جائیں گے تو ساتھ ہمارے ایک روایت جائے گی: محترم عبدالکریم قدسی صاحب کی یاد میں
کسی بزرگ کی وفات کی خبر آتی تو کچھ ہی دیر بعد عبدالکریم قدسی صاحب کا مرحوم پر لکھا ہوا قطعہ بھی WhatsApp پر گردش کرتا چلا آتا۔ بعض دفعہ تو خبر اور قطعہ ساتھ ساتھ موصول ہوئے۔ اور یوں بھی ہوا کہ قدسی صاحب کا کہا ہوا قطعہ پہلے آیا اور اس سے معلوم ہوا کہ فلاں نہ ماند۔
اب کچھ روز ہوئے یہ خبر آئی کہ قدسی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اور ظاہر ہے کہ قدسی صاحب کا قطعہ نہ آیا۔ پس ہمارا کیا قصور اگر ہمیں قدسی صاحب کی وفات کا یقین نہ آئے۔ میرے پیارے محترم قدسی صاحب۔ اپنی تاریخ وفات نہ لکھتے کہ اس پر کسی کو اختیار نہیں، مگر اپنا قطعہ ہی لکھ جاتے۔ ہمیں اور آپ کے ہزاروں مداحوں کو آپ کی وفات کی خبر مکمل شکل میں تو مل جاتی۔
قدسی صاحب مرحوم سے پہلا تعارف روزنامہ الفضل ربوہ کے ذریعہ ہوا۔ یہ میری نوجوانی کی بات ہے یعنی اب خاصی پرانی بات ہے۔ نسیم سیفی صاحب مرحوم الفضل کے مدیر تھے اور انہیں جاننے والے جانتے ہیں کہ نظم کے معاملے میں سیفی صاحب مرحوم بڑی سخت ادارتی پالیسی پر کاربند تھے۔ یہ سختی دو طرح کی تھی۔ ایک یوں کہ آپ خواجہ ظہورالدین اکمل اور روشن دین تنویر جیسے نابغہ صاحبانِ علم کے جانشین تھے۔ جو مدیر بھی تھے اور شاعر بھی۔ شعر کی سمجھ بوجھ کمال کی تھی۔ جماعت احمدیہ کی شعری روایت کا گہرائی سے علم تھا۔ یوں روزنامہ الفضل میں شائع ہونے والے کلام کے متعلق یہ وثوق سے کہا جاسکتا تھا کہ یہ کلام شعریت اور جماعتی روایت کے معیار پر پورا اترا ہے، تو شائع ہوا ہے۔
دوسرا سخت معیار سیفی صاحب مرحوم کی ذاتی پسند ناپسند کا تھا۔ مثلاً اگر کسی شاعر کی کوئی بات انہیں پسند نہیں آئی تو وہ شاعر اور اس کا کلام الفضل میں ناقابلِ اشاعت قرار پاگیا۔ تب تو یہ معیار ذاتی معلوم ہوتا تھا۔ اب سوچتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ معیار صرف ذاتی پسند نا پسند پر مبنی نہ تھا۔ سیفی صاحب شعر میں مقصدیت کے قائل تھے۔ ترقی پسند تحریک سے متاثر بھی رہے تھے۔ شعر محض تغزل لیے ہوئے ہو اور مقصدیت اس میں نہ ہو، تو سیفی صاحب کا ایسے کلام کو شائع کرنے سے گریز کا جواز کچھ کچھ سمجھ میں آتا ہے۔
اب ایسے کڑے معیار سے گزر کر جس شاعر کا کلام الفضل کی زینت بنا کرتا، وہ بڑی توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا۔ سو میں نے بھی نوجوانی کی عمر سے ہی عبدالکریم قدسی صاحب کو اور ان کے کلام کو توقیر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا۔
یہ ہم اس دور کے ربوہ کی بات کررہے ہیں جو ابھی خلافت کی ہجرت کے دھچکے سے سنبھل نہ پایا تھا۔ ہجر کا دکھ اپنی جگہ تھا اور یہ آس امید ابھی باقی تھی کہ ’’بس بات ہے کل یا پرسوں کی‘‘۔ ایسے میں پاکستان میں رہنے والے احمدی شعرا نہ جانتے ہوئے ایک ایسی شعری صنف کو جنم دے رہے تھے جسے ربوہ کی ہجرتی شاعری کہا جاسکتا ہے۔ اور اس صنف میں قدسی صاحب مرحوم صفِ اول کے شعرا میں کھڑے نظر آتے۔
