درود شریف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام
جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جزوہو جاتا ہے
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی اصلاح کی خاطر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو بھیجا اور ان تمام انبیاء سمیت سب انسانوں سے بہتروجود ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کو بھیجا جو کہ خاتم النبیین ہونے کے ناطے تمام اعلیٰ اخلاق اور خوبیوں کے مالک تھے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہمیں نہ صرف آپﷺ کے حق میں دعائیں کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ آپ کی عظمت اور شان کے اظہار کا بھی حکم دیا ہے تا ہم آپﷺ کے احسانات کی شکر گزاری میں حصہ لے سکیں۔
قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔(الاحزاب: ۵۷)خدا اور اس کے سارے فرشتے اس نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایماندارو تم بھی اس پر درود بھیجو اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو۔ (براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۷۱ حاشیہ نمبر ۱۱ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ششم صفحہ۳۹۷)
یاد رہے کہ مسلمانوں کوآنحضورﷺ پر صرف درود کے الفاظ ہی نہیں پڑھنے چاہئیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ بیان کرکے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ صَلُّوۡا عَلَیۡہِ یعنی اس پر درود بھیجو، یہ بیان فرما کر اس بات کی اہمیت بیان فرمادی کہ درود بھیجنا مومنین کے لیے محض ایک اختیاری امر نہیں بلکہ ان پر فرض ہے۔
رحمت اور درود بھیجناکیا ہے؟ اس بات کو ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے خود بیان فرمایا۔ یعنی
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیَ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبرَاهِیْمَ وَعَلٰی الِ اِبرَاهِیْمَ اِنَّکَ حَمیْدٌ مَّجِیْدٌ
اَللّٰهُمَّ بَارِک عَلیَ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبرَاهِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاهِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
(ترمذی کتاب الصلوٰۃ۔ باب ماجاء فی صفة الصلوٰۃ علی النبیﷺ)
درود کے ذریعہ انسان کس درجہ تک پہنچ سکتا ہے اس بارے میں حدیث میں آتا ہے : حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو اُن میں سے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا۔ (سنن الترمذی کتاب الصلوٰۃ کتاب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ …حدیث نمبر۴۸۴)
درود شریف کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنی طرف پہنچنے کا ایک وسیلہ بنایا ہے۔ یقیناً جب انسان درود شریف کو اپنی دعا میں شامل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس دعا کو ایک عجیب تقویت بخشتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں- اوّل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِيْ (آل عمران:۳۲)-دوم يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ آٰمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا (الاحزاب:۵۷) تیسرا- موهبت الٰہی۔‘‘ ( ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۸، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
یہ بات ہر گز کوئی راز نہیں ہے کہ ایک حقیقی مومن کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب نبی پاک محمد مصطفیٰﷺ کی زیارت عنایت فرمائے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس خواہش کو پورا کرنے کا ذریعہ بیان فرمایا ہے۔
اس بات کا ذکر کرنا بھی غیر ضروری نہ ہوگا کہ درود شریف کو خالصتاً الفاظ سے ادا کرکے وہ برکتیں جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں حاصل نہیں ہوسکتیں۔ درود شریف کو کس رنگ میں پڑھنا چاہیے اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ہمارے لیے ایک بہترین مثال بیان فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم [صلی اللہ علیہ وسلم] کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم [صلی اللہ علیہ وسلم] سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں … اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو۔ اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ ۵۳۴-۵۳۵ مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر۱۸شائع کردہ نظارت اشاعت)
اسی بات کو ایک اور رنگ میں آپؑ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ’’درود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ ان کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور تام سے اپنے رسول مقبول کے لئے برکات الٰہی مانگتے ہیں بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجے تک پہنچ گیا ہے کہ ہرگز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتداء زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ ۵۲۲مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر۱۰شائع کردہ نظارت اشاعت)
آنحضرتﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے بندے ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بنائی ہے۔ اسی لیے یقیناً ہر ایک شخص کی خواہش ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے آنحضورﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپﷺ کی طرح ہی پاک ، محبت اور خلوص والا بنائے۔ اس بات کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تعلیم سے بھی ہوتی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں : ’’جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جزو ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (مکتوبات احمد جلد اول صفحہ ۵۳۵مکتوب بنام میر عباس علی شاہ مکتوب نمبر۱۸شائع کردہ نظارت اشاعت)
شعر
ایک شخص اپنی محبت کا اظہار کئی رنگ میں بیان کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام حب في الرسول میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے سینکڑوں اشعار آنحضرتﷺ کے نام کیے جن میں آپؑ آنحضورﷺ کے لیے اپنی محبت کا اظہار اور آپﷺ کے لیے دعا فرماتے ہیں۔ ایک جگہ آپؑ آنحضرتﷺ کے لیے دعا کرتے ہوئے یہ عربی شعر تحریر فرماتے ہیں:
يَا رَبِّ صَلِّ عَلى نَبِيِّكَ دَائِمًا
فِی هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثٍ ثَانِ
(اے میرے رب! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیج اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی۔)
اسی طرح آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے بہت ہی عمدہ الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ آنحضورﷺ کو ہمارے درود کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہم ہی اس درود کے محتاج ہیں۔ چنانچہ اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں :
او چہ میدارد بمدح کس نیاز
مدح او خود فخر ہر مدحت گرے
یعنی اس کو کیا حاجت ہے کہ کوئی اس کی تعریف کرے۔ اس کی تعریف کرنا خود تعریف کرنےوالے کے لیے باعث فخر ہے۔
الہامات
اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے متعدد بار اپنی وحی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بھی سامنے رکھا کہ آپ کو اللہ تعا لیٰ نے بار بار نبی اکرمﷺ پر درود بھیجنے کی تلقین فرمائی ہے۔ آپؑ اپنی تصنیف لطیف براہین احمدیہ میں آپؑ کا ایک الہام درج ہے:وَأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَصَل عَلى مُحَمَّدٍ وَّ الِ مُحَمَّدٍ الصَّلوة هُوَ الْمُرَبِّي (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ۲۶۷)یعنی اور نیکی کی تحریک کر اور بری باتوں سے روک اور محمدؐ پر اور محمدؐ کی آل درود بھیج۔ درود ہی تربیت کا ذریعہ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمارے لیے ایک بہت ہی اہم لائحہ قائم فرمایا ہے۔ آپ علیہ السلام نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ توحید کوصرف رسول زمین پر لاتا ہے اور رسول ہی یقیناً وہ ہے جس کے ذریعہ خدا جو مخفی ہے اپنا چہرہ دکھلاتا ہے۔ اس بات کی تائید میں آپ علیہ الصلوٰة والسلام اپنا ایک لطیف کشف بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے وَابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دوسقے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور اُن کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیںهَذا بِمَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ۔‘‘ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۱حاشیہ ) یعنی یہ اسی وجہ سے ہے جو تم نے محمدﷺ پر درود بھیجا۔ ہم سب کے لیے یہ ایک بہترین مثال ہے کہ اپنے رب کو پانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر درود بھیجنا مقرر فرمایا ہے۔
یہاں اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعو علیہ الصلوٰة والسلام کو یہ الہام کیا کہکُلُّ بَرَکَةٍ مِنْ مُحَمّدٍﷺ۔ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔ ہر ایک برکت محمدﷺ کی طرف سے ہے۔ پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ (حقیقة الوحي، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۳)
اس سے یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے حصول کا ذریعہ ہمارے لیے آنحضورﷺ ہی ہیں۔ اسی لیے آپؐ پر درود بھیجنا ہر احمدی مسلمان کی ذمہ داری اور فرض ہے۔
شرائط بیعت میں درود شریف کے التزام کی تاکید
ہر احمدی کو یہ ذہن نشین کرناچاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دس شرائط بیعت شائع فرمائیں تو آپ نے خاص طور پر درود شریف کو بکثرت پڑھنے کی بھی تلقین فرمائی۔ چنانچہ دس شرائط بیعت میں سے تیسری شرط کو آپ نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’سوم۔یہ کہ بلاناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا۔ اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کثرت کے ساتھ دل و جان اور فدائیت سے آنحضورﷺ پر درود و سلام بھیجنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