خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍ نومبر 2023ء
’’تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہرگز پا نہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں۔‘‘ (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
ایک دنیادار کی نظر میں یہ ایک ایسی بات ہے جس کو سمجھنا مشکل ہے لیکن جن کے ایمان مضبوط ہیں انہیں پتہ ہے کہ یہ قربانی اس لیے ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل نظر آتے ہیں
میں ان امیر لوگوں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی اس سے سبق سیکھیں اور اپنی قربانیوں کے معیار کو بڑھائیں
یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی ادھار نہیں رکھتا
کیا ان مخالفین کی پھونکوں سے یہ چراغ بجھ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے جلایا ہوا ہے۔ جتنا چاہے زور لگا لیں ناکامی اور نامرادی ہی مخالفین کا مقدر ہے اور جماعت دنیا کے ہر کونے میں قربانیوں کی مثالیں قائم کرتے ہوئے ترقی کرتی چلی جا رہی ہے
تحریکِ جدید کا مقصد ہی یہ تھا کہ تبلیغ کر کے جماعت کو بڑھایا جائے اور دنیا کے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا لہرایا جائے۔ پس یہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی آغوش میں آئے ہوئے لوگ ہیں جو ایمان و یقین اور قربانی میں مثالیں قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
حضرت مصلح موعودؓ نے شروع میں اس تحریک کو دس سال تک کے لیے بڑھا دیا تھا۔ تین سال سے پھر دس سال کر دیا تھا۔ پھر دس سال مکمل ہونے پر اس کے خوش کن نتائج ظاہر ہونے پر اور مزید قربانیاں کرنے والوں کی خواہش پر اسے مزید بڑھا دیا اور پھر یہ مستقل تحریک بن گئی
آج پھر انیس سال پورے ہونے پر میں دفتر ششم کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں۔ اب نئے شامل ہونے والے نومبائعین بھی اور نئے پیدا ہونے والے بچے بھی یا جو بھی پہلے کسی دفتر میں نہیں ہیں دفتر ششم میں شامل ہوں گے
تحریکِ جدید کے نواسیویں(۸۹)سال کے دوران افرادِ جماعت کی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں کا تذکرہ اور نوّےویں(۹۰)سال کے آغاز کا اعلان
مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مخلص احمدیوں اور نومبائعین کی مالی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات کا بیان
خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں دوسرے دفتر جبکہ مجموعی طور پر تحریکِ جدید کے دفتر ششم (6)کے اجرا کا اعلان
مظلوم فلسطینیوں کے لیے دعا کی مکرر تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 03؍نومبر2023ء بمطابق 03؍نبوت 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (آل عمران: 93)
تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ نیکی کے اعلیٰ معیار اس وقت ہی حاصل ہوتے ہیں جب تم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ خرچ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو۔ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ
’’تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہرگز پا نہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں۔‘‘
(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 38)
پھر ایک جگہ آپؑ نے فرمایا کہ ’’مال کے ساتھ محبت نہیں چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جن سے تم پیار کرتے ہو۔‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ 130)
فرمایا:’’بیکار اور نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ نیکی کا دروازہ تنگ ہے۔ پس یہ امر ذہن نشین کر لو کہ نکمی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس نیکی کے دروازے میں ’’کیونکہ نصِّ صریح ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران:93) جب تک عزیز سے عزیز اور پیاری سے پیاری چیزوں کو خرچ نہ کرو گے اس وقت تک محبوب اور عزیز ہونے کا درجہ نہیں مل سکتا۔ اگر تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے اور حقیقی نیکی کو اختیار کرنا نہیں چاہتے تو کیونکر کامیاب اور بامراد ہوسکتے ہو۔‘‘ فرمایا ’’کیا صحابہ کرام مفت میں اس درجہ تک پہنچ گئے جو اُن کو حاصل ہوا۔ دنیاوی خطابوں کے حاصل کرنے کے لیے کس قدر اخراجات اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ تب کہیں جا کر ایک معمولی خطاب جس سے دلی اطمینان اور سکینت حاصل نہیں ہوسکتی ملتا ہے۔‘‘ خطاب ایسا ملتا ہے کہ ضروری نہیں اس سے دلی سکینت بھی حاصل ہو لیکن اس کے لیے انسان محنت کرتا ہے۔ ’’پھر خیال کرو کہ رضی اللّٰہ عنھمکا خطاب جو دل کو تسلی اور قلب کو اطمینان اور مولیٰ کریم کی رضا مندی کا نشان ہے کیا یونہی آسانی سے مل گیا؟‘‘ صحابہؓ کو۔ ’’بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔ خدا ٹھگا نہیں جا سکتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لئے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد1صفحہ 75-76 ایڈیشن 1984ء)
پس یہ مال خرچ کرنے کا وہ ادراک ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ جماعت پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے، ہر احمدی پر احسان ہے جس نے اس بات کو سمجھا اور اس نے اپنا مال دین کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے پیش کیا کہ باوجود اپنی ضروریات کے افرادِ جماعت کی ایک بڑی تعداد اپنا مال دینی ضرورت کے لیے پیش کرتی ہے۔ ہزاروں مثالیں ایسی ہیں جو اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر دینی ضروریات کے لیے اپنی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے معاشی حالات عموماً خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے۔ ویسے تو ترقی یافتہ ممالک کا بھی اب وہ حال نہیں رہا جہاں ان کو ہر چیز میں آسانیاںاور کشائش تھی اور اب جو دنیا میں جنگ کے حالات ہیں اور یورپ میں بھی جو یوکرین اور روس کی جنگ ہورہی ہے اس نے یورپ کے حالات بھی کافی خراب کر دیے ہیں۔ بہرحال ترقی پذیر ملکوں کی معیشت پر تو زیادہ اثر پڑا ہے۔ پھر ان ملکوں کے سیاستدانوں کی کرپشن نے بھی بہت بُرے حالات کر دیے ہیں لیکن اس کے باوجود احمدی اپنی مالی قربانی میں آگے ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
ایک دنیا دار کی نظر میں یہ ایک ایسی بات ہے جس کو سمجھنا مشکل ہے لیکن جن کے ایمان مضبوط ہیں انہیں پتہ ہے کہ یہ قربانی اس لیے ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل نظر آتے ہیں۔
نومبر کے پہلے خطبہ میں جیسا کہ احباب جانتے ہیں
تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان
ہوتا ہے تو تحریکِ جدید کے حوالے سے ہی میں بعض واقعات پیش کروں گا۔