اس دور میں الفضل میں شائع ہونے والے شعرا ءہمارے لیے اساتذہ کا درجہ رکھتے تھے۔ چوہدری محمد علی صاحب کے یہاں خیال کی گہرائی اور آفاقیت، عبیداللہ علیم صاحب کی رومانویت میں لپٹے انسان اور معاشرے کے مسائل، عبدالمنان ناہید صاحب کا ذخیرۂ الفاظ اور الفاظ کی مزاج شناسی۔ اور ان سب میں ایک درویش شاعر۔ عبدالکریم قدسی۔ جسے نہ زبان دانی کا دعویٰ تھا۔ نہ دہلی اور لکھنو کی شعری روایت کے مباحث سے کچھ غرض تھی۔ بلکہ جسے کوئی دعویٰ نہ تھا۔ اور ان کی یہی سادگی تھی جو اپنی ذات میں ایک مادرِ علمی تھی۔ کہ سادگی کا سا اثر کسی اور چیز میں کہاں۔
بغیر پُر پیچ و خم باتیں کہے سیدھی سادی زبان میں بڑی حقیقتیں بیان کرجاتے۔ اور جذبات بھی تو انسان کی زندگی کی بڑی حقیقتوں میں سے ایک ہیں۔ سو قدسی صاحب مرحوم بہت سوں کے دلوں پر مرہم رکھتے۔ اسی بات نے آپ کو جماعت احمدیہ کے شعر وادب میں ایک ممتاز مقام دے دیا۔
میں کالج کی تعلیم کے بعد ربوہ سے جدا ہوا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں داخل ہو کر احمدیہ ہاسٹل میں مقیم ہوا۔ بعض شعری مجالس میں قدسی صاحب نظر آجایا کرتے۔ اپنے سادہ مگر دل موہ لینے والے کلام کو سادہ مگر جذبات کو گرمادینے والے انداز میں سنایا کرتے۔ کبھی ملاقات نہ ہوسکی۔
طالبِ علمی کا زمانہ گزرا۔ میں لاہور ہی میں مقیم تھا کہ ربوہ سے مجلس خدام الاحمدیہ نے مشاعرے پر مدعو کیا۔ ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ دارالذکر (گڑھی شاہو لاہور) سے ایک گاڑی آرہی ہے، وہ مجھے بھی ربوہ پہنچا دے گی۔
میں وقتِ مقررہ پر گڑھی شاہو پہنچ گیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ دن اور یہ سفر میری زندگی میں یادگار حیثیت اختیار کرنے والے ہیں۔ میں انتظار گاہ میں پہنچ گیا۔ وہاں محترم عبدالکریم قدسی صاحب تشریف فرما تھے۔ یہ میری ان سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ بہت محبت سے ملے۔ بہت حوصلہ افزائی فرمائی۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دل میں گھر کرگئے۔ ابھی تو ایک ہی نابغہ روزگار سے ملاقات ہوئی تھی۔ گاڑی دارالذکر لاہور سے روانہ ہوئی اور معلوم ہوا کہ ابھی ہم محترم ثاقب زیروی صاحب کو ان کی رہائش گاہ سے لیں گے۔اور پھر ربوہ کے لیے روانگی ہوگی۔ گاڑی محترم بلال اشرف صاحب مرحوم کی تھی اور وہی اسے چلا رہے تھے۔ وہی بلال اشرف صاحب جو بعد میں اسی گڑھی شاہو کی مسجد میں 28 مئی 2010 کو شہید کردیے گئے۔ یوں اس سفر میں مجھے ان تین بزرگوں کی ہم سفری کا شرف حاصل ہوا۔ ایک وہ جنہوں نے اپنا خون راہِ مولا میں بہا کر جان کا نذرانہ پیش کیا۔ دو وہ جو عمر بھر حکایاتِ خوں چکاں لکھتے اور لفظوں کی رگوں میں اپنا لہو اتارکر انہیں زندگی بخشتے رہے۔
شعر تو میرے جیسے تیسے تھے اور میں نے مشاعرے میں جیسے تیسے پڑھ بھی دیے۔ مگر جب پڑھ کر اٹھا اور اپنی نشست پر جانے لگا، تو محترم چوہدری محمد علی صاحب نے بڑی شفقت سے پاس بلایا۔ میرا کندھا تھپتھپایا اور محبت کا سلوک کیا۔ اور ساتھ تشریف فرما ثاقب صاحب اور قدسی صاحب سے متعارف کروایا۔ دونوں بزرگوں نے جب یہ کہا کہ لاہور سے ہمارے ساتھ ہی آیا ہے۔ تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ میرے لیے اتنا تعارف بھی بہت تھا کہ وہ ایسے بزرگوں کو یہ بھی یاد رہا کہ میں ان کی گاڑی کی پچھلی نشست پر خاموشی سے بیٹھا ان کی عالی شان گفتگو سنتا ہوا آیا ہوں۔
