پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق ابوالاثر محمد حفیظ جالندھری صاحب کی قادیان آمد (قسط ۲۸)
ملتا ہے کہ ۹؍جون۱۹۲۹ء کوتعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے گراونڈ میں ایک شاندار مجلس مشاعرہ منعقدہوئی۔ اخبار الفضل قادیان نے اپنی ۱۴؍جون کی اشاعت کے صفحہ اول پر اس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ (اس مشاعرہ میں)’’کئی اصحاب نے نظمیں پڑھیں اور جناب ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری نے اپنی تازہ تصنیف شاہنامہ اسلام کے بعض حصے اپنی مخصوص طرز میں پڑھ کر سنائے۔ حضرت خلیفة المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی شمولیت فرمائی ‘‘
ملتا ہے کہ جب ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری قادیان تشریف لائے تھے تو ابھی نوجوان ہی تھے اور ’’شاہنامۂ اسلام‘‘کی اشاعت کے لیے کو شاں تھے ۔
اس غیر ازجماعت مہمان شاعر کا ذاتی نام محمد حفیظ اور کنیت ابوالاثر تھی جبکہ یہ شاعری میں حفیظ تخلص استعمال کیا کرتے تھے۔آپ۱۴؍جنوری۱۹۰۰ءکوجالندھرمیں پیدا ہوئے۔ مروجہ دینی تعلیم کے بعد سکول میں داخل ہوئے۔ حفیظ کو بچپن ہی سے شعروسخن سے دلچسپی تھی۔
کسب معاش کے لیے عطر فروشی، کلاہ سازی، خیاطی، فوج کی ٹھیکیداری، خطوط نویسی ، مزدوری، سنگر سیونگ مشین کمپنی کی مینیجری سب کچھ کرڈالا۔
اردو زبان میں ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا جو پانچ ماہ بعد بند ہوگیا۔۱۹۲۲ء میں لاہور آئے۔ مختلف ماہنامہ رسائل کی تیاری میں مدد دینے کے لیے تنخواہ دار ملازم رہے۔ لیکن پاکستان کا’’قومی ترانہ‘‘ کے خالق کی حیثیت سے حفیظ کو بہت شہرت ملی۔ ۲۱؍دسمبر۱۹۸۲ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
تاریخ احمدیت میں ہے کہ حفیظ جالندھری صاحب نے ’’شاہنامہ‘‘ اسلام کی اشاعت سے پہلے اس کے بعض حصے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی دکھائے تھے اورپھر حضور رضی اللہ عنہ کے ارشاد پرجماعتی کتب کے ادارے ’’بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان‘‘ نے اس کتاب شاہنامۂ اسلام کی ۱۰۰ کاپیاں اشاعت سے پہلے ہی پیشگی قیمت ادا کرکے خریدی تھیں تاکہ اس شاعر کو کچھ مالی فائدہ ہوجائے۔
اسی طرح تاریخ احمدیت کے اوراق بتاتے ہیں کہ جب ۱۹۲۸ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ہندوستان بھر میں سیرت النبیﷺ کے بابرکت جلسوں کا انعقاد ہوا جوبلاشبہ حضرت مصلح موعودؓ کا مہتم بالشان کارنامہ تھا اور اس سے منفرد، بین الاقوامی اور بین المذاہب جلسہ سیرت النبیﷺ کی بنیاد پڑی، جس کی تفصیلات کا مطالعہ ہی ایک ایسا روح پرور نظارہ پیش کردیتا ہے جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔مرکز سلسلہ قادیان کے زیراہتمام ہونے والے ان منظم جلسوں کی رپورٹنگ میں ملتا ہے کہ احمدی مقررین کے علاوہ دوسرے مسلمانوں میں سے ان جلسوں پر تقریر کرنے والوں یا نظم پڑھنے والوں یا صدارت کرنے والی نمایاں شخصیات کی فہرست میں ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری بھی شامل تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ابوالاثر حفیظ جالندھری صاحب کواردو زبان کے قابل شاعروں میں شمار کرتے تھے۔ جیسا کہ ملتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے۲۹؍جولائی۱۹۴۹ء کو کوئٹہ میں خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہندوستان میں مختلف قوموں اور زبانوں کے اختلاط سے ایک زبان پیدا ہوئی جس کو اُردو کہتے ہیں۔ اس زبان کی طرف ہندوستان میں بہت کم توجہ رہ گئی ہے بلکہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس کو بالکل مٹا دیا جائے۔ پنجاب کا شہری طبقہ اس کا بہت شائق چلا آتا ہے اور اس میں علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اردو زبان کی بہت خدمت کی ہے اور ان کی وجہ سے ہندوستان اور اس کے باہر اردو زبان بہت مقبول ہو گئی ہے۔‘‘