صدر لجنہ ضلع لاہور نے مجھے لکھا کہ ایک مجلس میں مجھے تحریکِ جدید کے چندے کی طرف توجہ دلانے کے لیے کہا گیا۔ ایک درمیانی کمائی کرنے والے اوسط درجہ کے لوگوں کی یہ مجلس ہے۔ کہتی ہیں کہ مجھے شرم بھی تھی اور ہچکچاہٹ بھی تھی کہ میں کیا ان کو تحریک کروں کیونکہ یہ پہلے ہی بہت زیادہ قربانیاں کر رہے ہیں لیکن بہرحال مجھے کہا گیا تھا اس لیے توجہ دلانی پڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ کس طرح بڑھ بڑھ کر عورتوں نے اپنی قربانیاں پیش کی ہیں۔ کہنے لگیں کہ مجھے شرم اَب اس بات پر آئی کہ کم آمدنی والے لوگ اس طرح قربانی کر رہے ہیں جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور بہت سارے امیر بھی سوچ نہیں سکتے۔ نقد اور زیور کی صورت میں کئی لاکھ روپے دے دیے۔ اسی طرح وکیل المال اوّل کی رپورٹ میں ان خواتین کی کئی صفحوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اپنے زیور پیش کیے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تحریکِ جدید کا اعلان فرمایا تھا اور اس وقت جو مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک عورتوں کی قربانی کے تعلق میں یہ بھی تھا کہ زیور نہ بنائیں یا کم بنائیں اور قربانی کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ زیور کی قربانی دینا جو بنا بنایا زیور ہے اس سے بڑی قربانی ہے کہ زیور نہ بنایا جائے۔ جو سامنے چیز ہے اس کو دینا بہت مشکل کام ہے۔
پس احمدی عورتوں نے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر اس وقت بھی یہ قربانی دی اور آج بھی دے رہی ہیں۔ صرف ایک ملک میں نہیں بلکہ ان مغربی ممالک میں بھی ایسی عورتیں ہیں جو اپنے زیور دیتی ہیں بلکہ تمام زیور چندے میں دے دیتی ہیں۔ پھر نیا بناتی ہیں تو پھر چین نہیں آتا پھر وہ زیور چندے میں دے دیتی ہیں کیونکہ جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ابدی اور دائمی خوشی حاصل کرنا چاہتی ہیں جو قربانی کے بغیر نہیں ملتی۔
پھر غریب لوگ ہیں جو اپنے پیٹ کاٹ کر چندہ دیتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پھر فوری نواز بھی دیتا ہے اور ان کو اس چندے سے بڑھ کر ایسے طریقوں سے عطا فرما دیتا ہے کہ انہیں خود بھی حیرت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے کچھ واقعات میں یہاں بیان کروں گا لیکن ساتھ ہی
میں ان امیر لوگوں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی اس سے سبق سیکھیں اور اپنی قربانیوں کے معیار کو بڑھائیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا تھا کہ غریب لوگ تو ایسے بھی ہیں جو اپنی ایک مہینے کی آمد کا پینتالیس فیصد تک دے دیتے ہیں اگر ان کی روزمرہ کی خوراک کو بنیاد بنایا جائے اور اس کے مطابق چندے کا خرچ نکالا جائے، لیکن امیر لوگ صرف ڈیڑھ فیصد دیتے ہیں بلکہ اب تو غریبوں میں سے ایسے بھی ہیں جو سو فیصد دے دیتے ہیں اور امیر شاید ایک فیصد دیتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے غریبوں کا جو سو فیصد ہے وہ امیروں کی کل رقم سے بہت کم ہوتا ہے لیکن قربانی کا معیار بہت اعلیٰ ہوتا ہے۔
(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 15صفحہ 443)
پس اس لحاظ سے خوشحال لوگوں کو بھی اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ یہ
یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی ادھار نہیں رکھتا
جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا کہ سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ بڑھا کر عطا فرما دیتا ہے۔ تو بہرحال جیساکہ میں نے کہا چند مثالیں قربانی کرنےو الوں کی میں یہاں پیش کرتا ہوں۔ جہاں ان کی قربانی اور ایمان کے جذبے کا پتہ چلتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کا فضل بھی فوری طور پر ان پر ہوتا نظر آتا ہے۔
گنی بساؤ
افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے محمود صاحب ہیں جو موٹر سائیکل مکینک ہیں۔ ان کو مشنری صاحب نے چندہ تحریکِ جدید کی تحریک کی تو انہوں نے اپنی جیب میں جتنی بھی رقم تھی سب نکالی جو کہ دس ہزار فرانک سیفا تھی۔ گھر میں بیٹھے تھے کہ اسی وقت ان کی بہو بھی آئی۔ انہوں نے گھر میں کھانا پکانے کے لیے پیسے مانگے۔ محمود صاحب وہ ساری رقم تحریکِ جدید چندہ میں ادا کرنے کی نیت کر چکے تھے اور ساری رقم چندے میں ادا کر دی اور بہو کو کہا کہ آپ صبر کریں۔ اس وقت بہو واپس چلی گئی۔ محمود جرگہ صاحب کہتے ہیں کہ ابھی وہ اس پریشانی میں تھے کہ بہو کو کس طرح خرچ دیں کہ گورنمنٹ کے ایک دفتر سے فون آیا کہ آپ دفتر آ جائیں۔ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ آپ نے گذشتہ سال ہماری موٹر سائیکلوں کی مرمت کی تھی جس کی رقم ہم نے آپ کو ادا نہیں کی تھی اور ایک لاکھ نوے ہزار فرانک سیفا کا چیک ان کو دیا۔ چیک وصول کرنے کے بعد محمود صاحب فوراً اپنے گھر آئے۔ اپنی بہو اور باقی گھر والوں کو بلا کر کہا کہ دیکھو! اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی برکتیں۔ جس رقم کی مجھے امید بھی نہیں تھی وہ میرے ربّ نے مجھے دلوا دی۔
فجی
کے مبلغ لکھتے ہیں: ناندی کے ایک دوست اشفاق صاحب ہیں۔ کہتے ہیں انہوں نے سفر کے دوران میرا تحریکِ جدید کا جو پچھلا خطبہ تھا وہ سنا اور جو میں نے واقعات بیان کیے تھے وہ سنے۔ کہتے ہیں کہ ان واقعات کا ان پر بڑا اثر ہوا اور دورانِ سفر گاڑی چلاتے ہوئے سیکرٹری تحریکِ جدید کو فون کیا کہ میرا تحریکِ جدید کا چندہ دوگنا کر دیں۔ یہ بزنس کرتے ہیں۔ اس کے بعد بزنس کی سالانہ مالی رپورٹ تیار ہوئی تو اس سال ان کا منافع بھی دوگنا تھا۔ جس پر وہ بیان کرتے ہیں کہ میرا یقین ہے کہ یہ دوگنا منافع ہماری محنت اور کوششوں سے نہیں ملا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ چندے کو دوگنا کرنے سے ملا ہے۔
ماسکو
کے مبلغ لکھتے ہیں کہ رسلان کِکِیْیُوصاحب قرغیزستان سے ہیں۔ چودہ سال سے یہ ماسکو میں مقیم ہیں۔ کہتے ہیں پہلے بھی یہ مالی قربانی کی طرف توجہ کرتے تھے۔ تقریباً ایک سال قبل انہوں نے جب مالی قربانیوںکامیرا یہ خطبہ سنا تو کہتے ہیں کہ سن کے مجھے بڑا مزہ آیا اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوتا ہوں جو قربانیاں کرنے والے ہیں اور بلاناغہ روزانہ کی آمد کا دس فیصد حصہ چندے کی آمد میں بھجوانا شروع کر دیا۔ کچھ صدقہ میں تھا اور باقی چندے میں۔کہتے ہیں کہ یہی طریق ایک سال سے انہوں نے قائم رکھا ہوا ہے۔ مبلغ کی جب دوسری جگہ بدلی ہوئی تو اس وقت ان صاحب کا، یہ روسی نژاد ہیں، قرغیزستان کے ہیں، پہلا سوال یہ تھا کہ کیا اب بھی میں اپنا چندہ جس طرح میں ادا کرتا تھا اس طرح جاری رکھ سکوں گا۔ تو یہ انقلاب ہے جو مسیح موعود علیہ السلام نے لوگوں میں پیدا کیا ہے۔ ایک فکر ہے چندہ دینے کی۔
تنزانیہ