اس کے بعد قدسی صاحب نے عمر بھر مجھ سے جس محبت کا اظہار فرمایا، میں اس کے لیے قدسی صاحب کے ساتھ چوہدری صاحب مرحوم کا ممنون ہوں۔ وگرنہ شعر میرا کیا ہے شاعری کیا ہے۔ قدسی صاحب نے شاید چوہدری صاحب کی میرے بارے میں خوش گمانیوں کا بھرم رکھا، اور نبھایا۔ اللہ دونوں بزرگوں کو جزائے خیر دے۔
سن 2008 میں خلافت احمدیہ کی صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں ایم ٹی اے انٹرنیشنل نے ایک بین الاقوامی مشاعرے کا اہتمام کیا۔ محترم قدسی صاحب پاکستان سے مدعو کیے گئے۔ جس روز وہ لندن میں وارد ہوئے، میں حاضرِ خدمت ہوگیا۔ قدسی صاحب مسجد فضل کے مقابل گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے۔ حاضر ہوتے رہنے اور نیازمندی کا شرف حاصل کرنے کا موقع ملا۔ مشاعرہ تو خیر ایک ہی دن کا ہنگامہ تھا۔ اس سے پہلے اور بعد قدسی صاحب سے ملاقات کےلیے حاضر ہوجاتا۔ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر پاتا۔ کہتے کہ آپ کو کیا معلوم کہ ہمارے لیے خلیفۂ وقت کے پیچھے ملنے والی ہر نماز کس قدر قیمتی ہے۔
ایک روز ان انہیں باہر چلنے کی درخواست کی۔ کچھ کھانے پینے کو رکنا چاہا تو انہیں پہلا خیال یہ آیا کہ جہاں سے کھانا ہے وہاں پہنچنے میں کتنی دیر لگے گی۔ وہاں کھانے میں کتنا وقت لگ جائے گا اور واپس مسجد فضل پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا۔ یا یوں کیوں نہ کرلیں کہ ظہر کی نماز حضور کے پیچھے ادا کرلیں اور پھر کچھ کھانے چلے جائیں اور عصر سے پہلے پہلے واپس پہنچ جائیں تاکہ کسی بھی نماز کا نقصان نہ ہو۔
قدسی صاحب نے قیامِ لندن کے دوران مجھے اپنی تمام کتب کا ایک سیٹ دیا۔ تب تک چھ سات کتب طبع ہوچکی تھیں۔ پھر اس کے بعد دو مواقع پر مجھے ان کا پاکستان سے پیغام موصول ہوا کہ میں نے کتب فلاں کے ہاتھ فلاں کو بھجوادی ہیں۔ وہ فلاں کو دے دے گا۔ فلاں تمہیں دے دے گا۔ نہ پہنچیں تو میں نے فلاں کو کہہ دیا ہے کہ تمہیں پہنچا دے۔ مجھے ناچیز تک کچھ بھی پہنچانے کے لیے فلاں در فلاں کا سلسلہ ایک ایسا خیال تھا جو مجھے ہمیشہ ممنون کیے رکھتا۔ اور شرمندہ بھی۔ کیونکہ اس پورے اہتمام کا اتنا تو حق تھا کہ میں وہ کتابیں پڑھوں اور فی الفور انہیں اپنے تاثرات سے آگاہ کروں۔ مگر میرے ناچیز تاثرات معلوم کرنے کو بھی انہی کو زحمت کرنا پڑتی۔ پھر میں ان کتب کو یوں پڑھتا جیسے مجھ سے نالائق طالبِ علم امتحان کی ڈیٹ شیٹ لگ جانے کے بعد کورس کی کتابوں کو آغاز سے اختتام تک پڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میری رائے اور میری بات کو ہمیشہ محبت سے سنا اور سراہا۔ یہ ان کا بڑا پن تھا۔ ورنہ ان کی بزرگی اور ان کے کلام کے سامنے میری اور میری رائے کی کیا وقعت تھی۔
