حضرت ابراہیمؑ اور آگ
آج موسم خوشگوار ہونے کی وجہ سے امی جان نے باربی کیو کا اہتمام کیا ہواتھا۔احمد کو شرارت سوجھی وہ ایک چھڑی کے ساتھ بار بار کوئلے کی گرل (grill)میں جلنے والی آگ کو چھیڑنے لگا۔محمود بھی اس کے پاس جانے لگا تو گڑیا نے اسے منع کیا کہ آگ سے نہیں کھیلتے اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دادی جان :گڑیا ٹھیک کہہ رہی ہے احمد بیٹا آپ کو بات ماننی چاہیے۔ ذرا سی بے احتیاطی سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا ہے آپ کو اندازہ ہےناں۔
جی دادی جان بیت الفتوح مسجد میں بھی تو اچانک سےآگ لگ گئی تھی اور جماعت کا کتنا نقصان ہوا تھا۔ لیکن اللہ نےاب ہمیں اس سے بھی زیادہ شاندار، خوبصورت اور بڑی عمارت عطا کی ہے۔گڑیا نے کہا۔
دادی جان :جی بیٹا اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس کا نعم البدل عطا فرمادیا۔الحمد للہ۔
گڑیا : دادی جان میں سوچ رہی تھی حضرت ابراہیمؑ پر آگ نے کیوں اثر نہیں کیا تھا؟ اور ان کو آگ میں ڈالا ہی کیوں تھا؟
دادی جان :جی بالکل۔ کیازبردست واقعہ یاد کروا دیا گڑیا نے۔میں پورا واقعہ بتاتی ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ کو بچپن سے ہی بت پرستی اور شرک سے سخت نفرت تھی۔ آپؑ کے گھر والے مشرک تھے۔ آپؑ نے انہیں شرک سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ ان کے گھروالے بت بنا کر بیچا کرتے تھے۔ انہوں نے آپؑ کو بھی اپنےساتھ دکان میں بٹھانا چاہا کہ آپؑ کام سیکھ جائیں اور ان کا ہاتھ بٹائیں مگر بجائے اس کے کہ آپ کو بٹھانے سے انہیں کوئی فائدہ پہنچتا الٹا آپ سب گاہکوں کو بھگا دیا کرتے جس وجہ سے آپؑ کو اکثر سزا بھی ملتی۔ آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت بت پرستی اور شرک کے خلاف جہاد شروع کیا۔ اس ملک کے لوگ بت پرستی کے ساتھ ساتھ چاند، سورج اورآگ وغیرہ کی بھی پوجا کیا کرتے تھے۔
حضرت ابراہیمؑ نے انہیں مختلف طریقوں سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی مگر وہ کسی طرح باز نہ آئے تو آپؑ نے آخری حربے کے طور پر ایک دفعہ جب اس ملک کے لوگ کسی تہوار میں مصروف تھے تو آپؑ نے چپ چاپ جاکر اس علاقے کے سب سے بڑے بت خانہ کے سب بت توڑ ڈالے اور جو سب سے بڑا بت تھا اس کے کندھے پر کلہاڑی رکھ دی۔اب شام کو جب سب لوگ تہوار سے واپس آئے تو عبادت کے لیے اس بت خانے میں گئے تو دیکھا کہ ایک بت کے سوا سب ٹوٹے ہوئے تھے۔وہ سمجھ گئے کہ یہ کس کی حرکت ہوسکتی ہے اس لیے وہ سیدھے حضرت ابراہیمؑ کے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے ؟آپؑ نے کہا: کسی نے تو کیا ہے تم اپنے بت سے جس کی تم پرستش کرتے ہو اس سے پوچھو کہ اس کے ساتھیوں کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ؟ اب اس سوال سے وہ شرمندہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ ابراہیم !تم جانتے ہو کہ بت بول نہیں سکتے۔ تب حضرت ابراہیمؑ نے انہیں تبلیغ کی کہ کیا خدا کے سوا ان کی پرستش ہو سکتی ہے جو تمہیں کچھ بھی نفع نہیں دیتے اور نہ نقصان دیتے ہیں۔ ا یک پرانی رسم تھی کہ جو بتوں کی ہتک کرتا تھا اسے جلا دیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس ملک کے بادشاہ نمرود نے آپؑ کو آگ میں ڈالنے کی سزا دی۔
کیا واقعی آگ میں ڈالنے کی ؟ احمد نے کہا۔
گڑیا :دادی جان ! مجھے یہ بات پریشان کررہی ہے کہ اگر کسی انسان کو آگ میں ڈالا جائے تو وہ بچ کیسےسکتا ہے ؟
دادی جان :ہمم! اچھا سوال ہے۔میں آپ کو بتاتی ہوں۔ اصل میں ہوا یہ کہ نمرود کے دربار میں جب حضرت ابراہیمؑ کو پیش کیا گیا تو ان کے درمیان مباحثہ ہوا اور نمرود جب مباحثے میں لاجواب ہوگیا تو اس نے حکم دیا کہ ایک بہت بڑا الاؤجلا کر اس میں حضرت ابرہیمؑ کو ڈال دیا جائے مگر وہ تو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔ انہیں خدا کیسے جلنے دیتا۔اس لیے جب آپ کو اس الاؤ میں ڈالا گیا تو اچانک سے خدا تعالیٰ کے حکم سے انتہائی تیز بارش شروع ہوگئی جس سے وہ آگ آن کی آن میں بجھ گئی اور حضرت ابرہیمؑ معجزانہ طور پر اس آگ سے بالکل محفوظ رہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی تھی کہ انہیں کچھ نہیں ہوگا۔ اس لیے انہوں نے بھی استقامت دکھائی۔
محمود: تو کیا انہوں نے دوبارہ حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں تو نہیں ڈالا؟
دادی جان: چونکہ بت پرست بہت وہمی ہوتے ہیں اس لیے جب ادھر انہوں نے آگ جلائی ادھر بادل آگیا اور آگ بجھ گئی۔ تو انہوں نے سمجھا کہ یہی خدا کی مرضی ہوگی اور انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو چھوڑ دیا۔یہاں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ استقامت سے اپنے عقیدہ ٔتوحید پر قائم ہوں۔
محمود: تو دادی جان وہ ٹیلنٹ شو میں آدمی کو آگ نے کچھ نہیں کہا تھا۔انہوں نے خود کو آگ لگائی تھی۔
دادی جان: آج کل ایسے کپڑے اورکیمیکل ایجاد ہوئے ہیں کہ ان پر آگ اثر نہیں کرتی۔ اس میں کوئی معجزے والی بات نہیں۔ اسے مہارت یا شعبدہ بازی کہتے ہیں۔
اور اب چلیں امی جان نے میز پر کھانا لگا دیا ہے۔ اب ہم مل کر مزے مزے کا کھانا کھاتے ہیں۔دادی جان نے کہا اور وہ سب کھانے کی میز کی طرف بڑھ گئے۔
(استفادہ تفسیر کبیر جلد پنجم ) (درثمین احمد۔ جرمنی)