کے امیر صاحب لکھتے ہیں وہاں کی ایک جماعت میں ایک شخص محمد ثانی صاحب ہیں۔ وہاں نوکری کررہے تھے کہ اس کمپنی کو جہاں نوکری کرتے تھے مالی نقصان ہوگیا اس وجہ سے مالک نے کہہ دیا کہ تمام کارکنان کی تنخواہوں میں سے کٹوتی ہوگی۔ اس پر انہیں بہت دکھ ہوا۔ چندہ تحریکِ جدید کی ادائیگی کا آخری مہینہ تھا۔ معلم نے جب ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی مشکلات کا اظہار تک نہیں کیا کہ کیا مشکل ہے بلکہ اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے اپنا وعدہ مکمل کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگلے ہی دن ان کے مالک کا فون آیا کہ ان کی تنخواہ میں سے کٹوتی نہیں ہوگی۔ چنانچہ دیگر ساتھیوں کی تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی لیکن ان کی تنخواہ مکمل وصول ہوئی۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت جو چندہ تحریکِ جدید کا ادا کر دیا تھا یہ اس کی وجہ سے ہے۔
ملاوی
ایک ملک ہے وہاں کی ماگوچی (Mangochi) ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والی ایک بزرگ خاتون ہیں۔ کھیتی باڑی کرتی ہیں۔ اسی پہ ان کا گزارہ ہے۔ انہوں نے تحریکِ جدید کا وعدہ لکھوایا لیکن ادا نہیں کر سکیں۔ سال کے اختتام پر جب یاددہانی کروائی گئی کہ اگر کسی کا وعدہ نامکمل ہے تو ادائیگی کر دیں تو کہتی ہیں انہوں نے کام کی بہت کوشش کی اور دعا بھی کی کہ کام مل جائے تاکہ وہ اپنی آمد سے وعدہ مکمل کر سکیں۔ کوشش کے باوجود انہیں کام نہیں مل سکا۔ ایک دن وہ مسجد میں نماز عصر ادا کر کے واپس گھر پہنچیں تو انہیں خبر ملی کہ ان کے پوتے نے انہیں پینتالیس ہزار کواچے جو وہاں کی کرنسی ہے تحفةً بھجوائی ہے۔ چنانچہ ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے فوراً معلم کے پاس جا کے اپنے وعدہ کی ادائیگی کی اور بار بار وہ اللہ کا شکر ادا کر رہی تھیں کہ انہیں اپنا وعدہ مکمل کرنے کی توفیق ملی۔ اب غریب لوگ بھی ایک فکر کے ساتھ چندے کی ادائیگی کرتے ہیں۔
تنزانیہ
کے امیر صاحب کہتے ہیں شیانگا کی ایک جماعت ہے۔ وہاں مریم صاحبہ ایک خاتون ہیں۔ کہتی ہیں کہ مجھے معلم کا فون آیا۔ انہوں نے تحریکِ جدید کے بقایا کی طرف توجہ دلائی۔ کہتی ہیں گھر کے استعمال کے لیے اس وقت میرے پاس صرف دس ہزار شلنگ تھے وہ میں نے چندے میں ادا کر دیے۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک لاکھ شلنگ لوٹا دیے اور وہ بھی کہتی ہیں کہ یہ سب چندے کی برکات ہیں۔
گنی بساؤ
سے ایک نومبائع عثمان صاحب ہیں۔ ان کی زندگی میں بہت ساری معاشی مشکلات تھیں۔ جو بھی کاروبار کرتے کامیابی نہیں ملتی تھی۔ اس پریشانی میں وہ رات کو سوئے تو کہتے ہیں مجھے آواز آئی کہ عثمان اپنا چندہ باقاعدگی سے ادا کیا کرو۔ صبح ہوتے ہی عثمان صاحب مشنری کے پاس آئے اور اپنی خواب سنائی۔ جس پر مشنری نے انہیں تحریکِ جدید اور دیگر چندہ جات کے بارے میں بتایا جس پر عثمان صاحب نے فوراً تحریکِ جدید کا چندہ ادا کیا۔ اپنے تمام چندہ جات کی فہرست بنائی اور باقاعدگی سے اپنے چندے ادا کرنے شروع کر دیے۔ عثمان صاحب کہتے ہیں کہ جب سے انہوں نے اپنے تمام چندے باقاعدگی سے ادا کرنے شروع کیے ہیں تب سے اللہ تعالیٰ نے ان کے ہر کاروبار میں برکت عطا فرمائی ہے اور تمام گھریلو پریشانیاں بھی دُور ہوگئی ہیں۔ اب یہ ان کا پختہ یقین ہے کہ یہ سب تحریکِ جدید اور باقی چندوں کی ادائیگی کی برکات ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے اور کس طرح نومبائعین کو بھی یاددہانی کرواتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تو اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ صرف نوازنے کے لیے یہ کرتا ہے۔
آسٹریلیا
سے مربی کامران صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ایک خادم نے قریباً دس سال سے چندہ نہیں دیا تھا۔ میں اس کے ساتھ بیٹھا اور اس کو مالی قربانی کی برکات کے متعلق بتایا۔ اس کے بعد اس نے اپنا چندہ دینا شروع کردیا اور ساتھ ہی تحریکِ جدید اور وقف جدید کا چندہ ادا کر دیا۔ کہتے ہیں کچھ دن گزرے تھے کہ اس کا فون آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے کام میں پروموشن ہوگئی ہے جس کی مجھے بالکل بھی امید نہیں تھی اور کہنے لگا کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی وجہ سے ہے اور جو دس سال سے سست تھا کہنے لگا کہ اب میں کبھی چندوں میں سستی نہیں کروں گا۔
گیمبیا
کاگاؤں ہے نیامینا (Niamina)۔ وہاں بھی ایک دوست عثمان صاحب ہیں۔ سیکرٹری تحریکِ جدید ان کے گاؤں گئے چندہ کی ادائیگی کی تحریک کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ نہ صرف یہ کہ مالی تحریک ہے بلکہ اس کے مقاصد میں سے علم بڑھانا اور تبلیغ کرنا بھی ہے۔ آپ تحریکِ جدید میں شامل ہونے والے ہیں تو صرف یہی نہ سمجھیں کہ چندہ دے دیا اور کام ختم ہوگیا۔ وہ تو دے دیا اس کے علاوہ ان کو اپنا دینی علم بھی بڑھانا چاہیے اور پھر تبلیغ کے میدان میں بھی آنا چاہیے۔ گذشتہ دنوں خدام انصار سے جب میں نے عہد لیا تھا تو اس کو بھی اگر یہ جماعت والے سامنے رکھیں تو تبلیغ کے میدان میں ہمیں بہت آگے آنا چاہیے۔ صرف مالی قربانی دے کے نہ سمجھ لیں کہ ہم نے فرض ادا کر دیا۔
تحریکِ جدید کا ایک مقصد تبلیغ بھی تھا اور بہت بڑا مقصد یہی تھا جس کی وجہ سے شروع کی گئی تھی۔
کہتے ہیں کہ میں اس سے بہت متاثر ہوا اور میں نے نہ صرف بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کہتے ہیں اس وقت تک انہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ جب تحریکِ جدید کے مقاصد کا پتہ لگا تو بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایک سو پچاس ڈلاسی چندہ تحریکِ جدید کا وعدہ بھی کر دیا۔ ادائیگی بھی کر دی۔ کہتے ہیں کہ چندےکی ادائیگی کے بعد وہ اپنے اندر ایک پاک تبدیلی محسوس کرتے ہیں اور میں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں اسلام احمدیت کی تبلیغ کر رہا ہوں۔ نیز اب باقاعدگی سے چندہ عام بھی ادا کر رہا ہوں۔
گیمبیا سے ہی ایک خاتون لکھتی ہیں کہ جب سے میں نے چندہ ادا کیا ہے میں اپنے اور اپنے بچوں کے اندر ایک انقلاب محسوس کرتی ہوں اور دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہر ضرورت کو پورا کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کی راہ میں نیکی اور قربانی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بناتی چلی جاتی ہے۔
گنی کناکری
