ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ سیزدہم)
جیل میں گیارہ دن
(گذشتہ سے پیوستہ)صحافی نے حضور انور سے ۱۹۹۹ءمیں جیل میں گزرے ہوئے وقت کے بارے میں بھی پوچھا جب حضور انور کو ایک جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ اس وقت آپ کے ہمراہ ربوہ کے تین اَور لوگ بھی تھے۔ حضور انور نے احمدیت کی وجہ سے جیل میں گیارہ دن گزارے۔ اس وقت کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایاکہ گرفتاری کے وقت مَیں پاکستان میں جماعت کا انتظامی سربراہ تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک قریبی بس سٹاپ پر کسی نے قرآن کریم کی ایک آیت میں ردوبدل کی کوشش کی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کس نے کیا لیکن قرینِ قیاس ہے کہ یہ کام ملّاؤں ،ان کے حامیوں یا مخالفینِ احمدیت نے کیا تھا تاکہ وہ مجھے اور چند دیگر احمدی احباب کو پھنسا سکیں۔ ایک سوچی سمجھی سکیم تھی اور اس کی وجہ سے ہمیں گرفتار کیا گیا۔
مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے حضورانور نےفرمایا کہ اس وقت میں نے اپنے سے پہلے خلیفہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھا اور دعا کی درخواست کرتے ہوئےلکھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ رہائی ملے گی اور یہی بہتر لگتا ہے کہ پاکستان میں جماعت کا انتظامی سربراہ کسی اَور کو مقرر کر دیا جائے۔ تاہم جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ میں اس عہدے پر فائز رہوں گا اور یہ بھی کہ مجھے رہائی بھی ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گیارہ دن کے بعد مجھے اور جن کو میرے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا رہا کر دیا گیا اور یہ واقعی ایک معجزہ تھا ۔اللہ تعالیٰ نے خود ہمارے حق میں حالات پیدا فرمائے ۔
حضور انور کا یہ جواب سننے پر بولیویا سے آئے ہوئے صحافی کے منہ سے بے اختیار beautiful (عمدہ) کے الفاظ نکلے۔
رضاکاران کا جذبہ
پھر اس صحافی نے جلسہ سالانہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ذاتی طور پر حیرت زدہ ہے کہ ہزاروں لوگ رضاکاروں کی صورت میں موجود تھے۔ اس کے جواب میں حضورِ انور نے فرمایاکہ میں نے نہیں کہا کہ سب ضرور جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی دیں بلکہ ہمارے احمدیوں کے اندر جماعت کی خدمت کے لیے ایک جوش اور جذبہ پایا جاتا ہے اور ان کے دل انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ خدمت کریں۔ جماعت کے لیے ان کی یہ محبت فطرتی ہے اور ان کے اندر سے اٹھتی ہے۔
حضور انور کے ساتھ چند بابرکت لمحات
اس میٹنگ کے اختتام پر جب صحافی کمرے سے باہر نکلا تو حضورانور نے خاکسار کو چند لمحوں کے لیے دفتر میں رکنے کا اشارہ فرمایا۔میں نے فوراً ہی عرض کی کہ دیگر انٹرویوز کی نسبت اس انٹرویو سے میں زیادہ لطف اندوز ہوا ہوں کیونکہ حضور انور نے ذاتی تجربات پر مبنی جواب عطا فرمائے جن میں سے بعض میں نے پہلی مرتبہ سنے تھے۔ خاص طور پر حضورِ انور کے بچپن کے واقعات نیز جوانی میں قبولیت دعا کے واقعات نے جو اثرات حضور انور پر مرتب کیے، انہوں نے مجھے جذبات سے مغلوب کر دیا ۔پھر حضور نے ۱۹۹۹ءمیں اسیری میں گزرے ہوئے وقت کا بھی تفصیل سے ذکر فرمایا۔
معلوم ہوتا تھا کہ حضور انور نے بھی اس انٹرویو سے لطف اٹھایا تھا۔چنانچہ آپ نے فرمایاکہ میرا خیال ہے کہ یہ صحافی اب ایک اچھا اور دلچسپ مضمون لکھے گا۔
حضور انور کا تبصرہ سچ ثابت ہوا اور اس صحافی نے ایک دلچسپ مضمون لکھا جو نہ صرف بولیویا بلکہ دیگر Latin Americanممالک میں بھی شائع ہوا۔ الحمد للہ
ایک بزرگ کے ساتھ پُر شفقت لمحہ