یوں بہت سا وقت گزرگیا۔ ایک روز امریکہ کے ایک نمبر سے محبت بھرا پیغام موصول ہوا۔ نمبر انجانا تھا۔ کھولا تو ساتھ میں لگی تصویر سے معلوم ہوا کہ محترم قدسی صاحب ہیں۔ WhatsApp کے ذریعے قدسی صاحب کی محبتوں نے نیا رنگ اختیار کیا۔ ایم ٹی اے پر کوئی پروگرام ہو یا الفضل میں شائع ہونے والی کوئی نثری یا منظوم کاوش۔ قدسی صاحب ماؤں کی طرح صدقے واری جاتے۔ ماؤں کی طرح اس لیے کہ اس زمانے کی بات ہے جب میری اُمّی ڈمینشیا کے ہاتھوں اپنا آپ تک فراموش کر بیٹھی تھیں۔ ورنہ میری ہر اچھی بری کوشش پر صدقے واری جانا انہی کا خاصہ تھا۔ سنبھال کر رکھتیں۔ سب کو دکھاتیں۔ اور سب کو بتاتیں کہ اسے اردو میں نے سکھائی تھی۔ پھر میری امی کو سب بھول گیا۔ یہ بھی کہ میں ان کا بیٹا ہوں اور مجھے اردو انہوں نے سکھائی تھی۔ اور اس اردو میں جو ٹوٹی پھوٹی جوڑ توڑ کرلیتا ہوں، یہ انہیں کی توجہ اور محنت کی بدولت ہے۔
ایسے میں قدسی صاحب مرحوم کی محبتوں کا اظہار مجھے اپنی ماں کی یاددلاتا اور اُس کمی کو کسی حد تک پورا کیا کرتا۔ ان کی وفات سے لے کر اب تک جو میں ان کے بارے میں کچھ بھی نہ لکھ سکا، اس میں ایک یہ بوجھ بھی آڑے آتا رہا۔ اور یہ ملال اور دکھ بھی کہ میں ان کی محبتوں اور شفقتوں کو اس طرح نہ سراہ سکا، جیسا کہ ان محبتوں کا حق تھا۔ مگر آج ان کے واٹس ایپ کے پیغامات دیکھنے بیٹھا تو یہ بند ٹوٹ گیا۔
ایم ٹی اے پر پروگرام ’’جواب آپ بھی دیں‘‘ نشر ہوا تو پہلے پروگرام کے کوئی گھنٹہ بھر بعد قدسی صاحب نے اس پروگرام کی طرز اور انداز پر پوری نظم لکھ کر بھیج دی
حساب ہم سے مانگتے ہوئے صدی گزر گئی، کمال ہے
اب وقت آگیا ہے آپ وقت کو حساب دیں! جواب دیں!
جب یہ نظم مجھے واٹس ایپ پر موصول ہوئی تو میں گاڑی چلا کر گھر واپس جارہا تھا۔ فوراًجواب نہ دے سکا۔ کچھ لمحوں بعد ایک نہایت معصومانہ میسج آیا: ’’کیسی لگی؟‘‘۔میں نے گاڑی موٹر وے پر بنے پٹرول سٹیشن پر روک لی اور ’’جواب دیں‘‘ کو اپنے لیے حکم سمجھ کر فوراً قدسی صاحب کو جواب لکھا۔ مجھے لگا کہ ایسی محبت کے جواب میں تاخیر گناہ ہے اور میں اس گناہ کا بوجھ نہیں اٹھا سکوں گا۔
آج صبح جب قدسی صاحب مرحوم کے واٹس ایپ میسجز میں سے گزرا ہوں۔ تو یہ گویا میری ہر کاوش کا ایک ریکارڈ ہے۔ طالع شہید پر نظم ’’شاہنامۂ شہید‘‘ اور پھرطالع ہی پر ایک مضمون پر قدسی صاحب بس گلے نہ لگا سکے کہ واٹس ایپ ہنوز ایسی سہولت مہیا نہیں کرتا۔ مگر یوں سمجھ لیں کہ گلے ہی لگا لیا۔اور بہت محبت کا سلوک کیا۔
میں نے اپنی والدہ مرحومہ پر مضمون تحریر کیا۔ تو قدسی صاحب کا پیغام موصول ہوا:
’’آ پ کی والدہ محترمہ کے بارہ میں آپ کا مضمون قسطوں میں پڑھا۔ قسطوں میں اس لیے کہ بار بار آنکھیں بھیگ جاتی رہیں۔۔۔‘‘۔محترم قدسی صاحب! آج آپ کے پیغامات میں گزرا ہوں تو اس کیفیت کا اندازہ ہوا ہے جو آپ نے اس جملے میں تحریر فرمائی تھی۔ اور آپ کی خدمت میں یہ نذرانۂ تحریر قلم بند کرنے بیٹھا۔ تو یہ بھی قسطوں میں ممکن ہوا۔
اور قدسی صاحب! یہ ملال بھی دل میں پیوست ہو کر رہ گیا ہے کہ آپ گئے تو تاریخِ وفات کے قطعے بھی آپ کے ساتھ ہی گئے۔ آپ نے تو سب مرحومین کے قطعات لکھے۔ آپ پر بھی شعرا کرام بہت کچھ لکھیں گے۔ اور بہت اچھا لکھیں گے۔ تب تک اس ’’نوجوان‘‘ ہم سفر کی طرف سے، جس سے آپ نے محبت کا بے غرض سلوک فرمایا، ایک ادنیٰ سا نذرانہ قبول فرمائیں:
جائیں گے تو ایک روایت ساتھ ہمارے جائے گی
اپنی طرز کی شعر حکایت ساتھ ہمارے جائے گی
مرنے والوں کے نوحے، اب کون لکھے گا تیری بعد
جینے والوں کی یہ شکایت ساتھ ہمارے جائے گی