افریقہ کا ملک ہے۔ وہاں کے لوکل مشنری کمارا صاحب نے کہا کہ چندے کی وصولی کے لیے ایک گاؤں کا دورہ کر رہا تھا کہ ایک نومبائع امام کی اہلیہ سے چندے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تو محترمہ نے پانچ ہزار گنی نکال کر آسمان کی طرف ہاتھ کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ! میرے پاس صرف یہی کُل رقم ہے جو میں تیری راہ میں ادا کر رہی ہوں تُو اسے قبول فرما اور وہ رقم چندے میں ادا کر دی۔ نومبائعہ ہے۔ افریقہ کے دُور دراز علاقے میں رہنے والی ہے۔ لوکل مشنری صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں جب گاؤں کا دورہ کر کے واپس پہنچا تو وہ محترمہ جنہوں نے پانچ ہزار فرانک گنی چندہ ادا کیا تھا بڑی خوشی سے بتانے لگی کہ آج کے سودے میں جو مَیں نے اللہ سے کیا تھامجھے بہت منافع ہواہے۔ کہتی ہیں آپ کے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک رشتہ دارکے ذریعہ اسّی ہزار فرانک گنی بھجوا دیے جو میری قربانی سے کہیں زیادہ ہے۔
گنی کناکری سے ہی لوکل مشنری جالو صاحب کہتے ہیں کہ عشرہ تحریکِ جدید منانے کے دوران ایک گاؤں کونتایا (Kontayah) میں معلم صاحب چندے کی وصولی کے لیے پہنچے۔ ایک نومبائع شیخو صاحب نے تیس ہزار فرانک گنی چندہ تحریکِ جدید کی مد میں ادا کرنے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ جب انہیں ادائیگی کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس آج گھر کے خرچہ کے لیے کل رقم تیس ہزار ہی ہے لیکن میں اسے اللہ کی راہ میں پیش کرتا ہوں اللہ اسے قبول فرمائے۔ اگلے روز موصوف کا بڑے پرجوش انداز میں فون آیا کہ اللہ نے میری قربانی قبول کر لی ہے۔ ابھی چندہ ادا کیے چند گھنٹے گزرے تھے کہ میرے بیٹے نے مجھے تین لاکھ فرانک گنی گھرکے اخراجات کے لیے بھجوا دیے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ایمان کو اس واقعہ کے بعد بہت تقویت عطا کی ہے۔ جماعت جو چندہ ہم سے وصول کرتی ہے وہ اللہ کی راہ میں ہی خرچ ہوتا ہے اور میں اب اسی طرح قربانی کرتا رہوں گا۔ یہ بھی ان کی تسلی ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے جو نوازا ہے تو اس لیے کہ اس رقم کا مصرف بھی صحیح ہے اور رقم ضائع نہیں ہوئی۔
قازقستان
سے ایک دوست بائیگامیتوف صاحب ہیں۔ چندوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں۔ کہتے ہیںکہ جون کے مہینے میں مجھے نوکری سے فارغ کر دیا گیا اور میری جتنی بھی تنخواہ بنتی تھی وہ مالکان نے ادا کر دی۔ اب کہتے ہیں میں پینشن پہ ہوں۔ نوکری سے نکلنے کے کچھ ماہ بعد مجھے کچھ بیماری کی وجہ سے مہنگی دوائیاں اور دیگر اشیاء خریدنی پڑیں لیکن مالی توفیق نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشان رہتا تھا۔ اگلے روز گلی میں چلتے ہوئے مجھے اپنا کریڈٹ کارڈ چیک کرنے کا خیال آیا۔ میں جانتا تھا کہ میرا کریڈٹ کارڈ خالی ہوگا ۔ اس کے اندرکچھ بھی نہیں ہے۔ اس میں پیسے نہیں ہوسکتے پھر بھی چیک کرنے کا ارادہ کیا۔ جب میں نے چیک کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ کارڈ میں ایک لاکھ نوے ہزار مقامی کرنسی موجود تھی۔ میں حیران تھا اللہ کا بےحد شکر کرتا رہا۔ رقم کوئی بھی وجہ بتائے بغیر اس کمپنی نے جس سے میں مستعفی ہوا تھا میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی تھی۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے کمپنی میں فون کیا اور وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ کمپنی کے مالک نے یہ رقم ان کی ایمانداری اور سچائی کی وجہ سے بطور تحفہ بھیجی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سب تحریکِ جدید اور وقف جدید کے چندوں میں باقاعدگی کا نتیجہ ہے۔
ملائیشیا
سے ایک دوست بھکرا (Bhakra) صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میرا ذاتی تجربہ ہے 17-2016ءکے درمیان میں نے تحریکِ جدید میں ایک ہزار رنگٹ کا وعدہ کیا۔ اس دوران میں اپنے مالی حالات کی وجہ سے ادائیگی کرنے سے قاصر تھا جو اس وقت واقعی مشکل تھا اور میرا کاروبار متاثر ہورہا تھا۔ میں پریشانی کی حالت میں تھا اور امید رکھتا تھا کہ وعدہ کی مکمل ادائیگی ہوجائے گی لیکن میں پیسے بھی جمع نہیں کر سکتا تھا۔ میں صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ اگر میری نیت سچی ہے اور جماعت واقعی حق پر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرے گا۔ وعدہ جات کی ادائیگی کرنے کے آخری دن سے ایک دن پہلے اتفاقاً کاروبار سے آمدنی آئی اور رقم بالکل ایک ہزار رنگٹ تھی۔ میں بغیر سوچے سمجھے سیکرٹری مال کے گھر گیا اور انہیں ایک ہزار رنگٹ ادا کیے۔ اس واقعہ کے بعد سے مجھے اس جماعت پر مکمل یقین ہے کہ اگر ہمارے مقاصد جماعت اور اسلام کی ترقی کے لیے مخلص ہوں تو اللہ تعالیٰ ضرور غیر معمولی طور پر آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ پس یہ ایک طرح کی سوچ ہے جو دنیا کے ہر ملک میں رہنے والے احمدی کی ہے۔ حالانکہ بیچ میں ہزاروں میل کا فاصلہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس طرح ایمان مضبوط کرتا ہے اورجماعت کی سچائی بھی ان پر ظاہر کر دیتا ہے۔ ایمان کو بھی مضبوط کر دیتا ہے۔
جرمنی
کے ایک دوست کہتے ہیں: میری فرم کے مالی حالات خراب ہونے پر کام کا عرصہ کم ہوگیا جس کی وجہ سے میری آمدنی کم ہوگئی۔ جس روز تحریکِ جدید کا سیمینار تھا اس وقت ایمان افروز واقعات سنتے ہوئے میں نے اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ میں پانچ سو یورو مزید ادا کروں گا۔ اس سلسلہ میں کہتے ہیں انہوں نے مجھے دعا کے لیے خط بھی لکھا خود بھی دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور تحریکِ جدید کے پہلے وعدے کی ادائیگی کے بعد مزید چھ سو یورو ان کو ادا کرنے کی توفیق ہوئی۔ کچھ روز کے بعد کسی اَور فرم کا فون آیا کہ اگر آپ پہلی فرم کو چھوڑ کر ہمارے پاس کام کریں تو آپ کی تنخواہ پہلی فرم سے ایک ہزار یورو زیادہ ہوگی۔ میں نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس نئی فرم میں کام کروں گا۔ اس فرم کے مالک نے کہا چونکہ آپ نے اپنی پرانی فرم چھوڑ دی ہے اس لیے آپ کو تین ماہ تک ہر مہینے باقاعدہ دو ہزار یورو بھی تین قسطوں میں بونس دیا جائے گا اور کام کے متعلق بتایا کہ جمعہ ہفتہ اور اتوار کو چھٹی ہوگی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریکِ جدید میں اضافی قربانی کے نتیجہ میں نہ صرف میری تنخواہ میں اضافہ ہوگیا بلکہ نماز جمعہ کی ادائیگی کا بھی مستقل انتظام ہوگیا۔
آئیوری کوسٹ
کے مبلغ لکھتے ہیں کہ تحریکِ جدید کے چندے کی وصولی کے سلسلہ میں یاؤلَےسو (Yaollesso) نامی گاؤں میں چندے کی تحریک کی۔ ایک معمر بزرگ جو نہایت غریب تھے اور ان کی مالی حیثیت کے مطابق ہمارا خیال تھا کہ اگر دوسو یا تین سو فرانک بھی دے دیں تو بڑی بات ہے۔ وہ اٹھے اور گھر گئے۔ نہ صرف خود چندے کی رقم لے کر آئے بلکہ ساتھ اپنے بیٹے کو بھی لے کر آئے کہ تم بھی چندہ ادا کرو۔ چنانچہ انہوں نے دو ہزار فرانک پیش کیا جو اُن کی حیثیت کے مطابق ایک خطیر رقم تھی۔ ان کے بیٹے نے بھی پانچ سو فرانک ادا کیا۔ یہ ہے مال کی محبت پر اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانی کا جذبہ۔