ایک میٹنگ کے اختتام پر جب حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے جانے لگے تو سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ اور حضور انور کے ایک بزرگ رشتہ دار محترم میر صاحب نے درخواست کی کہ حضور انور ازراہِ شفقت اس کمرے کو جس میں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں اپنی تشریف آوری سے برکت بخشیں۔ نہایت شفقت سے حضورانور ان کی درخواست منظور فرماتے ہوئےان کے ساتھ تشریف لے گئے اور جس جگہ گیسٹ ہاؤس میں محترم میر صاحب رہائش پذیر تھے وہاں ان کے ساتھ چند لمحات کے لیے موجود رہے۔
Ashanti بادشاہ کے ساتھ ملاقات
نمازِ ظہر اور عصر کی ادائیگی کے بعد حضور انور سے گھانا سے تشریف لائے ہوئے اشانتی بادشاہ Osei Tutu IIنے ملاقات کی،جن کی وہاں کے لوگ بہت تعظیم کرتے ہیں۔بادشاہ کو یوکے جماعت کی میزبانی میں کھانے کی دعوت دی گئی تھی اور حضور انور نے بنفس نفیس اس دعوت کو رونق بخشی۔دعوت سے قبل حضور انور نے ازراہِ شفقت بادشاہ کو کچھ لمحات کے لیے صدر مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے دفتر میں ملاقات کا شرف بخشا۔اس موقع پر امیر صاحب غانا، امیر صاحب یوکے اور طارق بی ٹی صاحب بھی موجود تھے۔
بادشاہ کا پروٹوکول سٹاف اورسیکیورٹی سٹاف بہت محتاط تھے اور ان کے بعض مخصوص تقاضے تھے۔ مثال کے طور پر میٹنگ سے قبل وہ بہت محتاط تھے کہ بادشاہ کو کس قسم کی کرسی پر بٹھایا جائے گا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان کے مطالبے کچھ زیادہ اور غیر ضروری تھے تاہم چونکہ وہ ہمارے مہمان تھے، اس ناطے جماعت اپنی استعداد کے مطابق ان کے لیے ہر سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ میٹنگ کے دوران حضور انور نے گھانا کے لوگوں کے لیے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہوئےفرمایاکہ افریقن لوگوں میں سے مَیں گھانین لوگوں کو سب سے زیادہ منظم سمجھتا ہوں۔ مذہبی رواداری کے حوالے سے بھی اور پُر امن ہونے کے حوالے سے بھی گھانا ایک اعلیٰ مثال ہے اور دیگر ممالک کو آپ سے سیکھنا چاہیے۔ عام طور پر اگر بات کی جائے تو گھانا کے لوگ زیادہ پُرامن لوگ ہیں۔ یہ سننے پر اشانتی بادشاہ نے کہا کہ ان تعریفی کلمات پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔نہایت خوبصورت انداز میں حضور انور نے فرمایاکہ میں اپنے آپ کو بھی نصف گھانین شمار کرتا ہوں کیونکہ میں وہاں کئی سال رہ چکا ہوں۔
بعد ازا ں حضور انور اور بادشاہ کھانے کے دوران اکٹھے تشریف فرما ہوئے جو جماعت کے مرکزی گیسٹ ہاؤس کے پیچھے ایک مارکی میں پیش کیا گیاتھا۔ مختلف ممالک کے سینکڑوں جماعتی نمائندگان اس موقع پر موجود تھے۔ مجھے بھوک نہیں لگ رہی تھی اس لیے میں مارکی سے باہر چلا گیا اور بعض نوجوان خدام سے بات چیت کرنے لگا۔پھر وقاص بھائی(مرزا وقاص احمد صاحب) نے مجھے دیکھ کر کہا کہ میں ان کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھ جاؤں ۔مارکی میں جملہ نشستیں پُر ہو چکی تھیں اس لیے ہم کچن میں چلے گئے اور وہیں کھانا کھایا۔ اگرچہ مجھے بھوک نہیں تھی پھر بھی میں نے اچھی مقدار میں کڑاہی گوشت کھالیا۔
چند منٹ کے بعد ہم مارکی میں واپس چلے گئے جہاں کھانے کے اختتام پر حضور انور نے اشانتی بادشاہ کو ایک انگوٹھی تحفۃً عطا فرمائی۔ کھانے کے اختتام پر امیر صاحب یوکے نے بادشاہ سے پوچھا کہ کیا وہ رخصت ہونے سے قبل چائے پینا پسند کریں گے۔ بادشاہ نے حضور انور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ پئیں گے تو میں بھی پیئوں گا۔اگرچہ مجھے لگتا ہے کہ یہ پروگرام کا حصہ نہ تھا تاہم مصروفیت کے باوجود حضور انور نے فرمایا کہ آپ چائے نوش فرمائیں گے۔بعدازاں حضور انور اوربادشاہ، صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے دفتر میں تشریف لے گئے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)