہ وہ وقت ہے جبکہ پہلی امتوں میں سے ایسی ظلمت بھرے ہوئے وقت میں اولوالعزم پیغمبرمبعوث ہوتا تھا اور نئی شریعت کوزندہ کرتا تھا اوراس امت میں جو خیرالامم ہے اوراس امت کا پیغمبرختم الرسل ہے اس کے علماء کو انبیاءبنی اسرائیل کا مرتبہ دیا ہے اورعلماءکے وجودکے ساتھ انبیاءکے وجود کی کفایت کی ہے۔اسی واسطے ہرصدی کے بعد اس امت کے علماء میں سے ایک مجدد مقررکرتے ہیں تاکہ شریعت کوزندہ رکھے۔خاص کر ہزارسال کے بعد جوکہ اولوالعزم پیغمبرکے پیدا ہونے کا وقت ہے اورہرپیغمبر نے اس وقت کفایت نہیں کی ہے۔اس طرح اس وقت ایک تام المعرفت علام وعارف درکار ہے جو گذشتہ امتوں کے اولوالعزم پیغمبر کے قائم مقام ہو۔(مکتوب۔۲۳۴)
۳۔کمالاتِ ولایت کمالاتِ نبوت کے لیے بمنزلہ زینہ ہیں…میرا خیال ہے کہ حضرت مہدی موعود جو ولایت کی اکملیت کے لیے مقرر ہیں ان کویہ نسبت حاصل ہوگی اس سلسلہ عالیہ کی تتمیم وتکمیل فرمائیں گے۔(مکتوب۔۲۵۱)
۴۔جاننا چاہیے کہ نبیﷺ کے کامل تابعدار کامل تابعداری کے باعث جب کمالات نبوت کوتمام کرلیتے ہیں توان میں سے بعض کومنصب امامت پرسرفراز کرتے ہیں اور بعض کوصرف کمال کے حاصل ہونے پرکفایت کرتے ہیں۔(مکتوب۔۲۵۶)
۵۔۔منقول ہے کہ حضرت مہدی اپنی سلطنت کے زمانہ میں جب دین کورواج دیں گے اورسنت کو زندہ کریں گے تو مدینہ کا عالم جس نے بدعت پرعمل کواپنی عادت بنائی ہوگی اور اس کو حسن خیال کرکے دین کے ساتھ ملا لیا ہوگاتعجب سے کہے گا کہ اس شخص نے ہمارے دین کودور کردیا ہے اور ہمارے مذہب کو خراب کردیا ہے۔حضرت مہدی اس عالم کے قتل کا حکم فرمائیں گے اوراس کے حسنہ کوسیئہ خیال کریں گے۔(مکتوب۔۲۵۵)
۶۔حضرت عیسیٰؑ نزول کے بعد امام اعظم کے مذہب کے موافق عمل کریں گے۔(مکتوب۔۲۸۲)
۷۔ مقام عبودیت سے بڑھ کرمقام ولایت میں اَورکوئی بلند مقام نہیں ہے۔اس طائفہ[اولیا کامل]میں سے ایسے شخص کومشرف فرماتے ہیں اور منصب محبوبیت کی قابلیت بھی اس کی مسلم ہوتی ہے۔ایسا شخص مرتبہ ولایت کا جامع اور درجہ دعوت کے تمام مقامات کا حاوی اور ولایت خاصہ اورنبوت سے بہرہ ور ہوتا ہے۔غرض کہ اس کی شان میں یہ مصرعہ صادق آتا ہے۔آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری۔ ایسے وجود کا ذکر آپ بالا سطور میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں:ایسا کامل ہی عزیزالوجود اور نایاب ہے۔اگر بیشمار زمانوں کے بعد بھی ظہور میں آجائے تو بھی غنیمت ہے۔ایسے شخص کے وجودسے جہاں منورہوتا ہے اوراس کی نظر دلی امراض کوشفا بخشتی ہے اوراس کی توجہ ناپسندیدہ اور ردی اخلاق کودور کرتی ہے۔ایسا شخص مدارج عروج کو تمام کرکےمقام بندگی میں اترتا ہے اور عبادت کے ساتھ انس و آرام پاتا ہے۔(مکتوب۔۲۸۵)