سینیگال
افریقہ کا ایک اَور ملک ہے۔ معلم صاحب کہتے ہیں محمد انجائے صاحب ایک غریب لیکن مخلص احمدی ہیں۔ ان کی اہلیہ بیمار تھیں۔ ڈاکٹر نے جو ادویات لکھ کر دیں ان کی قیمت پندرہ ہزار فرانک سیفاتھی جو اُن کے پاس موجود نہیں تھی۔ وہ اپنے کسی دوست کے پاس قرض کے حصول کے لیے گئے۔ اس سے قرض لیا۔ اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا۔ نماز کی ادائیگی کے لیے مشن ہاؤس آئے۔ اپنی بیوی کی صحت کے متعلق معلم صاحب سے ذکر کیا اور ابھی پوری تفصیل نہیں بتائی تھی صرف ذکر ہی کیا تھا کہ معلم صاحب نے اپنی بات پہلے شروع کر دی اور عشرہ تحریکِ جدید کے حوالے سے ذکر کرنا شروع کیا کہ خدا کی راہ میں قربانی کریں۔ اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ بہرحال انہوں نے اپنی مجبوری کا ذکر کیا اور کہا کہ دو چار دن بعد میں ادائیگی کر دوں گا۔ ابھی تو مجھےمجبوری ہے۔ اس وقت اہلیہ کی دوا خریدنے کے لیے قرض لیا ہے وہ لے لوں۔ بہرحال وہ مشن ہاؤس سے چلے گئے۔ چند منٹ گزرےتھے کہ واپس آئے اور کہا کہ مشن ہاؤس سے نکلتے ہی مجھے خیال آیا کہ مجھے معلم نے تحریک کی ہے اور مَیں نے اس تحریک پہ کچھ بھی ادائیگی نہیں کی۔ اس پر میرا دل بہت بوجھل ہوگیا۔ اس لیے آپ یہ پانچ ہزار فرانک سیفا تحریکِ جدید میں کاٹ لیں۔ میں صرف ضروری دوا خرید لوں گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے رسید لی اور چلے گئے۔ مشن ہاؤس سے نکل کر ابھی فارمیسی تک نہیں پہنچے تھے کہ ایک کال آئی۔ ایک صاحب نے کہا کہ میں نے ایک بیڈ بنوانا ہے۔ مَیں آپ کو پچاس ہزار فرانک سیفا میں ٹیلیفون کے ذریعہ کریڈٹ بینک کو آرڈر کر کے ٹرانسفر کر رہا ہوں۔ جب آپ کی اہلیہ ٹھیک ہوجائیں تو میرا بیڈ بنا دیں اور بقیہ رقم بعد میں ادا کر دوں گا۔ یہ کہتے ہیں فارمیسی پر جانے کی بجائے وہ صاحب پھر واپس مشن ہاؤس آئے اور معلم کو یہ سارا واقعہ بتایا اور کہا کہ چندے کی برکت سے خدا تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا ہے اور میری ضرورت سے زائد رقم مجھے مل گئی ہے۔
سینیگال سے ہی معلم صاحب بیان کرتے ہیں۔ ایک مخلص دوست واگن صاحب نے تحریکِ جدید کے چندہ کا دس ہزار فرانک سیفا کا وعدہ کیا۔ ان کو بتایا گیا کہ تحریکِ جدید کا سال اختتام پذیر ہونے والا ہے اور آپ کا چندہ ابھی بقایا ہے۔ انہوں نے کہا ابھی تو میرے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن بہرحال فکر نہ کریں عرصہ ختم ہونے سے پہلے میں ادا کر دوں گا چاہے مجھے اپنے کپڑے بیچ کر ہی رقم ادا کرنی پڑے۔ یہ جذبہ ہے ان کا۔ معلم صاحب بتاتے ہیں کہ چند دن بعد وہ خود ہی میرے گھر آئے اور کہا کہ میرا تحریکِ جدید کا چندہ وصول کر لیں اور بتایا کہ اس کی بہت فکر تھی اور آج ہی میری بیٹی نے مجھے ناقابل یقین طور پر پیسے بھیجے ہیں تو سب سے پہلے میں چندہ دینے آ گیا ہوں۔ ایسے ایسے مخلص جماعت میں ہیں کہ پروا نہیں کرتے کسی چیز کی۔
نائیجر
کے امیر صاحب کہتے ہیں۔ ایک معلم ہیں ان کی اہلیہ گھریلو خاتون ہیں۔ اپنی کوئی آمدنی نہیں۔ معلم صاحب ہی ان کا تحریکِ جدید کا وعدہ ادا کیا کرتے تھے۔ جب ان کی اہلیہ کو علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ اس سال میں اپنا چندہ خود ادا کروں گی اور میرا وعدہ آٹھ ہزار سیفالکھ لیں۔ ان کے معلم شوہر نے کہا کہ کیسے ادا کرو گی۔ انہوں نے کہا مجھے یقین ہے کہ میری قربانی اللہ تعالیٰ قبول کرے گا اور پھر اس طرح ہی ہوا کہ کچھ دن گزرے تھے کہ ان کے پڑوس سے ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہا کہ اگر آپ کو سلائی آتی ہو تو میرے کپڑے سلائی کر دیں اور ساتھ ہی تین ہزار سیفا ایڈوانس بھی دے دیا جو انہوں نے فوراً تحریکِ جدید کی مد میں ادا کر دیا۔ اس کے بعد سے ان کے پاس اتنا کام آیا کہ انہوں نے بآسانی اپنا چندہ مکمل کر لیا۔ جب تحریک شروع ہوئی تھی تو عورتوں نے اس وقت حضرت مصلح موعودؓ کو لکھا تھا کہ آج آپ نے کہا تھا کہ پانچ روپے یا دس روپے دو لیکن یہ اتنی رقم ہم یک مشت نہیں دے سکتے۔ ایک ایک، دو دو روپیہ ہم ادا کر سکتی ہیں۔ ہمیں اجازت دی جائے مہینے کے دے دیں۔ یہ جذبہ جو اس وقت دکھایا گیا تھا آج بھی قائم ہے بلکہ ان لوگوں میں ہے جو ہزاروں میل دُور بیٹھے ہیں۔ خلیفۂ وقت کی براہِ راست آواز تو سن لیتے ہیں لیکن ان کو سمجھ نہیں آتی۔ بعض زبان بھی نہیں جانتے لیکن اخلاص میں بڑھے ہوئے ہیں۔
سینیگال
سے معلم صاحب لکھتے ہیں۔ تامبا کونڈا ایک جماعت ہے جہاں پر سعیدی صاحب کے پاس گائے اور بھیڑوں کا اپنا ریوڑ ہے۔ انہوں نے کال کر کے انہیں پوچھا کہ تحریکِ جدید کیا ہے۔ انہوں نے لوگوں سے سن لیا تھا کہ احمدیوں کو تحریکِ جدید کا چندہ دینا چاہیے۔ معلم صاحب نے ان کو تحریکِ جدید کے متعلق تفصیل سے بتایا اور یہ بھی بتایا کہ ان دنوں عشرہ تحریکِ جدید بھی چل رہا ہے۔ موصوف نے بتایا کہ ان کے والد بڑے مالدار آدمی تھے مگر وہ زکوٰة اور انفاق فی سبیل اللہ میں کمزور تھے مگر مولویوں کی خاطر مدارات کرتے رہتے تھے۔ ان کے والد کی وفات کے بعد کافی جانور ان کے حصہ میں آئے ہیں مگر ان کو بھی انفاق فی سبیل اللہ کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوئی۔ جب معلم صاحب نے ان کو زکوٰة اور دیگر چندہ جات کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے ایک گائے اور دو بھیڑیں چندہ میں دیں اور کہا کہ ایک بھیڑ خاص تحریکِ جدید کے لیے ہے۔ اس کے سات دن بعد ان کو خواب آئی کہ جانوروں میں ایک خاص قسم کی وبا پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے جسم سے پانی بہتا ہے اور جانور مرتے جا رہے ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی ایک بڑے ریوڑ کے مالک ہیں تو انہوں نے خواب میں ہی پریشانی میں یہ خیال کیا کہ ان کے جانور بھی تو ہیں۔ تو انہوں نے خواب میں ہی دعا کی کہ اے خدا! میرے جانوروں کی حفاظت فرما۔ اس پر ان کو خواب میں بڑے زور سے آواز آئی کہ تحریکِ جدید کی وجہ سے تمہارے جانور محفوظ رہیں گے۔ اس دوران انہوں نے ایک کاغذ دیکھا جس پر پہلی لائن میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھا ہوا تھا اور ان کا نام بھی درج تھا۔ ان کی آنکھ کھل گئی۔ معلم صاحب کو کال کی۔ خواب بتائی۔ معلم نے بتایا کہ جو رسید آپ کو دی ہوئی ہے اس کی سب سے اوپر والی لائن پڑھیں۔ وہاں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہی لکھا ہوا ہے اور اس کے نیچے آپ کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ اور پھر نیچے تحریکِ جدید کا چندہ لکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کچھ پڑھ نہیں سکتے تھے تو بہرحال یہ کہتے ہیں جب میں نے رسید کو بھی دیکھا اور خواب بھی تو یہ واقعہ میرے ایمان میں زیادتی کا موجب ہوا۔ عجیب عجیب طریقے سے اللہ تعالیٰ بھی راہنمائی کرتا ہے۔
شیانگا، تنزانیہ
کے معلم لکھتے ہیں۔ جماعت کے ایک نومبائع احمدی بزرگ رمضان صاحب نے چندہ تحریکِ جدید کے لیے اچھا معیاری وعدہ لکھوایا۔ ان کا گزر بسر کھیتی باڑی سے ہوتا تھا اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے کسانوں کی فصل اچھی نہیں ہوسکی۔ رمضان صاحب نے بتایا کہ وہ ہر وقت اسی پریشانی میں تھے کہ وہ اپنا وعدہ تحریکِ جدید کیسے پورا کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس خیال میں تھا کہ ایک دن میرے ایک عزیز کا فون آیا جس نے عرصہ دراز سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ اس نے فون کر کے کہا کہ میں آپ کو کچھ پیسے بھیج رہا ہوں، رقم بھجوا رہا ہوں جس سے آپ اپنے گھر کے لیے کچھ کھانے کا سامان لے لیں۔ ان بزرگ کو جب رقم ملی تو وہ سیدھا سیکرٹری مال کے پاس گئے اور اپنا وعدہ پورا کیا اور زائد بھی ادا کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب میرے اللہ نے میری مدد فرمائی ہے تاکہ میں چندے کا وعدہ مکمل کر سکوں۔
تو یہ تھے ان لوگوں کے قربانی کے معیار اور ان کے بھی جو نئے شامل ہونے والے ہیں۔ کہاں تو جماعت مخالف جماعت کو ختم کرنے کے لیے زور لگا رہے تھے اور پھر دیکھیں کیسے اللہ تعالیٰ نے نومبائعین کے دل میں جماعت کی خاطر قربانی کی تحریک پیدا کی اور پھر نواز بھی رہا ہے۔
کیا ان مخالفین کی پھونکوں سے یہ چراغ بجھ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے جلایا ہوا ہے۔ جتنا چاہے زور لگا لیں ناکامی اور نامرادی ہی مخالفین کا مقدّر ہے اور جماعت دنیا کے ہر کونے میں قربانیوں کی مثالیں قائم کرتے ہوئے ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔
تحریکِ جدید حضرت مصلح موعودؓ نے شروع ہی اس وجہ سے کی تھی کہ جماعت کے خلاف ہر طرف سے شورش تھی حتی کہ حکومت کے افسران بھی مخالفین کی پشت پناہی کر رہے تھے۔
تحریکِ جدید کا مقصد ہی یہ تھا کہ تبلیغ کر کے جماعت کو بڑھایا جائے اور دنیا کے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا لہرایا جائے۔ پس یہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی آغوش میں آئے ہوئے لوگ ہیں جو ایمان و یقین اور قربانی میں مثالیں قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
واقعات تو بےشمار ہیں لیکن ان سب کو اس وقت یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ تحریکِ جدید کے حوالے سے کچھ مزید بھی بتا دوں نیز اس کا
تاریخی پس منظر
بھی۔جیساکہ میں نے ذکر کیا ہے جماعت کے خلاف ہر طرف سے فتنہ اور فساد اٹھ رہا تھا۔ خاص طور پر احرار نے تو فساد پیدا کرنے کے لیے اپنا تمام زور لگا لیا تھا اور یہ نعرہ تھا کہ احمدیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ قادیان کا نام و نشان مٹا دیں گے اور قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار اور مقدس مقامات کی بےحرمتی کے پروگرام تھے اور حکومت کی طر ف سے بھی مخالفین کی طرف زیادہ رجحان نظر آتا تھا باوجود اس کے کہ اس وقت انگریز حکومت تھی۔ بجائے فتنہ ختم کرنے کے ان کی حمایت کی جاتی تھی۔ تو ان حالات میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کو ایک پروگرام دے کر تحریک کی جس میں مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی۔ یہ 1934ء کی بات ہے۔ نومبر میں آپؓ نے پہلے کچھ خطبات دیے جن میں کچھ تمہید اور پس منظر بیان کیا کہ کیوں میں تحریک کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے ابھی یہ ذکر ہی کیا تھا اور پوری تفصیل بیان نہیں فرمائی تھی لیکن مخلصین نے آپؓ کو ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لیے لکھنا شروع کر دیا جس پر آپؓ نے خوشنودی کا اظہار بھی فرمایا اور فرمایا میں یہ تفصیل اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ جماعت تیار ہو قربانی کے لیے کیونکہ بعض دفعہ قربانیاں لمبی کر دینی پڑتی ہیں اور عورتیں اور بچے بھی اس کے لیے تیار ہوں۔ یہ صرف مردوں کا کام نہیں ہے بلکہ عورتوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا۔ گو اس وقت یہ ہر احمدی کے لیے لازم نہیں تھی لیکن اخلاص و وفا کا غیر معمولی جذبہ جماعت نے دکھایا۔
(ماخوذ از خطبات محمودؓ جلد15صفحہ411)
بہرحال 1934ء میں آپؓ نے باقاعدہ ایک فنڈ کا اعلان فرمایا اور بتایا کہ ہم نے دشمن کی ریشہ دوانیوں کا جواب ان کی طرح فساد کر کے نہیں بلکہ تبلیغ کر کے دینا ہے۔ کیونکہ دشمن کو یہ موقع ہی اس لیے ملا ہے کہ ہم نے پوری طرح تبلیغ کا حق ادا نہیں کیا۔ اس کے متعلق جس سنجیدگی سے سوچ کر منصوبہ بندی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں کی۔ احمدیت کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے جو کوشش ہونی چاہیے تھی وہ نہیں کی۔ اس کا حق جس طرح ادا ہونا چاہیے تھا اس کا حق ادا نہیں ہوا۔ آپؓ نے اس وقت جماعت کو ایک پروگرام دے کر جس میں اپنی اصلاح اور قربانی کے معیار کو بلند کرنے کی طرف توجہ دلائی مالی قربانی کی بھی تحریک کی جو کہ ستائیس ہزار روپے تھی جو کہ تین سال میں جمع کرنا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اخلاص و وفا سے بھری ہوئی جماعت کو اپنے فضل سے خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک لاکھ روپے ایک سال میں ہی دینے کی توفیق عطا فرمائی اور اس وقت جماعت کے مالی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بہت بڑی قربانی تھی۔ چند چند آنوں کی قربانیاں ہوتی تھیں۔ اس وقت اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر قربانی کرنے کا جو نمونہ قائم کیا اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا قبول فرمایا کہ جہاں دنیا میں تبلیغ کے غیر معمولی راستے کھلے وہاں یہ قربانیاں ان تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ آج بھی ایسے نمونے ہمیں نظر آتے ہیں جیساکہ ان واقعات میں ہیں جو مَیں نے بیان کیے ہیں۔ بہرحال ان لوگوں نے جہاں مالی قربانیاں کیں وہاں دین کے لیے اپنی زندگیاں بھی وقف کیں۔ دُور دراز ملکوں میں تبلیغ کے لیے گئے اور بعض کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے شروع میں اس تحریک کو دس سال تک کے لیے بڑھا دیا تھا۔ تین سال سے پھر دس سال کر دیا تھا۔ پھر دس سال مکمل ہونے پر اس کے خوش کن نتائج ظاہر ہونے پر اور مزید قربانیاں کرنے والوں کی خواہش پر اسے مزید بڑھا دیا اور پھر یہ مستقل تحریک بن گئی۔
(ماخوذ از خطبات محمودؓ جلد25صفحہ699-700)(ماخوذ ازخطبات محمودؓ جلد18صفحہ591)
آج ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے جو نظارے دیکھ رہے ہیں وہ ان ابتدائی لوگوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا بلکہ اب بھی نئے شامل ہونے والوں کو بعض دفعہ خوابوں کے ذریعہ اس تحریک میں اور مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جیساکہ میں نے واقعات میں بیان کیا۔
ان ابتدائی قربانی کرنے والوں کی نسلوں کو آج بھی اپنے آباءواجداد کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے جہاں خود اور اپنی نسلوں کو ان قربانیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے وہاں اپنے پر جو فضل ہوئے ہیں اس پر خود بھی زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے۔
بہرحال اس تحریک کے مطابق جو ابتدائی لوگ تھے ان کی تعداد پانچ ہزار تھی اور یہ دفتر اوّل تحریکِ جدید کے مجاہد تھے اور پھر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی طرف سے خاص تحریک کی گئی کہ ان کے بچوں اور نسلوں کو ان کی قربانیوں کو زندہ رکھنے کے لیے تاقیامت ان کی طرف سے چندہ دیتے رہنا چاہیے۔
(ماخوذ از خطبات طاہر جلد4صفحہ865)
اور پھر میں نے بھی جب دفتر پنجم کا آغاز کیا تو اس طرف خاص توجہ دلائی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب کے کھاتے زندہ ہیں۔ دفتر اوّل کے مجاہدین کو جب دس سال پورے ہوگئے تو پھر حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ نے دوسرے دفتر کا اعلان فرمایا اور اس میں بعد میں آنے والے شامل ہوئے اور اس کا عرصہ انہوں نے انیس سال مقرر فرمایا اور فرمایا کہ آئندہ یہ دفتر انیس سال کے بعد قائم ہوتے چلے جائیں گے۔ ہر انیس سال کے بعد ایک دفتر انیس سال کا ہوگا۔ پھر اگلا شروع ہوجائے گا۔
(ماخوذ از خطبات محمودؓ جلد25صفحہ731-732)
تو اس کے مطابق پھر دفتر سوئم حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا لیکن کیونکہ انیس سال بعد یہ 1964ء میں جاری ہونا چاہیے تھا لیکن حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکی بیماری کی وجہ سے اس وقت اس کا اعلان آپؓ نہیں فرما سکے۔ اس لیے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ اس دفتر کا اعلان تو میں کر رہا ہوں لیکن یہ حضرت مصلح موعودؓ کی طرف منسوب ہوگا اور اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس کا ثواب دے دے گا۔ اس کا اعلان 1966ء میں ہوا لیکن آپؒ نے فرمایا کہ یہ 1965ء نومبر سے جاری ہوگا۔
(ماخوذ از خطبات ناصر جلد1صفحہ228)
پھر 1985ء میں دفتر چہارم کا اجرا حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے فرمایا۔
(ماخوذ از خطبات طاہر جلد4صفحہ870)
پھر اس کے انیس سال کے عرصہ کو قائم رکھتے ہوئے یہ جو دفتر چہارم تھاانیس سال قائم رہا ۔ 2004ء میں جب انیس سال کا یہ عرصہ ختم ہوا تو پھر میں نے دفتر پنجم کا اجرا کیا اور
آج پھر انیس سال پورے ہونے پر میں دفتر ششم کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں۔ اب نئے شامل ہونے والے نومبائعین بھی اور نئے پیدا ہونے والے بچے بھی یا جو بھی پہلے کسی دفتر میں نہیں ہیں دفتر ششم میں شامل ہوں گے۔
پس جماعتی انتظامیہ اب اپنی اپنی جماعتوں میں اس کے مطابق عمل کریں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نئے دفتر کا اعلان فرمایا تھاتو اس وقت ارشاد فرمایا تھا کہ اس کے بعد یعنی دفتر دوم کے بعد تحریکِ جدید کے دورِ سوم اور چہارم اور دورِ پنجم آئیں گے اور ہم دین کے لیے قربانیاں کرتے چلے جائیں گے۔ جس دن ہم نے دین کے لیے جدوجہد چھوڑ دی اور جس دن ہم میں وہ لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے کہا کہ دور اوّل بھی گزر گیا، دور سوئم بھی گزر گیا، دور چہارم بھی گزر گیا، دور پنجم بھی گزر گیا، دور ششم بھی گزر گیا، دور ہفتم بھی گزر گیا اب ہم کب تک اس قسم کی قربانیاں کرتے چلے جائیں گے۔ آخر کہیں نہ کہیں تو ختم کرنا چاہیے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا اقرار ہوگا کہ اب ہماری روحانیت سرد ہوچکی ہے اور ہمارے ایمان کمزور ہوگئے ہیں۔ ہم تو امید رکھتے ہیں کہ تحریکِ جدید کے یہ دور غیر محدود دور ہوں گے اور جس طرح آسمان کے ستارے گنے نہیں جاتے اسی طرح تحریکِ جدید کے دور بھی گنے نہیں جائیں گے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ تیری نسل گنی نہیں جائے گی اور حضرت ابراہیم ؑکی نسل نے دین کا بہت کام کیا یہی حال تحریکِ جدید کا ہے۔ تحریکِ جدید کا دور چونکہ آدمیوں کانہیں بلکہ دین کے لیے قربانی کے سامانوں کا مجموعہ ہے اس لیے اس کے دور بھی اگر نہ گنے جائیں تو یہ ایک عظیم الشان بنیاد اسلام اور احمدیت کی مضبوطی کی ہوگی۔
(ماخوذ از خطبات محمودؓ جلد27 صفحہ65)
پس اس سوچ کے ساتھ ہر احمدی کو اپنے قربانیوں کے معیار کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کو کس طرح نوازتا ہے اس کے چند واقعات جیساکہ میں نے کہا میں نے بیان کیے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہے کہ یہ الٰہی تحریک ہے۔
اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے تحریکِ جدید کے ضمن میں ایک جگہ اس کو وصیت کے نظام کے ساتھ جوڑتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ تحریکِ جدید کا جو نظام ہے، جو تحریک ہے یہ میں اپنے الفاظ میں بیان کر رہا ہوں کہ یہ نظام وصیت کے ارہاص کے طور پر ہے۔ یعنی اس کی وجہ سے نظام وصیت بھی مضبوط ہوگا۔ یہ مالی قربانیوں کی عادت ڈالنے کی بنیاد ہوگی۔ یہ پیش رو ہے یعنی آگے چلنے والی چیز ہے۔ اطلاع دینے والا جو ایک دستہ ہوتا ہے اس طرح کا ہے۔ لوگوں کو اطلاع دیتا چلا جائے گا کہ ایک عظیم نظام اس کے پیچھے آ رہا ہے یہ نظام وصیت کہلائے گا۔
(ماخوذ از نظام نو، انوارالعلوم جلد16صفحہ600)
پس جیساکہ میں نے نظام وصیت میں شمولیت کے لیے تحریک کرتے ہوئے 2005ء میں اس کی طرف کہا تھا کہ نظامِ وصیت کے ساتھ نظام خلافت کا بھی گہرا تعلق ہے۔ اب نظامِ وصیت کے ساتھ ہی قربانیوں کے معیار بھی بڑھنے ہیں تو پہلے قربانیوں کی عادت ڈالنے کے لیے تحریکِ جدید کا نظام ہی ہے اس طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔ پس اس طرف توجہ کریں۔
اللہ تعالیٰ جماعت کے آسودہ حال طبقے کو بھی اس طرف توجہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض اچھا کمانے والے بہت توجہ کرتے ہیں لیکن ابھی اس میں مزید لوگوں کو شامل کرنے کی جو اپنے وسائل کے مطابق چندہ دیں بہت گنجائش ہے۔ غریب تو جیسا کہ میں نے کہا قربانی میں بہت بڑھ گیا ہے لیکن امیروں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
اب میں
گذشتہ سال کے اعداد و شمار
بھی پیش کر دیتا ہوں۔ تحریکِ جدید کے پھل کا پہلے میں بتا دوں جو ہمیں نظر آئے۔ پہلے کیا ابتدا میں تو ہم قادیان سے باہر نہیں نکل رہے تھے یا ہندوستان تک تھوڑے سے پھیلے ہوئے تھے لیکن اب
دنیا کے 220ممالک میں مساجد کی کُل تعداد نو ہزار تین سو سے اوپر ہے۔ مشن ہاؤسوں کی تعداد تین ہزار چار سو سے اوپر ہے۔
اور ابھی درجنوں مساجد بن رہی ہیں۔ مشن ہاؤس بھی بن رہے ہیں زیر تعمیر ہیں۔
مبلغین کی تعداد اور معلمین کی تعداد دنیا میں پانچ ہزار کے قریب ہے۔
یہ بھی بڑھ رہی ہے۔ اللہ کے فضل سے قرآن کریم کے تراجم بھی ہورہے ہیں۔ ستتر(77)زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ لٹریچر چھپ رہا ہے۔ مختلف زبانوں میں لٹریچر کا ترجمہ ہورہا ہے اور بےشمار کام اس کے ذریعہ سے ہورہا ہے جو تحریکِ جدید کے ذریعہ سے کام کے شروع ہونے سے شروع ہوا۔ گو اس میں باقی چندے بھی شامل ہوئے ہیں لیکن تحریکِ جدید کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب میں نئے سال کا اعلان کرتا ہوں۔ تحریکِ جدید کا نواسیواں(89)سال 31؍اکتوبر کو اختتام پذیر ہوا اور اب ہم نوے ویں(90)سال میں داخل ہورہے ہیں۔
اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے
جماعت عالمگیر کو 17.20ملین پاؤنڈ کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ۔
اور باوجود دنیا کے معاشی حالات کے گذشتہ سال سے سات لاکھ انچاس ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔
جماعت جرمنی اس دفعہ بھی دنیا بھر کی جماعتوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ اعزاز اپنا برقرار رکھا ہوا ہے۔
کرنسیوں کے ریٹ دنیا میںمعاشی حالات کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے پاکستان میں بھی لیکن عمومی طور پر ہر ایک نے اپنی قربانی کے معیار کو مقامی طور پر بڑھایا ہے۔ پاکستان کے علاوہ جو پہلی دس پوزیشنیں ہیں ان میں جرمنی جیسا کہ میں نے کہا وہ تو مکمل طور پہ اوّل ہے۔ ہر ایک سے اوپر ہے۔ نمبر ایک پر جرمنی ہے۔ پھر برطانیہ ہے۔ پھر کینیڈا ہے۔ یہ اب تیسرے نمبر پہ آ گئے ہیں۔ امریکہ چوتھے نمبر پہ چلا گیا ہے۔ پانچویں نمبر پر مڈل ایسٹ کی جماعتیں ہیں۔ چھٹے نمبر پر بھارت ہے۔ ساتویں پہ آسٹریلیا ہے۔ آٹھویں پہ انڈونیشیا ہے۔ نویں پہ پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے اور دسویں پہ گھانا ہے یہاں بھی کرنسی بہت زیادہ ڈی ویلیو ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود گھانا نے اپنی دسویں پوزیشن اس سال بھی برقرار رکھی ہے۔
جوجماعتیں چھوٹی ہیں ان میں قابلِ ذکر آئر لینڈ، ماریشس، ہالینڈ، ملائیشیا، سنگاپور، نیوزی لینڈ، قزاقستان، جارجیا وغیرہ ہیں۔
افریقن ممالک میں نمایاں پوزیشن والے ہیں: گھانا، ماریشس، نائیجیریا، برکینا فاسو ، تنزانیہ، گیمبیا، یوگنڈا، لائبیریا، سیرالیون، بینن۔
شامل ہونے والوں کی مجموعی تعداد سولہ لاکھ سینتیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے
اور اس میں زیادہ کام کرنے والے جو ممالک ہیں وہ گنی کناکری، جمیکا، قرغیزستان، زیمبیا، نیپال، گھانا، کینیا، تنزانیہ، کونگو کنشاسا، کونگو برازاویل، نائیجیریا ، سینیگال، آئیوری کوسٹ اور مڈل ایسٹ کی ایک جماعت شامل ہے۔
جرمنی کی پہلی دس جماعتیں جو ہیں ان میں روئڈر مارک (Rodermark)۔ روڈگاؤ(Rodgau)۔ کیل۔ اوسنابروک(Osnabrück)۔ پنے برگ (Pinneberg)۔ نوئس (Neuss)۔ نیڈا (Nidda)۔ کولون (Köln)۔ مہدی آباد۔ فلورس ہائم (Florsheim)۔
اور امارتیں جو ہیں ان میںہیمبرگ(Hamburg)نمبر ایک پہ۔ پھر فرینکفرٹ(Frankfurt)۔ گروس گیراؤ (Gross-Gerau)۔ ویزبادن (Wiesbaden)۔ ڈٹسن باخ (Dietzenbach)۔ ریڈشٹڈ(Riedstadt)۔ رزلز ہائم(Russelheim)۔ مورفلڈن (Mörfelden)۔ وال ڈارف۔ ڈامشٹڈ (Darmstadt) من ہائم (Mannheim)۔
برطانیہ کے پہلے پانچ ریجنزمیں بیت الفتوح نمبر ایک۔ پھر اسلام آباد۔ مڈلینڈز (Midlands)۔ مسجد فضل اور بیت الاحسان۔
بڑی جماعتیں جو برطانیہ کی ہیں ان میں فارنہم (Farnham)۔ ووسٹرپارک(Worcester Park)۔ ساؤتھ چیم (South Cheam)۔ اسلام آباد۔ والسال(Walsall)۔ ایش(Ash)۔ جلنگھم(Gillingham)۔ آلڈر شاٹ ساؤتھ(Aldershot South)۔ یول(Ewell)۔ بریڈ فورڈ نارتھ۔
چھوٹی جماعتوں میں سپن ویلی(Spen Valley)، سوانزی(Swansea)، نارتھ ہیمپٹن (North-Hampton)، نارتھ ویلز (North Wales)، نیو پورٹ (Newport)۔
کینیڈا کی امارات میں وان (Vaughan)نمبر ایک پہ۔ پھر کیلگری (Calgary)۔ پیس ولیج (Peace Village)۔وینکوور (Vancouver)۔ مسس ساگا(Mississauga)۔ ٹورانٹو (Toronto)۔
چھوٹی جماعتیں کینیڈا کی ہیںہیملٹن ماؤنٹن (Hamilton Mountain)، آٹوا ایسٹ (Ottawa East)، بریڈ فورڈ ایسٹ (Bradford East)، ہیملٹن ویسٹ (Hamilton West)، مونٹریال ویسٹ (Montreal West)،وینی پیگ (Winnipeg)، رجائنا (Regina)، لائڈمنسٹر(Lloydminster)،ایبٹس فورڈ(Abbotsford)
امریکہ کی جماعتیں ہیں میری لینڈ(Maryland) نمبر ایک پہ۔ نارتھ ورجینیا (North Virginia)۔ لاس اینجلیس (Los Angeles)۔ سیئٹل (Seattle)۔ شکاگو (Chicago)۔ سیلیکون ویلی (Silicon Valley)۔ ڈیٹرائٹ (Detroit)۔ ہیوسٹن (Houston)۔ اوش کوش(Oshkosh)۔ نارتھ جرسی (North Jersey)۔ ساؤتھ ورجینیا (South Virginia)۔ (Central Jersey)۔ ڈیلس (Dallas)
پاکستان عمومی وصولی کے لحاظ سے اوّل نمبر پہ لاہور ہے۔ پھر دوئم ربوہ ہے سوئم کراچی۔
ضلعوں میں فیصل آباد نمبر ایک پہ ہے۔ پھر گوجرانوالہ۔ پھر گجرات۔ عمر کوٹ۔ حیدر آباد۔ میرپورخاص۔ لودھراں۔ بہاولپور۔ کوٹلی آزاد کشمیر اور جہلم۔
وصولی کے اعتبار سے پاکستان کی شہری جماعتوں میں امارت ٹاؤن شپ لاہور۔ امارت علامہ اقبال ٹاؤن لاہور۔ امارت دارالذکر لاہور۔ امارت عزیز آباد کراچی۔ امارت مغل پورہ لاہور۔ ملتان۔ امارت بیت الفضل فیصل آباد۔ گوجرانوالہ۔ کوئٹہ۔ پشاور
چھوٹی جماعتیں جو ہیں وہاں کی ان میں کھوکھر غربی، چونڈہ، کوٹ شریف آباد، بشیر آباد سندھ، کھاریاں، حیات آباد، پنڈی بھاگو، دارالفضل کنری، نواز آباد فارم، خیر پور۔
انڈیا کے جو دس صوبہ جات ہیں ان میں نمبر ایک پہ کیرالہ۔ پھر تامل ناڈو۔ کرناٹک۔ تلنگانہ۔ جموں اور کشمیر۔ اڈیشہ۔ پنجاب۔ بنگال۔ دہلی۔ مہاراشٹرا۔
قربانی کے لحاظ سے دس جماعتیں۔ کوئمبٹور (تامل ناڈو)۔ پھر قادیان۔ پھر حیدرآباد۔ کالی کٹ۔ منجیری۔ میلاپالم۔ بنگلور۔ کلکتہ۔ کیرولائی۔ کیرنگ۔
آسٹریلیا کی پہلی دس جماعتیں:میلبرن لانگ وارِن(Melbourne Lang warrin)، میلبرن بیروک (Melbourne Berwick)، مارسڈن پارک(Marsden Park)، پین رتھ(Penrith)، پرتھ (Perth)، ایڈیلائڈ ویسٹ(Adelaide West)، کاسل ہل(Castle Hill)، برزبن لوگن ایسٹ (Brisbane Logan East)، پیراماٹا (Parramatta)، میلبرن کلائڈ (Melbourne Clyde)۔یہ ان کی دس جماعتیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے اور یہ لوگ پہلے سے بڑھ کر قربانیاں دینے والے ہوں۔
فلسطینیوں کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ انہیں نہ بھولیں۔ عورتیں اور بچے جس ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے سامان فرمائے۔
٭…٭…٭
(الفضل انٹرنیشنل ۲۴ نومبر ۲۰۲۳ء صفحہ ۲ تا ۸)